Tuesday, 16 January 2018

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے بعد آپ کا وسیلہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے بعد آپ کا وسیلہ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے : ہاں، تو انہیں (ان صحابہ کرام کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں، تو پھر انہیں (ان تابعین کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ ہاں! تو انہیں (تبع تابعین کے توسل سے) فتح دے دی جائے گی۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1335، الرقم : 3449، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1962، الرقم : 2532، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 7، الرقم : 1056، وابن حبان في الصحيح، 11 / 86، الرقم : 4768)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کیا کرتے تھے اور (بارگاہِ الٰہی میں) یوں عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنایا کرتے تھے اور تُو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں. پس ہم پر بارش برسا۔ راوی نے بیان کیا پس ان پر بارش برسا دی جاتی۔
(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الإمام الاستسقاء إِذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم : 964، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما، 3 / 1360، الرقم : 3507، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 337، الرقم : 1421، وابن حبان في الصحيح، 7 / 110، الرقم : 2861، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 352، الرقم : 6220، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 270، الرقم : 351، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 135، الرقم : 87، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 814، وابن جرير الطبری في تاريخ الأمم والملوک، 4 / 433)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں وہ ایک لشکر کو جنگ کے لئے روانہ کریں گے، لوگ کہیں گے کہ دیکھو ان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی صحابی بھی ہے؟ پھر ایک شخص مل جائے گا اور انہیں اس کے توسل سے فتح حاصل ہو جائے گی، پھر ایک دوسرا لشکر روانہ کیا جائے گا۔ لوگ کہیں گے : کیا ان میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو دیکھا ہو؟ پھر اس کے توسل سے انہیں فتح حاصل ہو جائے گی، پھر ایک تیسرا لشکر روانہ کیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا : دیکھو کیا ان میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو دیکھنے والے کو دیکھا ہو (پھر ان کے توسل سے انہیں فتح حاصل ہو گی)، پھر ایک چوتھا لشکر روانہ کیا جائے گا پھر کہا جائے گا دیکھو تم ان میں سے کوئی ایسا شخص دیکھتے ہو، جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے دیکھنے والوں میں سے کسی ایک شخص کو دیکھا ہو؟ پھر ایک شخص مل جائے گا اور اس کے توسل سے فتح حاصل ہو جائے گی۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1962، الرقم : 2532، وأبو يعلی في المسند، 2 / 263، الرقم : 973)

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (یعنی قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما کو وسیلہ بنایا اور اﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی۔ پھر لوگوں سے خطاب فرمایا : اے لوگو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے۔ (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزلہ والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔
(أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 377، الرقم : 5438، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 98، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 92، والعسقلاني في فتح الباري، 2 / 497، والسيوطي في الجامع الصغير، 1 / 305، الرقم : 559، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 4 / 277، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 128، والمبارکفوري في تحفة الأحوذی، 9 / 348، والمناوي في فيض القدير، 5 / 215)
امام عسقلانی نے فتح الباری میں بیان کیا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کے لئے توسّل کیا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی : ’’اے اللہ! بلائیں ہمارے گناہوں ہی کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں اور توبہ سے ہی ٹلتی ہیں۔ اس قوم نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کا وسیلہ اختیار کیا ہے اورہمارے ہاتھ اپنے گناہوں کی توبہ کے لئے تیری بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہیں اور ہماری پیشانیاں توبہ کے لئے (تیری بارگاہ میں) جھکی ہوئی ہیں۔ پس تو ہمیں بارش عطا فرما۔‘‘ ان کی یہ دعا ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ آسمان پر اس طرح بادل چھاگئے جیسے پہاڑ ہوں۔
وقال الشيخ تقي الدين السّبکي (756ه) : وکذالک يجوز مثل هذا التوسّل بسائر الصالحين، وهذا شيء لا يُنْکِرُهُ مسلم، بل مَنْ يَدِيْنُ بملة من الملل.أخرجه تقي الدين السبکي في شفا السقام في زيارة خير الأنام، 10 / 128.
اور امام عسقلانی نے ہی امام داود کے طریق سے روایت بیان کیا ہے۔ انہوں نے عطاء سے، انہوں نے حضرت زید بن اسلم سے اور انہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے کے طریق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہمانے فرمایا : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عام الرّمادہ (قحط والے سال) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا محترم حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے توسل سے بارش طلب کی، پھر آگے پوری حدیث ذکر کی جس میں ہے کہ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ایسے ہی سمجھتے تھے، جیسے ایک بیٹا اپنے والد کو دیکھتا ہے، پس اے لوگو! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے حق میں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا کرو اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ پکڑو۔ اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے (اس وسیلہ سے) انہیں سیراب فرما دیا۔
اور امام تقی الدین سبکی نے اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ’’اس طرح اس واقعہ سے تمام صالحین کرام سے توسل کا جواز ثابت ہوتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کا مسلمانوں نے انکار نہیں کیا بلکہ ادیان میں سے کسی بھی دین کے پیروکاروں نے توسل کا انکار نہیں کیا ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ضرور بالضرور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کے لشکروں میں سے ایک لشکر جہاد کے لئے نکلے گا پس کہا جائے گا کہ کیا کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے ؟ جس کے ذریعے تم نصرت طلب کرو تو فتح یاب ہو جائو، پھر کہا جائے گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی کون ہے؟ کہا جائے گا کوئی نہیں۔ پھر کہا جائے گا کوئی تابعی ہے؟ کہا جائے گا کوئی نہیں۔ پھر کہا جائے گا کوئی تبع تابعی ہے؟ کہا جائے گا کوئی نہیں ہے اور اگر وہ اس کے متعلق سمندر کے اس پار سے اس کے بارے میں سنتے تو ضرور اس کے پاس آ جاتے۔
(أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 132، الرقم : 2172، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 313، الرقم : 1020، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 18)

حضرت عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے ان سے عرض کیا : اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ توانہوں نے فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں تو میں نے عرض کیا : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اسے یاد کریں، تو انہوں نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے۔
ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ چل رہا تھا کہ ان کی ٹانگ سن ہوگی، تو وہ بیٹھ گئے، پھر انہیں کسی نے کہا کہ لوگوں میں سے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کریں۔ تو انہوں نے کہا : یا محمداہ! (اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم!) ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ اٹھ کر چلنے لگ گئے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا : لوگوں میں سے جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کرو، تو اس شخص نے یا محمد (صلی اﷲ علیک وسلم) کا نعرہ لگایا تو اسی وقت اس کے پاؤں کا سن ہونا جاتا رہا۔
اور ایک روایت میں حضرت ہیثم بن حنش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے پاس تھے کہ ایک آدمی کی ٹانگ سن ہو گئی، تو اسے کسی شخص نے کہا : لوگوں میں سے جو شخص تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کر، تو اس نے کہا : یا محمد صلی اﷲ علیک وسلم۔ راوی بیان کرتے ہیں : پس وہ یوں اٹھ کھڑا ہوا گویا باندھی ہوئی رسی سے آزاد ہو کر دوڑنے لگ گیا ہو۔
(أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 335، الرقم : 964، وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم : 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 154، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 141. 142، الرقم : 168. 170، 172، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 498، الرقم : 1218، ويحيی بن معين في التاريخ، 4 / 24، الرقم : 2953، والمناوي في فيض القدير، 1 / 399، والمزي في تهذيب الکمال، 17 / 142)

حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہم اپنے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ضرورت سے آتا جاتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی ضرورت پر غور نہ فرماتے تھے۔ وہ شخص (عثمان) بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس کی بابت شکایت کی۔ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ اور وضو کرو، اس کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر (یہ دعا) پڑھو : اے اﷲ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔ (یہ دعا پڑھ کر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ) اور اپنی حاجت بیان کرو اور جاؤ یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں۔ پس وہ آدمی گیا اور اس نے وہی کیا جو اسے کہا گیا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان نے اس کا ہاتھ تھاما اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور پوچھا : تیری حاجت کیا ہے؟ تو اس نے اپنی حاجت بیان کی اور انہوں نے اسے پورا کیا۔ پھر انہوں نے اس سے کہا : تو نے اپنی اس حاجت کے بارے میں آج تک کیوں نہ بتایا؟ آئندہ تمہاری جو بھی ضرورت ہو مجھے بیان کرو۔ پھر وہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلا گیا اور عثمان بن حنیف سے ملا اور ان سے کہا : اﷲ آپ کو بہتر جزا دے، اگر آپ میری حاجت میں میری رہنمائی نہ فرماتے تو نہ تو وہ میری حاجت پر غور کرتے اور نہ میری طرف متوجہ ہوتے۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا یہ میں نے نہیں کہا بلکہ میں نے اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ ایک نابینا آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بینائی چلے جانے کا شکوہ کیا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تو صبر کر۔ اس نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا کوئی خادم نہیں اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوٹا لیکر آؤ اور وضو کرو، ابن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : خدا کی قسم! ہم لوگ نہ تو ابھی مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان لمبی گفتگو ہوئی، حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں) آیا کہ گویا اسے کوئی اندھا پن ہی نہیں تھا ۔ امام منذری نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
(أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، وفي المعجم الصغير، 1 / 183، الرقم : 508، وفي الدعاء، 1 / 320، الرقم : 1050، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 167، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 32، 274، الرقم : 1018، وقال : والحديث صحيح، والسبکي في شفاء السقام : 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 201)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...