Tuesday, 24 December 2019

درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ حصّہ پنجمم

درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ حصّہ پنجمم

محترم قارئینِ کرام : اس قبل چار حصّوں میں اس موضوع پر آپ تفصیل سے پڑھ چکے ہیں آیئے مزید کچھ دلائل حصّہ پنجم میں پڑھتے ہیں :
غیرمقلد وہابی عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی عطاء سے اللہ کے بندے مدد کرتے ہیں اِس نیت سے استغاثہ لغیرِ اللہ شرک نہیں ۔ ( یعنی مدد مانگنا) ۔ (ہدیۃُ المہدی عربی صفحہ نمبر 20 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)

نوٹ : یہی ہم مسلمانانِ اہلسنت کہتے ہیں وہابی حضرات ہماری نہ مانیں اپنے بڑوں کی ہی مان لیں اور مسلمانوں پر شرک کے فتوے لگا لگا کر انتشار و فتنہ نہ پھیلائیں ۔

توسل بعد ازوصال کے متعلق غیرمقلد وہابی عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : جب دعا میں غیر اللہ کے وسیلہ کا جواز ثابت ہے تو اس کو زندوں کے ساتھ خاص کرنے پر کیا دلیل ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کی تھی ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ممانعت پر دلیل نہیں ہے ‘ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے اس لیے دعا کی تاکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے ساتھ دعا میں شریک کریں ‘ اور انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ‘ اسی طرح شہداء اور صالحین بھی زندہ ہیں ‘ ابن عطاء نے ہمارے شیخ ابن تیمیہ کے خلاف دعوی کیا ‘ پھر اس کے سوا اور کچھ ثابت نہیں کیا کہ بطور عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت کرنا جائز نہیں ہے ‘ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو آپ کے وسیلہ سے دعا تعلیم کی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے تھے، اس دعا میں یہ الفاظ تھے : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ، اس حدیث کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے سند متصل کے ساتھ ثقہ راویوں سے روایت کیا ہے : کاش میری عقل ان منکرین کے پاس ہوتی ! جب کتاب اور سنت کی تصریح سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال صالحہ کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے تو صالحین کے وسیلہ کو بھی اس پر قیاس کیا جائے گا اور امام جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ” حصن حصین “ کے آداب دعا میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا چاہیے ‘ اور ایک اور حدیث میں ہے : یا محمد ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ سید نے کہا کہ یہ حدیث حسن ہے موضوع نہیں ہے ‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ،چشتی، ایک حدیث میں ہے : میں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ اس کو علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ” نہایہ “ میں اور علامہ طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ نے ” مجمع بحار الانوار ،چشتی“ میں ذکر کیا ہے ‘ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کی اس دعا کو روایت کیا ہے : اے اللہ ! میں تجھ سے بحق محمد سوال کرتا ہوں ‘ اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے : اے اللہ ! تیرے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو وجاہت اور عزت ہے میں اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ علامہ سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ وسیلہ پیش کرنا ‘ مدد طلب کرنا اور شفاعت طلب کرنا مستحسن ہے ‘ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آہ وزاری کرنے کا متقدمین اور متاخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا حتی کہ ابن تیمیہ آیا اور اس نے انکار کیا ‘ قاضی شوکانی نے کہا کہ انبیاء میں سے کسی نبی ‘ اولیاء میں سے کسی ولی اور علماء میں سے کسی عالم کا بھی وسیلہ پیش کرنا جائز ہے جو شخص قبر پر جا کر زیارت کرے یا فقط اللہ سے دعا کرے اور اس میت کے وسیلہ سے دعا کرے کہ اللہ میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے فلاں بیماری سے شفاء دے اور میں اس نیک بندے کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں تو اس دعا کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ قاضی شوکانی کا کلام ختم ہوا ۔ (ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 47 تا 49 مطبوعہ اسلامی کتبخانہ سیالکوٹ،چشتی)

توسل بعد از وصال کے متعلق غیرمقلد وہابیوں کے امام قاضی شوکانی کا نظریہ

غیرمقلد وہابی عالم علامہ مبارکپوری ” الدرالنضید “ سے قاضی شوکانی کی عبارت نقل کرتے ہیں : انبیاء اور صالحین کے توسل سے منع کرنے والے قرآن مجید کی ان آیات سے استدلال کرتے ہیں : ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں ۔ (الزمر : ٣) اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرو ۔ (جن : ١٨) اسی کو (معبود سمجھ کر) پکارنا بر حق ہے ‘ اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو (معبود سمجھ کر) پکارتے ہیں جو ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتے ۔ (الرعد : ١٤) ان آیات سے استدلال صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ سورة زمر کی آیت نمبر ٣ میں یہ تصریح ہے کہ مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس عالم کے علم کی وجہ سے اس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت اور وجاہت ہے ‘ وہ اس وجہ سے اسی کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس عالم کے علم کی وجہ سے اس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت اور وجاہت ہے ‘ وہ اس وجہ سے اس کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے ‘ اس طرح سورة جن کی آیت نمبر ١٨ میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرکے پکارنے (یا عبادت کرنے) سے منع کیا ہے ‘ مثلا کوئی شخص کہے : میں اللہ اور فلاں کی عبادت کرتا ہوں ‘ اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ صرف اللہ سے دعا کرتا ہے اور اللہ کے بعض نیک بندوں کے اعمال صالحہ کے وسیلہ پیش کرتا ہے، جیسا کہ ایک غار میں تین شخص تھے اور اس غار کے منہ پر ایک چٹان گرگئی تو انہوں نے اپنے اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا کی ‘ اسی طرح سورة رعد کی آیت نمبر ١٤ میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو ان لوگوں کو (معبود سمجھ کر) پکارتے تھے جو ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے اور اپنے رب کو نہیں پکارتے تھے جو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے ‘ وہ صرف اللہ سے دعا کرتا ہے اور کسی اور سے دعا نہیں کرتا ‘ اللہ کے بغیر نہ اللہ کے ساتھ ۔ (تحفۃ الاحوذی ج ٤ ص ٢٨٣‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)

انبیاء علیہم السلام اور بزرگان دین سے براہ راست استمداد

انبیاء علیہم السلام اور بزرگاں دین سے براہ راست مدد طلب کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کراما کاتبین کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کیے ہیں جو درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب تم میں سے کسی شخص کو سفر میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے بندو ! تم پر اللہ رحم فرمائے میری مدد کرو ۔ (المصنف ج ١٠ ص ٣٩٠ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗ ٦۔ ١٤ ھ،چشتی)

حافظ ابوبکر دینوری معروف بابن السنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی ایک شخص کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! اس کو روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو اس کو روک لو ‘ کیونکہ زمین میں اللہ عزوجل کے کچھ روکنے والے ہیں جو اس کو روک لیتے ہیں ۔ (عمل الیوم واللیلہ ص ١٦٢‘ مطبوعہ مطبع مجلس الدائرۃ المعارف ‘ حیدر آباد دکن ‘ ١٣١٥ ھ)

امام بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کراما کاتبین کے سوا ‘ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب تم میں سے کسی شخص کو جنگل کی سرزمین میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! میری مدد کرو ۔ (کشف الاستار عن زوائد البزارج ٤ ص ٣٤‘ مطبوعہ، وسستہ الرسالۃ بیروت)

حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کر دے درآن حالیکہ وہ کسی اجنبی جگہ پر ہو تو اس کو یہ کہنا چاہیے کہ اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو ‘ کیونکہ اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے ۔ یہ امر مجرب ہے ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا اور اس کے بعض راویوں کے ضعف کے باوجود ان کی توثیق کی گئی ہے ‘ البتہ یزید بن علی نے حضرت عتبہ کو نہیں پایا ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کراما کاتبین کے سوا اللہ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب کسی ویران زمین پر کسی کو مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! میری مدد کرو ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٣٠١٤ ھ)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی ایک کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو ! روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو روک لو ‘ کیونکہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے روکنے والے ہیں جو اس کو عنقریب روک لیں گے ‘ اس کو امام ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے : وہ اس کو تمہارے لیے روک لیں گے ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ،چشتی)

رجال غیب (ابدال) سے استمداد کے متعلق فقہاء اسلام کے نظریات
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : مجھ سے میرے بعض اساتذہ نے بیان کیا جو بہت بڑے عالم تھے کہ ایک مرتبہ ریگستان میں ان کی سواری بھاگ گئی، ان کو اس حدیث کا علم تھا انہوں نے یہ کلمات کہے : (اے اللہ کے بندو ! روک لو) اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو اسی وقت روک دیا ۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں ایک جماعت کے ساتھ سفر میں تھا ‘ اس جماعت کی ایک سواری بھاگ گئی ‘ وہ اس کو روکنے سے عاجز آگئے ‘ میں نے یہ کلمات کہے تو بغیر کسی اور سبب کے صرف ان کلمات کی وجہ سے وہ سواری اسی وقت رک گئی ۔ (کتاب الاذکار ص ٢٠١‘ مطبوعہ دار الفکر ‘ بیروت ‘ طبع رابع ‘ ١٣٧٥ ھ)

ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کو نقل کیا ہے۔ (الحرز الثمین شرح حصن حصین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٨‘ مطبوعہ المبطعۃ المنیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)

غیرمقلدوں کے امام قاضی شوکانی نے بھی علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت کو نقل کیا ہے ۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین ص ١٥٥‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)

امام ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ ” یاعباد اللہ “ کی شرح میں لکھتے ہیں : ” اے اللہ کے بندو “ اس سے مراد فرشتے ہیں یا مسلمان جن یا اس سے مردان غیب مراد ہیں جن کو ابدال کہتے ہیں (یعنی اولیاء اللہ) ۔ (الحرز المثین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٨‘ مطبوعہ المطبعۃ المیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)

امام محمد بن جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ” حصن حصین “ میں اس حدیث کو طبرانی ‘ ابویعلی ‘ ابن السنی ‘ بزار اور ابن ابی شیبہ کے حوالوں سے درج کیا ہے ‘ ان تمام ورایات کو درج کرنے کے بعد ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بعض ثقہ علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی ضرورت پڑتی ہے اور مشائخ سے مروی کہ یہ امر مجرب ہے۔ (الحرز المثین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٩‘ مطبوعہ المطبعۃ المیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)

وہابیوں کے امام قاضی شوکانی ‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں لکھتے ہیں : مجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کے روای ثقہ ہیں ‘ اس حدیث میں ان لوگوں سے مدد حاصل کرنے پر دلیل ہے جو نظر نہ آتے ہوں ‘ جیسے فرشتے اور صالح جن ‘ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ جیسا کہ جب سواری کھسک جائے یا بھاگ جائے تو انسانوں سے مدد حاصل کرنا جائز ہے ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ١٥٦۔ ١٥٥‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
امام ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن کثیر کے حوالوں سے عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں ندائے یا محمداہ کا رواج : عہد صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم میں مسلمانوں کا یہ شعار تھا کہ وہ شدائد اور ابتلاء کے وقت ” یا محمداہ “ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ندا کرتے تھے ۔ جنگ یمامہ میں جب مسیلمہ کذاب اور مسلمانوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ‘ اس کا نقشہ کھینچنے کے بعد علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں : پھر حضرت خالد بن ولید نے دشمن کو للکارا اور للکارنے والوں کو دعوت (قتال) دی ‘ پھر مسلمانوں کے معمول کے مطابق یا محمداہ کہہ کر نعرہ لگایا ‘ پھر وہ جس شخص کو بھی للکارتے اس کو قتل کردیتے تھے ۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٢٤٦‘ مطبوعہ دار الکتاب العربیہ بیروت)
حافظ ابن کثیر بھی جنگ کے اس منظر کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : پھر حضرت خالدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے معمول کے مطابق نعرہ لگایا اور اس زمانہ میں ان کا معمول یا محمداہ کا نعرہ لگانا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٦ ص ٣٢٤‘ مطبوعہ دارا الفکر ‘ بیروت)
حافظ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن کثیر نے یہ تصریح کی ہے کہ عہد صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم میں شدائد اور ابتلاء کے وقت یا محمداہ کہنے کا معمول تھا ‘ ندائے غائب کے منکرین کے ہاں حافظ ابن کثیر کی بہت پذیرائی ہے اور ان کا یہ لکھنا کہ عہد صحابہ وتابعین میں یا محمداہ کہنے کا معمول تھا ‘ ان کے خلاف قوی حجت ہے ۔
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” المطالب العالیہ “ میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر عیسیٰ میری قبر پر کھڑے ہو کر ” یا محمد “ کہیں تو میں ان کو ضرور جواب دوں گا۔(المطالب العالیہ ج ٤ ص ٣٤٩‘ مطبوعہ مکہ مکرمہ)(جاری ہے)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...