Saturday 20 January 2018

منت ماننے کا صحیح طریقہ نذر و نیازاور دس بیبیوں کی کہانی ، بی بی فاطمہ کا معجزہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا معجزہ کیا ہے ان کی منت ماننا کیسا ہے ؟

1 comments
 منت ماننے کا صحیح طریقہ نذر و نیازاور دس بیبیوں کی کہانی ، بی بی فاطمہ کا معجزہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا معجزہ کیا ہے ان کی منت ماننا کیسا ہے ؟

منت کسی جائز عمل کی ہونی چاہیے جس کو سر انجام دینا ممکن ہو۔ مثلاً اگر فلاں کام ہوگیا تو میں نفل پڑھوں گا، کوئی چیز تقسیم کروں گا، درود وسلام پڑھوں گا یا روزہ رکھوں گا وغیرہ وغیرہ ، نفل، چیز کی تقسیم درود وسلام یا روزوں کی مقدار اتنی ہونی چاہیے جو آپ کے لیے ممکن ہو۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ لاکھوں، کروڑوں یا اربوں کی تعداد میں نفل یا روزے کی منت مان لیں، جو پوری زندگی دن رات بھی لگے رہنے سے پوری کرنا ممکن نہ ہو۔ کوئی ایسا عمل نہ ہو جو اسلام میں جائز نہ ہو۔ اگر کوئی ایسی منت مان لے جو اسلام میں جائز نہ ہو یا وہ ممکن نہ ہو تو منت ماننے والا اس کو پورا نہ کرے بلکہ قسم کا کفارہ ادا کر دے ۔

نذر و نیاز ایک مستحب عمل ہے۔ کریں تو ثواب، نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں۔ لہذا یہ فرض وواجب نہیں ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حلال اور طیب رزق ہے، جسے رب کریم اپنے بندوں کو محنت کرکے حلال ذرائع سے حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ بندے حرام سے بچ کر حلال طیب رزق حاصل کرکے اپنی زندگی گزاریں۔

انہی حلال و طیب رزق میں سے ایک بابرکت چیز نذرونیاز ہے جوکہ رب کریم کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا ثواب نیک و صالح مسلمانوں کو ایصال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں نذرونیاز کی حقیقت اور اسے حرام کہنے والوں کی اصلاح کی جائے گی۔

نذرونیاز کو حرام کہنے والے یہ آیت پیش کرتے ہیں۔القرآن: انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اہل بہ لغیر اﷲ O (سورۂ بقرہ، رکوع 5، پارہ 2 ، آیت 173)
ترجمہ: درحقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا مردار اور خون سور کا گوشت اور جس پر اﷲ کے سوا (کسی اور کا نام) پکارا گیا ہو۔
القرآن: حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااہل لغیر اﷲ بہ O (سورۂ مائدہ، رکوع 5، پارہ 6، آیت 3)
ترجمہ: حرام کردیا گیا تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔
ان آیات میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘سے کیا مراد ہے:
1۔ تفسیر وسیط علامہ واحدی میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کا مطلب ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
2۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ترجمان القرآن میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے مراد لکھا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
3۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمہ نے ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ سے مراد یہی لیا ہے کہ جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
4۔ تفسیر بیضاوی پارہ 2 رکوع نمبر 5 میں ہے کہ ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ جانور کے ذبح کے وقت بجائے خدا کے بت کا نام لیا جائے۔
5۔ تفسیر جلالین میں ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جو غیر اﷲکے نام پر ذبح کیا گیا ہو، بلند آواز سے بتوں کا نام لے کر وہ حرام کیا گیا۔
ان تمام معتبر تفاسیر کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ یہ تمام آیات بتوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہیں، لہذا اسے مسلمانوں پر چسپا کرنا کھلی گمراہی ہے۔
مسلمانوں کا نذرونیاز کرنا
مسلمان اﷲ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک جانتے ہیں اور جانور ذبح کرنے سے پہلے ’’بسم اﷲ اﷲ اکبر‘‘ پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں پھر کھانا پکواکر اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے لہذا اس میں کوئی شک والی بات نہیں بلکہ اچھا اور جائز عمل ہے۔

ایصال ثواب کیلئے بزرگوں کی طرف منسوب کرنا

الحدیث: ترجمہ… سیدنا حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! میری والدہ فوت ہوگئی ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے کچھ خیرات اور صدقہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا!ہاں کیجئے، حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے دریافت فرمایا۔ ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’پانی پلانا‘‘ تو ابھی تک مدینہ منورہ میں حضرت سعد رضی اﷲ عنہ ہی کی سبیل ہے (بحوالہ: سنن نسائی جلد دوم، رقم الحدیث3698،ص 577، مطبوعہ فرید بک لاہور)
صاحب تفسیر خازن و مدارک فرماتے ہیں:اگر فوت شدہ کا نام پانی پر آنا اس پانی کے حرام ہونے کا سبب بنتا تو حضرت سعد رضی اﷲ عنہ اس کنویں پر اُم سعد کا نام نہ آنے دیتے، ’’مااہل بہ لغیر اﷲ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح جانور پر غیر اﷲ کا نام نہ آئے، جان کا نکالنا خالق ہی کے نام پر ہو (تفسیر خازن و مدارک، جلد اول، ص 103)
الحدیث: ترجمہ… حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سینگوں والے مینڈھے کے لئے حکم فرمایا جس کے سینگ سیاہ آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا سیاہ ہوں۔ پس وہ لایا گیا تو اس کی قربانی دینے لگے۔ فرمایا کہ اے عائشہ! چھری تو لائو، پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر تیز کرلینا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا تو مجھ سے لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے لگے تو کہا۔ اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے اﷲ تعالیٰ! اسے قبول فرما محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے اور امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے پھر اس کی قربانی پیش کردی (بحوالہ: ابودائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1019، ص 392، مطبوعہ فرید بک لاہور)
الحدیث: ترجمہ… حنش کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا، یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے وصیت فرمائی تھی، اپنی طرف سے قربانی کرنے کی۔ چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے پیش کررہا ہوں۔(بحوالہ: ابو دائود جلد دوم، کتاب الاضحایا، رقم الحدیث 1017، ص 391، مطبوعہ فرید بک لاہور)
حضرت علامہ مولانا مُلّا جیون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد بغرض ملکیت یا بغرض ایصال ثواب وغیرہ کسی جانور وغیرہ پر آنا یہ سبب حرمت نہیں، مثلا یوں کہا جاتا ہے۔ مولوی صاحب کی گائے، خان صاحب کا دنبہ، ملک صاحب کی بکری، عقیقہ کا جانور، قربانی کا جانور، ولیمہ کی بھینس، ان جانور پر جو غیر اﷲ کا نام پکارا گیا تو کیا یہ حرام اور منت ہوگئے؟ ہرگز نہیں! یہی حکم ہے گیارہویں کے دودھ، حضور غوث الثقلین رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب بکری اور منت والے جانوروں کا‘‘ (بحوالہ: تفسیرات احمدیہ)(طالب ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تیرہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’واگر مالیدہ و شیر برنج بنا برفاتحہ بزرگ بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخورند مضائقہ نیست جائز است‘‘یعنی اگر مالیدہ اور شیرینی کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکاکر کھلا دے تو جائز ہے، کوئی مضائقہ نہیں(بحوالہ : تفسیر عزیزی، جلد اول ،ص 39)آگے فرماتے ہیں ’’طعامیکہ ثواب آں نیاز حضرت امامین نمایندو وبرآں فاتحہ و قل ودرود خواندن تبرک میشود خوردن بسیار خوب است‘‘یعنی جس کھانے پر حضرات امامین حسنین کی نیاز کریں اس پر قُل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے(بحوالہ: فتاویٰ عزیزی، جلد اول، ص 71)

مسلک اہلسنت، دیوبندی مکتبہ فکر اور اہلحدیث مکتبہ فکر کی مسلمہ شخصیت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ کی کتابوں سے نذر و نیاز کا ثبوت :
1… اقوال امام الطائفہ کے بزرگان و عمائد اور اساتذہ و مشائخ کے نقل کرتے ہیں تاکہ ان بے باکوں کو پتہ چلے کہ شریعت سے ممانعت کے بغیر فاتحہ کو حرام بتانے پر زبان کھولنا اور فاتحہ کے کھانے، بزرگوں کی نیاز کی شیرینی کو حرام و مردار کہنا کیسی سخت سزائیں چکھاتا ہے اور کیسے برے دن دکھاتا ہے۔(انفاس العارفین (اردو) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمکی نیاز کی اشیاء کی مقبولیت، صفحہ نمبر 106، مطبوعہ المعارف گنج بخش روڈ لاہور) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9 صفحہ نمبر 574، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
2… الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین میں شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ کی بات کو نقل کرتے ہیں ’’بائیسویں حدیث: مجھے سیدی والد ماجد نے بتایا کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نیاز کے لئے کچھ کھانا تیار کراتا تھا۔ ایک سال کچھ کشائش نہ ہوئی تو کھانا پکوائوں، صرف بھنے ہوئے چنے میسر آئے۔ وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے۔ میں نے سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خوبا میں دیکھا کہ ان کے سامنے یہ چنے موجود ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسرور و شادماں ہیں‘‘ (الدرالثمین فی مبشرات النبی الامین، صفحہ نمبر 40، کتب خانہ علویہ رضویہ فیصل آباد)
3… شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب انتباہ فی سلاسل الاولیاء میں لکھتے ہیں۔ تھوڑی شیرینی پر عموماً خواجگان چشت کے نام فاتحہ پڑھیں اور خدائے تعالیٰ سے حاجت طلب کریں۔ اسی طرح روز پڑھتے رہیں (الانتباہ فی سلاسل الاولیائ، ذکر طریقہ ختم خواجگان چشم صفحہ 100 مطبوعہ برقی پریس دہلی) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
4 … شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ ’’ہمعات‘‘ میں فرماتے ہیں۔ یہیں سے ثابت ہے اعراس مشائخ کی نگہداشت اور ان کے مزارات کی زیارت پر مداومت اور ان کے لئے فاتحہ پڑھنے اور صدقہ دینے کا التزام ۔ (ہمعات، ہمعہ 11، 1 کا دیمیۃ الشاہ ولی اﷲ حیدرآباد سندھ صفحہ 58) (فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
5… شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’زبدۃ النصائح‘‘ میں مندرج فتویٰ میں لکھتے ہیں۔ اگر کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ان کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے قصد سے ملیدہ اور کھیر پکائیں اور کھلائیں تو مضائقہ نہیں، جائز ہگے اور خدا کی نذر کا کھانا اغنیاء کے لئے حلال نہیں۔ لیکن اگر کسی بزرگ کے نام کی فاتحہ دی جائے تو اس میں اغنیاء کو کھانا بھی جائز ہے (زبدۃ النصائح) (فتاویٰ رضویہ (جدید)، جلد 9، صفحہ نمبر 575، مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے جو کہ بخاری شریف کی سب سے پہلی حدیث ہے : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔شیعہ حضرات کی جو بھی نیت ہو، وہ اپنی نیت کے ذمہ دار ہیں۔ ہم اہلسنت و جماعت کی نیت صرف اور صرف امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کے ایصال ثواب کی ہے جسے ہم اہلسنت عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں۔عقلی دلیل: 18 ذی الحجہ کو تمام مسلمان یوم شہادت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ مناتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے شیعہ اس دن عید غدیر مناتے ہیں۔ نئے کپڑے پہنتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ اس دن شیعہ عید مناتے ہیں ، ہم حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا یوم شہات منانا چھوڑ دیں؟ نہیں ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس لئے کہ ہماری نیت یوم شہادت منانے کی ہے۔
عقلی دلیل: شیعہ حضرات دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں جبکہ پوری دنیا کے مسلمان دس محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں ۔ ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو کیا ہم اس بناء پر کہ وہ سوگ و ماتم کرتے ہیں۔ ہم یوم شہادت منانا چھوڑ دیں؟ ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا چھوڑدیں ؟ نہیں، ہرگز نہیں چھوڑیں گے ۔ اس لئے کہ ہماری نیت شہدائے کربلا کے ایصال ثواب کی ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ مورخین کے نزدیک 15 رجب المرجب ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے وصال کی تاریخ 22 رجب المرجب ہے؟ اس کا جواب : جس طرح حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ کی وصال کی تاریخ میں مختلف اقوال ہیں۔ کسی کے نزدیک 22 رجب، کسی کے نزدیک 24 رجب اور کسی کے نزدیک 26 رجب ہے۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ 22 رجب المرجب ہی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا یوم وصال ہے پھر تو ہمارے لئے اور بھی فیوض و برکات حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ وہ اس طرح کہ جب ہم 22 رجب المرجب کو نذرونیاز پر فاتحہ پڑھیں گے تو اس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بھی ایصال کردیں گے۔

بعض جگہ یہ رواج ہے کہ گھر کی چند خواتین ایک جگہ جمع ہوکر ’’لکڑ ہارے کی کہانی، داستان عجیب، دس بیبیوں کی کہانی، جناب سیدہ کی کہانی اور شہزادے کا سر نامی من گھڑت قصے اور کہانیاں پڑھ کر سناتی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب کہانیاں ہی ہیں۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے تو سورۂ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی تلاوت کرکے بھی نیاز تقسیم کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کو واقعی سچے واقعات سنانے ہیں تو علمائے اہلسنت کی کتابوں سے پڑھ کر سنائیں تاکہ لوگوں تک صحیح معلومات پہنچے۔ اور معجزہ صرف نبی کا ہوتا ہے ، غیر نبی کا معجزہ نہیں ہوتا ، یہ سرے سے جہالت پر مبنی ہے ۔

امام ترمذی نے شمائل ترمذی میں گیارہ بیبیوں کی کہانی نقل کی ہے جو درج ذیل ہیں : ام زرع کی حدیث : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: گیارہ عورتوں نے مل بیٹھ کر آپس میں پختہ معاہدہ کیا کہ وہ اپنے خاوندوں کے حالات (ایک دوسرے سے ) نہیں چھپائیں گیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند دشوار گزار پہاڑی پر دبلے اونٹ کے گوشت کی طرح ہے، نہ تو وہ پہاڑ اتنا آسان ہے کہ اس پر چڑھا جا سکے اور نہ ہی وہ گوشت اتنا موٹا ہے کہ محنت سے لایا جائے (یعنی میرا خاوند نا کارہ ہے) دوسری عورت نے کہا میرا خاوند (ایسا ہے) کہ میں اس کا حال ظاہر نہیں کر سکتی مجھے ڈر ہے کہ میں اسے چھوڑ ہی نہ دوں۔ اگر میں اس کا حال بیان کروں تو تمام عیوب بیان کروں گی (یعنی میرے خاوند کے حالات ناقابل بیان ہیں) تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند (بے تکا) لمبا ہے، اگر اس کو میں کچھ کہوں تو (مجھے) طلاق دے دی جاتی ہے اور اگر خاموش رہوں تو لٹکائی جاتی ہوں (یعنی کسی طرف کی نہیں رہتی)۔ چوتھی عورت نے کہا میرا خاوند مکہ مکرمہ کی رات کی طرح نہ گرم نہ سرد نہ خوف اور نہ رنج (یعنی میرا خاوند معتدل مزاج ہے)۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند گھر آئے تو چیتا باہر جائے تو شیر ہے، وہ گھریلو معاملات کی تحقیق نہیں کرتا۔ چھٹی عورت نے کہا میرا خاوند جب کھانا کھاتا ہے تو سب سمیٹ لیتا ہے، پانی پیئے تو سب چڑھا لیتا ہے، جب لیٹتا ہے تو کپڑا خوب لپیٹ لیتا ہے اور میرے کپڑے میں ہاتھ ڈال کر (میرے) رنج وراحت کو معلوم نہیں کرتا (یعنی لاپرواہ ہے) ساتویں عورت نے کہا میرا خاوند سست ہے (یا اس عورت نے کہا) ناکارہ بیوقوف ہے۔ وہ ہر بیماری میں مبتلا ہے تجھے زخمی کر دے یا تیری ہڈی توڑ دے یا تیرے لیے دونوں جمع کر دے (یعنی وہ بیوقوف اور ناکارہ شخص ہے) آٹھویں عورت نے کہا میرے خاوند کو ہاتھ لگانا خرگوش کو ہاتھ لگانے کے برابر ہے (نہایت ملائم بدن والا ہے) اور وہ زعفران کی طرح خوشبودار ہے۔ نویں عورت نے کہا میرا خاوند اونچے ستونوں والا (عالی نسب) بہت بڑی راکھ والا (سخی) لمبے پر تلے والا (دراز قد) اور اس کا گھر مشورہ گاہ کے قریب ہے (یعنی معتبر آدمی ہے) دسویں عورت نے کہا میرے خاوند کا نام مالک ہے اور کیسا مالک؟ وہ مالک اس (نویں عورت کے خاوند) سے بہتر ہے۔ وہ اونٹوں کا مالک ہے اور اس کے اونٹ اکثر باڑے میں رہتے ہیں اور بہت کم چراگاہ میں جاتے ہیں۔ جب وہ (اونٹ) گانے بجانے کی آواز سنتے ہیں (مہمانوں کے استقبال سے کنایہ ہے) تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (یعنی یہ شخص امیر بھی ہے اور مہمان نواز بھی) گیارہویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند ابو زرع ہے اور ابو زرع کیا ہے؟ اس نے زیورات سے میرے کان ہلا دیے اور چربی سے میرے بازو بھر دیے (خوب کھلایا پلایا) اس نے مجھے خوش کیا تو میں اپنے آپ سے خوش ہوئی۔ اس نے مجھے تھوڑی سی بکریوں والوں (غریب خاندان) میں پایا تو مجھے امیروں میں لے آیا، جہاں اونٹوں اور گھوڑوں کی آوازیں آتی ہیں اور گاہنے والے بیل اور بھوسہ جدا کرنے والے آدمی ہیں (یعنی مالدار سسرال) میں بات کرتی ہوں تو برا نہیں منایا جاتا۔ جب میں سوتی ہوں تو صبح تک سوئی رہتی ہوں اور پیتی ہوں تو سیراب ہو کر پیتی ہوں، ابو زرع کی ماں بھی کیسی (باکمال) عورت ہے۔ اس کے برتن بڑے بڑے ہیں اور اس کا گھر کشادہ ہے۔ ابوزرع کے بیٹے کی شان بھی عجیب ہے، اس کا پہلو کھجور کی بے پھل ٹہنی کی طرح ہے اور اسے بکری کے بچے کا صرف ایک باز و سیر کر دیتا ہے۔ ابو زرع کی بیٹی بھی کیا ہی (لائق تعریف) ہے۔ ماں باپ کی فرمانبردار اور چادر کو بھرنے والی ہے (موٹی تازی) اور اپنی ہمسایہ عورت (سوکن) کو جلانے والی ہے۔ ابو زرع کی لونڈی بھی کیا ہی (قابل ستائش) ہے نہ ہمارے راز ظاہر کرتی ہے نہ ہمارا غلہ چوری کرتی ہے اور نہ ہی ہمارے گھر کو کوڑے کرکٹ سے بھرتی ہے۔ ام زرع نے کہا کہ ابو زرع گھر سے نکلا۔ اس وقت دودھ کی مشکیں بلوئی جا رہی تھیں (یعنی دودھ سے مکھن نکالا جا رہا تھا) اس نے ایک عورت سے ملاقات کی جس کے ساتھ (اس کے) چیتے کی طرح دو بچے اس کے پہلو میں دو اناروں سے کھیل رہے تھے۔ (اس کے بعد) ابو زرع نے مجھے طلاق دے دی اور (پھر) میں نے بھی ایک ایسے سردار سے شادی کر لی جو گھوڑے پر سوار ہوتا، ہاتھ میں خطی نیزہ ہوتا (مقام خط، جو بحرین کی بندرگاہ کے پاس ہے کا نیزہ خطی کہلاتا ہے) اور سہ پہر کو وہ میرے پاس کثرت سے چوپائے لے آتا، اس نے مجھے ان چوپایوں میں سے ایک ایک جوڑا دیا اور کہا اے ام زرع ! تو خود بھی کھا اور اپنے اقارب کو بھی غلہ دے (اس کے باوجود) اگر میں اس کے دیے ہوئے تمام عطیات جمع کروں تو بھی ابو زرع کے چھوٹے سے چھوٹے برتن کے برابر نہ ہوں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (اے عائشہ!) میں تیرے لیے ایسا ہوں جیسا ابوزرع ، ام زرع کے لیے تھا (یعنی نہایت شفیق اور مہربان) ۔ (امام ترمذی، الشمائل المحمدية، 1: 209، رقم:254، مؤسسة الکتب الثقافية بيروت)

لہذا مذکورہ بالا حدیث یا کوئی اور ایسا مستند واقعہ جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو اس کے پڑھنے کی منت مانی جائے تو درست ہے۔ اگر کوئی من گھڑت قصہ کہانی ہے تو اسے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اگر وہ قرآن وحدیث کے منافی ہو تو ناجائز ہے۔

جو صورت جائز ہو سکتی ہے آپ کو بتا دیا، باقی ساری باتیں غلط ہیں، جھوٹ اور جہالت پر مبنی ہیں ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔