ناپاکی دور کرنے کا شرعی طریقہ
اگر کپڑا ناپاک ہو جائے تو ایک بار دھو لینے سے پاک ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس پر نظر آنے والی نجاست ختم ہو جائے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب اس پر اچھی طرح پانی بہا کر خوب نچوڑا جائے۔ اگر کپڑا کسی برتن میں دھویا جائے تو تین بار نئے پانی میں دھونے کے بعد ہر بار خوب نچوڑے ورنہ کپڑا پاک نہ ہوگا۔
احتلام کے بعد کپڑا دھویا منی کے نشان رہ گئے کیا حکم ہے
اگر اچھی طرح مل کر دھونے سے بھی کپڑے سے منی یا وذی کے صرف داغ باقی رہ جائیں تو کپڑا پاک ہو جاتا ہے، اجزاء باقی نہیں رہنے چاہیں، نشانات کا کوئی مسئلہ نہیں۔ یعنی جس داغ کو مٹانا مشکل ہواس کے رہ جانے سے بھی کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ سیدہ خولہ بنت یسار نبی مکرم نور مجسّم صلى اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور عرض کیا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ وَأَنَا أَحِيضُ فِيهِ فَكَيْفَ أَصْنَعُ؟ قَالَ: «إِذَا طَهُرْتِ فَاغْسِلِيهِ، ثُمَّ صَلِّي فِيهِ». فَقَالَتْ: فَإِنْ لَمْ يَخْرُجِ الدَّمُ؟ قَالَ: «يَكْفِيكِ غَسْلُ الدَّمِ وَلَا يَضُرُّكِ أَثَرُه» یا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم! میرے پاس ایک ہی کپڑا ہے اسی میں ہی حیض کے ایام گزارتی ہوں, تو میں کیا کروں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تو حیض سے پاک ہو جائے تو اسے دھو لے پھر اسی میں نماز ادا کر لے" انہوں نے عرض کیا:"اگر خون (کا نشان) نہ جائے؟" آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" خون کو دھو لینا ہی تیرے لیے کافی ہے, اور اسکے نشان کا تجھے کوئی نقصان نہیں ۔ (سنن أبی داود: 365)۔
جو چیز یں کسی نجاست کے لگنے سے ناپاک ہو جائیں ان کے پاک کرنے کے مختلف طریقے ہیں
(1) ۔ دھونے سے پانی اور ہر بہنے والی چیز سے جس سے نجاست دور ہو جائے دھوکہ نجس چیز کو پاک کرسکتے ہیں۔
(2) ۔ پونچھنے سے مثلاً لوہے کہ چیز جیسے جھری، چاقو وغیرہ جس میں نہ زنگ ہو، نہ نقش و نگار ، نجس ہو جائے تو اچھی طرح پونچھ ڈالنے سے پاک ہو جائے گی، نجاست خواہ دلدار ہو یا پتلی یونہی ہر قسم کی دھات کی چیزیں پونچھنے سے پاک ہو جاتی ہیں۔ ہاں اگر نقشی ہوں یا لوہے میں زنگ ہوتو دھونا ضروری ہے۔
(3) ۔ کھرچنے یار گڑنے سے مثلاً موزے یا جوتے ہیں دالدار نجاست لگی جیسے پاخانہ گوبر تو کھرچنے اور رگڑنے سے پاک ہو جائیں گے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(4) ۔ خشک ہو جانے سے مثلاً ناپاک زمین ہوا سے یا آگ سے سوکھ جائے اور نجاست کا اثر یعنی رنگ و بو جاتا رہے تو پاک ہو جائے گی، اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مگر اس سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
(5) ۔ پگھلنے سے مثلاً رانگ سیسہ پگھلانے سے پاک ہو جاتا ہے۔
(6) ۔ آگ میں جلانے سے مثلاً ناپاک مٹی سے برتن بنائے تو جب تک کچے ہیں، ناپاک ہیں ، اور آگ میں پکالئے گئے تو پاک ہوگئے۔
(7) ۔ ذات بدل جانے سے، مثلاً شراب سر کہ ہو جائے اب پاک ہے یا نجس جانور نمک کی کان میں گر کر نمک ہو جائے تو وہ نمک پاک و حلال ہے ۔
جو چیز نچوڑنے کے قابل نہیں ہے جیسے چٹائی ، دری، جوتا وغیرہ اس کو دھو کر چھوڑ دیں کہ پانی ٹپکنا بند ہو جائے۔ یونہی دو مرتبہ اور دھوئیں، تیسری مرتبہ جب پانی ٹپکنا بند ہو گیا وہ چیز پاک ہو گئی۔ اسی طرح ریشمی کپڑا جو اپنی نازکی کے سبب نچوڑنے کے قابل نہیں اسے بھی یونہی پاک کیا جائے گا ۔
چینی کے برتن یا لوہے، تانبے، پیتل وغیرہ دھاتوں کی ایسی چیزیں جن میں نجاست جذب نہیں ہوتی انھیں فقط تین بار دھو لینا کافی ہے۔ اس کی بھی ضرورت نہیں کہ اسے اتنی دیر چھوڑدیں کہ پانی ٹپکنا موقوف ہو جائے ، ہاں ناپاک برتن کو مٹی سے مانجھ لینا بہتر ہے ۔
کپڑے کا کوئی حصہ ناپاک ہو گیا اور یہ یاد نہیں کہ وہ کون سی جگہ ہے تو : اس صورت میں بہتر تو یہی ہے کہ پورا ہی دھوڈالیں،مثلاً معلوم ہے کہ کرتے کی آستیں یا کلی نجس ہوگئی مگر یہ نہیں معلوم کہ کون سا حصہ ہے ، تو پوری کلی یا پوری آستیں دھونا ہی بہتر ہے اور اگر اندازے سے سوچ کراس کا کوئی حصہ دھولے جب بھی کپڑا پاک ہو جائے ۔
تیل یا گھی وغیرہ اگر ناپاک ہو جائے تو : بہتی ہوئی عام چیزیں گھی تیل وغیرہ کے پاک کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ اتنا ہی پانی ڈال کر خوب ہلائیں پھر اوپر سے تیل گھی اتارلیں اور پانی پھینک دیں، یونہی تین بار کریں وہ چیز پاک ہو جائے گی ۔
بدن کی ناپاکی دور کرنے کے طریقے از فتاویٰ رضویہ
مسئلہ ۱۹۴ تا ۱۹۷: از لکھنؤ چوبداری محلہ متصل کوٹھی قدیم عینک سازان مکان نمبر ۱۰۳ مرسلہ حضرت سید محمد میاں صاحب مارہروی ۵ محرم۳ ۱۳۳ھ
(۱) کپڑے یا بدن پر کوئی حصّہ نجس ہوگیا اُس پر پانی پہلی مرتبہ ڈالا پھر ہاتھ سے اس کے قطرے پونچھ ڈالے، اسی طرح تین مرتبہ پانی ڈالا اور اُسی ہاتھ سے جس سے پہلی مرتبہ قطرے پونچھے تھے اُس کو دھوئے بغیر قطرے پُونچھے تو آیا یہ عضو مغسول اور وہ ہاتھ دونوں پاک ہوجائیں گے بحالیکہ عضو مغسول کو وہ ہاتھ لگا ہے جس نے پہلی اور دوسری تیسری مرتبہ کے غسالہ کو پونچھا تھا اور خود الگ پانی سے دھویا نہ گیا تھا۔
(۲) اگر اس ترکیب سے پاکی نہ ہوسکے تو کیا کِیا جائے؟
(۳) بدن کو دھوکر جھٹک دیا سب قطرے گر گئے ہاں وہ رہ گئے جو بال کی جڑمیں ہیں یا بہت ہی باریک میں جھٹکنے سے بھی نہیں گرتے تو ایسی صورت میں عضو تین بار دھو ڈالے پاک ہوجائیگا یا نہیں، اگر نہیں تو کیا کرے، خاص کر اُس صورت میں جب دونوں ہاتھ نجس ہوں۔
(۴) بدن پاک کرنے میں ہر بار کے دھونے میں تقاطر جاتا رہنا ضرور ہے یا مطلقاً ہر قطرہ کا خواہ وہ چھوٹا ہی ہو اور پونچھنے سے صرف بدن پر پھیل کر رہ جاتا ہو اس کا بھی دُور کرنا یعنی وہی پھیلادینا ضرور ہے۔ (ماخوذ : فتاویٰ رضویہ ، بہار شریعت ، فتاویٰ عالم گیری ، فتاویٰ قاضی خان ، فتاویٰ اجملیہ ، وقار الفتاویٰ ، قدوری ، نور الایضاح و دیگر کتب فقہہ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
الجواب: بدن پاک کرنے میں نہ چھوٹے قطرے صاف کرکے دوبارہ دھونا ضرور نہ انقطاع تقاطر کا انتظار درکار بلکہ قطرات وتقاطر درکنار دھار کا موقوف ہونا لازم نہیں نجاست اگر مرئیہ ہو جب تو اُس کے عین کا زوال مطلوب اگرچہ ایک ہی بار میں ہوجائے اور غیر مرئیہ ہے تو زوال کا غلبہ ظن جس کی تقدیر تثلیث سے کی گئی جہاں عصر شرط ہے اور وہ متعذر ہوجیسے مٹّی کا گھڑا یا معتسر ہو جیسے بھاری قالین دری تو شک لحاف وہاں انقطاع تقاطر یا ذہاب تری کو قائم مقام عصر رکھا ہے بدن میں عصر ہی درکار نہیں کہ ان کی حاجت ہو صرف تین بار پانی بَہ جانا چاہئے اگرچہ پہلی دھار ابھی حصّہ زیریں پر باقی ہے مثلاً ساق پر نجاست غیر مرئیہ تھی اوپر سے پانی ایک بار بہایا وہ ابھی ایڑی سے بَہ رہا ہے دوبارہ اوپر سے پھر بہایا ابھی اس کا سیلان نیچے باقی تھا سہ بارہ پھر بہایا جب یہ پانی اُتر گیا تطہیر ہوگئی بلکہ ایک مذہب پر تو انقطاع تقاطر کا انتظار جائز نہیں اگر انتظار کرے گا طہارت نہ ہوگی کہ ان کے نزدیک تطہیر بدن میں عصر کی جگہ توالی غسلات یعنی تینوں غسل پے درپے ہونا ضرور ہے مذہب ارجح میں اگرچہ اس کی بھی ضرورت نہیں مگر خلاف سے بچنے کے لئے اس کی رعایت ضرور مناسب ہے اس تقریر سے تین سوال اخیر کا جواب ہوگیا۔ درمختار میں ہے:یطھر محل نجاسۃ مرئیۃ بقلعا ای زوال عینھا واثرھا ولوبمرۃ اوبما فوق ثلث فی الاصح ولایضر بقاء اثرلازم ومحل غیر مرئیۃ بغلبۃ ظن غاسل طھارۃ محلھا بلاعدد بہ یفتی وقدر بغسل وعصر ثلثا فیما ینعصر مبالغا بحیث لایقطر وبتثلیث جفاف ای انقطاع تقاطر فی غیر منعصر ممایتشرب النجاسۃ والا فبقلعھا ۔ ( درمختارباب الانجاس مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۵۶)
اصح مذہب کے مطابق نظر آنے والی نجاست کی جگہ عین نجاست اور اس کے اثر کو دُور کرنے سے پاک ہوجاتی ہے اگرچہ ایک مرتبہ سے ہو یا تین بار سے زیادہ یہ اصح مذہب ہے۔ اس سے لازم ہونے والے (نہ دُور ہونے والے) اثر کا باقی رہنا کچھ نقصان دہ نہیں اور جہاں نجاست نظر نہ آتی ہو اگر دھونے والے کو اس جگہ کے پاک ہونے کا غالب گمان حاصل ہوجائے تو پاک ہوجائیگی۔ اس میں گنتی شرط نہیں اور اسی پر فتویٰ ہے۔ جس چیز کو نچوڑا جاسکتا ہے وہ تین بار دھونے اور خوب نچوڑنے کے ساتھ کہ اب کوئی قطرہ باقی نہ ہو، پاک ہوجاتی ہے۔ اور جس کا نچوڑنا ممکن ہو اور اس میں نجاست جذب ہوتی ہو وہ تین بار خشک کرنے یعنی قطرات کے ختم ہونے سے پاک ہوجاتی ہے ورنہ اسے زائل کیا جائے۔ (ت)
ردالمحتار میں ہے: بتثلیث جفاف ای جفاف کل غسلۃ من الغسلات الثلاث وھذا شرط فی غیر البدن ونحوہ امافیہ فیقوم مقامہ توالی الغسل ثلثا قال فی الحلیۃ والاظھر ان کلا من التوالی والجفاف لیس بشرط فیہ وقدصرح بہ فی النوازل وفی الذخیرۃ مایوافقہ (ردالمحتار باب الانجاس مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۲۲۱) اھ واقرہ فی البحر۔
تین بار خشک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہربار دھونے کے بعد خشک کیا جائے یہ شرط غیرِ بدن وغیرہ میں ہے بدن میں تین بار مسلسل دھونا اس کے قائم مقام ہوگا حلیہ میں فرمایا اظہر بات یہ ہے کہ اس میں تسلسل اور اور خشک کرنے (دونوں) میں سے کوئی بات بھی شرط نہیں نوازل میں اس کی تصریح ہے، ذخیرہ میں اس کے موافق ہے اھ بحرالرائق میں اس کو برقرار ررکھا ہے۔
رہا سوال اول یہ تو ظاہر ہوگیا کہ ہر بار قطرات کا پونچھنا فضول تھا بلکہ بلاوجہ ہاتھ ناپاک کرلینا مگر جبکہ اس نے ایسا کیا، مثلاً پاؤں پر نجاست تھی سیدھے ہاتھ میں لوٹا لے کر اُس پر پانی بہایا اور جو قطرات باقی رہے بائیں ہاتھ سے پونچھ لیے تو یہ ہاتھ ناپاک ہوگیا مگر ایسی نجاست سے کہ دوبار دھونے سے پاک ہوجائے گی اس لئے کہ ایک بار دُھل چکی اب پاؤں پر دوبار پانی ڈالنا تھا دوسری بار کے بعد ایک ہی بار ڈالنا تھا لیکن اس نے دوبارہ دھوکر نجس ہاتھ سے پھر اس کے قطرے پونچھے تو اب پاؤں کو وہ نجاست لگ گئی جو دوبار دھونے کی محتاج ہے تو پاؤں کو پھر دوبار دھونے کی ضرورت ہوگئی اور ہاتھ بدستور اُسی نجاست سے نجس رہا اُس میں تخفیف نہ ہُوئی کہ اُس پر سیلان آب نہ ہوا اب پاؤں پر سہ بارہ کا پانی دوبارہ کے حکم میں ہے کہ اس کے بعد ایک بار اور دھونے کی حاجت ہے لیکن اس نے اس کے بعد بھی وہی نجس ہاتھ اس کے قطرات صاف کرنے میں استعمال کیا تو اب پھر پاؤں کو دو۲ بار دھونے کی ضرورت ہوگئی وھکذا (اور اسی طرح ہے۔ ت) لہذا اُسے لازم کہ پاؤں پر دوبار پانی بہائے اور قطرات نہ پونچھے اور وہ ہاتھ جدا دوبار دھولے۔
ردالمحتار میں ہے:قال فی الامداد والمیاہ الثلثۃ متفاوتۃ فی النجاسۃ فالاولی یطھر مااصابتہ بالغسل ثلثا والثانیۃ بالثنتین والثالثۃ بواحدۃ وکذا الاوانی الثلثۃ التی غسل فیھا واحدۃ بعد واحدۃ وقیل یطھر الاناء الثالث بمجرد الاراقۃ والثانی بواحدۃ والاول بثنتین ۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔( ردالمحتار باب الانجاس مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۲۲۲)
''الامداد'' میں فرمایا نجاست میں تینوں پانی الگ الگ حکم رکھتے ہیں پہلا پانی جس چیز کو لگ جائے وہ تین بار دھونے سے پاک ہے۔ دوسرا پانی جسے پہنچے وہ دو بار، اور تیسرے پانی جسے پہنچے ایک بار دھونے سے پاک ہوجاتی ہے۔ اسی طرح وہ تینوں برتن جو یکے بعد دیگرے اس میں دھوئے گئے۔ اور کہا گیا ہے تیسرا برتن محض پانی بہانے سے پاک ہوجائے گا دوسرا ایک بار دھونے سے اور پہلا دوبار دھونے سے پاک ہوگا اھ واللہ تعالیٰ اعلم (ت) (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment