عشق کے معنی اور لفظ عشق کو گھٹیا کہنے والوں کو جواب
بعض حضرات عشق کے معنی زورِ گندم بتائے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں بتائے ۔ لغت کی کسی کتاب میں لفظ عشق کے یہ معنی کوئی نہ دکھا سکے گا البتہ اس معنی پر ان لوگوں نے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے ضرور استدلال فرمایا ہے جو ان حضرات کے حواس باختہ ہونے کی دلیل ہے ۔ مولانا رومی تو اس شعر میں یہ فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں جو خواہش نفسانی پائی جاتی ہے وہ عشق نہیں وہ تو محض گندم کھانے کا خمار ہے ان حضرات نے اسی خمارِ گندم کو عشق قرار دے دیا جس کے عشق ہونے کی مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نفی فرما رہے ہیں ۔
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے
عشق مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کی نظر میں
مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اس شعر میں خمارِ گندم کی مذمت کی ہے مگر حسب ذیل اشعار میں عشق کی مدح فرمائی ہے ۔
ہر کرا جامہ ز عشق چاک شد
اوز حرص و عیب کلی پاک شد
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علتہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جسم خاک از عشق برافلاک شد
کوہ در رقص آمدو چالاک شد
یعنی جس کے وجود نفسانی کا جامہ عشق سے چاک ہوگیا ۔ وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوگیا۔ اے ہمارے عشق خوش سوداء اور ہماری تمام بیماریوں کے طبیب تو خوش رہ۔ اے ہماری نخوت و غرور کی دوا۔ اے ہمارے عشق تو ہی ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے جسم خاکی عشق سے افلاک پر پہنچا‘ پہاڑ رقص میں آکر چست و چالاک ہوگیا ۔
ان اشعار میں مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے عشق وخوش سودا کو تمام بیماریوں کا طبیب اور اسی عشق کو اپنی نخوت و ناموس کی دوا اور اسی عشق کو اپنا افلاطون اور جالینوس فرماکر اس کی مدح فرمائی ہے ۔ پہلے شعر کے ساتھ ان اشعار کو ملا کر پڑھیئے ۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کا مفہوم آپ پر واضح ہوجائے گا کہ زورِ گندم عشق نہیں کیونکہ وہ انسانی خواہشات کو ابھارتا اور انسان کو بیشمار امراض قلبیہ میں مبتلا کردیتا ہے عشق تو ان کے نزدیک ایک ایسا جوہر لطیف ہے کہ اگر وہ کسی کے وجود نفسانی کا جامہ چاک کردے تو وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوجائے وہ فرماتے ہیں۔ عشق ہی ہماری تمام بیماریوں کا طبیب اور نخوت و ناموس کی دوا ہے ۔ اسی عشق نے جسد خاکی کو افلاک پر پہنچایا اور اسی عشق سے پہاڑ رقص میں آیا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک زور گندم عشق نہیں کیونکہ وہ امراض قلبیہ کا سبب ہے اور عشق ان کے نزدیک تمام امراض قلبیہ کا طبیب ہے ۔
ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا
محبت : اس ضمن میں بعض حضرات نے ایک لطیف میلان قلب کا نام محبت رکھا ہے گویا ان کے نزدیک محبت میں نفسانی خواہش‘ زورِ گندم اور حسن و شباب سے تعلق کا شائبہ ممکن ہی نہیں حالانکہ اہل عرب کے کلام اور محاورات میں محبت کا لفظ حسن و شباب کے تعلق ‘ نفسانی خواہش اور زورِ گندم کے معنی میں بھی بکثرت مستعمل ہے ۔ حدیث میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں مثلاً بخاری شریف میں ہے : اِنَّھَا کاَنَتْ لِیْ بِنْتُ عِمِّ اَحْبَبْتُھَا کَاَ شَۃِ مَایُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَآ ئَ فَطَلَبْتُ مِنْھَا فَاَ یَتُ ۔
ترجمہ: غار میں پھنسے ہوئے تین آدمیوں میں سے ایک نے کہا میری چچا کی بیٹی تھی جس سے میں ایسی محبت کرتا تھا جیسی شدید ترین محبت مردوں کو عورتوں سے ہوتی ہے لہٰذا میں نے اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا ۔ (بخاری ج۱ ص۳۱۴)
الفاظ حدیث کی روشنی میں ان حضرات کے اپنے من گھڑت عشق کے معنی اور محبت میں کیا فرق رہا ؟ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار میں تو عارفین کا عشق مذکور تھا جو رَاحَۃ العاشقین کے الفاظ سے مراد ہے ۔ اب اہل لغت کی طرف آیئے تمام اہل لغت نے لفظ عشق پر کلام کرتے ہوئے اسکے معنی ’’فرط محبت‘‘ کے لکھے ہیں ۔
مختار الصحاح ص۳۷۴ میں ہے۔ اَلْعِشْقُ فَرْطُ ا لْحُبِّ اسیطرح لسان العرب ج۱۰ص۲۵‘ تاج العروس ج۷ص۱۳ اور قاموس ج۳ص۲۶۵ میں ہے ۔
جس طرح محبت پاکیزہ بھی ہوتی ہے اور خبیث بھی ۔ اسی طرح عشق بھی پاکیزگی اور خبث دونوں میں پایا جاتا ہے ملاحظہ ہو قاموس میں ہے اَلْیِشْقُ ۔۔۔۔ اِفْرَاطُ الْہُبِّ ویَکُوْنُ فِیْ عَفَافٍ وفِیْ دَعَارَۃٍ (ص۲۶۵ج۳) یعنی عشق کا معنی افراط محبت ہے جو پاک دامنی میں ہوتا ہے اور خبث میں بھی معلم ہوا کہ عشق اور محبت میں شدت اور افراط کے سوا کوئی فرق نہیں ۔
لفظ عشق کا ثبوت
لفظ عشق پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ ’’لفظ عشق اتنا گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف لفظ ہے کہ قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس لفظ کے استعمال سے مکمل احتراز کیا ہے ۔
قرآن و حدیث میں لفظ’’عشق‘‘ سے مکمل احتراز کا دعوی محل نظر ہے ۔ قرآن میں نہ سہی مگر حدیث میں ’’عَشِقَ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں ۔ بروایت خطیب بغدادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَھِیْدًا ۔
ترجمہ : جس کو کسی سے عشق ہوا پھر وہ پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے۔
اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی بروایت خطیب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : مَنْ عَشِقَ فَکَتَمَ وَعَفَّ فَمَاتَ فَھُوَ شَھِیْدٌ ۔
ترجمہ : جس کو کسی سے عشق ہوا پھر اس نے چھپایا اور پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے ۔ (الجامع الصغیر ج۲ ص ۱۷۵ طبع مصر)
اگر چہ ان دونوں حدیثوں میں ضعف کا قول کیا گیا ہے لیکن اس حدیث کو امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے مقاصد حسنہ میں اسانید متعددہ سے وارد کیا بعض میں کلام کیا اور بعض کو برقرار رکھا جن اسانید کو برقرار رکھا وہ ضعیف نہیں چنانچہ امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی اسانید میں سے ایک سند کے متعلق فرمایا وَھُوَ سَنَدٌ صَحِیْحٌ (مقاصدِ حسنہ ص ۴۲۰)
امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام خرائطی رحمتہ اللہ علیہ اور ویلمی رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کیا ۔ بعض محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں : مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ فَکَتَمَ فَصَبَرَ فَھُوَ شَھِیْدٌ ۔
ترجمہ : جس کو کسی سے عشق ہوگیا پھر وہ پاک دامن رہا اور اسے چھپایا اور صبر کیا تو وہ شہید ہے ۔
اور امام بیہقی نے اسے طرقِ متعددہ سے روایت کیا(مقاصدِ حسنہ ص۴۱۹‘۴۲۰ طبع مصر)
اہل علم جانتے ہیں کہ طرقِ متعددہ سے سند ضعیف کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ لفظ عشق حدیث میں وارد ہے ۔ قرآن و حدیث میں ا س سے مکمل احتراز کا جو دعوی کیا گیا ہے صحیح نہیں ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment