Monday 9 December 2019

گیارہویں شریف اکابرین امت اور منکرین کے اکابرین کی نظر میں

0 comments
گیارہویں شریف اکابرین امت اور منکرین کے اکابرین کی نظر میں

محترم قارئینِ کرام : مسلمانوں کا قدیم طریقہ ہے کہ گیارہ تاریخ کو حضرت غوثِ اعظم رضی اللّٰه تعالٰی عنہ کے ایصالِ ثواب کیلئے نیاز و فاتحہ کی جاتی ہے جس کو گیارھویں شریف کہتے ہیں ۔ جس کا مقصد ایصالِ ثواب ہے جبکہ نجدی کے پیروکار اس عمل کو بدعت اور حرام کہتے ہیں ۔ تو آئیے اس عمل کاثبوت ہم اکابرینِ امت اور منکرین کے گھر سے پیش کرتے ہیں ۔

قدوۃُالواصلین ، زبدۃُالعارفین ، سیدی و سندی ، پیرانِ پیر ، غوث اعظم سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی ﷲ عنہ کے عرس کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب ہے جس میں آپ کے حوالے سے ﷲ و رسول اور وِلایت اولیا کا ذِکر کیا جاتا ہے تاکہ ﷲ پاک اِن اولیا کی محبت لوگوں کے دِلوں میں پیدا فرمائے ، آپ کے عِلمی و عَملی کارناموں سے اُمت آگاہ ہو ۔ اس سے ایک طرف ﷲ تعالیٰ اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت سینوں میں پیدا ہوتی ہے بلکہ اولیاء ﷲ سے بھی اُنس پیدا ہوتا ہے ، ﷲ والوں کی صحبت میسر آتی ہے ، روحانیت ، فیض اور ذہنی آسودگی ملتی ہے ، ﷲ تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کی ترغیب ملتی ہے ﷲ والوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اورنیکی کی ترویج اور برائی کے مٹانے میں مدد ملتی ہے ۔ کہنے کو یہ ایک شخص کی تقریب ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ ﷲ و رسول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی بزم ہوتی ہے جہاں ﷲ و رسول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر ہوتا ہے ۔ نذرانوں کی صورت میں کھانے پینے کی اشیا آتی ہیں جو حاضرین ، زائرین ، بھوکے ، مسافر ، بے بسوں کے کام آتی ہیں ۔ دینے والوں کو ثواب اور کھانے والوں کو سیری و سیرابی ملتی ہے ۔ اس صدقے سے زبانوں اور دِلوں سے نکلتی دعاؤں ، تلاوتوں ، اذکار کا ثواب زائرین ، ان کے آباو و امہات ، ان کے اساتذہ ، مشائخ اور تمام مسلمانانِ عالم ، زندہ مومنین اور بالخصوص اہل قبور و مزارات کو پہنچایاجاتا ہے ، ان دعاؤں کو سننے والا ﷲ تعالیٰ ہے اس کی بارگاہ سے یقین ہے کہ یہ پر خلوص دعائیں قبول کرتاہے ، مشکلات حل ہوتی ہے ، خالی جھولیاں بھرتی ہے، خشک ہونٹوں پر تری آتی ہے ، پریشاں دِلوں کو سکون اور بہتی آنکھوں کو خنکی ملتی ہے ، زخمی دِلوں کو مرہم اور دھتکارے ہُووں کو ٹھکانا مِلتا ہے ۔ ذیل میں گیارہویں شریف کے متعلق اہل علم کے تأ ثرات قلمبند کئے جارہے ہیں ۔

محدث اعظم ہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی

حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کے روضۂ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے ، نماز عصر کے بعد مغرب تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے ، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے اِردگرد مریدین اور حلقہ بگوش بیٹھ کر ذِکر بالجہر (باآوازِ بلندذِکر) کرتے ۔ اسی حالت میں بعض پروجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ۔ اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی ، تقسیم کی جاتی اور نماز عشا پڑھ کر لوگ رُخصت ہوجاتے ۔ (ملفوظات عزیزی فارسی : ص۶۲)

شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ

میرے پیرومرشد حضرت شیخ عبدالوہاب متقی مہاجر مکی (علیہ الرحمہ) ۹ ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کا عرس کرتے تھے ۔ بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہورہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد و مشائخ (ہندو پاک) میں متعارف ہے ۔ (ماثبت من السنۃ: ص۱۶۷)

حضرت شیخ امان ﷲ پانی پتی علیہ الرحمۃ المتوفی 997ھ ۱۱ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم کا عرس کرتے تھے ۔ (اخبار الاخیار اردو ترجم: ص۴۹۸)

مرزا مظہرجانِ جاناں علیہ الرحمہ

میں نے خواب میں ایک وسیع چبوترہ دیکھا جس میں بہت سے اولیاے کرام حلقہ باندھ کر مراقبے میں ہیں ۔ اور ان کے درمیان حضرت خواجہ بہاوالدین نقشبند دوزانو اور حضرت جنید بغدادی تکیہ لگا کر بیٹھے ہیں ۔ اِستغنیٰ ماسواء ﷲ اور کیفیاتِ فنا آپ میں جلوہ نما ہیں ۔ پھر یہ سب حضرات کھڑے ہوگئے اور چل دیے ، میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے ؟ تو اُن میں سے کسی نے بتایا کہ امیر المومنین حضرت علی المرتضٰی رضی ﷲ عنہ کے استقبال کے لیے جا رہے ہیں ۔ پس حضرت علی المرتضٰی شیر خدا کرم ﷲ وجہہ الکریم تشریف لائے ۔ آپ کے ساتھ ایک گلیم پوش ہیں جو سر اور پاوں سے برہنہ ذولیدہ بال ہیں ۔ حضرت علی المرتضٰی کرم ﷲ وجہہ الکریم ان کے ہاتھ کو نہایت عزت اور عظمت کے ساتھ اپنے مبارک ہاتھ میں لیے ہوئے تھے ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو جواب ملا کہ یہ خیرالتابعین حضرت اویس قرنی رضی ﷲ تعالی عنہ ہیں پھر ایک حجرہ شریف ظاہر ہوا جو نہایت ہی صاف تھا اور اس پر نور کی بارش ہو رہی تھی ۔ یہ تمام باکمال بزرگ اس میں داخل ہوگئے ، میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو ایک شخص نے کہا آج حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی کا عُرس ہے ۔ ہم سب عرس پاک کی تقریب پر تشریف لے گئے ہیں ۔ (کلمات طیبات ،فارسی: صفحہ۷۷،۷۸)

علامہ فیض عالم بن مُلّا جیون صاحب علیہ الرحمہ

عاشورہ کے روز امامین شہیدین سیدنا شباب اہل الجنۃ ابو محمد حسن اور ابو عبد ﷲ حسین رضی ﷲ تعالی عنہما کے لیے کھانا (نیاز) تیار کرتے ہیں ۔ خدا ے تعالیٰ کی بارگاہ میں اس نیاز کا ثواب ان کی روح کو پہنچاتے ہیں اور اِسی قسم سے گیارہویں شریف کا کھانا ہے جو کہ حضرت غوث الثقلین کریم الطرفین قرۃ العین الحسنین محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا و مولانا فردالافراد ابو محمد شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالی عنہ کا عرس مبارک ہے ۔ دیگر مشائخ کا عرس سال کے بعد ہوتا ہے ۔ حضرت غوث پاک رضی ﷲ تعالی عنہ کا عرس مبارک (ہمارے یہاں) ہر ماہ ہوتا ہے ۔ (وجنیر القراط:فارسی،ص۸۲،چشتی)

علامہ برخوردار صاحبِ نبراس علیہ الرحمہ

ممالکِ ہندو سندھ وغیرہ میں آپ کاعرس ۱۱ربیع الثانی کو ہوا کرتا ہے ۔ اس میں انواع و اقسام کے طعام و تحائف کہ حاضرین علما و اہل تصوف ، فقرا درویشاں کو پیش کیے جاتے ہیں ۔ وعظ اور بعض نعتیہ نظمیں بھی بیان ہوتی ہیں ۔ اس عرس شریف میں ارواحِ کاملین کا بھی حضور ہوتاہے خصوصاً آپ کے جد امجد حضرت علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ الکریم بھی تشریف لاتے ہیں ۔ کما ثبت عند ارباب المکاشفۃ ۔ (سیرت غوث اعظم: ص۲۷۵)

پیر عبدالرحمٰن نے اس (گیارہویں تاریخ) کی وجہ یہ لکھی ہے کہ پیرانِ پیر حضرت غوث الاعظم ہر گیارہویں کو نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کا عرس کیا کرتے تھے ۔ (کلیات جدولیہ فی احوال اولیاء ﷲ، المعروف بتحفۃ الابرار، بحوالہ تکملہ ذکرالاصفیاء :ص۲۹)

غوث اعظم چونکہ گیارہویں کرتے ہیں لہٰذا بطریق (تسبیح فاطمہ) گیارہویں حضرت پیرانِ پیر مشہور ہوئی ۔ (حاشیہ سیرت غوث الاعظم: ص۲۷۶)

اکابرینِ علمائے دیوبند کے مُرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ

پس بہیئت مروجہ ایصال ثواب (ایصال ثواب کا موجودہ طریقہ ) کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں اور گیارہویں حضرت غوث پاک (قدس سرہ) کی ، دسویں ، بیسویں ، چہلم ، ششماہی ، سالانہ وغیرہ اور توشہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی (رحمۃ ﷲ تعالی علیہ) کااور سہ منی (تین ماہ کی) حضرت شاہ بو علی قلندری (رحمۃ ﷲ تعالی علیہ) کی و حلواے شب برات اور دیگر طریق ایصالِ ثواب کے اسی (جواز کے) قاعدے پر مبنی ہیں اور مشرب فقیر (حاجی امداد ﷲ) کا اس مسئلے میں یہ ہے کہ فقیر پابند اس ہیئت (طریقہ، انداز) کا نہیں ہے مگر کرنے والوں کاانکار بھی نہیں کرتا ۔ (کلیاتِ امدادیہ : باب فیصلہ ہفت مسئلہ،ص۸۲، مطبوعہ:دیوبند)،(فیصلہ ہفت مسئلہ، مسئلہ فاتحہ مروجہ، صفحہ 8، ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی،چشتی)

لو جی گیارھویں کو بدعت کہنے آئے تھے ان کے پیر صاحب نے گیارھویں سمیت پتہ نہیں کیا کیا جائز ثابت کر دیا ۔ ان میں سے بعض ایصالِ ثواب کے ذرائع و نام میں نے بھی پہلے بار سنے ہیں .. تو کیا فرماتے ہیں علماءِ دیوبند کہ گیارھویں کو جائز کہنے والے پر کیا حُکُم ہے اور ایسے کی بیعت کرنا کیسا ؟

مولوی خر م علی بلہوری دیوبندی

حاضری حضرت عباس کی ، صحنک حضرت فاطمہ کی ، گیارھویں عبدالقادر جیلانی کی ، مالیدہ شاہ مدار کا ، سہ منی بوعلی قلندر کی ، تو شہ شاہ عبدا لحق کا ، اگر مَنّت نہیں ہے صرف ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا منظور ہے تو درست (جائز) ہے ۔ اس نیت سے ہر گز منع نہیں ۔ (نصیحۃ المسلمین :چند شرکیہ رسمیں ،ص:۴۱)

اسمعٰیل دہلوی امامُ الوہابیہ و دیابنہ

رسوم میں فاتحہ پڑھنے ، عرس کرنے اور فوت شدگان کی نذر و نیاز کرنے کی رسموں کی خوبی میں شک و شبہ نہیں ۔ (صراطِ مستقیم :فارسی، ص:۵۵)
طالب کو چاہیے کہ پہلے وہ با وضو دو زانوں بطور نماز (التحیات) میں بیٹھ کر اس طریقے کے بزرگوں حضرت معین الدین سجزی اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی (علیہما الرحمۃ) وغیرہ حضرات کے نام کا فاتحہ پڑھ کر بارگاہِ خداوندی میں ان بزرگوں کے توسط (واسطے) اوروسیلہ سے التجا کرے ۔ (صراطِ مستقیم :فارسی، ص:۵۵) (۹)

پس امورِ مروجہ یعنی اموات کے فاتحوں اور عرسوں اور نذر ونیاز سے اس قدر امر کی خوبی میں کچھ شک وشُبہ نہیں ۔ (صراطِ مستقیم، صفحہ 110، مطبوعہ اسلامی اکیڈمی اردو بازار لاھور)

وھابیہ جس کو بدعت کہے ان کا امام اس کو خوبی کہے ..... پس پتہ چلا کہ خوبی والی بدعت بھی ہوتی ہے ... نذرو نیاز کے علاوہ مولوی اسماعیل دھلوی نے بزرگانِ دین اولیاء کے عرس کو بھی خوبی والے کاموں میں شامل کیا ..... جی آلِ نجد جواب دے کہ بدعات کو خوبی والے امور کہنے والے پر کیا حُکُمِ شرعی ہے ؟؟

قطب العالم دیوبند جناب رشیداحمد گنگوہی صاحب

ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کو توشہ (نیاز) کرنا درست ہے مگر تعیّن یوم و تعیّن طعام کی بدعت اس کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اگرچہ فاعل اس یقین کو ضروری نہیں جانتا مگر دیگر عوام کو موجبِ ضلالت ہوتا ہے لہٰذا تبدیل یوم و طعام (نیاز) کیا کرے تو پھر کوئی خدشہ نہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ، کتاب العلم ،صفحہ 171، مطبوعہ عالمی مجلس تحفظِ اسلام کراچی،چشتی)

گنگوھی نے آگے جو لکھا کہ دن اور کھانا مقرر کرنا بدعت ہے تو اس کا جواب ہم انہی کے پیر ومُرشد کی زبانی دیتے ہیں ۔

چنانچہ حضرتِ حاجی امداد الله مہاجر مکی علیہ الرحمہ جنکو اکابرینِ علماء دیوبند اپنا پیر و مُرشد مانتے ہیں وہ گیارھوں دسواں سوئم چالیسوں کا دن مقرر کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : رہا تعینِ تاریخ (یعنی گیارھویں کی تاریخ مقرر کرنا) یہ بات تجربے سے معلوم ہوتی ہے کہ جو امر کسی خاص وقت میں معمول ہو تو اس وقت وہ (امر کام) یاد آ جاتا ہے اور ضرور ہوتا رہتا ہے اور (دن وتاریخ مقرر) نہیں تو سالہا سال گزر جاتے ہیں کبھی خیال نہیں ہوتا اسی قِسم کی مصلحتیں ہر امر میں ہیں جنکی تفصیل طویل ہے محض بطورِ نمونہ تھوڑا سا بیان گیا گیا (ہے) زہین آدمی غور کر کے سمجھ سکتا ہے ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ، مسئلہ فاتحہ مروجہ، صفحہ 8، ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی)

جی جس تاریخ کو مقرر کرنا گنگوھی جی بدعت کہہ رہے ہیں اسی تاریخ کو مقرر کرنے کے فوائد و مصلحتیں گنگوھی جی کے پیر صاحب بیان فرما رہے ہیں ... پیر صاحب کا یہ جملہ نہایت ہی قابلِ غور ہے کہ ” کوئی بھی ذہین آدمی غور کر کے سمجھ سکتا ہے“ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گنگوھی جی اور جو دیوبندی تاریخ مقرر کرنے کو بدعت کہتے ہیں وہ بقول پیر صاحب کُند ذہن ونالائق ہیں کیو نکہ اگر ذہین ہوتے تو پیر صاحب کے بقول سمجھ جاتے ۔

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب

بوقت مجلس جب مثنوی مولانا روم ختم ہوگئی ۔ بعد ختم کہ شربت بنانے کا حکم دیا اور ارشاد ہوا کہ اس (شربت) پر مولانا روم کی نیاز بھی کی جائے گی ۔ گیارہ گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا ۔ آپ (حاجی امداد ﷲ صاحب نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں ، ایک عجز و بندگی اور سوائے خدا کے دوسروں کے واسطے نہیں ہے بلکہ ناجائز و شرک ہے ، دوسری خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کو پہنچانا ۔ یہ جائز ہے لوگ انکار کرتے ہیں ، اس میں کیا خرابی ہے ۔ (شمائم امدادیہ ملفوظات حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی ص:۶۸)
ہر شخص کو اختیار ہے کہ (نیک) عمل کا ثواب مردے کو یا زندہ کو کردے ۔ جس طرح مردے کو ثواب پہنچتا ہے اسی طرح زندہ کو بھی ثواب پہنچ جاتا ہے ۔ (التذکیر: ج۳، ص۵)،(امداد المشتاق، صفحہ 86، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاھور)،(شمائم امدادیہ، صفحہ 68، کتب خانہ اشرف الرشید شاہ کوٹ،چشتی)

گنگوھی جی اور ان کے ماننے والے یہاں بھی دیکھ لیں کہ نیاز کیلئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے شربت کا تعین کیا جبکہ گنگوھی جی اس کو بدعت کہہ رہے ہیں تو پھر بتائیں کہ آپ کے پیر صاحب پر کیا فتویٰ لگے گا ؟
اگر مولانا روم کے ایصالِ ثواب کیلئے نیاز جائز ہے تو سیدی غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے ایصالِ ثواب کیلئے بھی نیاز جائز ہے جسکو گیارھویں کا نام دیا گیا ہے ۔

ثناء ﷲ امرتسری غیر مقلد

نذر و نیاز غیرﷲ کے لیے جائز نہیں ہے ۔ نذر ﷲ کی اور ثواب میں دوسرے کو پہنچانا جائز ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ: باب : عقائد ،ج ۱،ص۱۰۸)

گیارھویں بارھویں ایصالِ ثواب کی نیت سے دُرُست ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد 2، صفحہ 71، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاھور)

یقین جان لے اے آلِ نجد کہ ہم غوثِ پاک کی گیارھویں اور حضور سیّدِ عالَم علیہ السلام کی بارھویں ایصالِ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں ۔ تو تمہارے امام ثناء الله امرتسری کے فتویٰ کی رُو سے یہ جائز و دُرُست ٹھری لہذا اگر اب اس کو بدعت کہو گے تو آپ کے مناظرِ اعظم رگڑے جائیں گے کیونکہ ان کا ایک بدعت کو جائز کہنا لازم آئے گا لہذا تم بھی اپنے امام کے قول کو چُپ چاپ مان لو ۔

غیرمقلدین وھابیہ کا عظیم محدث مولوی وحید الزمان حیدر آبادی لکھتا ہے : ولایجوز الانکار علي امور مختلفة فیھا بین العلماء....کاالفاتحة المرسومة ۔
یعنی وہ کام جو علماء میں مختلَف فیہ ہوں ان کا انکار جائز نہیں جیسے مروجہ ایصالِ ثواب ۔ (ھدیة المھدی (عربی) الجزُالاول، صفحہ 118، در مطبع میور پریس دھلی ۱۳۲۵ھ)

اگر مجھے خواتین کے پڑھنے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں آگے بھی عبارت نقل کرتا اور بتاتا کہ آگے وھابی مولوی نے کیا گُل کھلایا ہے ۔ بے شرمی کی انتہا کر دی ..... لہذا وھابیہ سمجھ گئے ہونگے کہ میرا اشارہ کس طرف ہے کیونکہ ان کے محدث کی جو کتاب ہے تو وھابیہ نے ضرور پڑھی ہو گی ۔ بہر کیف ہماری دلیل ایصالِ ثواب کی تھی سو دے دی ...... اب ذرا اس کو بدعت کہنے والے بتائیں کہ وحید الزماں پر کیا حُکمِ شرعی ہے ؟

غیرمقلدین وھابیہ کے مولوی عبد الجبار غزنوی نے کہا کہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی ایسے محدث تھے جن کو الله اے ہمکلامی کا شرف حاصل تھا ۔ (استادِ پنجاب صفحہ 122مسلم پبلیکیشنز گوجرانوالہ،چشتی)
اب وھابیہ کے یہی کلیم الله نواب صدیق حسن خان بھوپالوی غوثِ پاک کے ختم کے متعلق لکھتے ہیں کہ : دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۃ اخلاص گیارہ بار پھر بعد سلام کے یہ درود ایک سو گیارہ بار پڑھے " اللھم صل علي معدن الجود والکرم و علي آله محمد وبارك وسلم " پھر شیرنی پر فاتحہ شیخِ جیلانی رضی اللہ عنہ پڑھ کر تقسیم کر دے “ ۔ (کتاب الدعاء ولدواء، صفحہ 153، نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اردو بازاد لاھود)

نجدیو : دیکھ لو تمہارا کلیم اللہ ختمِ غوثیہ کا کیا طریقہ بتا رہا ہے ..... کیا یہ طریقہ قرآن و سنت سے ثابت ہے ؟

کیا اس کو بھی بدعتی کہو گے ؟

الحمد للہ فقیر نے کافی شافی دلائل غوثِ پاک علیہ الرحمہ کی گیارھوں کے آَلِ نجد کے جید اکابرین علماء کی کتب سے پیش کر دیئے ہیں اگر اب بھی آلِ نجد میں نہ مانو کی گردان دھرائیں تو ان کو چاہیئے کہ مذکورہ اپنے اکابرین پر بدعتی اور جہنمی ہونے کا فتویٰ صادر کریں یا پھر گیارھویں پہ بھوکنا چھوڑ دیں .......

وہ قصّے اور ہونگے جنہیں سُن کر نیند آتی ہے
تڑپ اُٹھو گے کانپ جاؤ گے سُن کر داستاں اپنی

اللہ تعالیٰ ان کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ﷲ تعالیٰ تا حیات بزرگوں کے دامن سے وابستہ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔