عورت ایک پردہ ہے اور پردے کی چیز پردے میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہے
محترم قارئینِ کرام : لغت میں عورت ک امعنی پردہ ہے ، لیکن پردے کا نام آتے ہی بعض عورتیں اس طرح بدک جاتی ہیں کہ مانواس کے ساتھ بڑا ظلم کیا جارہا ہے جبکہ پردہ ان کےلیے نہ صرف عزت و شرافت کی علامت ہے بلکہ بری نگاہوں سے انہیں بچاتا بھی ہے ۔ یوں تو پردے کا تصور ہر مذہب میں کسی نہ کسی طورپر مل جاتا ہے مگر مذہب اسلام میں پردے کا جو خیال رکھا گیا ہے وہ سب سے بہترطریقہ ہے،اس تعلق سے قرآن مقدس میں کئی آیتیں نازل ہوئی ہیں جس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ پردہ ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ معاشرے میں تمام برائیوں کی جڑ بد نگاہی ہے ، کیونکہ بدنگاہی اور اِدھر اُدھر تاک جھانک ہی انسان کو بدکاری کی راہ دکھاتی ہے اور آخرکار انسان گمراہی اور بدنامی کے جہنم میں پہنچ جاتا ہے ۔ پردے کاحکم آج سے نہیں ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے سے ہے،کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو علم تھا کہ پردہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیامیں ہزاروں فتنے پیدا ہوں گے ، یہی سبب ہے کہ احادیث میں پردے کی سخت تاکید کی گئی ہے ، امام ترمذی کی ایک حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے : عورت عورت ہے، یعنی چھپانے کی چیزہے ، جب یہ نکلتی ہے تواُسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے ۔ گویا اُسے دیکھنا شیطانی کام ہے،لیکن دنیا اس فتنے میں جان بوجھ کر مبتلا ہے ، جس فتنے کی وجہ سے بے شرمی اور بے حیائی عام ہو گئی ہے ، جب کہ قرآن مقدس میں آیاہے کہ : مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناٶ سنگار نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہوں اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار نہ ظاہر کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا اپنے شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا اپنے شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں یا اپنے نوکر ، بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار ۔
لیکن آج دیکھا جا رہا ہے کہ عورتوں کا حال ذرہ بھر بھی قرآن و حدیث کے مطابق نہیں ہے ، بلکہ وہ مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے اور جہاں دیکھوبے حیائی اوربے شرمی ہے ،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بے حیائی اوربے شرمی میں سب سے بڑا ہاتھ عورتوں کاہی ہاتھ ہے۔معاشرے میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ہم عورتیں اپنے آپ کونہیں بدلیں گے ، کیونکہ عورت اگر پارسا اور نیک ہے تو گھر اور معاشرے کےلیے اچھا شگون ہے اور اگر یہی عورت بے حیا اور بے شرم ہے تو دونوں کےلیے وبال ہے ۔ اس کے باوجود آج جدھر بھی نظر اٹھا کر دیکھا جا رہا ہے تو پردے کے بجائے عریانیت کا ماحول ہے ، لباس کے نام پر ایسے ایسے کپڑے استعمال کیے جا رہے ہیں کہ جس سے پردے کی تکمیل تو دور خود بدن صحیح سے نہیں ڈھک پاتا ہے ۔ اسلام کو یہ بے ہودگی اور یہ بدتہذیبی ایک لمحے کےلیے بھی گوارا نہیں ہے ، اسی لیے اس نے عورتوں کوایسالباس پہننے سے منع کیاہے جس سے جسم کی رنگت یا بناوٹ ظاہر ہوں ، کیونکہ عورت ، عفت و عصمت اور پارسائی کی چلتی پھرتی تصویر ہوتی ہے اور شرم و حیا کی جیتی جاگتی دیوی بھی ۔ اسلام عورتوں کو پاکیزگی ، حرمت اور عزت و شرافت کے ساتھ زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ ہدایتیں دیتا ہے کہ : ⏬
1 ۔ عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔
2 ۔ اپنی پارسائی اورعزت وعظمت کی حفاظت کریں اور اس پرداغ نہ آنے دیں ۔
3 ۔ اپنی زیبائش اورآرائش اوراپنا بنائو سنگار اجنبی کی نگاہوںمیںنہ آنے دیں ۔
4 ۔ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پرڈالے رکھیں تاکہ ان کاسراورسینہ کھلانہ رہے ۔
5 ۔ زمین پراس طرح اپنے پائوں زورسے نہ رکھیں کہ ان کے زیوروں کی جھنکار غیرمردوں کے کان میں پڑے ۔
ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ام سلمہ اورحضرت ام میمونہ رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرتھیں کہ عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں پردہ کرنے کا حکم دیا ، انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو نابینا ہیں ، اس پر فرمایا:تم تونابینانہیں ہو۔(چشتی)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ برائی کی جڑ نگاہیں ہیں اس لیے اس کاخیال رکھنا چاہیے ، اگر ضرورت پڑنے پر غیر محرم سے مخاطب ہونا پڑے یاکوئی کام ہو تو بھی نگاہیں نیچی رکھیں ۔
پردہ صرف لباس یانگاہ تک نہیں ہے ، بلکہ آواز کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ زیادہ زور زور سے اور چلا کر نہ بولیں ، کیوں کہ عورتوں کی آواز میں ایک کشش ہوتی ہے جو انسان کے دلوں میں برے خیالات پیدا کر سکتے ہیں اور عورت کویہ بھی چاہیے کہ وہ اپنے بناٶ سنگھار میں کسی ایسی خوشبو کا استعمال نہ کریں جو مردوں کو ان کی جانب متوجہ کر دے اور ایسے زیور بھی پہننے سے گریز کریں جس میں آواز ہو ، کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں مردوں کو لبھانے اور اپنی جانب متوجہ رکھنے کےلیے عورتوں میں یہ بات بڑی پسندیدہ مانی جاتی تھی کہ : جب اُن کا گزر اجنبی مردوں کے سامنے یاکسی مجمع سے ہوتا تو وہ اپنے پاٶں کو زور سے زمین پر رکھتی تھیں تاکہ مرد اُن کے زیوروں کی آواز سن کر اُن کی طرف متوجہ ہوں اور اُن کے دل میں اُن کا خیال پیدا ہو ۔ آج بھی کچھ عورتیں اپنا سنگھار ظاہر کرنے کےلیے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کےلیے ایسی اوچھی حرکت کرتی ہیں ، شریعت مطہرہ نے ایسی ذلیل حرکتوں سے سختی کے ساتھ روکا ہے کہ زور سے قدم زمین پر نہ رکھیں کہ ان کے زیوروں کی جھنکار غیروں کے کانوں تک پہنچے اور وہ ان کی جانب متوجہ ہوں ۔
اگر کبھی کسی ضرورت کے تحت عورت کو گھر سے نکلنا بھی پڑے تو حکم ہے کہ شرافت اور سنجیدگی سے اپناقدم بڑھائیں اورپردے کاخاص خیال رکھیں ، کیوں کہ یہی وہ ساری صفات اور عادات ہیں جنہیں چھوڑدینے سے انسان غلط راستہ اختیار کر لیتا ہے اور گناہوں کے دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے ۔
عورت کی آواز بھی عورت ہے اس کا بھی پردہ کریں : ⏬
ایک مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح خواتین کے لیے اپنے جسم کو نامحرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے ، اسی طرح اپنی آواز کو بھی نامحرم مردوں تک پہنچنے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے ، البتہ جہاں ضرورت ہو وہاں نامحرم مرد سے پردہ کے پیچھے سے بات کر سکتی ہے ، اسی طرح ٹیلی فون پر بھی ضرورت کے وقت بات کر سکتی ہے ، البتہ ادب یہ ہے کہ نامحرم سے بات کرتے وقت عورت اپنی آواز کی قدرتی لچک اور نرمی کو ختم کر کے ذرا خشک لہجے میں بات کرے ، تاکہ قدرتی لچک اور نرمی ظاہر نہ ہونے پائے اور نامحرم مرد کو عورت کے نرم انداز گفتگو سے بھی کسی گناہ کی لذت لینے کا موقع نہ مل سکے۔ اس سے شریعت کی احتیاط کا اندازہ لگائیے آج کل ہمارے معاشرے میں جن گھروں میں کچھ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے ، وہاں بھی عورت کی آواز کے سلسلے میں عموماً کوئی احتیاط نہیں کی جاتی، بلکہ نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات چیت ہوتی رہتی ہے اور ان سے گفتگو میں ایسا انداز ہوتا ہے جیسے اپنے محرم کے ساتھ گفتگو کا انداز ہوتا ہے، مثلاً جس بے تکلفی سے انسان اپنی ماں کے ساتھ، اپنی بیٹی کے ساتھ ، اپنی بیوی کے ساتھ اوراپنی سگی بہن کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور ہنستا بولتا ہے اوراس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، لیکن بعض اوقات یہ انداز نامحرم عورتوں کے ساتھ گفتگو کے وقت بھی ہوتا ہے ۔ اور نامحرم عورتیں نامحرم مردوں کے ساتھ یہی انداز اختیار کر لیتی ہیں اور گفتگو کے دوران ہنسی مذاق، دل لگی اور چھیڑ چھاڑ سبھی کچھ ہوتا ہے ، آج یہ باتیں ہمارے معاشرے میں عام ہیں ۔ یاد رکھیے! جس طرح عورت کے جسم کا پردہ ہے، اسی طرح اس کی آواز کا بھی پردہ ہے، جس طرح عورت کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو نامحرم مرد کے سامنے آنے سے بچائے ، اسی طرح اس کے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی آواز کو بھی بلاضرورت نامحرم مردوں تک جانے سے روکے ، البتہ جہاں ضرورت ہے وہاں بقدر ضرورت (ضرورت کی حد تک) گفتگو کرنا جائز ہے ۔ اور اسی طرح نامحرم مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ بلا ضرورت نامحرم عورت کی آواز کی طرف کان نہ لگائیں ۔ (یعنی نہ سنیں) ۔ اور نامحرم عورت کی آواز یا نامحرم مرد کی آواز کو خواہش نفس (شہوت) کی تسکین کی خاطر سننا یقینا ناجائز اور گناہ ہے ۔ حج جو کہ فرض ہے اور حج میں زور سے تلبیہ (یعنی لبیک اللھم لبیک) پڑھا جاتا ہے، لیکن عورتوں کےلیے حکم یہ ہے کہ عورتیں تلبیہ زور سے نہیں ، بلکہ آہستہ آہستہ آواز میں پڑھیں ۔ (چشتی)
بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کی دینی تقریات ، اجتماعات وغیرہ میں اسپیکر لگے ہوتے ہیں ۔ جن کے ذریعے عورتوں کی تقاریر ، نعتوں وغیرہ کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے ۔ یہ بھی ناجائز ہے ، کیوں کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی بند مکان میں عورتوں کا اجتماع ہو اور اگر عورتوں کے رش یا کثرت کی وجہ سے ان سب تک بات پہنچانے کے لیے اسپیکر بھی لگانے پڑیں تو عورتوں کی آواز باہر نہ جائے ۔
اب جبکہ عورت خود ایک پردہ ہے اور پردے کی چیز پردے میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہے تو ہرحال میں عورتوں کو پردے کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور شریعتِ مطہرہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ نبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
خواتین اور محافلِ میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ⏬
محترم قارئینِ کرام : خواتین کی محافل میلاد میں شرکت دو طر ح کی ہوتی ہے ، ایک یہ کہ ایک ہی محفل میلاد میں خواتین کےلیے پردے کا علیحدہ انتظام ہوتا ہے ایسی محافل درحقیقت مردوں ہی کےلیے ہوتی ہیں تاہم پردے کا اہتمام کر کے عورتوں کو بھی شرکت کا موقع دیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے یہ بات یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا میلاد منانا کثیر برکات و حسنات کا موجب ہے ۔ اس کی فضیلت و برکت قرآن پاک سے بھی خوب ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنی رحمت و فضل پر خوشی منانے کاحکم ارشاد فرمایا ہے ۔ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا هُوَ خَیْرٌمِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ : اللہ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہيے کہ خوشی کریں ، وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ۔ (سورۂ یونس آیت نمبر 58)
اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل اپنی رحمت پر خوشی منانے کا حکم ارشاد فرما رہا ہے اور بلاشک و شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں ، جن کواللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کےليے رحمت بنا کر بھیجا اور ان کے مبعوث فرمانے پراحسان بھی جتلایا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام جہانوں کےلیے رحمت ہونے کے بارے میں اللہ رب العزت کافرمانِ ہے : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔
ترجمہ : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا ، مگر رحمت سارے جہاں کےلیے ۔ (سورۃ الانبیاء آیت نمبر 107)
دوسری جگہ ارشادفرمایا : لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا ۔
ترجمہ : بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ۔ (سورۂ آل عمران آیت نمبر 164)
پہلی آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحمت ہونے اور دوسری میں نعمت ہونے کا ذکر ہے ۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت و نعمت ہیں ، توان کا میلاد منانا یعنی ان کے فضائل میں محافل کا اہتمام کرنا ، اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار و چرچا کرنا ہے اور خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اظہارِ نعمت اور اس کا چرچا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : چنانچہ قرآن مجید میں ہے : وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ۔
ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو ۔ (سورہ والضحی آیت نمبر 11)
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا میلاد منانا ایسی عظمت و فضیلت والا کام ہے کہ اس کی برکتیں نہ صرف مسلمانوں ، بلکہ کافروں کو بھی پہنچتی ہیں ۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے : ثویبۃ مولاۃ لأبی لھب کان أبو لھب أعتقھا ، فأرضعت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، فلما مات أبو لھب أریہ بعض أھلہ بشر حیبۃ، قال لہ : ما ذا لقیت ؟ قال أبو لھب : لم ألق بعدکم غیر أنی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ ۔
ترجمہ : ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی ۔ ابولہب نے اسے آزاد کر دیا اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دودھ پلایا ، توجب ابولہب مرا، اس کے بعض گھروالوں نے اسے بُرے حال میں دیکھا ۔ اس نے ابولہب سے کہا کہ تم نے (ہم سے جداہونے کے بعد) کیا پایا ؟ ابولہب نے کہا : تمہارے بعد میں نے کوئی بھلائی نہیں پائی ، سوائے اس کے کہ مجھے اس انگلی سے ثویبہ لونڈی کوآزاد کرنے کے بدلے میں پانی پلایا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 270 مطبوعہ لاهور،چشتی)
صحیح بخاری کی اس روایت کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس حدیث میں میلاد شریف والوں کےلیے حجت ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شبِ ولادت میں خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ باوجودیکہ ابولہب کافر تھا اور اس کی مذمت قرآن میں نازل ہو چکی ہے ، جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میلاد کی خوشی کی اور اس نے اپنی باندی کودودھ پلانے کی خاطر آزاد کردیا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے حق تعالیٰ نے اسے اس کا بدلہ عنایت فرمایا ۔ (مدارج النبوۃ جلد 2 صفحہ 34 مطبوعہ ضیاء القرآن)
جہاں تک عورتوں کا میلاد کی محافل و مجالس میں نعتیں ، بیانات وقرآن پاک پڑھنے کی بات ہے ، توان کا میلاد و دیگر ذکر و اذکار کی محافل منعقد کرنا بھی جائز و موجبِ اجر و ثواب ہے ، لیکن اس میں اس بات کالحاظ رکھا جائے کہ عورت کی آواز نا محرموں تک نہ جائے ، ورنہ یعنی اگر عورت کی آواز اتنی بلند ہوکے غیر محرموں کواس کی آواز پہنچے گی ، تو اس کا اتنی بلند آواز سے پڑھنا ناجائز وگناہ ہو گا ، خواہ اس کایہ پڑھنا گلی میں ہو یا کھلے کمرے یا کسی اورجگہ کہ عورت کی خوش الحانی اجنبی سنے ، محلِ فتنہ ہے اور اسی وجہ سے ناجائز ہے ۔ حضرت امام احمد رضاخان قادری رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : نا جائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے اورعورت کی خوش الحانی کہ اجنبی سنے محل فتنہ ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 240 رضا فاؤنڈیشن لاهور،چشتی)
دوسرے مقام پر اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عورت کا خوش الحانی سے بآواز ایسا پڑھنا کہ نامحرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جا ئے ، حرام ہے ۔ نوازل امام فقیہ ابو اللیث میں ہے : نغمۃ المرأۃ عورۃ ‘‘ یعنی عورت کا خوش آواز کر کے کچھ پڑھنا عورت یعنی محلِ ستر ہے ۔ کافی امام ابو البرکات نسفی میں ہے : لا تلبی جھراًلان صوتھا عورۃ ‘‘ یعنی عورت بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے ، اس لیے کہ اس کی آواز قابلِ ستر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 242 رضا فاؤنڈیشن لاهور)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا : 1 : واعظ یا میلاد خوان اگر عالم سُنی صحیح العقیدہ ہو ۔ 2 : اس کا وعظ و بیان صحیح و مطابق شرع ہو ۔ 3 : جانے میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو ۔ 4 : کوئی احتمال فتنہ نہ ہو ۔ 5 : مجلس رجال سے ان کی نشست دور ہو تو حرج نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 239)
یعنی ایسی محافل میلاد میں شرکت کےلیے مذکورہ بالا شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ورنہ عوتوں کو ایسی محافل میں جانے کی اجازت نہیں۔ جہاں مرد و زن میں بے پردگی کا اندیشہ ہو ۔ خواہ وہ محافل میلاد ہو یا اس قسم کی دیگر محافل عرس و گیارہویں شریف ۔
امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ چند عورتیں ایک ساتھ مل کر گھر میں میلاد شریف پڑھتی ہیں اور آواز باہر سُنائی دیتی ہے یہ جائز ہے یا نہیں؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ ناجائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے ۔ عورت کی خوش الحانی کو اجنبی سے محل فتنہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ) ۔ ایسے ہی ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا : عورتوں کا اس طرح (مولود شریف) پڑھنا کہ ان کی آواز نامحرم سُنیں ، باعثِ ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے ۔ دیگر مجالس کی طرح محافل میلاد میں شرکت تب ہی جائز ہے جب اس میں خلافِ شرع امور کا ارتکاب نہ ہو اگر وہ شرعی احکام کی خلاف ورزی اور ناپسندیدہ بدعات سے پاک نہ ہو تو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 133،چشتی)
اور جب مجلس میلاد منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو تو اس میں شرکت کرنا عظیم سعادت ہے ۔ اگر محافل میلاد منکرات شرعیہ سے پاک ہوں اور ان میں آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو تو ایسی محافل موجب برکت اور ان میں شرکت ذریعہ سعادت ہے اور اگر ان میں امور مکروہہ کا ارتکاب ہو تو وہ موجب خسارہ اور ان میں شرکت باعث ہلاکت ہوتی ہے ۔ ہم سب کےلیے ضروری ہے اس موقع (میلاد النبی) پر ایسی محافل کے انعقاد کو فروغ دیں جن میں آداب کو لحاظ رکھا گیا ہو اور وہ ہر قسم کی منکرات شرعیہ ، اورخرافات سے پاک ہوں۔ صرف اسی صورت میں ان محافل کو عوام الناس کےلئے مفید سے مفید تر بنایا جا سکتا ہے ۔
چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ : اگر کوئی مجلس فی نفسہ منکرات شرعیہ پر مشتمل نہ ہو اور نہ ہی اس میں وہ افعال کےے جائیں جو مقاصد کے مختلف ہونے یا حالات کے بدلنے سے حسن و قبیح میں مختلف ہو جائیں مثلاً سماعِ مجروہ (بغیر مزامیر کے قوالی) اور نہ ہی ایسی باتیں ہوں جو دقت اور گہرائی کی وجہ سے ناقص فہم لوگوں کےلئے فتنہ کا باعث بنیں جیسے وحدت الوجود کے دقیق مسائل اور تصوف کے مشکل دقائق یعنی وہ مجلس خال اور مال ہر لحاظ سے تمام تر منکرات اور فتنوں سے خالی ہو تو اس میں عموم اذن (اجازت عام ہونا) اور شمول دعوت (دعوت میں شامل ہونا) میں حرج نہیں بلکہ مجلس وعظ و پند میں شرعی حدود کی پابندی جس قدر عام (اور زیادہ ہو گی) اسی قدریہ مجلس نفع کے لحاظ سے تام (کامل اور مفید تر) ہو گی ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 147-148)
محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں گفتگو اس قصیدے کی مانند ہے کہ جس کا چرچا و شہرہ ہر سال ہر موسم میں پڑھا جائے پھر بھی لوگ اس سے اکتاہٹ محسوس نہ کریں بلکہ یہ ان کے قلوب و اذہان کی تازگی و شادمانی کا باعث بنے ۔ ملک عزیز پاکستان میں ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی ہر طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مطہرہ کی خوشی میں عوام الناس کے مذہبی جذبات چھلکتے نظر آتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ویسے تو سارا سال ہی محافل میلاد کا انعقاد بہت عقیدت و احترام سے کیا جاتا ہے مگر ربیع الاول کے مہینے میں یہ سماں کچھ اور ہی ہوتا ہے کیونکہ زمانہ ایک دوسرے سے مربوط ہوتا ہے موجودہ موقع کو دیکھ کر لوگ تاریخ گذشتہ کو یاد کرتے ہیں اور حاضر کو پاکر غائب کی طرف توجہ کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ محافل میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم توجہ الی اللہ اور توجہ الی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں ۔ اس موقع پر مبلغین، ، مبلغات ، خطباء اور علماء کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کے بیان کے ذریعے امتِ مسلمہ کو خیر و فلاح کی دعوت دیں ۔ محفلِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرعی حیثیت اس کے تقاضے و آداب کے موضوعات پر خطابات کے ذریعے عوام الناس کو درست نہج پر آگاہی فراہم کریں تاکہ اس میں غیر شرعی رسومات کا خاتمہ کیا جا سکے ۔
بدقسمتی سے اس حوالے سے بہت سی خرافات نے ان مقدس و بابرکت محافل کی حیثیت کو مشکوک بنا دیا ۔ امتِ مسلمہ اس حوالے سے دو طبقات میں بٹ گئی ۔ ایک طبقہ یہ اعتراض اٹھاتا ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محافل عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں منعقد نہیں کی جاتی تھیں لہٰذا یہ بدعت ہیں ۔ تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا میلاد تو فرش پر ہی نہیں بلکہ عرش پر بھی منایا گیا ۔ تمام کتب فضائل و سیر میں ہمیں اس قسم کی روایات ملتی ہیں کہ خود اللہ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت پر سارا سال خوشی منائی ۔ پورا سال بطور جشن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد پر ساری زمیں کو سرسبز کر دیا اور قحط سالی کا خاتمہ ہوا گلے سڑے درختوں کو بھی پھل لگے ۔ رزق کی اتنی کشادگی دی کہ وہ سال خوشی و فرحت کا سال کہلایا ۔ اس سال ولادت میں حاملہ ماؤں کو بیٹوں کی نعمت نصیب فرمائی ۔ محض بدعت کہہ کر اسے ناپسندیدہ کہہ دینا ہٹ دھرمی و تنگ نظری ہے ۔ بدعت کی دو اقسام ہیں ۔ بدعت سیۂ اور بدعت حسنہ۔ بدعت حسنہ وہ نیا کام ہے جو دین کی اصل روح کو مسخ نہ کرے بلکہ دین کے فروغ کا باعث بنے اور دین کے فہم میں مددگار ثابت ہورہا ہو اور یہ اعتراض کہ ظاہری عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہیں منایا گیا تو اس کا جواب یہی ہے کہ جس طرح موجودہ صورتِ حال میں محافل میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منعقد کی جاتی ہیں ۔ نعتیہ اشعار ، اذکار ، فضائل و کمالات بیان کئے جاتے ہیں تو یہ اپنی اصل میں بالکل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت مطہرہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری زمانہ میں بھی محافلِ میلاد منعقد کی جاتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم محفل میں بیٹھتے تھے اور محفلِ نعت منعقد کرواتے تھے ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ اشعار کہتے تھے ۔ آپ دعا فرماتے : اے اللہ! جب تک حسّان میری نعت پڑھتا رہے جبرائیل امین کو اس کی مدد کےلیے مقرر فرمادے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 908)
دوسرا طبقہ وہ ہے جس میں بعض لوگ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پر خرافات و منکرات و بدعات و محرمات کو نادانی میں انجام دے رہے ہیں اور بے ادبی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ صد افسوس کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جشن منانے والے اور جلوس و میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اہتمام کرنے والے ایک طرف تو اتنی محبت کا اظہار کریں اور میلاد کی خوشیوں کو جزو ایمان سمجھیں دوسری طرف شرعی تقاضوں کو نظر انداز کر کے بے ادبی و گناہ کے مرتکب ہوں ۔ عمومی طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کے موقع پر بعض شہروں میں نقلی پہاڑیاں ، مذہبی مقامات کے ماڈلز بنائے جاتے ہیں ۔ ان کی تزئین و آرائش پر بے تحاشہ خرچہ کیا جاتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان پہاڑیوں پر ڈسکو میوزک پر باقاعدہ نوجوان رقص کرتے ہیں ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ خواتین جوق در جوق بہت شوق کے ساتھ ان جگہوں پر بے پردہ آتی ہیں ۔ یہ بے حجابانہ اختلاط سراسر گناہ کا باعث ہے اور ڈھول ڈھمکے ، فلمی گانے سب حرام اور ناجائز امور ہیں ۔ جب تک ان محافل میں وقار اور سادگی کو پیدا نہ کیا جائے گا یہ محافل اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا سے محروم رہیں گی ۔ ان محافل میں آداب سے پہلو تہی کی جائے گی تو رحمت خداوندی اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوگا ۔
قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کسی بھی طبقے سے آواز نہیں اٹھائی جاتی بالعموم مذہبی طبقے کی خاموشی بھی معنی خیز ہے ۔ ہماری امتِ مسلمہ کے حوالے سے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس عظیم ہستی کے یوم ولادت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اپنے کردار کا جائزہ لیں محفل میلاد کو نہایت سادگی ، وقار ، صدق اور اخلاص سے منعقد کریں ۔ مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کی بجائے علیحدہ علیحدہ محافل گھر گھر منعقد کی جائیں ۔ بازاروں اور گلیوں کو ضرور سجائیں ، چراغاں کریں مگر فضول خرچی نہ کریں ان گھروں کی طرف بھی ایک نظر ڈالی جائے کہ جس گھر میں روشنی نہیں جو اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے سے قاصر ہیں ۔ قرض اٹھا کر بڑی بڑی محافل نہ سجائی جائیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں حسب توفیق جو بھی پیش کیا جائے گا وہ ان شاء اللہ قبول ہوگا ۔
حکومتِ وقت ، علما و مشاٸخ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھے بلکہ اس موقع پر میلاد کے نام پر جو میلے ، تھیٹر ، سرکس اور اوباش لوگوں کے رقص و سرور پر سختی کا مظاہرہ کرے اور اصلاحی تدابیر عمل میں لائے ۔ ان محافل کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خصائص و فضائل کو بیان کرنا ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی مگر افسوس : ⬇
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سچا عاشق اور سنت پر عمل پیرا ہونے والا سچا مسلمان بنائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment