Tuesday 16 January 2018

یہ سب مولویوں کی کارستانیاں ہیں

0 comments
یہ سب مولویوں کی کارستانیاں ہیں

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے ایک انگریزی دیسی لبرل کا مضمون پڑھا جو کچھ اس طرح تھا : یہ سب مولویوں کی کارستانیاں ہیں ، مولوی بڑے تنگ نظر ہیں ، حالات حاضرہ کا مولویوں کا کیا علم ؟ اگر مولوی ٹھیک ہو جائیں تو ساری دنیا ٹھیک ہو جائے۔ مولوی ضدی ، ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ اسلام اس قدر سخت نہیں جتنا مولویوں نے بنا رکھا ہے۔ اسلام میں نرمی ہی نرمی ہے ، دین میں سختی ہے ہی نہیں ۔

اسی سے ملتی جلتی باتیں ہمارے معاشرے میں خوب گردش کر رہی ہیں۔ ہر محفل مجلس میں ، ہردکان اور مکان میں ، دوستوں کے ساتھ گپ شپ ہو یا کوئی اور فنکشن تقریباً سب جگہ یہی بات دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے ۔ اگر کوئی عالم کسی گناہ کبیرہ کی قرآن و سنت سے سزا کا ذکر کر دے تو فوراً کہا جاتا ہے : ان مولویوں کو تو ہر وقت عذاب کی فکر ہے حالانکہ اللہ غفور الرحیم ذات ہے دین میں اتنی بھی سختی نہیں جتنی مولوی بتاتے ہیں اور ایک آیت کریمہ کا حصہ بھی بے سرے انداز میں پڑھ دیا جاتا ہے لا اکراہ فی الدین ۔

قرآن کریم ہدایت کا سرچشمہ ہے اور اپنے ماننے والوں کی صحیح راہ نمائی بھی کرتاہے۔ اسی سلسلہ میں ایک آیت کریمہ کا حصہ ( لا اکراہ فی الدین) جس میں ارشادہے، کہ دین میں جبرنہیں، اوربعض مفسرین نے نفی کونہی کی معنی میں بیان کیاہے کہ دین کےمعاملے میں جبر نہ کرو۔ اس ارشادربانی کاصحیح مفہوم کیاہے اور اس ارشاد مبارک کے صحیح مفہوم کونہ سمجھنے کی وجہ سے ہمارامعاشرہ بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہو کر بھی مطمئن ہوا بیٹھا ہے ۔

محترم قارئین : اس آیت کریمہ کی وضاحت اور تفسیر و تشریح کرتے ہوئے مفسرین کرام نے جو ارشاد فرمایا ہے ہم آپ کی خدمت میں ترتیب کے ساتھ پہلے اس ارشاد مبارک کاصحیح مفہوم بیان کرتے ہیں پھر اس کے بعد پیدا شدہ غلط فہمیوں کی نشاندہی کے بعد اس کا ازالہ بھی کریں گے ۔
اس ارشاد مبارک کاتقریباً تما م مفسرین نے یہی مفہوم بیان کیا ہے کہ ”دین میں داخل ہونے کے واسطے کسی کے اوپر زبردستی نہیں۔ کسی کو مجبور کرکے اسے اسلام میں داخل نہیں کیاجائے گا ۔

1: امام فخر الدین الرازی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ 604ھ ) لکھتے ہیں: جبر اور اکراہ جائز نہیں اس لیے کہ دنیا دارالامتحان ہے اگرجبر ہو توامتحان کامعنیٰ ہی ختم ہوجاتاہے۔ اس کی نظیر اللہ پاک کا دوسرا ارشاد بھی ہے (جوشخص چاہے ایمان لے آئے جو شخص چاہے کفر اختیار کرے) ۔ (سورۃ الکہف :ص 29، تفسیر کبیر : ج 7 ص 13)

2: قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ ( متوفیٰ 1225ھ ) فرماتے ہیں : جبر اور اکراہ کا تصور ہی ناممکن ہے کیونکہ ایمان کاتعلق دل سے ہوتا ہے ، کہ دل سے ایمان کو قبول کرے۔اور دل پر تو جبر اوراکراہ ہوہی نہیں سکتا۔ دوسری بات کہ جبر کرنے سے منع ہے کیونکہ دنیا میں مقصد امتحان ہے اگر جبر کیاجائے توامتحان کامعنیٰ ختم ہوجاتاہے ۔ (تفسیر مظہری: ج 1 ص 362)


دین (اسلام کے قبول کرنے) میں زبردستی (کا فی نفسہ کوئی موقع) نہیں ۔ (کیونکہ) ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے ۔

محترم قارئین : ان مفسرین کرام کی آراء کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہی ہے کہ دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کسی پر جبر نہیں کیاجائےگا۔ ہرشخص کواختیار حاصل ہے کہ دین اسلام کو قبول کرے یانہ کرے۔ ہاں تبلیغ کرنے اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دینے کا معاملہ بھی اپنی جگہ پر مسلم شدہ ہے۔ لیکن جبر و اکراہ وہاں بھی نہیں ہے ۔

بعض لوگ اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات کودیکھ کر اعتراضات شروع کرتے ہیں۔ کہ اگر دین اسلام میں جبرنہیں اور ہرکسی کو اختیار حاصل ہے توپھر جہاد اورقتال کاحکم کیوں ہے۔؟جس سے لوگوں کوزبردستی مسلمان کیاجاتاہے یااسلام کے احکام اور شرعی حدود، مرتد کی سزا، قتل کی سزا ، چوری کی سزا ، زنا کی سزا وغیرہ یہ کیوں ہیں؟ اس قسم کے شبہات پیش کرکے کہتے ہیں کہ جب اسلام میں جبر نہیں توجہاد و قتال اور شرعی حدود وقصاص کوختم کیاجائے یہ باتیں اس آیت کے خلاف ہیں ۔

حالانکہ اس قسم کی آیات جہاد وقتال کے مخالف نہیں کیونکہ جہاد اورقتال کی تعلیم قبول ایمان پر مجبور کرنے کے لیے نہیں ہے۔ ”ورنہ جزیہ لےکر کفار کواپنی ذمہ داری میں رکھنے اور ان کے جان ومال وآبرو کی حفاظت کرنے کے اسلامی احکام کیسے جاری ہوتے“بلکہ ایسے فساد کودور کرنے کے لیے ہے جس فساد کو برپا کرنے کے لیے کفارمنصوبے گھڑتے رہتے ہیں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ یہ لوگ زمین میں فساد کرتے پھرتےہیں ۔ (سورۃ مائدہ:64)

اس لیئے اللہ تعالیٰ نے جہاد اورقتال کے ذریعے سے ان لوگوں کے فساد کودور کرنے کاحکم دیاہے۔پھر ان کاقتل موذی جانوروں سانپ ، بچھو وغیرہ کی طرح ہے۔ جیسے ان موذی جانوروں سانپ بچھو کو ڈسنے کے بعد قتل کرنا جائز ہے۔ اسی طرح ڈسنے سے پہلے بھی قتل کرنا عین عقل اور دانائی ہے ۔

جس طرح انسان ایمان اورکفر کے قبول کرنے میں خود مختارہے مجبور نہیں اسی طرح تمام اعمال خیراوراعمال شر کے کرنے اورنہ کرنے میں بھی اس کو خود مختاری حاصل ہے مجبورنہیں۔ لیکن اچھے اوربرے افعال پران کے مناسب جزااورسزا کا مرتب ہونا جبر واکراہ کو لازم نہیں۔ مثلاًچور کاہاتھ کاٹاجانا اور زانی محصن کاسنگسار کیاجانا اور خون ناحق کاقصاص لیاجانا۔ یہ تمام تراس کے افعال اختیاریہ کی سزاہے جبر واکراہ نہیں۔ اس شخص نے اپنے اختیار سے چوری اورزنا وغیرہ کا ارتکاب کیا، اس لیے یہ سزا بھگتنی پڑی۔ اسی طرح ارتداد کی سزا؛ سزائے قتل یہ بھی جبر نہیں بلکہ اس کے فعل اختیاری (ارتداد) کی سزاہےکہ وہ دین اسلام کوبدنام کرنے کے لیے اس نے یہ ارتکاب کیااور اسلام کاباغی ہواہے ۔

حیرت ہے کہ قانونی سزائیں تو عین مصلحت اورعین تدبر اورعین سیاست بن جاتی ہیں اورشرعی حدود، قتل مرتد اور رجم زانی وغیرہ یہ سزائیں جبر اور اکراہ قراردی جائیں اوروحشیانہ سزائیں کہلائیں۔ اگرحکومت کے باغیوں کی سزا سزائےقتل ہے توپھر اسلام کے باغیوں کی سزا؛سزائے قتل پر اعتراض کیوں ؟

مجازی حکمران کے باغیوں کاقتل تو عین تہذیب اور عین تمدن کہلاتاہے مگر حقیقی احکم الحاکمین کے باغیوں کے قتل پرناک بھوں چڑھائیں اور اس کو وحشیانہ فعل قراردیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر عجیب بات تویہ ہے کہ اسلام نے اس میں بھی رعایت دی ہے۔ دوسرےلوگ باغیوں کوکوئی رعایت نہیں دیتے۔ گرفتار ہونے کےبعداگر اس پر بغاوت کاجرم ثابت ہوجائے توسزائے موت نافذ کردیتے ہیں وہ ہزار معافی مانگے توبہ کرے کہ آئندہ بغاوت کاجرم نہیں کروں گا اس کی ایک نہیں سنی جاتی اور اس کی معافی ناقابل قبول سمجھی جاتی ہے۔ اسلام میں مرتد(باغی) کی سزاقتل ہے۔ مگر پھربھی رعایت ہےکہ تین دن تک اسے سمجھایاجائےگا کہ توبہ کرلے، معافی مانگ لے تویہ سزاسے بچ جائےگا، پھر بھی اسلام میں مرتد کی سزاہوتو اعتراض ہے لیکن حکومت کےباغی کی سزا بغیر رعایت کے اورہزار معافی کے باجود قتل کردینااس پر دنیا کے کسی مہذب قانون اورکسی مہذب عدالت کوکوئی اعتراض نہیں۔ ایساسلوک کرنا خود عین عقل، اور تہذیب کے خلاف ہے جواسلام کوطعنہ دیاجاتاہے اس سے تو قصور ان کا نکل آتا ہے ۔

کیا ”اسلام“ بھی چھوڑا جاسکتا ہے ؟

اسی طرح ملحدین اور دیسی لبرل کی طرف سے ایک اورسوال بھی کیا جاتا ہے کہ جب دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوسکتے ہیں ۔ تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کرسکتا ؟
عام طورپر ارباب الحاد وکفر اس سوال کو اس رنگ آمیزی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک سیدھا سادہ مسلمان نہ صرف اس سے متاثر ہوتاہے بلکہ سزائے ارتداد کو نعوذ باللہ غیر معقول اور آزادی مذہب کے خلاف سمجھنے لگتاہے اس لیے اس مغالطے کوبھی صاف کرنا ضروری ہے ۔
اگر دنیائے یہودیت وعیسائیت اپنے مذہب کے معاملہ میں تنگ نظر نہ ہوتی توآج دنیا بھر کے مسلمان ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ کیوں ہوتے؟ اس سے ذرا آگے آئیے، انبیائے بنی اسرائیل کا قتل ناحق ان کی اسی تنگ نظری کا اور تشدد پسندی کامنہ بولتا ثبوت ہے کہ ان انبیاءعلیہم السّلام نے پہلے شریعت کی منسوخیت اور نئی شریعت کی دعوت دی توان کا پاکیزہ اورمقدس لہو بہایا گیا ۔ اس کے علاوہ ہمیں بتائیں کہ ان کا کیا جرم تھا ؟ جس جرم کی پاداش میں حضرت یحیٰ علیہ السلام اورحضرت زکریا علیہ السلام کوشہید کر دیا گیا ، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل اور ان کے سولی پرچڑھائے جانے کے کیوں منصوبے بنائےگئے ۔ اس لیئے مسلمانوں کو تنگ نظر کہنے والے پہلے ذرا اپنے دامن کو صاف کریں اورپھر مسلمانوں سے بات کریں ۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ ہدایت کا سلسلہ انبیاءعلیہم السّلام سے شروع ہوا کہ اس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اورانتہاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پرہوئی ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان تمام انبیاء ورسل علیہم السّلام کی شریعتیں ابدی تھیں یاوقتی ۔ اگر ابدی تھیں تو پھر یہودیت اورعیسائیت کیسے وجود میں آئیں ؟
اس سے پہلے تو آدم علیہ السلام اور باقی انبیاء ورسل علیہم السّلام تھے معلوم ہوا کہ ہربعد میں آنے والے نبی ورسول علیہ السّلام کی شریعت نے پہلے رسول کی شریعت کومنسوخ کردیا، یہ سلسلہ چلتا رہا تا آنکہ تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں جن کی ناسخ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم بنی اب قیامت تک اورکوئی نبی اور رسول پیدا نہیں ہوگا اور یہ شریعت باقی رہےگی ۔ تواب اس کو اس مثال سے سمجھنا آسان ہوگا جس طرح حکومت کے قوانین میں کچھ قوانین پہلے کے ہوتے ہیں کچھ بعد کے ۔
پہلے والے ترمیم شدہ (یعنی منسوخ) اور بعدوالے جدید (یعنی ناسخ) اسی طرح پہلی شریعتیں منسوخ ہیں۔ شریعت محمدی ناسخ ہے اب اگر کوئی حکومت کے جدید قانون کی مخالفت کرے تواسے سزادی جاتی ہے ۔ اوراگر کوئی ترمیم شدہ کی مخالفت کر ے تو اسے سزا نہیں دی جاتی ۔ اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس کو سزا کیوں نہیں تو اس کاسوال فضول سمجھاجاتاہے ۔ اسی طرح شریعت محمدی کی مخالفت پر سزا ہے کیونکہ یہ ناسخ ہے اورباقی مذاہب کی مخالفت پرسزا نہیں کیونکہ وہ منسوخ ہیں ، اب اگرکوئی اس پر سوال کرے تواس سوال کوبھی ایسے ہی فضول اور لغو سمجھاجائےگا جیسے حکومت کے ترمیم شدہ قانون کی مخالفت پرسزا نہ ہونے والے سوال کو فضول اورلغو سمجھاجاتاہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔