Monday, 22 January 2018

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ










وَمِنَ الۡاَعْرَابِ مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ ؕ سَیُدْخِلُہُمُ اللہُ فِیۡ رَحْمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾

ترجمہ : اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھیں ہاں ہاں وہ ان کے لیے باعث قرب ہے اللہ جلد انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

وَمِنَ الۡاَعْرَابِ مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ:اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایا گیا کہ کچھ دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا جا رہاہے کہ دیہاتیوں میں بعض حضرات ایسے ہیں جو نیک اور صالح مومن ہیں ، راہِ خدا میں جہاد کرنے والے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو غنیمت تَصَوُّر کرتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے بعض حضرات ایسے ہیں کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں نزدیکیوں اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں کہ جب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں صدقہ پیش کریں گے تو حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے خیرو برکت و مغفرت کی دعا فرمائیں گے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۶/۱۲۶-۱۲۷، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲/۲۷۴،)

اس آیت میں جن دیہاتیوں کا ذکر ہوا ان کے بارے میں امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ قبیلہ مُزَیْنَہ میں سے بنی مُقَرَّنہیں۔ کلبی نے کہا وہ اسلم ،غِفار اور جُہَینہ کے قبیلے ہیں۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲/۲۷۰)

ان قبائل کے بارے میں صحیح بخاری او رمسلم میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ قریش ، انصار ، جُہَینہ ،مُزَیْنَہ ، اسلم ، غفارا ورا شجع کے لوگ ہمارے دوست ہیں ، ان کامولیٰ اللہ اور رسول کے سوا اور کوئی نہیں۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر اسلم وغفار ومزینۃ۔۔۔ الخ، ۲/۴۷۷، الحدیث: ۳۵۱۲، مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم لغفار واسلم، ص۱۳۶۵، الحدیث: ۱۸۹(۲۵۲۰)

آیت ’’مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل : اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ۔

(1) اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت کو ماننے والا وہی ہے جو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے کیونکہ دوسرے گنوار بھی اللہ تعالیٰ اور قیامت کو مانتے تھے مگر انہیں منکرین میں شامل کیا گیا۔

(2) تمام اعمال پر ایمان مقدم ہے ۔یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت پر ایمان میں تمام ایمانیات داخل ہیں لہٰذا قیامت، جنت دوزخ، حشر، نشر سب ہی پر ایمان ضروری ہے ۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وسیلے کے بغیر رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش بیکار ہے : علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ آیت کے اس حصے ’’ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ‘‘ اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں ’’ کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہر نعمت میں سب سے بڑا واسطہ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی عمل کیا جائے ا س میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے، ارشاد فرمایا : قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ ۔ (ال عمران:۳۱)
ترجمہ : اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا ۔
تو جو یہ گمان رکھے کہ وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو واسطہ اور وسیلہ بنائے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی اور بیکار کوشش ہے ۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳/۸۳۱)

معلوم ہوا کہ نیک اعمال میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشنودی کی نیت کرنا شرک نہیں بلکہ قبولیت کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی دعا ئے بارک ساری کائنات سے مُنفرد اور جداگانہ چیز ہے کیونکہ یہاں آیت میں قرب ِ الٰہی کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی دعا کا حصول ایک مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور رضائے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رضا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے بطورِ خاص کوشش کیا کرتے تھے جیسے اَحادیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں زیادہ تر نذرانے اس دن پیش کیا کرتے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے گھر تشریف فرما ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے زیادہ محبت ہے ۔ اسی طرح سرکارِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی ہی کیلئے خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اَزواجِ مُطہّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کیلئے وظائف مقرر کئے ہوئے تھے ۔

صدقہ وصول کرنے والے کے لئے سنت

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک یہی تھا کہ جب آپ کی بارگاہ میں کوئی صدقہ حاضر کرتا تو اس کے لئے خیر وبرکت اور بخشش کی دعا فرماتے ۔اس سے معلوم ہو اکہ صدقہ وصول کرنے والے کیلئے سنت یہ ہے کہ صدقہ دینے والے کو دعائے خیر سے نوازے ۔

اَلَاۤ اِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ : سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہے۔} یعنی بے شک ان کا خرچ کرنا ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اس عمل کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف وسیلہ بنایا عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اطاعت گزار بندوں کو بخشنے والا اور ان پرمہربان ہے ۔ (جلالین مع صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳/۸۳۱۔)

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ

اِس آیت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی نہایت عظمت کا بیان ہے اور وہ یوں کہ ویسے تو ہر نیک عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قرب کا ذریعہ ہے لیکن راہِ خدا میں خرچ کرنا ایسا خاص عمل ہے کہ جس کو بطورِ خاص اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے قرب کا ذریعہ قرآن میں بیان فرمایا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق 3 اَحادیث:

یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق 3 احادیث ملاحظہ ہوں

(1) حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے میں اسے اعلانِ جنگ دیتا ہوں اور میرے کسی بندے کا فرض عبادتوں کے مقابلے میں دوسری عبادتوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہونا مجھے زیادہ پسند نہیں اور میرا بندہ (فرض عبادات کی ادائیگی کے ساتھ) نَوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، حتّٰی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، پھر جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو اسے دیتا ہوں اور اگر میری پناہ لیتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور جو مجھے کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی میں تردد نہیں کرتا جیسے کہ میں اس مومن کی جان نکالنے میں توقف کرتا ہوں جو موت سے گھبراتا ہے اور میں اسے ناخوش کرنا پسند نہیں کرتا ادھر موت بھی اس کے لیے ضروری ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزّوجل والتقرّب الیہ، الفصل الاول، ۱/۴۲۳، الحدیث: ۲۲۶۶۔)

(2) حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں ، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اکیلے ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر گروہ میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت گز بھر اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر ا س کی طرف جاتی ہے ۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذّرکم اللہ نفسہ، ۴/۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵۔)

(3) حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو ایک نیکی کرے اسے دس گنا ثواب ہے اور زیادہ بھی دوں گا اور جو ایک گناہ کرے تو ایک برائی کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے یا (میں چاہوں تو ) اسے بخش دوں اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میری رحمت ایک گز اس کے نزدیک ہوجاتی ہے اورجو مجھ سے ایک گز نزدیک ہو تا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ برابر اس سے قریب ہوجاتی ہے ، جو میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تومیری رحمت اس کی طرف دوڑتی ہوئی آتی ہے، اور جو کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائے پھر زمین بھر گناہ لے کر مجھ سے ملے تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اس سے ملوں گا۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الذکر والدعاء والتقرّب الی اللہ تعالی، ص۱۴۴۳، الحدیث: ۲۲(۲۶۸۷)(ماخوذ تفسیر تبیان القرآن ، تفسیر تطہیر الجنان ، تفسیر نعیمی ، تفسیر ضیاء القرآن ، تفسیر الحسنات ، تفسیر معارف القرآن ، تفسیر قرطبی ، تفسیر المینار ، تفسیر طبری وغیرہ )۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...