Sunday, 14 January 2018

مشہور تابعی حضرت یزید الفقیر رضی اللہ عنہ کی خارجی عقائد سے توبہ کے واقعہ پر پلیمبر محمد علی مرزا خارجی کی ہفوات کا جواب

مشہور تابعی حضرت یزید الفقیر رضی اللہ عنہ کی خارجی عقائد سے توبہ کے واقعہ پر پلیمبر محمد علی مرزا خارجی کی ہفوات کا جواب




حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما کے ساتھ خارجیوں کا مکالمہ

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان میں ایک تابعی بزرگ حضرت یزید الفقیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے جسے وہ خود بیان کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میں بھی خارجیوں کی رائے سے متاثر ہوگیا تھا اور یہ رائے رکھتا تھا کہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے اور ہمیشہ جہنم میں رہنے کا مستحق قرار پاتا ہے اس لیے شفاعت وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شخص جہنم میں جانے کے بعد وہاں سے نکل سکے گا ۔

یزید الفقیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک جماعت کے ساتھ میں حج کے لیے گیا، حج سے فارغ ہو کر ہمارا ارادہ ہوا کہ واپسی پر مدینہ منورہ میں کچھ حضرات سے ملاقاتیں کرتے چلیں ۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما مسجد کے ستون سے ٹیک لگائے لوگوں کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنا رہے تھے۔ ہم بھی سننے کے لیے بیٹھ گئے ۔ دوران گفتگو انہوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا اور نیک لوگوں کی شفاعت پر ان کے جہنم سے نکلنے کی بات کی تو میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سوال کر دیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! آپ لوگ یہ دوزخیوں کے دوزخ سے نکلنے کی کیا باتیں کرتے رہتے ہیں ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ دوزخی جب دوزخ سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو انہیں دوبارہ آگ میں دھکیل دیا جائے گا (سورۃ الحج آیت ۲۲)۔ اسی طرح قرآن کریم میں مومنوں کو دعا سکھائی گئی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ اے ہمارے رب! تو نے جس کو آگ میں داخل کیا تو اسے رسوا کر دیا اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا (سورۃ آل عمران آیت ۱۹۳)۔ یعنی جب جہنم سے نکلنے کا ارادہ کرنے والوں کو واپس دھکیل دیا جائے گا اور ان کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا تو پھر شفاعت کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟

اس کے جواب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا تم قرآن کریم پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن کریم میں حضرت محمدؐ کے لیے مقام محمود کا تذکرہ بھی سنا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں اس سے مراد سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۷۹ ہے جس میں آپؐ سے کہا گیا ہے کہ ’’آپ رات کے وقت تہجد کی نماز پابندی سے پڑھا کریں قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو مقام محمود عطا فرمائیں‘‘۔ پھر حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مقام محمود کی وضاحت کرتے ہوئے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بیان فرمایا کہ اس ’’مقام محمود‘‘ پر کھڑے ہو کر وہ شفاعت کریں گے جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو جہنم کے عذاب سے نجات دیں گے۔ اس کے بعد کہ وہ آگ میں جل کر سیاہ ہو چکے ہوں گے مگر انہیں جہنم سے نکال کر جنت کے دروازے پر ’’نہر حیات‘‘ میں غسل کرایا جائے گا تو غسل کے بعد ان کے جسم پھر تر و تازہ ہو جائیں گے اور انہیں جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

یزید فقیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حدیث شفاعت کی دیگر تفصیلات بھی بیان کیں جو وہ پوری طرح یاد نہیں رکھ سکے۔ مگر امام مسلم رضی اللہ عنہ نے دوسری سند سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی بیان کر دی ہے کہ ان سے بعض لوگوں نے سوال کیا کہ قرآن کریم کی اس آیت سے کیا مراد ہے جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو جہنم میں وارد نہ ہو (سورۃ مریم آیت ۷۱)۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے جو جہنم کے اوپر ہوگا اور جنت میں جانے والے ہر شخص کو اس پر سے گزرنا پڑے گا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قیامت کے روز سب لوگ حشر کے میدان میں جمع ہوں گے اور لوگوں کو ان کے معبودوں کے نام پر بلایا جائے گا جس پر سب لوگ اپنے اپنے معبودوں کو پہچان کر ان کے پیچھے چل پڑیں گے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے مسلمان پیچھے رہ جائیں گے۔ ان میں مسلمان، منافق، اور نیک و بد سب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے دریافت کریں گے کہ تم کس کے انتظار میں کھڑے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم اپنے رب کے انتظار میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی تجلی ظاہر فرمائیں گے جس پر سب مسلمان اس تجلی کے پیچھے چل پڑیں گے۔ آگے جہنم کے اوپر پل صراط ہوگا جس سے وہ گزریں گے۔ اس پل صراط کے دونوں طرف کنڈیاں اور کانٹے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان گزرنے والوں میں سے جن کو جہنم میں گرانا مقصود ہوگا انہیں نیچے کھینچ لیں گے۔ جبکہ اہل ایمان سیدھے گزر جائیں گے۔ ان سیدھے گزرجانے والوں میں سب سے پہلا ستر ہزار افراد کا بڑا گروہ ہوگا جن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے اور وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو درجہ بدرجہ شفاعت کی اجازت دی جائے گی اور سب جنتی باری باری شفاعت کریں گے جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان تمام مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائیں گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا ہوگا مگر اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے جہنم کی سزا بھگت رہے ہوں گے۔ حتیٰ کہ جس شخص کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ بھی شفاعت کی برکت سے جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ ایسے لوگ جہنم کی آگ کی وجہ سے جل کر سیاہ ہو چکے ہوں گے لیکن نہر حیات میں غسل کے بعد تروتازہ جسموں کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سوال اور تمنا کے اظہار کی اجازت دی جائے گی اور اس دنیا اور اس کے برابر دس دنیاؤں جتنی دولت اور نعمتیں ہر جنتی کو عطا کی جائیں گی۔

یزید فقیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے یہ تفصیلات بیان کیں اور بتایا کہ قرآن کریم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کے لیئے جس ’’مقام محمود‘‘ کا ذکرہے اس سے مراد وہی ’’مقام شفاعت‘‘ ہے اور یہ ساری تفصیل خود حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمائی ہے۔ تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ بزرگ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی طرف جھوٹ کی بات منسوب نہیں کر سکتے اس لیے میں تو ان کی بات کو تسلیم کرتا ہوں ۔ چنانچہ ہماری ساری جماعت میں سے صرف ایک شخص اپنے سابقہ عقیدے پر ڈٹا رہا جبکہ باقی ہم سب نے اس سے توبہ کر کے اپنا عقیدہ درست کر لیا ۔

اس واقعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم سے استدلال کے حوالہ سے قرون اولیٰ کے اصحاب خیر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی طرف، اور سنت رسولؐ کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیمات کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ اور سلیم الفطرت حضرات سنت نبوی اور فہم صحابہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے فہم و استدلال سے دستبردار ہو جایا کرتے تھے ۔ البتہ جن کے مقدر میں گمراہی ہو اور جنہوں نے اپنی عقل و فہم اور دانش و استدلال کو ہی ہر بات کا آخری معیار قرار دے رکھا ہو انہیں حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابی کے ارشادات بھی مطمئن نہیں کر سکتے اور وہ اس کے بعد بھی ہٹ دھرمی ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔

دیگر حوالہ جات

مشہور تابعی یزید الفقیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نوجوان تھا،میں نے قرآن پڑھا توخوارج کی ایک جماعت مجھ سے بے حد قریب ہو گئی،یہ لوگ مجھے اپنے مذہب اور فکر کی دعوت دینے لگے،اللہ کی مشیت دیکھو کہ میں ان کے ساتھ حج کیلئے بھی نکل گیا ،اسی دوران انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تمہیں محمد ﷺ کے صحابہ میں سے کسی سےملاقات کرنے کی رغبت ہےتو ہمارے ساتھ چلو۔تو میں ان کے ساتھنکل پڑا تو صحابی رسول ﷺ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ،تو انہوں نے کہا : اے ابو سعید!ہم میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور خوب پڑھتے ہیں، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ابھی یہی باتیں چل ہی رہیں تھیں کہ انہوں (خوارج ) نے ہمارے خلاف تلوار سونت لی،تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : إنَّ قوماً يقرأون القرآن لا يُجاوِز تراقِيَهم، يمرُقون من الإسلام كما يَمْرُق السّهم من الرَمِيَّة ۔
ترجمہ : کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے،مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا،وہ اسلام سےاسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے پار نکل جاتا ہے ۔ (الطیوریات: 2/713 ، تاریخ الکبیر للبخاری : 3251 )

واقعہ کی تشریح : یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس نوجوان (یزید الفقیر) نے قرآن تو پڑھ لیا تھا ، لیکن اس کے پاس علم نہیں تھا، اور نہ وہ اہل علم کی صحبت میں رہا تھا،لہذا خوارج نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا،وہ اس کے آگے پیچھے رہتے،،اور اس سے جدا نہ ہوتے، اسے اپنے مذہب کی دعوت دیتے رہتے،پھر اس کو حج کی رغبت دلائی،تاکہ اس دوران اس سے تنہائی میں ملیں،اور اپنے شکوک و شبہات اور اپنے منہج سے اس کوآسودہ و مطمئن کردیں،جیسا کہ خوارج کا طریقہ ہےکہ وہ نوجوانوں کو ایسی جگہوں میں چلنے کی دعوت دیتے ہیں،جو اہل و عیال اور حکام کی نظروں سے دور ہوں،جیسے دور دراز علاقوں میں کیمپ لگانا،حج و عمرہ کیلئے سفر کرنا،صحرا اور بیابانوں کی طرف جانا وغیرہ ۔

پھر ان خوارج نے اس نوجوان کوصحابی رسول ﷺ سے ملاقات کی دعوت دی،تاکہ صحابی رسول ﷺ سے مل کراس نوجوان کے سامنے یہ ظاہر کریں کہ وہ جس چیز کی دعوت دے رہے ہیں،وہ سب درست ہے، صحابی رسول ﷺ کے پاس وہ اس لئے نہیں گئے تھے کہ ان کے علم سے استفادہ حاصل کریں،اور ان سے کچھ سیکھ سکیں،بلکہ اس لیے گئے تھے کہ ان سےوہ اپنے اعمال کی مدح و ستائش کروا سکیں۔

چنانچہ انہوں (خوارج ) نے کہا : اے ابو سعید! (رضی اللہ عنہ) ہمارے اندر بہت سے ایسے لوگ ہیں جو قرآن بہت زیادہ پڑھتے ہیں، اور عموما ایسا اس لیے کہا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والے کی تعریف کی جائے، یا اس سے سکوت اختیار کیا جائے، اور نکیر نہ کی جائے، اور یہ اس نوجوان کے نزدیک ان کے مذہب کو صحیح ثابت کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے،جو ان کے ساتھ چل کر گیا ہو،ان کی صحبت میں رہا ہو،اور صرف ان کے ظاہری تقویٰ و صلاح کو دیکھتا ہو۔

لیکن چونکہ صحابی رسول ﷺ صاحب بصیرت اور سنت کا پختہ علم رکھتے تھے ،اور وہ ان لوگوں سے اچھی طرح واقف تھے،اس لیےانہوں نے ان کو ان خوارج کی چاہت کے مطابق جواب نہیں دیا، بلکہ ان کوبے نقاب کر دیا، اس پر انہوں نے اپنی حقیقت ظاہر کرتے ہوئےاپنا حقیقی چہرہ دکھایا اور تلوار اٹھالی،اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کوایک عالم صحابی کی مجلس میں صرف ایک مرتبہ بیٹھنے کے باعث خوارج کے شر سے بچا لیا۔

ہمارے زمانے میں ٹھیک یہی صورت حال ہے کہ خوارج جب کسی نوجوان کواکیلے میں پاتے ہیں تو یہی کام کرتے ہیں، اور اسے صرف انہی لوگوں کے پاس لے کر جاتے ہیں،جن کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں،اور جن سے وہ مطمئن ہوتے ہیں،تاکہ ان کا معاملہ طشت از بام نہ ہو جائے،اور ان کی چال ناکام نہ ہو جائے،اور کبھی پہلے سے اس کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے،اور یہ کام بڑے ہی منظم طریقے سے کیا جاتا ہے،اسی کے ساتھ وہ اپنے جس شیخ یا پیشوا کے پاس نوجوان کو لے کر جاتے ہیں،اس کی شان میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں،اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں،اور اس کے اوپرالقاب و آداب کا بالہ بنا کر اسے آسمان تک اٹھا دیتے ہیں،تاکہ اس کے ذریعے کمزور لوگوں کو شکار کر لیں۔

جبکہ یہ طریقہ کار بالکل بھی اہل سنت اور اہل علم کا نہیں رہا بلکہ یہ اس کے مخالف ہے ،کیونکہ علمائے اہل سنت نہ اپنی تعریف کرتے ہیں اور نہ ہی اسے پسند کرتے ہیں۔

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نفع بخش علم والے علماء کی علامات میں سے یہ ہےکہ وہ اپنے لیے نہ کسی حال کے قائل ہیں،اور نہ مقام کے،وہ تو تزکیہ اور مدح وستائش کودل سے ناپسند کرتے ہیں، وہ کسی طرح کا تکبر نہیں کرتے،اور نہ اپنے آپ کو کسی سے بڑا سمجھتے ہیں،اور جیسے جیسے ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے،اللہ کیلئے ان کی تواضع،خشیت اور عاجزی و انکساری میں اضافہ ہوتا ہے۔

اور نفع بخش علم کی علامات میں سے یہ ہے کہ یہ علم آدمی کو دنیا سے دور رہنے کی رہنمائی کرتا ہے،اور دنیا کی سب سے بڑی چیز ریاست و حکومت،شہرت و ناموری اور مدح و ستائش ہے ۔ (بیان فضل علم السلف علی الخلف ص8)

حاصل کلام : الغرض یزید الفقیر رحمہ اللہ کے اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علمائے اہل سنت کی ہم نشینی اختیار کرنے اور ان کی مجالس میں بیٹھنے سے انسان منحرف افکار ونظریات سے اور قرب قیامت اس زمانے میں بارش کے قطروں کی طرح پیدا ہونے فتنوں سے نجات پائے گا اور اپنے آپ کو محفوظ کر لے گا۔ ہم امید کرتے ہیں موجودہ دور کا کذاب خارجی مرزا پلیمبر محمد علی جو شر و فتنہ پھیلاس رہا ہے اس خارجی کے چنگل میں پھنسے سادہ لوح مسلمان اس تفصیل کے بعد حضرت یزید الفقیر تابعی رضی اللہ عنہ کی طرح خارجیت سے توبہ کر کے اس گمراہ خارجی پلیمبر محمد علی مرزا کے جھوٹوں پر لعنت بھیج کر دوبارہ مسلمانان اہلسنت کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...