مصلح اور مفتی کیسا ہونا چایئے اوصاف و شرائط
ڈاکٹر فیض احمد چشتی امت مسلمہ کی خدمت میں عرض گذار ہے کہ : آج کے پرفتن دور میں ہر شخص مفتی بنا ہوا ہے ۔ ذاکر نائیک ، جاوید غامدی ، محمد علی مرزا اور ان جیسے دیگر لوگ بغیر علم کے فتوے جھاڑ رہے ہیں اور امت مسلمہ میں انےشار و گمراہی پھیلا رہے ہیں ۔ آیئے پڑھتے ہیں ایک مفتی میں کون کون سے اوصاف ہونا ضروری ہیں ۔
مصلح اورمفتی میں سب چیزیں ہونی چاہئیں ، قرآن بھی ، حدیث بھی ،فقہ بھی ، تصوف بھی پھر ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا شخص حدود پر رہ سکتا ہے ، جامع نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو ہی جاتی ہے محقق اورجامع موقع اورمحل کودیکھتا ہے اس لئے ضرورت ہے کہ وہ فقیہ بھی ہو مفسربھی ہو ۔
کتاب وسنت ، آثار صحابہ ،اصول فقہ ، قواعد فقہ اور فقہی جزئیات کے ذخیرہ پر نظر رکھتے ہوئے پیش آمدہ مسائل کو مذکورہ علوم کی روشنی میں حل کرنے کی جو عالم اہلیت رکھتا ہو اسے مفتی کہتے ہیں ۔
علوم دینیہ کا جو شخص حامل ہو وہ عالم دین ہے، خواہ ادب عربی کا ماہر ہو یا نہ ہو ، چونکہ دینی ادارہ یا دار الافتاء میں افتاء کی اہلیت کے اشخاص پیدا کیئے جاتے ہیں ، اس دور میں گھریلو تعلیم میں بظاہر یہ اہلیت ممکن نہیں ، اس لئے یہ قید لگائی جاتی ہے ۔
محض عربی کے ادیب ہونے کی حیثیت سے فتوی دینے کا حق نہیں ، بلکہ مفتی کی اہلیت کا ہونا بھی ضروری ہے ، اسی طرح مفتی کی اہلیت کا ہونا کافی نہیں ہے ، بلکہ فتوی دینے کے لئے تقویٰ کا پایا جا نا ضروری ہے ۔
مفتی کے لئے عملی لحاظ سے قرآن وسنت کا آئینہ دار ہونا چاہیے مزید یہ کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے جو احیاء العلوم میں منجیات والے اعمال ذکر کیے ہیں ان پر مکمل عمل ہو اورجو مہلکات والےاعمال ذکر کیے ہیں ان سے قولاً فعلاً اعراض کرتا ہو ۔ اور علمی لحاظ سے مفتی کے لئے جن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں :
مفتی کے لئے ضروری ہے کہ مسائل شرعیہ اور کتب فقہیہ میں اس کا مطالعہ وسیع ہو، اُصولِ فقہ اور قواعدِ فقہیہ سے واقف ہو، اس کے ساتھ ساتھ قرآنی احکام، احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور تفسیر پر بھی اس کی نگاہ ہو، نیز استدلال اور روایت و درایت سے بھی اسے حصہ ملا ہو کیونکہ بغیر علم شریعت فتویٰ لکھنا سراسر جہالت ہے اس لئے ضروری ہے کہ مفتی کو یہ علم حاصل ہو کہ طبقاتِ مسائل کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں نیز طبقات الفقہاء کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں ۔اول ہم مفتی کی تعریف بیان کرتے ہیں ۔
صاحب فتح القدیرشارح ہدایہ فرماتے ہیں:''اصولیین مضبوطی کے ساتھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ مفتی کا درجہ صرف مجتہدکوحاصل ہوتا ہے۔ جو شخص خود مجتہد نہیں ہے لیکن اسے مجتہد کے اقوال زبانی یاد ہیں وہ مفتی نہیں ہے اس سے جب مسئلہ دریافت کیا جائے تو اسے بطورِ نقل و حکایت کسی مجتہد کا قول جواب میں بتانا چاہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ زمانہ مصنف فتح القدیر میں جو علماء فتویٰ دیتے ہیں حقیقت میں وہ فتویٰ نہیں ہے بلکہ اصل میں کسی مجتہد مفتی کا قول ہے جو نقل کردیا گیا ہے تاکہ مُستَفْتِی اس پر عمل کرے ۔
مفتی مجتہد سے اس کا قول نقل کرنے کے دو نوں طریقوں کا خیال رکھے ہیں : اول یہ کہ یا تو وہ قول اس کے پاس کسی صحیح سند سے پہنچا ہو ۔
دوم یہ کہ اس نے مجتہد کا وہ قول کسی ایسی مشہور کتاب سے لیا ہو جو دیگر علماء کے ہاتھوں میں رہتی ہو جیسے امام محمد بن الحسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کتابیں اور ایسے ہی دوسری کتب فقہیہ جو اپنی روایت و اسناد کے اعتبار سے خبر متواتر یا خبرمشہور کے درجہ میں ہیں ۔ (''ردالمحتار''، المقدمۃ، مطلب : رسم المفتی ، ج ۱، ص ۱۶۲. و ''فتح القدیر''،کتاب أدب القاضی،ج۶،ص۳۶۰.)
مفتی کےلئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ علمائے احناف روایات ظاہرہ میں جن مسائل پر متفق ہیں فتویٰ یقیناً انہیں پر ہوگا لیکن اگر روایات ظاہرہ میں ہمارے علماء کا اتفاق نہیں ہے تو واضح یہ ہے کہ فتویٰ علی الاطلاق، امام اعظم علیہ الرحمہ کے قول پر ہوگالیکن اگر امام اعظم رحمۃاللہ تعالٰی علیہ سے اس مسئلہ میں کوئی روایت نہ ملے تو پھر فتویٰ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر دیا جائے گا اور اگر ان سے بھی کوئی قول نہ ملے تو پھر فتویٰ امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے قول پردیا جائے۔
(''الدرالمختار''، المقدمۃ ،ج۱،ص۱۶۲۔۱۶۹.)
''سراجیہ'' میں ہے:ایک قول یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک جانب اور آپ کے صاحبین دوسری جانب ہوں تو مفتی کو اختیار ہے کہ وہ جس قول کو چاہے اختیار کرے اور اگر مفتی مجتہد نہ ہو تواول قول اصح ہے ۔ (''الفتاوی السراجیۃ''، کتاب أدب المفتی والتنبیہ علی الجواب، ص۱۵۷. و ''فتاوی رضویہ ''(مُخَرَّجہ)،ج۱،حصہ الف،ص۱۰۵تا۱۰۸)
ان تینوں کے بعد پھر امام زُفر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے قول پر فتویٰ دیاجائے گا اور پھر امام حسن بن زیاد کے قول پر ۔ (''الدرالمختار''،المقدمۃ ،ج۱،ص۱۶۹.)
اور ''الحاوی القدسی''میں اس امر کی تصحیح فرمائی ہے کہ اگر ان میں سے کسی کے قول کی تائید میں قوۃ مدرکہ یعنی قوی دلیل موجود ہے تو ایسی صورت میں وہ قول اختیار کیا جائے ورنہ یہی ترتیب قائم رکھی جائے گی ۔ (''الحاوی القدسی''،کتاب الحیل، فصل إذا اختلف الروایات...إلخ،ص۱۸۱. و''مجموعۃ رسائل ابن عابدین''، الرسالۃ الثانیۃ:شرح''عقود رسم المفتی''،ج۱،ص۲۶.)
مفتی کو اس بات کا خیال بھی رکھنا ہو گا کہ جو سترہ مسائل یا بیس مسائل میں امام زفر کے قول کو ترجیع دی گئی ہے ان مسائل میں فتویٰ امام زفر کے قول پر ہی دے ۔
مفتی کو چاہیے کہ جب کسی مسئلہ میں قیاس ہو اور استحسان ہو تو معدودے چند مسائل کو چھوڑ کر عمل استحسان پر ہوگا ۔
مفتی کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی مسئلہ ظاہر الروایۃ میں مذکور نہ ہو بلکہ کسی دوسری روایت سے ثابت ہو تو اس کا حوالہ دینا چاہے ۔
مفتی کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ حضرت امام نسفی رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ نے''مُسْتَصْفٰی''میں بیان فرمایا ہے جب فقہاء کسی مسئلہ میں تین اقوال بیان فرمائیں تو ان میں راجح قول اول ہے یا قول آخر، درمیانی قول راجح نہ ہوگا''شرح المنیہ''میں ہے کہ اگر روایت درایت کے مطابق ہے تو اس سے عدول نہ کیا جائے۔(المرجع السابق،ص۱۷۱.)
جب فتویٰ ایک قول پر ہو اور تصحیح دوسرے قول کی ، تو اولیٰ یہ ہے کہ وہ قول اختیار کیا جائے جو متون کے موافق ہو ۔ (''الدرالمختار''و''ردالمحتار''،المقدمۃ،مطلب:إذا تعارض التصحیح ،ج۱،ص۱۷۱.)
اور اگر ایک قول شروح میں ہے اور اس کے خلاف دوسرا قول فتاویٰ میں تو وہ قول اختیار کیا جائے جو شروح میں ہے کیونکہ فقہائے کرام کی تصریح ہے کہ متون مقدم ہیں شروح پراور شروح مقدم ہیں فتاوی پر، یہ صورت اسی وقت اختیار کی جائے گی جب ان دونوں اقوال میں سے ہر ایک کی تصحیح کی گئی ہو یا دونوں میں سے کسی کی بھی تصحیح منقول نہ ہو لیکن اگر مسئلہ متون میں ہےاور اس کی تصحیح بالتصریح نہیں کی گئی بلکہ اس کے مقابل کی تصحیح بالتصریح کی گئی ہے تو وہ ہی مسئلہ اختیار کیا جائے جس کی تصحیح بالتصریح کی گئی ہے کیونکہ تصحیح بالتصریح ، تصریح التزامی پر مقدم ہے اگرچہ متون میں یہ التزام کیا گیا ہے کہ وہ مذہب صحیح ہی بیان کریں گے تاہم یہ تصحیح سے کم تر درجہ ہے اور اگر ایک مسئلہ میں دو قول ہیں اور دونوں کی تصحیح کی گئی ہے تو اگر ان میں سے ایک قولِ امام ہے اور دوسرا قول کسی اور مجتہد کا، تو مفتی کو قولِ امام ہی اختیار کرنا چاہے اس لئے کہ دونوں تصحیح متعارض ہو کر ساقط ہوجائیں گی پھر اصل کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اصل یہ ہے کہ قولِ امام مقدم ہے۔(''ردالمحتار''، المقدمۃ، مطلب : اذا تعارض التصحیح، ج ۱، ص ۱۷۱.)
٭مفتی کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس فقیہ کے قول کے مطابق فتویٰ دے رہا ہے اس سے کماحَقُّہٗ واقف ہو کہ اس فقیہ کا روایت و درایت میں کیا درجہ اور مقام ہے اور وہ طبقاتِ فقہاء میں سے کس طبقہ سے ہے تاکہ وہ اقوالِ مختلفہ میں سے کسی قول کو علم و بصیرت کی روشنی میں ترجیح دے سکے۔(''ردالمحتار''،المقدمۃ،مطلب:فی طبقات الفقھاء ،ج۱،ص۱۸۱.)
''فتاویٰ خیریہ'' کے آخر میں ہے کہ مفتی اور قاضی کے لئے راجح و مرجوح اور قوی و ضعیف اقوال کا علم رکھنا ضروری ہے۔ ان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مسئلہ کا جواب دینے اور قضیہ کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔ بلکہ حقیقت کی جستجو کریں یعنی تَثَبُّت سے کام لیں۔ اور اپنے نفس کی خواہش اور اس کی اِتباع پر کسی حلال شے کو حرام اور کسی حرام شے کو حلال نہ بنائیں کہ اﷲ تعالیٰ پر افتراء کرنا سب سے بڑا گناہ ہے ایسا وہی کرسکتا ہے جو عاقبت سے بے خوف ہے اور جاہل و بدبخت ہے۔(''الفتاوی الخیریۃ ''، مسائل شتی، ج۲، ص ۲۳۱.)
علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ناقابلِ اِعتماد کتابوں سے فتویٰ نہیں لکھنا چاہے۔ خَواہ اس لئے ناقابل اعتماد ہوں کہ ان کی نقل و کتابت میں اغلاط و خامیاں ہیں یا اس لئے ناقابلِ اِعتماد ہوں کہ ان کے مصنف مُعْتَمَد عَلَیْہنہیں یا اس لئے کہ وہ بے حد پیچیدہ اور ان کا فہم دشوار طلب ہوا ور ان کی عبارات انجلک غیر واضح الدَّ لالۃہوں کیونکہ ایسی کتابوں کے سمجھنے میں کم علم لوگوں کے غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے اور اس سے فتویٰ دینے میں غلطیوں کا قوی امکان ہے۔ ماضی میں ایسا ہوا ہے اور فتوے غلط ہوگئے ہیں۔ علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے رسالہ''شرح عقود رسم المفتی''میں اس کی کچھ مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں۔(''مجموعۃ رسائل ابن عابدین''،الرسالۃ الثانیۃ:شرح''عقود رسم المفتی''،ج۱،ص۱۳.)
جب امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین علیہما الرحمہ کسی قول پر متفق ہوں تو پھر بغیر کسی شدید تر ضرورت کے اس سے عدول نہیں کیا جاسکتالیکن اگر امام صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک طرف اور صاحبین علیہما الرحمہ دوسری طرف ہوں ،اس وقت اگر صاحبین کی رائے بھی الگ الگ ہے تو فتویٰ قولِ امام پر ہوگا لیکن اگر صاحبین ایک رائے پر ہیں اور امام اعظم علیہ الرحمہ دوسری رائے پر تو عبداللہ بن مبارک کے نزدیک اس صورت میں بھی فتویٰ قولِ امام پر ہوگا ۔
دیگر علماء کا قول یہ ہے کہ اس صورت میں مفتی کو اختیار ہے کہ جس کے قول پر چاہے فتویٰ دے صاحبین کے قول پر یا امام اعظم کے قول پر۔ اس اختیار کا مطلب یہ ہے کہ وہ یعنی مفتی دلیل میں غور کرے اور جو دلیل قوی ہو اس پر فتویٰ دے ۔
''الحاوی''میں بھی یہی ہے کہ اعتبار قوت دلیل کا ہے کیونکہ مفتی کی شان یہی ہے وہ قوتِ دلیل پر نظر رکھے۔ (''الفتاوی السراجیۃ''،مسائل شتّٰی،الجزء الثانی،ص۱۵۷. و''الحاوی القدسی''،کتاب الحیل، فصل اذا اختلف الروایات...إلخ،ص۱۸۱. تفصیلات کے لیے ''فتاوی رضویہ ''(مُخَرَّجہ)،ج۱،حصہ الف،ص۱۰۵تا۱۰۸ملاحظہ فرمالیں ۔
مجموعہ رسائل ابن عابدین ۱۳۱ پر ہےمفتی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ صرف ان ہی امور کو سامنے رکھے جو کہ کتب ظاہر الروایہ میں منقول ہیں اور زمانہ اور اہل زمانہ کے حالات کو نگاہ میں نہ رکھے اگروہ ایسا کریگا توا س سے بہت سےحقوق ضائع ہوجائیں گے اور اس کا نقصان نفع کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہوگا۔(''مجموعۃ رسائل ابن عابدین''،الرسالۃ الثانیۃ:شرح''عقود رسم المفتی''،ج۱،ص۴۶،۴۷.)
کیونکہ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ ایک شخص کبھی اس لئے کوئی حکم شرعی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے تو اگر مفتی اس کو حالات و زمانے کو ملحوظ رکھے بغیر فتویٰ دے گا تو گویا وہ بھی ایک طرح سے اس گناہ میں شریک ہوگیا کیونکہ مفتی کے اس فتوے کی وجہ سے دوسروں کو یہ نقصان اٹھانا پڑا مثلاً ایک شخص اپنی بہن یا بیٹی کو جواس کی ماں یا اس کی بیوی کی پرورش میں ہے چاہتا ہے کہ ان کی مدت حضانت ختم ہوتے ہی وہ اپنی اس بہن یا بیٹی کو اپنی ماں یا بیوی سے لے لے اور اس فعل سے اس کا مقصد اپنی ماں یا بیوی کو اذیت پہنچانا یا اس کے مال پر قبضہ کرنا یا اس کا نکاح کسی دوسرے سے کردینا ہو تو مفتی کو چاہیے کہ جب وہ ای سے حالات کا اندازہ کرلے تو جواب میں اس کا لحاظ رکھے اور مستفتی کو بتلادے کہ اضرار جائز نہیں ہے اگر وہ اپنی اس بہن یا بیٹی کو اپنی ماں یا بیوی سے حاصل کریگا تو گنہ گار ہوگا ۔
آداب الافتاء کے ان اصول و قواعد اور احکام سے معلوم ہوا کہ فتویٰ دینا اور حکم شریعت قرآن کریم یا احادیث پاک یاکتب فقہ سے بیان کرنا کوئی سہل کام نہیں کہ جس کو ہر عالم یا عامی و جاہل یا کم علم اور قلیل البصیرت انجام دے سکے قرون اولیٰ میں افتاء کے لئے اجتہاد کی شرط تھی غیر مجتہد، مفتی نہ ہوتا تھا نہ کہلایا جاتا تھا اس دور میں جب کہ علم کا زوال اور علماء کمیاب ہیں بے علم لوگ چند احادیث کا ترجمہ یاد کرکے احکام شرعیہ بیان کرنے لگتے ہیں اور اﷲ(عزوجل)کا خوف ان کے دل میں نہیں آتا۔ کچھ لوگ محض اپنی عقل کی بنیاد پر کسی امر کے جائز یا ناجائز ہونے کا حکم کردیتے ہیں۔ قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھ کر اس کی تفصیل اور اصول و قواعد کا علم حاصل کئے بغیر بڑی بے باکی سے حکم شرعی بیان کردیتے ہیں ای سے لوگوں کو اﷲ واحد قہار(عزوجل) سے خوف کھانا چاہے اور اپنا دین و عاقبت برباد نہیں کرنا چاہیے آج کل کے نو آموز علماء بلا خوف ریا و نفاق خود اپنے قلم سے خود کو مفتی اعظم، شیخ الحدیث، فقیہ العصر اور محدث کبیر و غیرہا اعظم المرتبت الفاظ اپنے نام کے ساتھ لکھتے ہیں یا لکھواتے ہیں اور اگر ان کے نام کے ساتھ یہ ضخیم الفاظ وہ خطابات نہ لکھے جائیں تو اپنی توہین محسوس کرتے ہیں اور اس کا برا مناتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی کم علمی اور ظرف کے چھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔ انہیں اﷲ(عزوجل)سے ڈرنا چاہے اور اپنی اصلاح کرنی چاہے اگر وہ صاحبِ علم صحیح ہوتے تو اس آیت کا مصداق ہوتے (اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ) اﷲ (عزوجل)کے بندوں میں علماء ہی کو خوف ِ الٰہی ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے اور بے علم فتوے جھاڑنے والوں کے شر سے بچائے ۔ آمین۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment