Sunday, 28 January 2018

حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے تقاضے

حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے تقاضے

حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اہل ایمان کے لیئے ایک روح افزاء باب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے بروئے شریعت کچھ تقاضے ہیں ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ارشاد گرامی ہے : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان، مال، اولاد، ماں باپ غرض جمیع انسانیت سے بڑھ کر محبوب نہ سمجھے ۔ (بخاری و مسلم)

ان تقاضوں میں سے ایک تقاضا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ادب و احترام کرنا ، آپ سے محبت رکھنا ہے ۔ اگر آدابِ محبت سے شناسائی نہ ہو تو قرآن مجید فرقان حمید، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور سیرت صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین کا جائزہ لیا جائے ، ہر چیز واضح ہو جائے گی ۔

رب تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے محبت کو ظاہر فرماتے ہوئے سورۃ البلد میں ارشاد فرمایا ہے : ’اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! ہم اس شہر کی قسم اٹھاتے ہیں اور اس لیئے کہ آپ اس میں مقیم ہیں‘۔ ایمان والوں کو ارشاد ہوتا ہے : ’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ عز و جل اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اللہ سے ڈرو‘ (الحجرات)
پھر ارشاد ہوتا ہے : ’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی آواز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ کرو‘۔

رب تعالیٰ نے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی شان میں ایک لفظ بھی گستاخی کا برداشت نہ کیا ۔ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو منافقین ’راعنا‘ کہہ کر پکارتے تو اس کو لمبا کر دیتے جس سے معانی بدل جاتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی گستاخی کا پہلو نکلتا، رب تعالیٰ نے اُن کی اس گستاخ سوچ کو سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 104 میں رَد کرتے ہوئے ایمان والوں کو حکم دیا : ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو راعنا نہ کہا کرو بلکہ ”انظرنا“ کہا کرو‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ذات با برکات سے بغض رکھنے والے ابولہب کے متعلق ارشاد فرمایا : ’ٹوٹ گئے ہاتھ ابولبک کے‘ (سورۃ فبل)۔

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عرض کرتا ہے : رب تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی خود تکذیب فرمائی ۔ آج کچھ نادان لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی رحمت کے واقعات کو جواز بناتے ہوئے کہتے نظر آتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے تو کوڑا پھینکنے والی عورت کو بھی معاف فرما دیا تو توہین رسالت کے مرتکب افراد کو بھی معافی ملنی چاہئے ۔ محسوس ہوتا ہے کہ اُن لوگوں نے اسوہ حسنہ اور سیرت صحابہ پر غور نہیں کیا ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے جب فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا تو ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ وہ اشخاص جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی شان میں گستاخی کی تھی اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے مجرم تھے اُن کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جائے ، اُن کو معافی نہیں خواہ وہ کعبے کے پردوں سے لٹک جائیں (اہل عرب میں یہ دستور تھا جو شخص کعبے کے پردے سے لٹک جاتا، اُس کو معافی مل جاتی)۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد امام عبدالرزاق بن ھمام رحمۃ اللہ علیہ (جو تابعین میں سے ہیں ) نے اپنی کتاب المصنف میں 9705 نمبر حدیث روایت کی ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرتی تھی ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے حکم پر اُس عورت کو قتل کیا ۔

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”الشفاء“ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ خطمہ کی ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ہجو کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : کون ہے جو میرے لیئے اس کو ٹھکانے لگائے گا ؟ اُس قبیلے کے ہی ایک شخص نے اُس ملعون عورت کو ٹھکانے لگایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : اس کا خون مباح ہے ۔

محترم قارئین : قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم پر فضول بحث کرنے والے افراد کو اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیئے کہ اس معاملہ پر کئی غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ناموس پر بنے ہوئے قانون کی حفاظت کے لیئے مسلمان جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کریں گے ان شاء اللہ ۔ بقول شاعر :

زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں اُن کے نام پر
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا

قارئین محترم کی خدمت میں دعاؤں کی درخواست ہے۔طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...