دین اسلام میں حدیث کا مقام
محترم قارئین : آج کے پر فتن دور میں ایک فتنہ منکرین حدیث کا بھی کبھی تو صاف انکار کر دینگے اور کبھی حدیث کو ضعیف کہہ کر انکار کرتے ہیں بہت سے احباب نے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو اس مسلہ پر لکھنے کےلیئے میسج کیئے ان کی تعمیل میں مختصر مضمون پیش خدمت ہے ایک بار ضرور پڑھیں جزاکم اللہ خیرا ۔
ظاہری زمانۂ نبوت سے آج تک تمام مسلمانوں کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ احکام شریعت کی دلیلوں میں سے سب سے مقدم اور سب سے اعلیٰ خدا کی مُقدس کتاب ’’قرآن مجید‘‘ ہے اور چونکہ قرآن ہی کی تصریحات وہدایات کے بموجب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اِتّباع واِطاعت بھی ہر مسلمان کے لئے لازمُ الایمان اور واجبُ العمل ہے کیونکہ بغیر اس کے قرآن مجید کی آیتوں کے صحیح مفہوم اورحقیقی مراد کو سمجھ لینا غیر ممکن اور محال ہے اس لئے قرآن مجید کے بعد احکام شریعت کی دلیل بننے میں حدیث ہی کادرجہ ہے ۔ اس کے بعد اجماعِ امّت اور قیاسِ مجتہدکا درجہ ہے اس لئے یہ عقیدہ رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے کہ قرآن مجید و حدیث دونوں ہی دین اسلام کی مرکزی بنیاد اور احکامِ شرع کی مضبوط دلیلیں ہیں ۔
اس دَور کے بعض مُلحدین جو اپنے آپ کو ’’اہل قرآن‘‘ کہتے ہیں اور حدیثوں کے دلیلِ شرعی ہونے کا انکار کرتے ہیں قرآن مجید نے صاف اور صریح لفظوں میں ان ظالموں کے اس کافرانہ نظریہ کا رد فرمایا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے کہ : مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰىکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ(حشر)
ترجمہ : جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائییں وہ لو اور جس سے منع فرمائییں باز رہو۔ (پ۲۸،الحشر:۷)
قرآن کا یہ فرمان صاف صاف اعلان کررہا ہے کہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اَوامر ونَواہی جو حدیثوں کی صورت میں ہیں یقینا بلاشبہ واجب العمل اور احکام ِشرع کی حُجت اور مضبوط دلیلیں ہیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جولوگ حدیثوں کے دلیل شرعی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ در حقیقت مقامِ نبوت و منصبِ رسالت ہی کے منکر ہیں ۔ ان لوگوں کے نزدیک رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت محض ایک ’’قاصداور ایلچی ‘‘کی سی ہے حالانکہ قرآن مجید نے صاف و صریح لفظوں میں اس مُلحدانہ نظریہ اور کافرانہ بکواس کی جڑ ہی کاٹ ڈالی ہے ۔
چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ (نساء)
ترجمۂ کنز الایمان:جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔ (پ۵،النسآء:۸۰)
کہیں ارشاد فرمایا : وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ ۔
ترجمہ : اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اسکی اطاعت کی جائے ۔ (پ۵، سورۃ النسآء:۶۴)
اسی طرح ارشادِ ربانی ہے کہ : یَاۡمُرُہُمۡ بِالْمَعْرُوۡفِ وَیَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنۡکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الْخَبٰٓئِثَ ۔
ترجمہ : وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع فرمائیے گا اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائیے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا ۔ (پ۹،الاعراف:۱۵۷)
مذکورہ بالا آیات اور اس قسم کی دوسری بہت سی آیتیں اعلان کررہی ہیں کہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک’’ قاصد اور ایلچی‘‘ کی پوزیشن میں نہیں ہیں بلکہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا منصب رسالت اس قدر بلند وبالا ہے کہ رسول مقتدیٰ ومُطاع ہیں ، رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آمروناہی ہیں ، رسول حلال کرنے والے، حرام کرنے والے ہیں ، رسول حاکم و حکم اور معلم و شارع ہیں ۔
ذرا سوچوتو سہی کہیں قاصدا ور ایلچی کی بھلا یہ شان ہوا کرتی ہے ۔
منکرین ِحدیث کی نفسانیت
پھر یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ منکرین ِحدیث نے کسی دینی جذبہ کے ماتحت قرآن پر عمل اور حدیثوں کے انکار کا اعلان نہیں کیا ہے بلکہ اس فِتنہ وفَساد سے ان کی غرضِ فاسد یہ ہے کہ حدیثوں کا انکار کرکے قرآن کے مَعانی ومَطالب بیان کرنے میں وہ تشریحاتِ نبوت کی مقدس حدبندیوں سے آزاد ہوجائیں اور بالکل آوارہ ہوکر قرآن کے مفہوم و مراد کو اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق ڈھال سکیں ۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایک منکر ِحدیث خواہ مخواہ مجھ سے الجھ گیا اور کہنے لگا کہ قرآن میں ’’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ کے معنی مولویوں نے جو ’’نماز پڑھنا‘‘بتایا ہے وہ غلط ہے کیونکہ لغت میں ’’صلوٰۃ‘‘ کے معنی تو دعا مانگنے کے ہیں ۔ لہٰذا اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ کا یہ مطلب ہوا کہ پابندی کے ساتھ دعا مانگتے رہو ۔ میں نے اس سے کہا کہ الفاظِ قرآن کے معانی لغت سے بیان کیے جائیں گے یا رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریحات کے مطابق قرآن کا ترجمہ کیا جائے گا تواس نے نہایت بے باکی کے ساتھ برجستہ کہا کہ جناب ! قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے لہٰذا عربی کی لغات ہی سے قرآن کا ترجمہ کیا جائے گا رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریحات کا پابند ہونا ہمارے لئے کوئی ضروری نہیں ہے ۔
یہ سن کرمیرا خون کھول گیا مگر میں نے ضبط کیا لیکن جل بھُن کر میں نے اس سے کہا کہ جناب اگر لغت ہی سے قرآن کا ترجمہ کرنا ہے تو لغت میں ’’صلوٰۃ‘‘ کے بہت معنی لکھے ہوئے ہیں اور ایک بہت ہی دلچسپ مگر پھوہڑ معنی ’’تحریک ا لصلَوَ ْین‘‘ (سرین ہلانا) بھی ہے (تفسیر بیضاوی) تو پھر ’’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ کا یہ ترجمہ کیوں نہ کیجئے کہ ’’پابندی سے سُرین ہلاتے رہو ۔‘‘ چلو چھٹی ہوئی نہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہ دعا مانگنے کی حاجت بس ہر دم سرین ہلاتے رہو اور قرآن پر عمل کرتے رہو ۔ میری یہ غضب ناک مگر حقیقت افروز تقریر سن کر وہ اس قدر مَرْعُوب ہوا اور جِھینْپ گیا کہ پھر نہ وہ مجھ سے آنکھ ملا سکا نہ کچھ بول سکا بلکہ دُم دبا کر چپکے سے بھاگ نکلا ۔
بہرحال حقیقت تو یہ ہے کہ دین میں احادیث ِرسول کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ بغیر احادیث کے تو قرآن مجید کا کلام الٰہی ہونابھی نہیں معلوم ہوسکتا ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یہ نہ فرما دیتے کہ’’اَلْحَمْد‘‘سے ’’وَالنَّاس‘‘ تک کا پورا کلام قرآن مجید اور کلام الٰہی ہے تو قیامت تک کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ کون ’’کلام اللہ‘‘اور کون ’’کلام رسول‘‘ہے ۔
لہٰذاہر مسلمان کو اس حقیقت پر پوراپورا ایمان رکھنا چاہیے کہ مَسائلِ شریعت کی دلیلوں میں قرآن شریف کے بعد حدیث شریف ہی کا درجہ ہے اور بغیر احادیث ِرسول پر ایمان لائے ہوئے نہ کوئی قرآن کے مَعانی و مَطالب کو کما حقہٗ سمجھ سکتا ہے نہ دین اسلام پرعمل کرسکتا ہے ۔
اس لئے اس زمانے میں جو لوگ حدیثوں کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ لوگ گمراہ ، بد مذہب بلکہ بعض تومُلحد اور مُرتد ہوچکے ہیں لہٰذا ان لوگوں کی کوئی تحریر پڑھنی اور ان لوگوں کے وَعْظوں میں شرکت حرام و ناجائز ہے ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کی صحبت کو سَمِ قاتل اور زہرِ ہَلاہَل سمجھ کر ان سے اجتناب وپرہیز کولازم پکڑیں یہی حکم تمام گستاخِ رسول فرقوں اور ان کی کتب کے متعلق ہے خواہ یہ حضرات کتنی ہی مَکّاری سے اپنے اوپر حنفی ، شافعی کا لیبل چسپاں کریں ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment