عالم دین کسے کہتے ہیں علم اور علماء کے فضائل
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی پیارے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی بھولی بھالی امت کی خدمت میں عرض گذار ہے آج کے دور کا ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص داڑھی رکھ کر اپنے نام کے ساتھ عالم لگا لے یا دین کے نام پر ہمیں اکسا دے تو ہم اندھوں کی طرح اس کی پیروی شروع کر دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے آیا یہ بندہ صاحب علم ہے کہ نہیں ، یہ عالم کہلانے کے لائق بھی ہے یا اس میں عالم کے اوصاف و تعلیم ہے کہ نہیں آیئے اس موضوع پر مختصر تحریر پڑھتے ہیں ۔
علم، اللہ سبحانہ و تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔ یہ ان انعامات الٰہیہ میں سے ہے جن کی بنا پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اُس میں اُن کی تعلیم سے ابتدا کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطورِ احسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا : اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)
دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: "علماء، انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام دینار اور درہم کا ورثہ نہیں چھوڑتے بلکہ انہوں نے علم کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پس جس شخص نے اس سے (علم) حاصل کیا اس نے بڑا حصہ لے لیا ۔
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عالم دین وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالی کی ذات اور صفات کا علم ہو ۔
اور اس کو علم ہو کہ کن چیزوں سے اللہ تعالی کی تنزیہ واجب ہے ۔ اسی طرح اس کو انبیاء علیھم السلام اور ان کے مراتب اور ان کی صفات کا علم ہو ۔ اور اس کو علم ہو کہ مکلف پر کیا چیزیں فرض ہیں اور کیا چیزیں واجب ہیں ۔ اور اس کو سنن اور مستحبات اور مباحات کا علم ہو ۔ اس کو معلوم ہو کیا چیزیں حرام ہیں اور کیا مکروہ تحریمی اور کیا مکروہ تنزیہی ہیں اور کیا خلاف ِ اولی ہیں ۔ اور وہ علم کلام اور عقائد ،علم تفسیر ،علم حدیث اور علم فقہ و اصول فقہ پر عبور رکھتا ہو ۔
علم صرف ،علم نحو ،علم معانی اور علم بیان کا ماہر ہو
اور وہ بہ قدر ضرورت مفرادات لغت کا حافظ ہو
اور اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ اس سے دین کے جس مسئلہ کا بھی سوال کیا جائے وہ اس کا جواب دے سکے ،خواہ وہ جواب اس کو مستحضر ہو یا وہ کتب متعلقہ سے از خود اس کو تلاش کر سکے ۔
اور جو شخص ان صفات کا حامل نہیں ہے ،وہ عالم دین کہلانے کا مستحق نہیں ہیں
کیونکہ اگر اس کو صرف اور نحو پر عبور نہیں ہے تووہ احادیث کی عربی عبارت صحیح نہیں پڑھ سکتا اور اگر عبارت غلط پڑھے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس قول کو منسوب کرے گا ، جو آپ نے نہیں فرمایا ۔ اور اگر وہ بہ قدر ضرورت مفرادات لغت کا حافظ نہیں ہے اور علم معانی اور بیان پر دسترس نہیں رکھتا ،تو وہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث کا صحیح ترجمہ نہیں کر سکتا ۔ اور اگر اس کو علم کلام اور علم تفسیر اور حدیث پر عبور نہیں ہے ،تو وہ عقائد کو صحیح بیان نہیں کر سکتا ہے،اور نہ صحیح عقائد پر دلائل قائم کر سکتا ہے ،اور نہ باطل فرقوں کا رد کر سکتا ہے ۔
اور اگر فقہ پر عبور نہیں ہے ،تو وہ حلال اور حرام کے احکام کو جان سکتا ہے نہ بیان کر سکتا ہے ۔
سو ایسا شخص عالم دین کس طرح ہو گا ،اور اس پر عالم دین کا اطلاق کرنا جائز نہیں ہے ۔ (تفسیر تیبان القرآن ،ج٩،ص ٨٤)
کثیر بن قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا: "اے ابو الدرداء! میں تیرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر (مدینہ منورہ) سے ایک حدیث (سننے) کیلئے آیا ہوں۔ میں کسی دوسرے کام سے نہیں آیا بلکہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ آپ فرمارہے تھے کہ "جو علم طلب کرنے کی راہ پر چلا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی راہ پر چلائے گا۔ اور فرشتے اپنے پروں کو طالبِ علم کی خوشنودی کیلئے بچھاتے ہیں۔ اور عالم کیلئے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں اور عالمِ کو عابد (عبادت گزار) پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسا کہ چودھویں رات کے چاند کو تمام ستاروں پر فضیلت ہے، علماء، انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام دینار اور درہم کا ورثہ نہیں چھوڑتے بلکہ انہوں نے علم کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پس جس شخص نے اس سے (علم) حاصل کیا اس نے بڑا حصہ لے لیا۔(مسند احمد، ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ، دارمی، جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے "کثیر بن قیس" کی جگہ "قیس بن کثیر" ذکر کیا ہے)
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو اشخاص کا تذکرہ کیا گیا۔ ان میں ایک عابد اور دوسرا عالم تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عالم کی عابد پر (اس طرح) فضیلت ہے جس طرح تم میں سے ادنیٰ درجے کے مسلمان پر میری فضیلت ہے۔" (پھر فرمایا) "بلاشبہ اللہ تعالی، اُس کے فرشتے، آسمانوں اور زمین میں رہنے والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی (سمندر میں) بھی اس شخص کیلئے دعائیں کرتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔(ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص علم کی تلاش میں نکلا، وہ واپس آنے تک اللہ کے راستے میں ہے۔(ترمذی، دارمی)
حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مومن علم (کی باتیں) سننے سے سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔(ترمذی)
حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تر و تازہ رکھے جس نے میری بات کو سنا، اس کو محفوظ کیا، اس کو یاد رکھا اور اس کو (لوگوں تک) پہنچایا۔ پس ایسے لوگ بہت ہیں جو علم کے حامل تو ہیں لیکن فقیہہ نہیں ہیں (یعنی استنباط کا ملکہ نہیں رکھتے) اور ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو علم ایسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہہ ہوتے ہیں۔ تین خصلتیں ایسی ہیں جنہیں مومن کا دل ترک نہیں کرتا بلکہ انہیں اپناتا ہے۔ اللہ کی رضا کیلئے خالص عمل کرنا، مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ منسلک رہنا کیونکہ اُن کی دعا اس کو چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہے۔(بیہقی ۔ نیز احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے اس حدیث کو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے جبکہ ترمذی و ابو داؤد نے "تین خصلتیں" سے حدیث کے آخر تک کے الفاظ ذکر نہیں کیے)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سفید ریش (عمر رسیدہ) مسلمان، حامل قرآن (حافظ و عالم) جو افراط و تفریط سے محفوظ ہو (یعنی غلو کرنے والا ہو نہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کوتاہی برتنے والا ہو) اور عادل و منصف بادشاہ کی تکریم کرنا اللہ تعالیٰ کی عزت کرنے کے ہم معنی ہے ۔ (ابو داؤد۔ حدیث حسن ہے)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عینیہ بن حصن مدینہ آئے تو اپنے بھتیجے حر بن قیس کے ہاں ٹھہرے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت عمر اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے اور حضرت عمر کے ہم نشین اور ان کی مجلس مشاورت میں قراء حضرات شامل تھے، خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ عینیہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: "میرے بھتیجے! آپ کو اس امیر کے ہاں خاص مقام حاصل ہے مجھے اس سے ملنے کی اجازت لے دیں۔ پس انہوں نے اس (عینیہ) کے لیے اجازت طلب کی تو حضرت عمر نے انہیں اجازت دے دی۔ پس جب وہ ان کے پاس گئے تو کہا: "افسوس! اے ابن خطاب! اللہ کی قسم! آپ ہمیں زیادہ عطیے دیتے ہیں نہ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں۔ حضرت عمر غضبناک ہوگئے حتیٰ کہ انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا تو حر بن قیس نے کہا: "اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے : ''خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ"("عفو و درگزر اختیار کریں، نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے اعراض فرمائیں" الاعراف:199)
اور یہ عینیہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔" (حضرت ابنِ عباس کہتے ہیں) اللہ کی قسم! جب انہوں نے یہ آیت تلاوت کی تو حضرت عمر نے اس سے تجاوز نہیں کیا اور وہ اللہ کی کتاب کے حکم پر ٹھہر جانے والے تھے۔ (یعنی اپنے رائے، قیاس یا غصے پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دینے والے تھے)
جس علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے، اُس سے کون سا علم مراد ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: "علم تین (قسم کا) ہے۔ (قرآنِ کریم کی) آیتِ محکم، یا سنتِ ثابتہ، یا فریضۂ عادلہ۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ زیادہ ہے" (یعنی اتنا ضروری ہے اور اس کے بعد جو حاصل ہوجائے ٹھیک ۔ نہ ہو تو اُس پر موأخذہ نہیں)۔(ابنِ ماجہ، مستدرک حاکم، جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر)
حافظ ابن حجر علیہ رحمۃُ اللہ لکھتے ہیں : ترجمہ: "اور علم (جس کی فضیلت بیان کی گئی ہے) سے مراد وہ شرعی علم ہے جس سے ان امور کی آگاہی میں مدد ملے جن کا انسان عبادات اور معاملات میں مکلف ہے"۔ پس علم کی جو فضیلت اور عالم کے جو فضائل بیان کیے گئے ہیں، وہ شریعت سے متعلق علوم ہی کے بارے میں ہیں۔
(فتح الباری شرح کتاب العلم)
علم (علمِ دین) دنیا سے کیسے رخصت ہوگا ؟
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ (کتاب و سنت کے) علم کو بندوں کے دلوں سے نکال کر نہیں اٹھائے گا۔ البتہ علماء کو فوت کرکے اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو عوام الناس جاہل لوگوں کو سردار بنائیں گے، ان سے مسائل دریافت کیے جائیں گے، علم نہ ہونے کے باوجود وہ فتویٰ دیں گے اس طرح وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ (متفق علیہ)
حصولِ علم کیلئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے سلف علیہم الرّحمہ کے مجاہدات اور ان کی خدمات :
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث سننے کی خاطر ملک شام کا سفر کیا اور ایک ماہ کی مسافت کی مشقت برداشت کی ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ایک حدیث سننے کیلئے مدینہ منورہ سے مصر تشریف لے گئے اور حدیث سننے کے بعد وہاں رکے بغیر فوراً دوبارہ مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ حدیث یہ تھی : "جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائیں گے" (متفق علیہ)
ابو العالیہ فرماتے ہیں: "ہم سنتے تھے کہ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مروی ہے۔ تو اسناد میں علو (بلندی، یعنی درمیانی واسطے کم سے کم کرنے کی خاطر) ہم اُن صحابی کی جانب سفر کرکے اُن سے براہ راست وہ روایت سنا کرتے تھے" ۔
سلیمان بن شعبہ کہتے ہیں: "ابو داود رحمہ اللہ سے چالیس ہزار احادیث لکھی گئیں (اس حال میں کہ) ان کے پاس کتاب نہیں تھی۔
اور ابوزرعہ الرازی کہتے ہیں: "مجھے دو لاکھ احادیث یوں یاد ہیں جیسے تم میں سے کسی کو "قل ھو اللہ احد" یاد ہوتی ہے۔
قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی جو 80 جلدوں میں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں ان کی تصانیف ہیں جن میں "شرح الترمذی" ، "شرح مؤطاء" ، "احکام القرآن الکبریٰ و الصغریٰ" ، "العواصم من القواصم" اور "المحصول فی الاصول" مشہور ہیں اور یہ تمام کی تمام اپنی مثال آپ ہیں۔
ابن ابی الدنیا کی تصانیف ایک ہزار سے زائد ہیں۔
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ، صاحبِ مستدرک کی تصانیف کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد ہے۔
حافظ ابنِ عساکر رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تصنیف "تاریخ ابن عساکر" 80 جلدوں میں مکمل کی۔
امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ حصولِ علم کیلئے ایک ہزار سات سو سے زائد اساتذہ کے پاس گئے۔ وہ بیس برس کی عمر میں طلبِ علم کیلئے گھر سے نکلے تھے اور پینسٹھ برس کی عمر میں واپس آئے۔
علم سے متعلق حکیمانہ اقوال
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "علم مال سے بہتر ہے۔ کیونکہ مال کی تم حفاظت کرتے ہو اور علم تمہاری حفاظت کرتا ہے۔ مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے جبکہ علم تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ عالم حاکم ہے اور مال اس کا محکوم ہے۔ خزانوں والے مرگئے، علم والے باقی ہیں جب تک یہ دنیا باقی رہے گی۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں سے فرمایا: "علم حاصل کرو، اس لیے کہ اگر تم آج قوم کے چھوٹوں میں سے ہو تو کل تم اِس قوم کے بڑوں میں سے ہوگے۔ جسے یاد نہیں ہوتا وہ لکھ لیا کرے"
(المدخل الی السنن الکبریٰ)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کم سنی میں حصولِ علم کی اہمیت سے متعلق فرماتے ہیں: "طلب العلم فی الصغر کالنقش فی الحجر"
(ترجمہ) کم عمری میں طلبِ علم (اپنی پختگی میں) پتھر پر لکیر کی طرح ہے۔
(حوالہ بالا)
حضرت لقمان سے متعلق ایک روایت میں ہے کہ اپنے بیٹے سے فرمایا: "اے بیٹے! علماء کی صحبت اختیار کرو۔ اُن کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملاؤ (اُن کے قریب رہو) کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ دلوں کو حکمت سے زندگی دیتے ہیں جس طرح مردہ بنجر زمین کو بارش سے زندگی حاصل ہوتی ہے۔
اور فرمایا: "اے بیٹے! مجلسوں کو دیکھ کر اُن میں بیٹھا کرو۔ اگر دیکھو کہ ایک قوم ہے جو اللہ کا ذکر کرتی ہے تو ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ، اگر تم عالم ہوگے تو تمہارا علم نفع پہنچائے گا۔ اگر جاہل ہوگے تو وہ تمہیں سکھائیں گے۔ اور ہوسکتا ہے اُن پر اللہ کی رحمت نازل ہو تو تم بھی (ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے) اس رحمت میں سے حصہ پاؤ۔ اور اگر تم کسی قوم کو دیکھو کہ وہ اللہ کا ذکر نہیں کرتی تو ان کے ساتھ مت بیٹھنا۔ اگر تم عالم ہو تو تمہارا علم تمہیں نفع نہیں دے گا اور اگر جاہل ہو تو یہ تمہارے جہل میں مزید اضافہ کردیں گے ۔
اور فرمایا: "اے بیٹے! بے شک علم ہی وہ ذریعہ ہے جس نے مساکین کو بادشاہوں کی مجالس تک جا پہنچایا اور انہیں وہاں مقام دلایا"۔
مزید فرمایا: "جس طرح بادشاہوں اور امراء نے تمہارے لیے علم و حکمت چھوڑ رکھی ہے (یعنی اس کی طلب نہیں رکھتے) اسی طرح تم ان کیلئے مال و دولت چھوڑ دو" ۔
(جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر رحمہ اللہ)
حکیمانہ اشعار:
العلم صید والکتابۃ قیدہ
قید صیودک بالحبال الواثقہ
فمن الحماقۃ ان تصید غزالہ
و تترکھا بین الخلائق طالقہ
شاعر طالبِ علم سے مخاطب ہیں، کہتے ہیں کہ "علم شکار ہے اور اسے لکھنا گویا اُسے قید کرلینا ہے۔ پس تم اپنے شکار کو مضبوط رسیوں سے (یعنی لکھ کر) باندھ لو۔ کیونکہ یہ حماقت ہوگی کہ تم ہرن کو شکار کرلو (پکڑ لو) پھر اسے کھلا چھوڑ دو۔"
عصرِ حاضر اور علمائے کرام کی تضحیک و تحقیر
دورِ حاضر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جو پراپیگنڈا مہم اسلام کے خلاف شروع کی گئی ہے، اس حکمتِ عملی کے تحت منظم طور پر مگر بہت ہی غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کو ابھارا جارہا ہے اور یہ عمل کوئی آج سے نہیں، بلکہ کم از کم دو دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ البتہ اب وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ چونکہ اس کا حیطۂ عمل وسیع ہوگیا ہے، چنانچہ اس کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیے جارہے ہیں اور اس مقولے پر پوری طرح عمل جاری ہے کہ "جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کہ اسے سچ تسلیم کرلیا جائے ۔
اس پالیسی کے تحت مسلمانوں کے اذہان میں مختلف طریقوں سے علمِ دین اور علمائے دین کی اہمیت کم کرنے اور انہیں اس سے برگشتہ کرنے کیلئے بھی مسلسل کام ہورہا ہے۔ طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے نئی نسل کو اسلام کے ان جلیل القدر خدمت گزاروں سے برگشتہ کیا جارہا ہے، تحقیر آمیز آنداز میں انہیں "مُّلا"، "جاہل مولوی" وغیرہ کے القاب سے پکارا اور یاد کیا جاتا ہے، ان سے بے شمار لطیفے منسوب کیے جاتے ہیں۔ خود ہماری لاعلمی بھی باعثِ حیرت ہے کہ ہم اُس جماعت کو نشانۂ تمسخر بناتے ہیں جس کی فضیلت کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے : فرمادیجیئے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟
اور جن کو انبیائے کرام کا وارث لسانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے قرار دیا جاچکا ہے۔
"جاہل مولوی" کی اصطلاح زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ خود اپنے وضع کنندہ کی عقل پر ماتم کرتی اور بہ زبانِ حال اُس کے ذاتی جُہل کی نشاندہی کرتی ہے کہ اُس نے دو ایسے الفاظ کو یکجا کردیا جن میں بُعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ "مولوی" کا سابقہ علمائے کرام کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی صاحبِ علم شخصیت کا نام "مولوی" اور "مولانا" کے سابقے کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اگر ہم "جاہل مولوی" کو بہ الفاظِ دگر بیان کریں، تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ "جاہل صاحبِ علم"۔ اب اِس کا جواب کون دے کہ اگر وہ عالم ہے تو جاہل کیسے ہوا؟ اور جاہل ہے تو صاحبِ علم کیونکر کہلایا؟۔ اسی طرح "جاہل ڈاکٹر"، "جاہل انجینئر" کے القابات کیوں مستعمل نہیں اور ایسا کہنے والے کو غبی کیوں تصور کیا جائے گا جبکہ عالمِ دین کیلئے یہ اصطلاح وضع کرنے والے کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھا جاتا؟۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ اصطلاح استعمال کرنے والے علم دین کو (معاذ اللہ) علم کا درجہ دینے پر ہی تیار نہیں ہیں؟؟؟۔
اِس اصطلاح کے پیچھے کار فرما اصل مقصد بہت خطرناک ہے اور وہ یہ کہ عوام الناس کو باور کرادیا جائے کہ علمِ دین کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اِس کے حامل اصحابِ علم کہلانے کے لائق نہیں بلکہ یہ نرے "جاہل" ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں علمائے کرام سے متعلق پھیلائے گئے لطیفے، القابات جب کمسن بچوں، نوجوانوں کے سننے میں آتے ہیں تو لامحالہ اُن کے ذہنوں میں ایسی کئی منفی باتیں علمائے کرام سے متعلق بیٹھ جاتی ہیں جو آگے چل کر دینی نقطۂ نظر سے اُن کیلئے تباہ کُن ثابت ہوتی اور انہیں مذہب سے ہی دور کردینے کا باعث بنتی ہیں۔
پھر اگر علماء کے بیچ میں چند ایسے لوگ بھی در آئے ہیں جو برائے نام عالم ہیں، اور درپردہ وہ دین کو نقصان پہنچارہے ہیں تو اِس کی بناء پر تمام علمائے کرام ہی کو مطعون کرنا۔۔۔ کیا دانشمندی کا یہی تقاضا ہے؟
صرف ایک مثال کس کے علم میں نہیں کہ بالخصوص وطنِ عزیز میں اتائی ڈاکٹرز مصروفِ عمل ہیں اور اپنی جعلسازی و ناتجربہ کاری کے باعث متعدد افراد کی ہلاکت کا سبب بنے ہیں۔ کیا یہ درست ہوگا کہ ایسے افراد کی موجودگی کی بناء پر شعبۂ طب سے وابستہ تمام افراد کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے؟ انہیں طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جائے۔؟ غالباً کوئی اِس کے حق میں نہیں ہوگا۔ کیونکہ سب کے علم میں ہے کہ ڈاکٹرز کا معاشرے میں وجود کس قدر ضروری ہے اور اِن کی موجودگی ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ مگر افسوس۔۔۔ جتنی اہمیت ہم ان جسمانی معالجین کو دیتے ہیں۔ ہمارے روحانی معالج، ہمارے روحانی مربی و اساتذہ اور معاشرے کی اصلاح کیلئے کوشاں علمائے کرام کی ہم اُسی قدر بے قدری کررہے ہیں۔ اِس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بحیثیتِ مجموعی ہمیں معاشرے کو، نظامِ زندگی کو مکمل طور پر اسلامی ضابطے میں ڈھالنے کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اگر ہوتی ۔۔ تو علمِ دین کی ترویج و تبلیغ، اور ہماری اصلاح کیلئے شبانہ روز کوشاں ۔۔ علمائے کرام کی بھی ہمیں قدر ہوتی۔ اور کسی کی جرأت نہ ہوتی کہ انہیں تحقیر آمیز القابات سے نوازے یا اُس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر انہیں زمین پر "فساد فی سبیل اللہ" کا باعث قرار دے اور کہے کہ "دینِ ملا، فساد فی سبیل اللہ" ۔ لا حول و لا قوۃ الا باللہ ۔
امام شافعی رحمہ اللہ کے کیا خوب اشعار ہیں ایسی ہی طرزِ فکر کے حامل افراد کیلئے:
عاب التفقہ قوم لا عقول لہم
و ما علیہ اذا عابوہ من ضرر
ما ضر شمس الضحیٰ و ہی طالعۃ
ان لا یُریٰ ضوءھا من لیس ذا بصر
ترجمہ: تفقہ (دین کی سمجھ) حاصل کرنے کو اُن لوگوں نے معیوب قرار دیا ہے جو عقل سے محروم ہیں اور ایسے لوگوں کے فقہ پر عیب لگانے سے کوئی ضرر نہیں ہے۔ اگر کوئی نابینا آفتابِ نیمروز کو جو آب و تاب سے طلوع ہوچکا ہو، نہیں دیکھتا تو اس سے آفتاب کی روشنی کو کیا نقصان ہوتا ہے؟
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں علمِ دین اور اس پر عمل نصیب فرمائیں، اور ہمیں علمائے کرام کی تکریم اور ان سے بھرپور استفادے کی توفیق عطا فرمائیں اور جہلا جو علماء کو بدنام کر رہے ہیں ان کے شر و فتنہ سے بچائے آمین۔طالب دعا ۔ڈاکٹر فیض احمد چشتی۔
No comments:
Post a Comment