Sunday, 21 January 2018

(2) شریعت اسلامیہ میں حلال اور حرام جانوراورپرندے


(2) شریعت اسلامیہ میں حلال اور حرام جانوراورپرندے

وہ جانوراورپرندے ہیں جن کے گندہ ونجس ہونے پرشرعی نص موجود ہے جیسے گدھا,سور , یا جن کی تحدید پرنص موجودہے , جیسے کچلی کے دانت والے درندے , نیچے سے پکڑ کر کھانے والے پرندے یا جنکا پلید و ناپاک ہونا معروف ہے جیسے چوہا ,کیڑے مکوڑے ,یا جن کے مارنے کا شریعت نے حکم دیا ہے : جیسے سانپ , بچھو , یا جن کو مارنے سے منع کیا ہے , جیسے ہدہد اور مینڈک وغیرہ جومرے ہوئے جانور کا بدبو اورجثہ کھاتے ہیں جیسے گدھ یا جوحلال و حرام کے درمیان پیدا ہوئے ہیں جیسے خچرجوکہ مادہ گھوڑی کے ساتہ نرگدھے کی جفتی کرنے سے پیدا ہوتے ہیں ,یا جومردار یا فسق ہیں اوروہ یہ جانور ہیں جن کو ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہویا جنہیں کھانے کی شریعت نے اجازت نہ دی ہو جیسے غصب کیا ہوا اور چرایا ہوا مال ۔

حرام اورحلال جانوروں کی نشانیاں قرآن پاک کی روشنی میں

قرآن پاک میں ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ۔ (البقرة، 2 : 172)
ترجمہ : اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو ۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالْأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔
ترجمہ : تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لیے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہوگئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بے شک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّهُ فَكُلُواْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُواْ اسْمَ اللّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔
ترجمہ : لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں سو تم اس (شکار) میں سے (بھی) کھاؤ جو وہ (شکاری جانور) تمہارے لیے (مار کر) روک رکھیں اور (شکار پر چھوڑتے وقت) اس (شکاری جانور) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے۔

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۔
ترجمہ : آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (الہامی) کتاب دی گئی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکدامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لیے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قید نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (احکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔(المائدۃ، 5 : 3 تا 5)

كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى ۔
ترجمہ : (اور تم سے فرمایا : ) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے اور اس میں حد سے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب واجب ہو جائے گا، اور جس پر میرا غضب واجب ہوگیا سو وہ واقعی ہلاک ہوگیا ۔ (طه، 20 : 81)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

عَنْ أبِي ثَعْلَبَةَ رضی الله عنه أنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی عَنْ أکْلِ کُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ .
ترجمہ : ابو ادریس خولانی نے حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دانتوں سے پھاڑ کر کھانے والے ہر درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔

(بخاری، الصحيح، 5 : 2102، رقم : 5210، دار ابن کثير اليمامة بيروت)(مسلم، الصحيح، 3 : 1533، رقم : 1932، دار احياء التراث العربی بيروت)(أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 194، رقم : 17773، مؤسسة قرطبه مصر)(ابن ماجه، 2 : 1077، رقم : 3232، دار الفکر بيروت)(عبد الرزاق، 4 : 519، رقم : 8704، المکتب الاسلامی بيروت)

عَنْ الزُّهْرِيِّ نَهَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ کُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ.
ترجمہ : امام زہری رضی اللہ عنہ سے روایت کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر پھاڑ کھانے والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔
(بخاری، الصحيح، 5 : 2102، رقم : 5207)

عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ کُلُّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ فَأکْلُهُ حَرَامٌ.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر کچلیوں والے درندے کو کھانا حرام ہے۔
(مسلم، الصحيح، 3 : 1534، رقم : 1933)(وأحمد بن حنبل، 2 : 236، رقم : 722 )(نسائی، السنن، 3 : 158، 4836، دار الکتب العلمية بيروت)(ابن ماجه، السنن، 2 : 1077، رقم : 3233)(مالک، الموطأ، 2 : 496، رقم : 1060، دار احياء التراث العربی مصر)(ابن حبان، الصحيح، 12 : 83، رقم : 5278، مؤسسة الرسالة بيروت)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَهَی رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ کُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ وَعَنْ کُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنْ الطَّيْرِ.
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام کچلیوں والے درندوں اور ناخنوں والے پرندوں کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔
(مسلم، الصحيح، 3 : 1534، رقم : 1934)(أحمد بن حنبل، 1 : 244، رقم : 2192)(أبو داؤد، السنن، 3 : 355، رقم : 3803)(ابن ماجه، السنن، 2 : 1077، رقم : 3234)(ابن حبان، الصحيح، 12 : 84، رقم : 5280)

أنَّ أبَا ثَعْلَبَةَ قَالَ حَرَّمَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لُحُومَ الْحُمُرِ الْأهْلِيَّةِ.
ترجمہ : حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت حرام فرمایا ہے ۔
(بخاری، الصحيح، 5 : 2102، رقم : 5206)(مسلم، الصحيح، 3 : 1538، رقم : 1936)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ نَهَی رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأهْلِيَةِ وَرَخَّصَ فِي الْخَيْلِ.
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے روز پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کی رخصت فرمائی۔
(بخاری، الصحيح، 4 : 1544، رقم : 3982)(مسلم، الصحيح، 3 : 1541، رقم : 1941)

عَنْ أنَسٍ رضی الله عنه قَالَ أنْفَجْنَا أرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَسَعَی الْقَوْمُ فَلَغَبُوا فَأدْرَکْتُهَا فَأخَذْتُهَا فَأتَيْتُ بِهَا أبَا طَلْحَةَ فَذَبَحَهَا وَبَعَثَ بِهَا إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِوَرِکِهَا أوْ فَخِذَيْهَا قَالَ فَخِذَيْهَا لَا شَکَّ فِيهِ فَقَبِلَهُ قُلْتُ وَأکَلَ مِنْهُ قَالَ وَأکَلَ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ بَعْدُ قَبِلَهُ.
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے ایک خرگوش کو مرالظہران کے مقام پر بھگایا۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑتے دوڑتے تھک گئے تو میں نے اسے پکڑ لیا اور لے کر حضرت ابو طلحہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا، انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی سرین یا دونوں رانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں، ان کا بیان ہے کہ کوئی شک نہیں کہ آپ نے انہیں قبول فرما لیا۔ میں عرض گزار ہوا کہ اس میں سے کھایا؟ فرمایا کہ اس میں سے کھایا اور پھر فرمایا کہ اسے قبول فرما لیا تھا۔
(بخاری، الصحيح، 2 : 909، رقم : 2433)(مسلم، الصحيح، 3 : 1547، رقم : 1953)

بہار شریعت میں حضرت علامہ امجد علی اعظمی قادری رحمۃ اللہ علیہ حلال اور حرام جانوروں کے بارے میں بیان فرماتے ہیں : کیلے(1) والا جانور جو کیلے سے شکار کرتا ہو حرام ہے جیسے۔ شیر، گیدڑ، لومڑی، بچھو، کتا وغیرہ کہ ان سب میں کیلے ہوتے ہیں اور شکار بھی کرتے ہیں اونٹ کے کیلا ہوتا ہے مگر وہ شکار نہیں کرتا ہے لہذا وہ اس حکم میں داخل نہیں ہے۔ پنجہ والا پرندہ جو پنجہ سے شکار کرتا ہے وہ حرام ہے جیسے شکرا، باز، بہری (2)، چیل، حشرات الارض حرام ہیں جیسے چوہا، چھپکلی، گرگٹ (3)، گھونس(4)، سانپ، بچھو، بھڑ(5)، مچھر، پسو، کھٹمل، مکھی، کلی ، مینڈک وغیرہ۔ گھریلو گدھا اور خچر حرام ہے اور جنگلی گدھا جسے گورخر کہتے ہیں حلال ہے۔ گھوڑے کے متعلق روائتیں مختلف ہیں یہ آلہ جہاد ہے اس کے کھانے میں تقلیل آلہ جہاد ہوتی ہے لہذا نہ کھایا جائے۔ کچھوا خشکی کا ہو یا پانی کا حرام ہے۔ غراب البقع یعنی کوا جو مردار کھاتا ہے حرام ہے اور مہوکا کہ یہ بھی کوے سے ملتا جلتا ہے ایک جانور ہوتا ہے حلال ہے۔ پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے جو مچھلی پانی میں مر کر تیر گئی یعنی جو بغیر مارے اپنے آپ مر کر پانی کی سطح پر الٹ گئی وہ حرام ہے۔ مچھلی کو مارا اور وہ مر کر الٹی تیرنے لگی یہ حرام نہیں۔ ٹڈی بھی حلال ہے مچھلی اور ٹڈی یہ دونوں بغیر ذبح کیے حلال ہیں۔ جیسا کہ حدیث پاک میں فرمایا کہ دو مردے حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی۔ پانی کی گرمی یا سردی سے مچھلی مر گئی یا مچھلی کو ڈورے میں باندھ کر پانی میں ڈالا اور مر گئی یا جال میں پھنس کر مر گئی یا پانی میں کوئی ایسی چیز ڈال دی جس سے مچھلیاں مر گئیں اور یہ معلوم ہے کہ اس چیز کے ڈالنے سے مریں یا گھڑے میں مچھلی پکڑ کر ڈال دی اور اس میں پانی تھوڑا تھا اس وجہ سے یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے مر گئی ان سب صورتوں میں وہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے ۔
جھینگے کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مچھلی ہے یا نہیں اسی بناء پر اس کی حلت وحرمت میں بھی اختلاف ہے بظاہر اس کی صورت مچھلی کی سی نہیں معلوم ہوتی بلکہ ایک قسم کا کیڑا معلوم ہوتا ہے لہذا اس سے بچنا ہی چاہیے۔ چھوٹی مچھلیاں بغیر شکم چاک کئے بھون لی گئیں ان کا کھانا حلال ہے۔ مچھلی کا پیٹ چاک کیا۔ اس میں موتی نکلا اگر یہ سیپ کے اندر ہے تو مچھلی والا اس کا مالک ہے شکاری نے مچھلی بیچ ڈالی ہے تو وہ موتی مشتری (خریدنے والے) کا ہے اور اگر موتی سیپ میں نہیں ہے تو مشتری شکاری کو دیدے اور یہ لقطہ ہے اور مچھلی کے شکم میں انگوٹھی یا روپیہ یا شرفی یا کوئی زیور ملا تو لقطہ (6) ہے ورنہ تصدیق کر دے۔ بعض گائیں بکریاں غلیظ کھانے لگتی ہیں ان کو جلالہ کہتے ہیں۔ ان کے بدن اور گوشت وغیرہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے ۔
اس کو کئی دن تک باندھ رکھیں کہ نجاست نہ کھائے۔ جب بدبو جاتی رہی ہو ذبح کر کے کھائیں۔ اسی طرح جو مرغی غلیظ کھانے کی عادی ہو اسے چند روز بند رکھیں جب اثر جاتا رہے ذبح کر کے کھائیں جو مرغیاں چھوٹی پھرتی ہیں ان کو بند کرنا ضروری نہیں جب کہ غلیظ کھانے کی عادی نہ ہوں اور ان میں بدبو نہ آئے ہاں بہتر یہ ہے کہ ان کو بھی بند رکھ کر ذبح کریں۔ بکرا جو خصی نہیں ہوتا وہ اکثر پیشاب پینے کا عادی ہوتا ہے اور اس میں ایسی سخت بدبو پیدا ہو جاتی ہے کہ جس راستہ سے گزرتا ہے وہ راستہ کچھ دیر کے لیے بدبودار ہو جاتا ہے اس کا حکم بھی وہی ہے۔ جو جلالہ کا ہے اگر اس کے گوشت سے بدبو دفع ہو گئی تو کھا سکتے ہیں ورنہ مکروہ وممنوع ہے ۔
بکری کے بچہ کو کتیا کا دودھ پلاتا رہا اس کا بھی حکم جلالہ کا ہے کہ چند روز تک اسے باندھ کر چارہ کھلائیں کہ وہ اثر جاتا رہے۔ بکری سے کتے کی شکل کا بچہ پیدا ہوا اگر وہ بھونکتا ہے تو نہ کھایا جائے اگر اس کی آواز بکری کی طرح ہے تو کھایا جا سکتا ہے اور اگر دونوں آوازیں دیتا ہے تو اس کے سامنے پانی رکھا جائے اگر زبان سے چاٹے کتا ہے اور منہ سے پیے تو بکری ہے اور اگر دونوں طرح پئے تو اس کے سامنے گھاس اور گوشت دونوں چیزیں رکھیں گھاس کھائے تو بکری مگر اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے کھایا نہ جائے اور گوشت کھائے تو کتا ہے اور اگر دونوں چیزں کھائے تو اسے ذبح کر کے دیکھیں اس کے پیٹ میں معدہ ہے تو کھا سکتے ہیں اور نہ ہو تو نہ کھائیں ۔
جانور کو ذبح کیا وہ اٹھ کر بھاگا اور پانی میں گر کر مر گیا یا اونچی جگہ سے گر کر مر گیا اس کے کھانے میں حرج نہیں کہ اس کی موت ذبح ہی سے ہوئی پانی میں گرنے یا لڑھکنے کا اعتبار نہیں۔ زندہ جانور سے کوئی ٹکرا جدا کر لیا مثلا دنبہ کی چکی کاٹ لی یا اونٹ کا کوہان کاٹ لیا یا کسی جانور کا پیٹ پھاڑ کر اس کی کلیجی نکال لی یہ ٹکڑا حرام ہے جدا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ گوشت سے جدا ہو گیا اگرچہ ابھی چمڑا لگا ہوا ہو اور اگر گوشت سے اس کا تعلق باقی ہے تو مردار نہیں یعنی اس کے بعد اگر جانور کو ذبح کر لیا تو یہ ٹکڑا ابھی کھایا جا سکتا ہے۔ جانور کو ذبح کر لیا ہے مگر ابھی اس میں حیات باقی ہے اس کا کوئی ٹکڑا کاٹ لیا یہ حرام نہیں کہ ذبح کے بعد اس جانور کا زندوں میں شمار نہیں اگرچہ جب تک جانور ذبح کے بعد ٹھنڈا نہ ہو جائے اس کا کوئی عضو کاٹنا مکروہ ہے۔ شکار پر تیر چلایا اس کا کوئی ٹکڑا کٹ کر جدا ہو گیا اگر وہ ایسا عضو ہے کہ بغیر اس کے جانور زندہ رہ سکتا ہے تو اس کا کھانا حرام ہے اور اگر بغیر اس کے زندہ نہیں رہ سکتا مثلا سر جدا ہو گیا تو سر بھی کھایا جائے گا اور جانور بھی ۔
زندہ مچھلی میں سے ایک ٹکڑا کاٹ لیا یہ حلال ہے اور کاٹنے سے اگر مچھلی پانی میں مر گئی تو وہ بھی حلال ہے۔(بہار شریعت، 15 : 127 سے 129، شیخ غلام علی اینڈ سنز، پبلشرز لاہور۔ حیدر آباد۔ کراچی)

مشکل الفاظ کے معانی

کِیلَا : گوشت خور جانوروں کے وہ بڑے دانت جن کے ذریعے سے وہ گوشت کاٹتے یا شکار پکڑتے ہیں۔ یعنی نوک دار دانتوں والے جانور جو گوشت کھاتے ہیں۔
بَہری : ایک شکاری پرندہ۔
گِرگَٹ : ایک قسم کی چھپکلی جو طرح طرح کے رنگ بدلت ہے۔ کِرلَا۔
گُھونس : بڑا چوہا۔
بھِڑ : ڈہموں۔ دھموڑی۔
لُقطَہ : راستے سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز۔

یہ شرعی مسائل کا سلسلہ ہم نے شروع کیا ہے اہل علم کہیں غلطی پائیں تو برائے کرم بحوالہ آگاہ فرمائیں ان شاء اللہ تصحیح کر دی جائے گا انسان خطاء کا پتلا ہے غلطی ہو سکتی ہے اس غلطی کی اصلاح فرمائیں بجائے اس کے کہ کیچڑ اچھالنا شروع کر دیں جزاکم اللہ خیرا ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...