کون سی نماز کس نبی علیہ السّلام نے ادا کی تھی
نماز پنجگانہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نہ تو انبیاء کرام میں سے کسی نے ادا کی اور نہ ہی ان کی امت نے۔ البتہ ان پانچ نمازوں میں سے ہر ایک نماز کسی نہ کسی نبی نے ضرور ادا کی ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کوئی رسول یا نبی ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے خود نماز نہ پڑھائی ہو یا نماز کا حکم نہ دیا ہو۔
امام حلبی، امام رافعی کی شرح مسند شافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے صبح کی نماز پڑھی، حضرت داؤد علیہ السلام نے ظہر کی نماز پڑھی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے عصر کی نماز پڑھی، حضرت یعقوب علیہ السلام نے مغرب کی نماز پڑھی اور حضرت یونس علیہ السلام نے عشاء کی نماز پڑھی۔(طحاوی، شرح معانی الآثار، کتاب الصلاة، باب الصلاة الوسطی اي الصلوات، 1 : 226، رقم : 1014)
عشاء کی نماز سب سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام نے پڑھی لیکن ان کی یا اور کسی نبی کی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ امتیوں میں صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو اس نماز کے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
امام ابو داؤد اپنی سند کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَعْتِمُوْا بِهَذِهِ الصَّلَاةِ، فَاِنَّکُمْ قَدْ فَضِّلْتُمْ بِهَا عَلَی سَآئِرِ الْأُ مَمِ، وَلَمْ تُصَلِّهَا اُمَّةٌ قَبْلَکُمْ.
ترجمہ : اس نماز (عشاء) کو تاخیر سے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں اس نماز کی وجہ سے پچھلی تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی ۔ ( ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب في وقت العشآء الاخرة، 1 : 173، رقم : 421)
امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : بالجملہ اس قدر بلاشبہہ ثابت کہ نمازِ عشاء ہم سے پہلے کسی اُمّت نے نہ پڑھی نہ کسی کو پانچوں نمازیں ملیں اور انبیائے سابقین علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ظاہراً راجح یہی ہے کہ عشاء ان میں بھی بعض نے پڑھی تو اثر مذکور امام طحاوی سے اجتماع خمس کو تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام میں ہمارے حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے خاص ثابت کرنا جس کا مدار اسی نفی عشاء عن سائر الانبیاء علیہم الصّلوٰۃ والثناء پر تھا تام التقریب نہیں کہ جب ہر نماز کسی نہ کسی نبی سے ثابت تو ممکن کہ بعض انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام نے کبھی یا ہمیشہ پانچوں بھی پڑھی ہوں اگرچہ کسی اُمّت نے نہ پڑھیں یہاں تک کہ مغرب کی اولیت سیدنا عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام ہی کے لئے مانے جیسا کہ قول دوم وسوم میں آتا ہے جب بھی وہ احتمال مندفع نہیں ممکن کہ سیدنا عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی نے پانچوں پڑھی ہوں اور اس میں حکمت یہ ہوکہ وہ دنیا کی نظر ظاہر میں بھی صاحب صلوات خمس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اُمتی ہوکر زمین پر تشریف لانے والے ہیں اگرچہ حقیقۃً تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام ہمارے حضور نبی الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اُمتی ہیں انہیں نبوت دی ہی اس وقت ہے جب انہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اُمتی بنالیا ہے جس پر قرآن عظیم ناطق اور ہمارے رسالہ تجلی الیقین بان نبینا سیدالمرسلین میں اُس کی تفصیل فائق وللہ الحمد ۔
غرض یہاں دو مطلب تھے ایک یہ کہ اجتماع خمس ہمارے سو ا کسی اُمت کو نہ ملا یہ حدیث معاذ رضی اللہ عنہ میں خود ارشاد اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دوسرے یہ کہ پانچوں نمازوں کا اجتماع انبیاء میں بھی صرف ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے یہ باعتماد علمائے کرام مانا جائے گا اگرچہ ہم اُس پر دلیل نہ پائیں کہ آخر کلمات علماء کا اطباق واتفاق بے چیزے نیست ہمارا دلیل نہ پانا دلیل نہ ہونے پر دلیل نہیں۔
شاید نظرِ علما اس طرف ہوکہ جب حدیث صحیح سے ثابت کہ اللہ عزوجل نے اس نعمتِ جلیلہ وفضیلتِ جلیلہ سے اس اُمتِ مرحومہ کو تمام اُمم پر تفضیل دی اور قطعاً ہمارے جس قدر فضل ہیں سب ہمارے آقا ومولٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور صدقہ میں ہیں تو مستبعد ہے کہ ہم تو اس خصوص نعمت سے سب اُمتوں پر فضیلت پائیں اور ہمارے مولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام پر یہ تخصیص واختصاص نہ ہو اس تقدیر پر یہی حدیث معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ دلالۃً اس دعوے کی بھی مثبت ہوگی ۔
اما حدیث السیدین ابرٰھیم واسمٰعیل، علی ابنھما الکریم ثم علیھم الصلاۃ والتسلیم، فلعلہ لم یثبت اذلوثبت لمارأینا تظافر کلماتھم علٰی خلافہ، علی انی اقول: الاختصاص بجھۃ الافتراض، اماھما صلی اللّٰہ تعالٰی علی ابنھما ثم علیھما وبارک وسلّم، فصلیا بمنی ماکتب اللّٰہ تعالٰی علیھما وتنفلافی بقیۃ الاوقات، فمن قبل وقوعھا فی ھذہ الاوقات، عبر عنھا باسماء ھذہ الصلوات، واللّٰہ تعالٰی اعلم بالخفیات۔ ھذا غایۃ ما عندی فی توجیہ المرام۔
رہی دو سرداروں یعنی ابراہیم واسمٰعیل ان کے کریم بیٹے پر پھر ان دونوں پر صلوٰۃ وسلام ہو والی حدیث، تو شاید وہ پایہ ثبوت تک نہیں پہنچی کیونکہ اگر ثابت ہوتی تو اتنی کثرت سے علماء کے اقوال اس کے خلاف نہ ہوتے علاوہ ازیں میں کہتا ہوں کہ خصوصیت، فرضیت کے اعتبار سے ہے (یعنی پانچ نمازیں فرض صرف رسول اللہ پر ہوئیں) ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام پر اُن میں سے جو فرض ہوں گی وہ انہوں نے بطور فرض مِنٰی میں پڑھی ہوں گی اور باقی اوقات میں نفل ادا کیے ہوں گے، لیکن وہ نفل چونکہ واقع انہی پانچ اوقات میں ہوئے تھے، اس لئے ان کی تعبیر نمازوں کے ناموں سے کردی گئی۔ اور اللہ ہی پوشیدہ باتوں کو بہتر جاننے والا ہے اس مقصد کی زیادہ سے زیادہ توجیہ میرے خیال میں یہی ہوسکتی ہے۔
مگر استبعاد مذکور کا جواب واضح ہے کہ کچھ عجب نہیں کہ مولٰی عزوجل بعض نعمتیں بعض انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے اگلی اُمتوں میں نبی کے سوا کسی کو نہ ملتی ہوں مگر اس امت مرحومہ کیلئے اُنہیں عام فرمادے جیسے کتاب اللہ کا حافظ ہونا کہ اُمم سابقہ میں خاصہ انبیاء علیہم الصلاۃ والثناء تھا اس اُمت کے لئے رب عزوجل نے قرآن کریم حفظ کیلئے آسان فرمادیا کہ دس دس۱۰ برس کے بچّے حافظ ہوتے ہیں اور ہمارے مولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فضل ظاہر ہے کہ اُن کی اُمت کو وہ ملا جو صرف انبیاء کو ملاکرتا تھا علیہ وعلیہم افضل الصلاۃ والثناء واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔ باقی رہا سوال کا دوسرا جُز کہ کون سی نماز کس نبی نے پہلے پڑھی، اس میں چار۴ قول ہیں:
اوّل : قول امام عبیداللہ بن عائشہ ممدوح کہ جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی توبہ وقتِ فجر قبول ہُوئی انہوں نے دو۲ رکعتیں پڑھیں وہ نماز صبح ہُوئی۔ اور اسحٰق علیہ الصلاۃ والسلام کا فدیہ وقت ظہر آیا ابرہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے چار پڑھیں وہ ظہر مقرر ہوئی۔ عزیر علیہ السّلام سو۱۰۰ برس کے بعد عصر کے وقت زندہ کئے گئے انہوں نے چار پڑھیں وہ عصر ہُوئی۔ داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توبہ وقتِ مغرب قبول ہُوئی چار رکعتیں پڑھنے کھڑے ہوئے تھک کر تیسری پر بیٹھ گئے، مغرب کی تین ہی رہیں۔ اور عشاء سب سے پہلے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ۔
رواہ کماذکرنا الامام الطحاوی قال: حدثنا القاسم بن جعفر قال سمعت بحر بن الحکم الکیسانی قال سمعت ابا عبدالرحمٰن بن محمد ابن عائشۃ یقول، فذکرہ ۔
جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے اسی کے مطابق اس کو طحاوی نے روایت کیا ہے کہ قاسم ابن جعفر نے بحر ابن حکم کیسانی سے، اس نے ابوعبدالرحمن عبداللہ ابن محمد ابن عائشہ سے سُنا اس کے بعد سابقہ روایت بیان کی ہے۔
(شرح معانی الآثار باب الصّلوٰۃ الوسطی مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۲۰)
دوم قول امام ابوالفضل کہ سب سے پہلے فجر کو دو رکعتیں حضرت آدم، ظہر کو چار رکعتیں حضرت ابرہیم، عصر حضرت یونس، مغرب حضرت عیسٰی، عشاء حضرت موسٰی علیہم الصلاۃ والسلام نے پڑھی۔ ذکرہ الامام الزندوستی فی روضتہ قال سألت ابا الفضل فذکرہ (اس کو امام زندوستی نے اپنی روضہ میں ابو الفضل کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔ کہا میں نے ابو الفضل سے پُوچھا تو انہوں نے یہ ذکر کیا۔ ت) یہ حکایت ایک لطیف کلام پر مشتمل ہے لہذا اُس کا خلاصہ لکھیں امام زندوستی فرماتے ہیں میں نے امام ابوالفضل سے پوچھا صبح کی دو۲ رکعتیں ظہر وعصر وعشاء کی چار مغرب کی تین کیوں ہوئیں۔ فرمایا حکم۔ میں نے کہا مجھے اور ابھی افادہ کیجئے۔ کہا ہر نماز ایک نبی نے پڑھی ہے، آدم علیہ الصلوٰۃ والسّلام جب جنّت سے زمین پر تشریف لائے دنیا آنکھوں میں تاریک تھی اور ادھر رات کی اندھیری آئی، انہوں نے رات کہاں دیکھی تھی بہت خائف ہُوئے، جب صبح چمکی دو۲ رکعتیں شکرِ الٰہی کی پڑھیں، ایک اس کا شکر کہ تاریکی شب سے نجات ملی دوسرا اس کا کہ دن کی روشنی پائی انہوں نے نفل پڑھی تھیں ہم پر فرض کی گئیں کہ ہم سے گناہوں کی تاریکی دُور ہو اور طاعت کا نُور حاصل۔ زوال کے بعد سب سے پہلے ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے چار رکعت پڑھیں جبکہ اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فدیہ اُترا ہے پہلی اس کے شکر میں کہ بیٹے کا غم دُور ہوا دوسری فدیہ آنے کے سبب، تیسری رضائے مولٰی سبحٰنہ وتعالٰی کا شکر، چوتھی اس کے شکر میں کہ اللہ عزوجل کے حکم پر اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے گردن رکھ دی، یہ ان کے نفل تھے ہم پر فرض ہُوئیں کہ مولٰی عــــہ تعالٰی ہمیں قتلِ نفس پر قدرت دے جیسی اُنہیں ذبحِ ولد پر قدرت دی اور ہمیں بھی غم سے نجات دے اور یہود ونصارٰی کو ہمارا فدیہ کرکے نار سے ہمیں بچالے اور ہم سے بھی راضی ہو
عــــہ لفظ الکتاب فامرنا بذلک لانہ تعالٰی وفقنا علی ابلیس کماوفقہ لذبح الولد وانجانامن الغم کماانجاہ وفدانا من النار کمافداہ ورضی عناکمارضی عنہ ۱؎ اھ اقول: وماذکرت احسن من ستۃ وجوہ لاتخفی علی المتأمل ۔
کتاب (یعنی روضہ) کی عبارت یوں ہے: ''تو ہمیں ظہر کی چار رکعتوں کا حکم دیا گیا کیونکہ ہمیں بھی اللہ تعالٰی نے شیطان کے مقابلے کی توفیق عطا فرمائی جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا ذبح کرنے کی توفیق بخشی اور ہمیں بھی غم سے نجات دی جیسے ان کو دی تھی اور (یہود ونصارٰی کو جہنم میں) ہمارا فدیہ بنایا جس طرح ان کیلئے (جنتی دُنبے کو اسمٰعیل علیہ السلام کا) فدیہ بنایا اور ہم سے بھی اللہ تعالٰی راضی ہوا جیسے کہ ان سے ہوا اھ اقول (میں کہتا ہوں) ان الفاظ کی بنسبت میری ذکر کردہ عبارت چھ۶ وجوہ سے زیادہ عمدہ ہے اور یہ وجوہ سوچنے والے پر مخفی نہیں ہیں ۱۲ منہ غفرلہ (ت)( روضۃ العلماء للزندوستی)
نمازِ عصر سب سے پہلے یونس علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے پڑھی کہ اس وقت مولٰی تعالٰی نے انہیں چار۴ ظلمتوں سے نجات دی: ظلمتِ لغزش، ظلمتِ غم عــــہ ۱، ظلمتِ دریا، ظلمتِ شکمِ ماہی۔ یہ اُن کے نفل تھے ہم پر فرض ہوئی کہ ہمیں مولٰی تعالٰی ظلمتِ گناہ وظلمتِ قبر وظلمتِ قیامت وظلمتِ دوزخ سے پناہ دے۔
عــــہ۱ الذی فی الکتاب وظلمۃ اللیل ۲؎ اقول ان کانت تذھب بالنھار فقدذھبت قبل العصر والافلا اثرلھا ولذا ابدلتھا ۔ کتاب میں (ظلمتِ غم کی بجائے) ''ظلمتِ لیل'' مذکور ہے۔ میں کہتا ہوں اگر ظلمتِ لیل مراد ہوتو نہار کی وجہ سے ظلمتِ لیل ختم ہوجاتی ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ رات کا اندھیرا وقت عصر سے پہلے ہی ختم ہوچکا ورنہ لازم آئیگا کہ نہار کا کوئی اثر ہی نہ ہو اسی لئے میں نے اس کو ظلمتِ غم سے بدلا ہے۔(روضۃ العلماء للزندوستی) (طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment