Wednesday 31 January 2018

حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اﷲ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ اور عقیدہ علم غیب

1 comments
حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اﷲ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ اور عقیدہ علم غیب

احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عدی بن حاتم کے اسلام قبول کرنے کے اسباب علم غیب کی باتیں ہوئیں جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم میں دیکھیں تو مسلمان ہوگئے ۔

وہ 9 ھجری میں مسلمان ہوئے ۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے ۔ وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ قوم پیداوار اور مال غنیمت کا چوتھائی حصہ ان کی نذر کیا کرتی تھی ۔ انہیں مسلمانوں سے سخت عداوت تھی، عیسائی تھے اور اسلام کو عیسائیت کا رقیب سمجھتے تھے اور سردار ہونے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا اقتدار ان کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا ۔ ان کی سازش سے یمن کے قبیلے ’’طے‘‘ نے بغاوت کی۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ ان دنوں یمن کے گورنر تھے۔ انہوں نے بغآوت کو ختم کیا اور بغاوت کے لیڈروں کو گرفتار کرکے مدینہ بھیج دیا۔ ان میں عدی کی بہن سفانہ بنت حاتم بھی تھی، وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے سامنے پیش ہوئی تو اس نے کہا کہ میں سخی حاتم طائی کی بیٹی ہوں، میرا باپ بھوکوں کا پیٹ بھرتا تھا اور غریبوں پر رحم کرتا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : تیرے باپ میں مسلمانوں کی سی خوبیاں تھیں۔ عدی کی بہن نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے پھر عرض کیا کہ میری آپ سے ایک درخواست ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اس کو قبول فرماکر مجھ کوشکریہ کا موقع دیجئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا وہ کیا۔ عدی کی بہن نے کہا کہ : ملک الوالد وغاب الوافد، فامنن علی من اﷲ علیک ۔
یعنی میرا والد فوت ہوا میرا محافظ یعنی بھائی) بھاگ گیا آپ مجھ پر احسان فرمائیں (یعنی آزاد کردیں) اﷲ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی باب السین، سفانۃ بنت حاتیم طائی، الجزء ۲۳)

میرا بھائی آپ کی فوج سے خوفزدہ ہوکر شام کے علاقہ میں بھاگ گیا ہے۔ آپ مجھ کو اجازت دیں کہ میں اس کو لے آئوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اس کے لئے ایک امن نامہ لکھ دیجئے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم چپکے سے چلے گئے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے روز پھر وہاں سے آپ کا گزر ہوا تو پھر اس نے وہی درخواست دہرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا۔ تم جلدی کیوں کرتی ہو، جب تمہارے علاقہ سے کوئی آئے گا جس پر تم کو اعتماد ہو، اس کے ساتھ چلی جانا۔ چنانچہ چند یوم بعد ان کے رشتہ داروں میں سے چند اشخاص آگئے۔ عدی کی بہن کہتی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے عرض کیا کہ میرے رشتہ داروں میں سے ایسے لوگ آگئے ہیں جن پر مجھ کو اعتماد ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے میرے لئے کپڑے کے جوڑے بھیج دیئے اور میرے لئے زادراہ اور سواری مہیا فرمائی ۔ میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ بھائی کے پاس پہنچ گئی۔ عدی فرماتے ہیں کہ میں اپنے بال بچوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ دور سے مجھ کو چند سواریاں نظر آئیں، وہ دیکھتا کیا ہوں کہ میری بہن ہے۔ ابھی سواری سے اتری بھی نہ تھی۔ کہ مجھ کو برا بھلا کہنا شروع کیا کہ تو بڑا ظالم ہے، قاطع رحم ہے۔ اپنے بال بچوں کو اٹھا کر لے گیا اور بہن کو یہاں چھوڑ گیا۔ چونکہ باتیں سچ تھیں اور میرے پاس کوئی عذر بھی نہ تھا، میں بہت شرمندہ ہوا میں نے کہا۔ مجھ کو معاف کردے پھر میں نے اپنی بہن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق استفسار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا تو خیال ہے کہ تم جلدی ان کی خدمت میں حاضر ہوجائو۔ اگر وہ نبی ہیں تو تم کو جلدی سبقت کرنی چاہئے اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو تمہاری عزت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور میں ان کے ساتھ سوار ہوکر مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا عدی بن حاتم طائی ہ و۔ آپ مجھکو اپنے ساتھ گھر لے چلے ، راہ میں ایک بڑھیا نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے باتیں شروع کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم وہیں کھڑے رہے۔ جب تک بڑھیا کی داستان ختم نہ ہوئی، میں نے سوچا کہ بادشاہ اس طرح ضعیفہ بڑھیا عورتوں کے روکنے سے نہیں رکا کرتے۔ محمد بادشاہ نہیں ہیں۔ گھر میں داخل ہوئے جس گدے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بیٹھا کرتے تھے، میری طرف سرکا دیا۔ گدا ایک ہی تھا۔ میں نے عرض کیا۔ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اس پر بیٹھئے ! فرمایا ، نہیں آپ بیٹھیں چنانچہ میں گدی پر بیٹھ گیا ۔ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم زمین پر بیٹھ گئے۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ آپ بادشاہ ہرگز نہیں ہیں۔ بیٹھتے ہی فرمایا کہ عدی تم رکوسی ہو (رکوسی عیسائیوں کا ایک فرقہ تھا)
میں نے جواب دیا ہاں پھر فرمایا تم اپنی قوم سے پیداوار اور مال غنیمت لیتے ہو، میں نے کہا جی ہاں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کہ یہ تمہارے دین کے تو خلاف ہے۔ عدی نے کہا بے شک۔ اب میں نے دل میں سوچا کہ ہو نہ ہو، یہ نبی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا۔ اے عدی تم کو یہ امر مانع ہوا کہ مسلمان نہایت مفلس، قلاش اور غریب ہیں، عدی وہ وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اتنا مال آئے گا کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ اے عدی شاید تم کو یہ چیز مانع ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں بڑی بڑی زبردستی سلطنتیں ہیں۔ دشمنوں کے پاس بے شمار فوجیں اور وہ ہر طرح کے ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ عدی وہ وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کی سلطنت اتنی وسیع ہوجائے گی اور ایسا زبردست انتظام ہوگا کہ ایک عورت تن تنہا قادسیہ (کوفہ سے کئی میل دور فاصلہ پر ہے) سے چلے گی اور خوفناک جنگلوں کو طے کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوجائے گی۔ عدی شاید تم کو یہ مانع ہے کہ سردست مسلمانوں کی سلطنت بہت تھوڑی ہے۔ عدی خدا کی قسم ایک وقت آنے والا ہے کہ اسلامی فوجیں کسریٰ جیسی سلطنت کو پاش پاش کر ڈالیں گی۔ عدی! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم پڑھو (اﷲ اکبر) اﷲ بہت بڑا ہے۔ حضرت عدی کہتے ہیں کہ یہ تقریر سن کر میں اسی وقت مسلمان ہوگیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا ۔

عقائد علم غیب کی تصدیق

یہی حضرت عدی رضی اﷲ عنہ جو حاتم طائی مشہور سخی کے صاحبزادے ہیں ، خود علم غیب کی تصدیق فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اس وقت جو تین امور (علم غیب) بیان فرمائے، وہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا (تیسری بات بھی پوری ہوگی) ان شاء اﷲ
(1) میرے سامنے کسریٰ کی زبردست سلطنت پاش پاش ہوگئی ۔

(2) میری آنکھوں کے سامنے قادسیہ سے ایک عورت تن تنہا خطرناک جنگلوں کو طے کرتی ہوئی صحیح و سلامت مدینہ طیبہ پہنچ گئی ۔

مجھے یقین ہے کہ تیسری بات بھی پوری ہوگی ۔

(3) چنانچہ یہ تیسرا امر (غیبی) حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پوراہوا کہ لوگوں کو زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
وفات
حضرت عدی رضی اﷲ عنہ نے 120 سال کی عمر پاکر 68 ھجری میں مختار ثقفی کے دور میں کوفہ میں انتقال فرمایا (الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لابن حجر، ج 2)
فوائد و عقائد
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا خلق عظیم ایسا ہے کہ نہ صرف غیر معترف ہیں بلکہ اس کے اثر سے سخت مخالفین بھی قبول اسلام پر مجبور ہوئے جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا، اس واقعہ سے ان کی تردید ہوتی ہے کہ حاتم طائی کی بیٹی کے تاثرات بتاتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے اسلام تلوار کے زور سے نہیں، خلق و کمال سے پھیلایا ۔

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے تعارف کے بغیر ان کے حالات خود بتائے کہ رکوسی ہو اور قوم سے پیداوار اور غنیمت وصول کرتے ہو اور ساتھ فرمایا یہ تمہارے دین کے خلاف ہے اور ان کے دل کی بات بھی ظاہر کردی کہ تم کو دین اسلام میں داخل ہونے سے فلاں امر مانع ہے ۔ حضرت عدی رضی اﷲ عنہ کو انہی امور کی تصدیق نے اسلام لانے پر مجبور کردیا اور یہی علم غیب کی تصدیق ہے جس نے کافروں کو مسلمان بلکہ صحابی جیسا مرتبہ عطا فرمایا لیکن بدقسمتی سے آج اسلام کا ٹھیکیدار بن کر ایک گروہ علم غیب کی تصدیق کرنے والوں کو مشرک بنائے جارہا ہے ۔ عجب رنگ ہیں زمانے کے ۔

حضرت عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے مستقبل کی تین باتیں بتائیں ۔ جو علم غیب (مافی غد یعنی کل کیا ہوگا) سے متعلق تھیں ، حضرت عدی بن حاطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو آنکھوں سے دیکھی ہیں تیسری بھی ہوکر رہے گی ۔ یہ ہے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا عقیدہ (عقائد صحابہ، ص37)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔