Thursday, 26 December 2019

ہر چیز مجھ پر منکشف ہوگئی اور میں نے اس کو جان لیا

ہر چیز مجھ پر منکشف ہوگئی اور میں نے اس کو جان لیا

عن معاذ بن جبل قال احتبس عنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات غداۃ من صلوۃ الصبح حتی کدنا نترا ای عین الشمس فخرج سریعا فثوب بالصلوۃ فصلی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتجوز فی صلوتہ فلما سلم دعا بصوتہ فقال لنا علی مصافکم کما انتم ثم انفتل الینا فقال اما انی ساحدثکم ما حبسنی عنکم الغداۃ انی قمت من اللیل فتوضات فصلیت ما قدرلی فنعست فی صلوتی فاستثقلت فاذا بربی تبارک و تعالیٰ فی احسن صورۃ فقال یا محمد فلت رب لبیک قال فیم یختصم الملاء الاعلی قلت لا ادری رب قالھا ثلاثا قال فرایتہ وضع کفہ بین کتفی قد وجدت برد اناملہ بین ثدیی فنجلالی کل شئی و عرفت۔ الحدیث الی ان قال، قال ابو عیسیٰ ھذا حدیث حسن صحیح سالت محمد ابن اسماعیل عن ھدا الحدیث فقال ھذا صحیح ۔
ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی نماز میں آنے کے لیے دیر کی ، حتیٰ کہ قریب تھا کہ ہم سورج کو دیکھ لیتے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلدی سے آئے اور نماز کی اقامت کہی گئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختصر نماز پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیر کر بہ آواز بلند ہم سے فرمایا : جس طرح اپنی صفوں میں بیٹھے ہو بیٹھے رہو ، پھر ہماری طرف مڑے اور فرمایا : میں اب تم کو یہ بیان کروں گا کہ مجھے صبح کی نماز میں آنے سے کیوں دیر ہوگئی ۔ میں رات کو اٹھا اور وضو کر کے میں نے اتنی رکعات پڑھی جتنی میرے لیے مقدر کی گئی تھی ، پھر مجھے نماز میں اونگھ آئی ، پھر مجھے گہری نیند آگئی ۔ اچانک میں نے اچھی صورت میں اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا اس نے فرمایا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے کہا : اے میرے رب میں حاضر ہو، فرمایا : ملا اعلیٰ کس چیز میں بحث کر رہے ہو ؟ میں نے کہا : میں نہیں جانتا ۔ آپ نے کہا : میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا اور اس کے پوروں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی ، پھر ہر چیز مجھ پر منکشف ہوگئی اور میں نے اس کو جان لیا ۔ (سنن ترمذی صفحہ نمبر ٤٦٦ ، رقم الحدیث : ٣٢٣٣، مطبوعہ نور محمد، کراچی،چشتی)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ، میں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے ۔ شعیب الارنؤوط اور انکے معاونین نے اس حدیث کی مزید تخریج اس طرح کی ہے : مسند حمد ج ١ ص ٣٦٨ قدیم، مسند حمد ج ٥ ص ٤٣٨۔ رقم الحدیث : ٣٤٨٤، طبع جدید مؤسستہ الرسالۃ، تفسیر عبد الرزاق ج ٢ ص ١٦٩، العلل المتناہیہ ج ١ ص ٣٤، مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : ٦٨٢، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٣٢٠، الشریعۃ للآجری ص ٤٩٦، السنۃ لا بن ابی عاصم رقم الحدیث : ٤٦٩، کتاب الاسماء والصفات ص ٣٠٠، مسند البزار رقم الحدیث : ٢١٢٨۔

واضح رہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اس حدیث کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔

نیز امام احمد رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال اتانی ربی فی احسن صورۃ فقال یا محمد فقلت لبیک ربی وسعدیک قال فیم یختصم الملائ الاعلی قلت ربی لا ادری فوضع یدہ بین کتفی حتی وجدت بردھا بین ثدیی فعلمت ما بین المشرق والمغرب ۔ (سنن ترمذی ص ٤٥٥۔ رقم الحدیث : ٣٢٣٤، مطبوعہ نور محمد، کراچی،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے (خواب میں) اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا ، میرے رب نے کہا : اے محمد ! ، میں نے کہا : حاضر ہوں یا رب ! فرمایا : ملاً اعلیٰ کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا : اے میرے رب ! میں نہیں جانتا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی، پھر میں نے جان لیا جو کچھ مشرق اور مغرب کے درمیان ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : عن ابن عباس ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال اتانی ربی عزوجل اللیلۃ فی احسن صورۃ احسبہ یعنی فی النوم فقال یا محمد تدری فیم یختصم الملاء الاعلی قال قلت لا قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوضع یدہ بین کتفی حتی وجدت بردھا بین ثدیی او قال نحری فعلمت ما فی السموات والارض ۔ (مسند احمد ج ١ ص ٣٦٨ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج رات کو نیند میں میرا رب عزوجل حسین صورت میں میرے پاس آیا اور فرمایا : اے محمد ! کیا تم جانتے ہو ملا اعلیٰ کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : آپ نے فرمایا : نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں نے ان تمام چیزوں کو جان لیا جو آسمان اور زمینوں میں ہیں ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور سند سے بھی یہ حدیث روایت کی ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں : فوضع کفیہ بین کتفی فوجدت بردھا بین ثدیی حتی تجلی لی ما فی السموات وما فی الارض ۔ (مسند احمد ج ٤ ص ٣٦٦ )
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو میرے کندھوں کے درمیان رکھا، میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنے سینہ میں محسوس کیا حتیٰ کہ میرے لیے وہ تمام چیزیں منکشف ہوگئیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمینوں میں ہیں ۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور سند کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کے پوروں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی ۔ فتجلی لی کل شئی وعرفت۔ الحدیث پھر میرے لیے ہر چیز منکشف ہوگئی اور میں نے اس کو پہنچا لیا ۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٣٥، مسند احمد ج ٥ ص ٢٤٣، طبع قدیم، مسند حمد ج ٣٦ ص ٤٢٢۔ رقم الحدیث : ٢٢١٠٩، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، تہذیب الکمال ج ١٧ ص ٢٠٥، صحیح ابن خزیمہ ج ١ ص ٥٤٢، المعجم الکبیر ج ٢٠۔ رقم الحدیث : ٢١٦، الکامل لا بن عدی ج ٦ ص ٢٣٤٤، مسند البزار رقم الحدیث : ٢٦٦٨، المعجم الکبیر ج ١۔ رقم الحدیث : ٦٩٠)

سنن ترمذی کی ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ آپ کو علم کلی دفعۃً عطاء کیا گیا ، اسی طرح درج ذیل حدیث بھی اس مطلوب پر دلالت کرتی ہے :

عن ثوبان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقھا ومغاربھا ۔ ( صحیح مسلم ج ٤ ص ٣٩٠، کراچی،چشتی)
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین کو میرے لیے لپیٹ دیا اور میں نے اس کے تمام مشارق و مغارب کو دیکھ لیا ۔ اس حدیث کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ، نیز امام ابو دائود رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو روایت کیا ہے ۔ (دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٥٢٧، سنن ابو دائود ج ٢ ص ٣٢٨، مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٨)

اور یہ حدیث بھی اسی مطلوب پر دلالت کرتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک عزوجل نے دنیا کو میرے لیے اٹھا لیا اور میں دنیا کی طرف اور قیامت تک دنیا میں جو کچھ ہونے والا ہے اس کو اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے اپنے ان ہاتھوں کو ہتھیلیوں کو دیکھ رہا ہوں ، جو اللہ عزوجل کے حکم سے روشن ہیں ، اس نے اپنے نبی کے لیے ان کو روشن کیا ، جس طرح پہلے نبیوں کے لیے روشن کیا تھا ۔ ( حلیۃ الاولیاء ج ٦ ص ١٠١، الجامع الکبیر رقم الحدیث : ٤٨٤٩، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٩٧٩۔ ٣١٨١٠، حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اس حدیث کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے ، مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٨٧) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...