Friday, 19 January 2018

قیامت کے دن بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اور شفاعت کام آئیں گے

قیامت کے دن بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اور شفاعت کام آئیں گے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دعوت میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بکری کی دستی (یعنی ران) کا گوشت پیش کیا گیا (کیونکہ) یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دستی میں سے (گوشت) کاٹ کاٹ کر تناول فرمانے لگے، اور فرمایا : میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں۔ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سب اگلوں پچھلوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کیوں فرمائے گا! تاکہ دیکھنے والا سب کو دیکھ سکے اور پکارنے والا اپنی آواز (بیک وقت سب کو) سنا سکے اور سورج ان کے بالکل نزدیک آ جائے گا۔ اس وقت بعض لوگ کہیں گے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس حال میں ہو، کس مصیبت میں پھنس گئے ہو؟ سو ایسے شخص کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمہارے رب کے حضور تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ کہیں گے کہ تم سب کے باپ تو حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ پھر وہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : اے سیدنا آدم! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنت میں سکونت بخشی، کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت نہیں فرمائیں گے؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم کس مصیبت میں گرفتار ہیں؟ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے : میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا ہے نہ کبھی بعد میں ہو گا۔ مجھے اس نے ایک درخت (کا میوہ کھانے) سے منع فرمایا تھا، تو مجھ سے اس کے حکم میں (نادانستگی سے) لغزش ہوئی، لہٰذا مجھے اپنی جان کی فکر ہے، تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ۔ تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جائو۔ لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : اے سیدنا نوح! آپ اہلِ زمین کے سب سے پہلے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام عبدًا شکورًا (شکر گزار بندہ) رکھا۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس مصیبت میں گرفتار ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت نہیں فرمائیں گے؟ حضرت نوح علیہ السلام فرمائیں گے : میرے رب نے آج غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ پہلے ایسا اظہار فرمایا تھا اور نہ آئندہ ایسا اظہار فرمائے گا۔ مجھے خود اپنی فکر ہے، مجھے اپنی جان کی پڑی ہے۔ (باقی حدیث مختصر کر کے فرمایا : بالآخر انہیں کہا جائے گا) سو تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں جاؤ۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :) پھر لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں عرش کے نیچے بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کروں گا اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) فرمایا جائے گا : اے محمد مصطفی! اپنا سر اٹھائیں اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ تعالی : إنا أرسلنا نوحا إلی قومه، 3 / 1215، الرقم : 3162، وفي کتاب : التفسير، باب : ذرية من حملنا مع نوح إنه کان عبدا شکورا، 4 / 1745، الرقم : 4435، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 184، الرقم : 194، والترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 622، الرقم : 2434، وقال : هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 435، الرقم : 9621، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 307، الرقم : 31674، وابن منده في الإيمان، 2 / 847، الرقم : 879، وأبو عوانة في المسند، 1 / 147، الرقم : 437، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 379، الرقم : 811، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 239، الرقم : 5510.)

حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک قوم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے جہنم سے نکلے گی، جب وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے تو (وہاں) انہیں جہنمی کے نام سے پکارا جائے گا ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : صفة الجنة والنار، 5 / 2401، الرقم : 6198، وأبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الشفاعة، 4 / 236، الرقم : 4740، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 434، الرقم : 19897، والروياني في المسند، 1 / 109، الرقم : 90، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 405، الرقم : 841، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 137، الرقم : 287، والبزار في المسند، 9 / 60، الرقم : 3585، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 194.)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا، یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا، لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : مَنْ سأل الناس تَکَثُّرًا، 2 / 536، الرقم : 1405، وابن منده في الإيمان، 2 / 854، الرقم : 884، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 30، الرقم : 8725، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 269، الرقم : 3509، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 377، الرقم : 3677، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371، ووثّقه.)

حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور (اپنے نبی سے) عرض کرے گی : اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے۔ یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : عسی أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4 / 1748، الرقم : 4441، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 381، الرقم : 295، وابن منده في الإيمان، 2 / 871، الرقم : 927.)

حضرت ابوہریرہ اور حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جمع فرمائے گا تو مؤمنین کے کھڑے ہونے پر جنت ان کے قریب کر دی جائے گی، پھر وہ حضرت آدم ں کے پاس جا کر عرض کریں گے : اے ہمارے ابا جان! ہمارے لئے جنت کا دروازہ کھلوائیے۔ وہ فرمائیں گے : تمہارے باپ کی ایک لغزش نے ہی تم کو جنت سے نکالا تھا۔ میرا یہ منصب نہیں، میرے بیٹے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اﷲ تعالیٰ کے خلیل ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو) حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے، میرے خلیل ہونے کا مقام، مقامِ شفاعت سے بہت پیچھے ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ جنہیں اﷲتعالیٰ نے شرفِ کلام سے نوازا ہے، پھر لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے تو وہ فرمائیں گے کہ میرا یہ منصب نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اﷲ تعالیٰ کے کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی راہنمائی سے) پھر وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (شفاعت کے لئے) قیام فرما ہوں گے اور آپ کو شفاعت کا اذن دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں امانت اور رحم کو چھوڑ دیا جائے گا اور وہ دونوں پل صراط کے دائیں بائیں کھڑے ہو جائیں گے۔ (فرمایا کہ پھر میری شفاعت سے حساب کتاب شروع ہونے کے بعد) تم میں سے پہلا شخص پل صراط سے بجلی کی طرح گزرے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! بجلی کی طرح کون سی چیز گزرتی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے بجلی کی طرف نہیں دیکھاکہ کس طرح گزرتی ہے اور پلک جھپکنے سے پہلے لوٹ آتی ہے۔ پھر لوگ پل صراط سے آندھی کی طرح گزریں گے، اس کے بعد پرندوں کی رفتار سے اور اس کے بعد آدمیوں کے دوڑنے کی رفتار سے گزریں گے۔ ہر شخص کی رفتار اس کے اعمال کے مطابق ہو گی اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پل صراط پر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہوں گے : ’’اے رب! ان کو سلامتی سے گذار دے، انہیں سلامتی سے گزار دے۔‘‘ پھر ایک وقت وہ آئے گا کہ بندوں کے اعمال انہیں عاجز کر دیں گے اور لوگوں میں چلنے کی طاقت نہیں ہو گی اور وہ لوگ خود کو گھسیٹتے ہوئے پل صراط سے گزریں گے۔ پل صراط کے دونوں جانب لوہے کے کانٹے لٹکے ہوں گے اور جس شخص کے بارے میں حکم ہو گا وہ اسے پکڑ لیں گے۔ بعض ان کی وجہ سے زخمی حالت میں نجات پا جائیں گے اور بعض ان سے الجھ کر دوزخ میں گر جائیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدني أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 187، الرقم : 195، والحاکم في المستدرک، 4 / 631، الرقم : 8749، وأبو يعلی في المسند، 11 / 81، الرقم : 6216، والبزار في المسند، 7 / 260، الرقم : 2840، وابن منده في الإيمان، 2 / 753، الرقم : 883، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 231، الرقم : 5493.)

حضرت یزید فقیر بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ حج کرنے کے لئے نکلے ہمارا گزر مدینہ منورہ سے ہوا تو دیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما ایک ستون کے پاس بیٹھے لوگوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان فرما رہے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اچانک انہوں نے جہنمی (ایک طبقہ جسے اﷲ تعالیٰ دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل فرمائے گا) کا ذکر کیا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے صحابی رسول! آپ یہ کیا بیان کر رہے ہیں؟ اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے : ’’بیشک تو جسے دوزخ میں ڈال دے تو تُو نے اسے واقعۃً رسوا کر دیا۔‘‘ اور ایک مقام پر ہے : ’’(دوزخی) جب بھی اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے۔‘‘ آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا : کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا : ہاں! انہوں نے فرمایا : کیا تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام (محمود) کے متعلق پڑھا ہے، جس پر اﷲ تعالیٰ انہیں فائز فرمائے گا؟ میں نے کہا : ہاں! فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقامِ محمود ایسا مقام ہے جس پر فائز ہونے کے سبب اﷲ تعالیٰ جس کو چاہے گا جہنم سے نکال لے گا۔‘‘ اسے امام مسلم، ابو عوانہ اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 179، الرقم : 191، وأبو عوانة في المسند، 1 / 154، الرقم : 448، وابن منده في الإيمان، 2 / 829، الرقم : 858، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 1 / 264، الرقم : 476، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 289، الرقم : 315، وفي الاعتقاد، 1 / 195، والمزي في تهذيب الکمال، 24 / 510، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 272، الرقم : 567.)

حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ضرور میری شفاعت کے سبب جہنم سے نکلے گی، پس انہیں (جنت میں) جہنمی کے نام سے پکارا جائے گا ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة جهنم عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء أن للنار نفسين وما ذکر من يخرج من النار من أهل التوحيد، 4 / 715، الرقم : 2600، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1443، الرقم : 4315، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 137، الرقم : 287، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 429.)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار امتیوں کو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار مزید ہوں گے اور تین مٹھی میرے رب کی مٹھیوں میں سے (مزید ہوں گی) ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : منه (12)، 4 / 626، الرقم : 2437، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : صفة أمة محمد صلی الله عليه وآله وسلم، 2 / 1433، الرقم : 4286، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 268، الرقم : 22357، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 315، الرقم : 31714، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 110، الرقم : 7520، والمقدسي في فضائل الأعمال، 1 / 148، الرقم : 652، وقال : حديث حسن.)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں روزِ قیامت (تمام) اولادِ آدم کا قائد ہوں گا اور مجھے (اس پر) کوئی فخر نہیں، حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور مجھے (اس پر) کوئی فخر نہیں۔ حضرت آدم اور دیگر تمام انبیاء کرام اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور مجھے (اس پر) کوئی فخر نہیں اور میں پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی اور مجھے (اس پر) کوئی فخر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ تین بار خوفزدہ ہوں گے پھر وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے۔ پھر مکمل حدیث بیان کی یہاں تک کہ فرمایا : پھر لوگ میرے پاس آئیں گے (اور) میں ان کے ساتھ (ان کی شفاعت کے لئے) چلوں گا۔ ابن جدعان (راوی) کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : گویا کہ میں اب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جنت کے دروازے کی زنجیر کھٹکھٹاؤں گا، پوچھا جائے گا : کون؟ جواب دیا جائے گا : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چنانچہ وہ مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے میرے لیے دروازہ کھولیں گے۔ میں (بارگاہِ الٰہی میں) سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثناء کا کچھ حصہ الہام فرمائے گا۔ مجھے کہا جائے گا : سر اٹھائیے، مانگیں عطا کیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، قبول کی جائے گی، اور کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) یہی وہ مقام محمود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
( أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة بني إسرائيل، 5 / 308، الرقم : 3148، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1440، الرقم : 4308، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 2، الرقم : 11000، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 788، الرقم : 1455، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 238، الرقم : 5509.)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) آپ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں میں ہی ایسا کرنے والا ہوں، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! (اس دن) میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا، میں نے عرض کیا : اگر آپ وہاں نہ ملیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میزان کے پاس ڈھونڈنا، میں نے عرض کیا : اگر وہاں بھی نہ ملیں تو کہاں تلاش کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم مجھ کو حوضِ کوثر پر تلاش کرنا کیونکہ ان تین جگہوں میں سے ہی کسی جگہ پر میں ہوں گا ۔ اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور بخاری نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔ امام احمد کی سند کے رجال بھی صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في شأن الصراط، 4 / 621، الرقم : 2433، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 178، الرقم : 12825، ورجاله رجال الصحيح، والبخاري في التاريخ الکبير، 8 / 453، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 246. 248، الرقم : 2691. 2694، وإسناده صحيح، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 230، الرقم : 5486، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 9 / 360. 361، والمزي في تهذيب الکمال، 5 / 537، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 2 / 198، الرقم : 418.)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا.‘‘ کے بارے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ مقامِ شفاعت ہے ۔ اسے امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔
(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : من سورة بني إسرائيل، 5 / 303، الرقم : 3137، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 426، والطبري في جامع البيان، 15 / 145، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 59، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 309.)

حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جب اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا اور حساب کتاب کے فیصلہ سے فارغ ہو جائے گا تو مؤمن عرض کریں گے : ہمارے رب نے ہمارے درمیان فیصلہ فرما دیا سو اب کون ہمارے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کرے گا؟ وہ (آپس میں مشورہ کر کے) کہیں گے : حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلو، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور ان کے ساتھ گفتگو فرمائی تو وہ ان کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے : اٹھیے اور اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے۔ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے : تم لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ پس وہ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ وہ انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جانے کا کہیں گے۔ پس وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے تو وہ انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں نبی امی (محمد مصطفی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کے لئے تمہاری رہنمائی کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر وہ لوگ میرے پاس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ مجھے اپنے حضور کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرمائے گا، میری نشست سے ایسی خوشبو پھیلے گی کہ اس جیسی مہک کو کسی نے کبھی نہیں سونگھا ہو گا۔ یہاں تک کہ میں اپنے رب کے حضور آؤں گا تو وہ مجھے حقِ شفاعت عطا فرمائے گا اور مجھے سر کے بالوں سے لے کر قدموں کے ناخن تک سراپائے نور بنا دے گا۔ اس پر کافر ابلیس مردود سے کہیں گے : ایمان والوں نے ایسی ہستی کو پا لیا ہے جو ان کی شفاعت کرے گی پس تو کھڑا ہو اور اپنے رب سے ہماری شفاعت کر کیونکہ تو نے ہی ہمیں گمراہ کیا۔ راوی فرماتے ہیں : وہ کھڑا ہو گا تو اس کی نشست سے اتنی سخت بدبو پھیلے گی کہ کسی نے اس جیسی بدبو کبھی نہ سونگھی ہو گی، پھر وہ عذابِ جہنم کے لئے بڑا ہو جائے گا تو اس وقت وہ کہے گا (آیت کریمہ) : ’’اور شیطان کہے گا جبکہ فیصلہ ہو چکا ہو گا بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے (بھی) تم سے وعدہ کیا تھا سو میںنے تم سے وعدہ خلافی کی ہے ۔
(أخرجه الدارمي في السنن، 2 / 421، الرقم : 2804، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 320، الرقم : 887، وابن المبارک في المسند، 1 / 63، الرقم : 102، وفي الزهد، 1 / 111، الرقم : 374، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 453، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 376، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 530.)

حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ رضی اﷲ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (سفر کے دوران) جب کسی منزل پر پڑاؤ ڈالتے تو مہاجرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد (کیمپ) ڈال لیتے. فرماتے ہیں کہ (اسی طرح کسی سفر کے دوران) ہم ایک جگہ پر اترے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد تھے۔ فرماتے ہیں کہ پس میں اور حضرت معاذ رات کو نیند سے بیدار ہوئے تو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جگہ پر نہ پا کر) ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے پس ہم نے بادلوں کی گڑگڑاہٹ جیسی آواز سنی، اس اثناء میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : تمہارا کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا : ہم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کو اپنی جگہ پر نہ پا کر ہم ڈر گئے کہ آپ کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آیا ہے لہٰذا ہم آپ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک آنے والا حالت نیند میں میرے پاس آیا تو اس نے مجھے میری آدھی اُمت کے بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کئے جانے یا شفاعت کرنے کا اختیار دیا؟ تو میں نے ان کے لیے شفاعت کو اختیار کر لیا، (راوی بیان کرتے ہیں) تو ہم نے عرض کیا : بے شک ہم آپ سے اسلام کے حق ہونے اور آپ کے ساتھ صحابیت کا شرف پانے کے وسیلہ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ ہمیں جنت میں داخل فرمائیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہماری طرح عرض کیا اور لوگ بڑھتے گئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اپنی شفاعت ہر اس شخص کے لیے کروں گا جو اس حال میں فوت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو ۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 232، الرقم : 22028، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 163، الرقم : 343، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 368.)

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک سفر کے دوران) فرمایا : میرے رب کی طرف سے آنے والا (ایک فرشتہ) رات کو میرے پاس آیا تو اس نے مجھے میری آدھی امت کے بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل کئے جانے اور حقِ شفاعت دونوں میں سے ایک کو چننے کا اختیار دیا؟ تو میں نے شفاعت کو اختیار کر لیا۔ ہم نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) ہم آپ سے اﷲ تعالیٰ کے اور شرف صحابیت کے واسطہ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی شفاعت سے نوازیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک تم میری شفاعت کے حق دار ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم جلدی سے (دوسرے ) لوگوں کی طرف آئے تو وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پا کر پریشان تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان سے بھی) فرمایا : میرے رب کی طرف سے آنے والے (ایک فرشتہ) نے رات کو میرے پاس آ کر مجھے اپنی آدھی اُمت کے (بغیر حساب کے) جنت میں داخل کیے جانے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ تو میں نے شفاعت کو اختیار کر لیا۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہم آپ سے اﷲ تعالیٰ اور شرف صحابیت کے واسطہ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ ہمیں بھی اپنی شفاعت کا حقدار بنائیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لو میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ بے شک میری شفاعت میری اُمت کے ہر اس فرد کے لیے ہوگی جو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو گا ۔ اس کی اسناد صحیح، رجال ثقات اور بخاری و مسلم کے رجال ہیں ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 28. 29، الرقم : 24002، وابن حبان في الصحيح، 14 / 388، الرقم : 6470، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 320، الرقم : 31751، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 73، الرقم : 134، والطيالسي في المسند، 1 / 134، الرقم، 998، والروياني في المسند، 1 / 391، الرقم : 597، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 389، الرقم : 818، إسناده صحيح، رجاله کلهم ثقات علی شرط الشيخين.)

بنو مخزوم کے مولی زیاد بن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خادم مرد یا عورت سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خادم سے فرمایا کرتے تھے : کیا تمہیں کوئی حاجت درپیش ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہاں تک کہ ایک روز اس خادم نے عرض کیا : یارسول اللہ! مجھے ایک حاجت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بتاؤ تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا : میری حاجت یہ ہے کہ آپ روزِ قیامت میری شفاعت فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس نے تمہاری اس بات کی طرف رہنمائی کی ہے؟ اس نے عرض کیا : میرے رب نے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں! پس تو کثرتِ سجود سے میری مدد کر ۔ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 500، الرقم : 16120، إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الشيخين، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 249، والسيوطي في الجامع الصغير، 1 / 237، الرقم : 397.)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں روزِ قیامت مقامِ محمود پر کھڑا ہوں گا، پس ایک انصاری نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) مقام محمود سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس دن تمہیں بغیر لباس، بغیر جوتے اور غیرمختون اکٹھا کیا جائے گا، پس اس دن سب سے پہلے جسے لباس پہنایا جائے گا، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرمائے گا : (اے فرشتو!) میرے خلیل کو لباس پہناؤ۔ پس دو سفید ملائم کپڑے لائے جائیں گے، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں زیب تن فرمائیں گے، پھر وہ عرش کی جانب رخ کر کے تشریف فرما ہوں گے۔ ان کے بعد مجھے لباس لا کر دیا جائے گا، تو میں اسے پہنوں گا۔ پھر میں عرش کے دائیں جانب ایسے مقامِ ارفع پر کھڑا ہوں گا، جہاں میرے سوا کوئی اور نہیں ہو گا، مجھ پر اولین و آخرین رشک کریں گے ۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔
( أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 398، الرقم : 3787، 3777، والدارمي في السنن، 2 / 233، الرقم : 2802، والحاکم في المستدرک، 2 / 396، الرقم : 3385، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 238، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 80، الرقم : 10017، وابن أبي عاصم في الأوائل، 1 / 106، الرقم : 67، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 362، والطبري في جامع البيان، 15 / 146، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 58، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 426.)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘ کے بارے فرمایا : یہ وہ مقام ہے جس میں، میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 441، الرقم : 9684، 2 / 528، الرقم : 10851، وابن المبارک في الزهد، 1 / 463، الرقم : 1312، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1 / 6، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 312، والطبري في جامع البيان، 15 / 146، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 59، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 8 / 454، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 270، الرقم : 558.)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں پل صراط پر کھڑا اپنی امت کا اسے عبور کرتے ہوئے انتظار کر رہا ہوں گا کہ اس اثناء میں میرے پاس حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لا کر کہیں گے : یا محمد مصطفی! یہ انبیاء آپ کے پاس التجا لے کر آئے ہیں یا آپ کے پاس اکھٹے ہیں (راوی کو الفاظ میں شک ہے) اور اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں : تمام گروہوں کو وہ اپنی منشاء کے مطابق الگ کر دے تاکہ انہیں پریشانی سے نجات مل جائے۔ اس دن ساری مخلوق پسینے میں ڈوبی ہو گی، مومن پر اس کا اثر ایسے ہو گا جیسے زکام میں (ہلکا پُھلکا پسینہ آتا ہے) اور جو کافر ہو گا اس پر جیسے موت وارد ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس میں حضرت عیسیٰ سے کہوں گا : ذرا ٹھہرئیے جب تک کہ میں آپ کے پاس لوٹوں۔ راوی کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جائیں گے یہاں تک کہ عرش کے نیچے کھڑے ہوں گے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ شرف باریابی حاصل ہو گا جو کسی برگزیدہ فرشتہ کو حاصل ہوا نہ ہے کسی نبی مرسل کو۔ پھر اللہ تعالیٰ جبریلں کو وحی فرمائے گا : (میرے محبوب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر کہو : (یا رسول اللہ!) اپنا سر اٹھائیں، مانگیں کہ آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کریں کہ آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس امت کے حق میں میری شفاعت قبول کی جائے گی کہ ہر میں 99 لوگوں میں سے ایک کو نکالتا جاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں بار بار اپنے رب کے حضور جائوں گا اور جب بھی اس کے حضور کھڑا ہوں گا میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے شفاعت کا مکمل اختیار عطا کر کے فرمائے گا : اے محمد مصطفی! اپنی امت اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ہر اس شخص کو بھی جنت میں داخل کر دیں جس نے ایک دن بھی اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی پر اس کو موت آئی ہو ۔ اس حدیث کو امام احمد اور مقدسی نے صحیح رجال کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا کہ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح حدیث میں حجت ہیں۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 178، الرقم : 12824، ورجاله رجال الصحيح، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 249، الرقم : 2695، وإسناده صحيح، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 235، الرقم : 5503، وقال : رواته محتج بھم في الصيح، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 373، وقال : رجاله رجال الصحيح.)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان میں سے ایک قوم کو عذاب میں مبتلا کرے گا، پھر انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے نکالے گا حتی کہ جہنم میں (مؤمنین میں سے) کوئی بھی باقی نہ رہے گا مگر جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’(اور کہیں گے : ) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئیo وہ کہیں گے : ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھےo‘‘ یہاں تک فرمایا۔۔۔ ’’سو (اب) شفاعت کرنے والوں کی شفاعت انہیں کوئی نفع نہیں پہنچائے گی ۔(أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد للإمام أبي حنيفة، 1 / 166.)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘ کے بارے میں فرمایا : مقامِ محمود شفاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں میں سے ایک قوم کو ان کے گناہوں کے باعث عذاب دے گا، پھر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے انہیں (جہنم) سے نکال کر ایسی نہر کے پاس لایا جائے گا جسے حیات بخش کہا جاتا ہے۔ پس وہ اس میں غسل کریں گے اور پھر جنت میں داخل ہوں جائیں گے، انہیں (جنت میں) جہنمی کہہ کر پکارا جائے گا۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے (اس نام کے خاتمہ کا) مطالبہ کریں گے تو وہ اس نام کو ان سے ختم کر دے گا ۔(أخرجه الخوارزمي في جامع المسانيد للإمام أبي حنيفة، 1 / 148.)

حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کچھ اور زیادہ کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر امتی کے ساتھ ستر ہزار امتی ہوں گے۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کچھ اور زیادہ کیجئے اور (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ٹیلہ پر تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور اتنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر اشارہ کیا، صحابہ نے پھر عرض کیا : حضور کچھ اور زیادہ کیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنے دونوں ہاتھ مبارک پھیلا کر فرمایا اور اتنا اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ پھر تو اس شخص کو دور ہی رکھے جو اس کے باوجود جہنم میں جائے گا ۔ امام ابو یعلی اور مقدسی نے اسنادِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ اسناد جید اور اس کے تمام رجال ثقات ہیں ۔
(أخرجه أبو يعلی في المسند، 6 / 417، الرقم : 3783، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 / 54، الرقم : 2028، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 404، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 395.)

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سورج کو دس سال کی گرمی دی جائے گی پھر وہ لوگوں کے گروہوں سے قریب کیا جائے گا، (انہوں نے پوری حدیث ذکر کی پھر) فرماتے ہیں کہ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : اے اﷲ کے نبی! آپ ہی وہ ذات ہیں جسے اﷲ تعالیٰ نے فتح عطا کی اور آپ کی خاطر آپ (کی امت) کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہوں کو بخش دیا ہے۔ آپ ہماری حالت مشاہدہ فرما رہے ہیں لہٰذا آپ ہی ہمارے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے : میں تمہارا خیر خواہ ہوں تو آپ لوگوں کو جمع کرتے ہوئے جنت کے دروازے تک پہنچ جائیں گے، پس آپ سونے کے دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹائیں گے تو پوچھا جائے گا : کون ہے؟ فرمایا جائے گا : محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اسے کھول دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : اپنا سر اٹھائیے، سوال کیجئے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، پس یہی مقام محمود ہے ۔ امام طبرانی نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 308، الرقم : 31675، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 247، الرقم : 6117، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 384، الرقم : 813، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 235، الرقم : 5502، وقال : رواه الطبراني بإسناد صحيح، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 372، وقال : رجاله رجال الصحيح، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 554.)

حضرت مصعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے ایک غلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میں آپ کی بارگاہ میں سوالی بن کر حاضر ہوا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا سوال ہے؟ اس نے عرض کیا : میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما لیں جن کی آپ یومِ قیامت شفاعت فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس نے تمہیں ایسا کرنے کو کہا ہے؟ یا (فرمایا) کس نے تمہیں یہ سکھلایا ہے؟ یا (فرمایا) کس نے تمہاری اس بات کی طرف رہنمائی کی ہے؟ اس نے عرض کیا : صرف میرے دل نے مجھے ایسا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو بے شک تو ان لوگوں میں سے ہیں جن کی روزِ قیامت میں شفاعت کروں گا تو وہ غلام (خوشی کے عالم میں) کندھے اچک کر جانے لگا کہ اپنے گھر والوں کو یہ خبر سنائے، پس جب وہ مڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس غلام کو میرے پاس واپس لاؤ، جب وہ اسے واپس لائے اس حال میں کہ وہ غمگین اور ڈر رہا تھا کہ شاید (حکم میں) کچھ ترمیم ہو چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے لئے کثرتِ سجود کے ذریعہ میری مدد کر ۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 365، الرقم : 851، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 369، وقال : رجاله رجال الصحيح، والعسقلاني في الإصابة، 6 / 125، الرقم : 8010.)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...