وُضو کے فضائل اور طریقہ
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں عرض گذار ہے کہ اس مختصر مضمون میں وُضو کے فضائل اور طریقہ پیش کیا جا رہا ہے مسائل وضو پر ہم الگ سے لکھ چکے ہیں جسے جلد دوبارہ پوسٹ کر دیا جائے گا اس مضمون کو پڑھیں اور وُضو کا صحیح طریقہ اپنائیں ، اہل علم کہیں غلطی پائیں تو فقیر کو آگاہ فرمائیں تاکہ درستگی کر دی جائے جزاکم اللہ خیرا ۔
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بار ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو کیا پھر یَکا یک مُسکرانے اور رُفَقاء سے فرمانے لگے : جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟ پھرخود ہی اِس سُوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میں نے دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے وُضو فرمایا تھا اور بعدِ فراغت مسکرائے تھے اورصَحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا :جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے خود ہی فرمایا : جب آدمی وُضو کرتا ہے توچہرہ دھونے سے چِہرے کے اور ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے او ر سر کا مَسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۱ص۱۳۰حدیث۴۱۵)
صَحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ہر ہر ادا اور ہر ہر سُنَّت کو دیوانہ وار اپناتے تھے ۔ نیز اس روایت سے گناہ دھونے کا نسخہ بھی معلوم ہو گیا ۔ وُضو میں کُلّی کرنے سے منہ کے ، ناک میں پانی ڈال کر صاف کرنے سے ناک کے ، چِہرہ دھونے سے پَلکوں سَمَیت سارے چہرے کے ، ہاتھ دھونے سے ہاتھ کیساتھ ساتھ ناخنوں کے نیچے کے ، سَر (اور کانوں ) کا مسح کرنے سے سر کے ساتھ ساتھ کانوں کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے ساتھ ساتھ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے کے گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں ۔
وُضو کرنے والے کے گناہ جھڑتے ہیں : حضرتِ علّامہ عبدالوہّاب َشعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جامِع مسجِد کوفہ کے وُضو خانے میں تشریف لے گئے توایک نوجوان کو وُضوبناتے ہوئے دیکھا ، اس سے وضو(میں استعمال شدہ پانی ) کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : اے بیٹے ماں باپ کی نافرمانی سے توبہ کرلے ۔ اُس نے فوراً عرض کی : میں نے توبہ کی ۔ ایک اورشخص کے وُضو (میں اِستِعمال ہونے والے پانی ) کے قطرے ٹپکتے دیکھے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس شخص سے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائی توزِنا سے توبہ کرلے ۔ اس نے عرض کی : میں نے توبہ کی ۔ ایک اورشخص کے وُضوکے قطرات ٹپکتے دیکھے تواسے فرمایا : شراب نوشی اور گانے باجے سننے سے توبہ کر لے ۔ اس نے عرض کی : میں نے توبہ کی ۔ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرکَشف کے باعِث چُونکہ لوگوں کے عُیُوب ظاہِر ہوجاتے تھے لہٰذا آپ نے بارگاہِ الہٰی میں اِس کشف کے ختم ہوجانے کی دُعا مانگی : اللہ تعالیٰ نے دُعاقَبول فرمالی جس سے آپ کو وُضو کرنے والوں کے گناہ جھڑتے نظر آنا بند ہوگئے ۔ (اَلمِیزانُ الْکُبریٰ ج۱ ص۱۳۰)
حدیث پاک میں ہے : جس نے بسم اللہ کہہ کر وُضو کیا اس کاسر سے پاؤں تک سارا جسم پاک ہو گیا اور جس نے بغیر بسم اللہ کہے وُضو کیا اُس کا اُتنا ہی بدن پاک ہو گا جتنے پر پانی گزرا ۔ (سُننِ دارقُطنی ج۱ص۱۰۸،۱۰۹حدیث۲۲۸،۲۲۹)
حضرت بُوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : اے ابُوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) جب تم وُضوکر و توبسم اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّہ کہہ لی اکرو جب تک تمہارا وُضوباقی رہے گااُس وَقْت تک تمھارے فِرِشتے (یعنی کِراماً کاتِبِین ) تمہارے لئے نیکیاں لکھتے رہیں گے ۔ (اَلْمُعْجَمُ الصَّغیر لِلطَّبَرَانِی ج۱ص۷۳حدیث ۱۸۶)
حدیثِ پاک میں ہے: باوُضو سونے والا روزہ رکھ کر عبادت کرنے والے کی طرح ہے ۔ (کَنْزُ الْعُمّال ج۹ص۱۲۳حدیث۲۵۹۹۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:بیٹا : اگر تم ہمیشہ باوُضو رہنے کی اِستِطاعت رکھو تو ایسا ہی کرو کیونکہ ملکُ الموت جس بندے کی روح حالتِ وُضو میں قبض کرتا ہے اُس کیلئے شہادت لکھ دی جاتی ہے ۔(شُعَبُ الْاِیمان ج ۳ ص ۲۹ حدیث ۲۷۸۳)
امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہمیشہ باوُضو رہنا مُستحَب ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کلیمُ اللہ علیہ السّلام سے فرمایا : اے موسیٰ اگر بے وُضو ہونے کی صورت میں تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو خود اپنے آپ کو ملامت کرنا ۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۲۹رقم۲۷۸۲) فتاوٰی رضویہ‘‘ میں ہے : ہمیشہ باوُضُو رہنا اسلام کی سُنَّت ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۷۰۲)
امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض عارِفین (علیہم الرّحمہ ) نے فرمایا : جو ہمیشہ باوُضو رہے اللہ تَعَالٰی اُس کو سات فضیلتوں سے مُشرّف فرمائے : {1} ملائکہ اس کی صُحبت میں رَغبت کریں {2} قَلم اُس کی نیکیاں لکھتا رہے {3} اُس کے اَعضاء تسبیح کریں {4} اُس سے تکبیرِ اُولیٰ فوت نہ ہو {5} جب سوئے اللہ تَعَالٰی کچھ فرشتے بھیجے کہ جِنّ و انس کے شَر سے اُس کی حِفاظت کریں {6} سکراتِ موت اس پر آسان ہو{7} جب تک باوُضو ہو امانِ الٰہی میں رہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱ص۷۰۲)
سردی ، تھکن یا نزلہ ، زُکام ، دردِ سر اوربیماری میں وُضو کرنا دشوار ہوتا ہے مگر پھر بھی کوئی ایسے وقت وُضو کر ے جبکہ وُضو کرنا دشوار ہو تو اس کو بحکمِ حدیث دُگنا ثواب ملے گا ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْاَوْسَط لِلطَّبَرَانِی ج۴ص۱۰۶حدیث ۵۳۶۶)
حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام ،حمرا ن سے وُضو کے لیئے پانی مانگا اور سردی کی رات میں باہر جانا چاہتے تھے حمران کہتے ہیں : میں پانی لایا ، انہوں نے منہ ہاتھ دھوئے تو میں نےکہا : اللہ آپ کو کفایت کرے رات تو بَہُت ٹھنڈی ہے ۔ اس پر فرمایا کہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے سنا ہے کہ’’ جو بندہ وضوئے کامل کرتا ہے اللہ تَعَالٰی اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے ۔‘‘ (مسندِ بزار ج۲ص۷۵حدیث۴۲۲، بہارِ شریعت ج۱ ص ۲۸۵)
وُضو کا طریقہ
کعبۃُ اللہ شریف کی طرف منہ کر کے اُونچی جگہ بیٹھنا مستحَب ہے ۔ وُضو کیلئے نیّت کرنا سنّت ہے ، نیّت نہ ہو تب بھی وضو ہو جا ئے گا مگر ثواب نہیں ملے گا ۔ نیّت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ، دل میں نیّت ہوتے ہوئے زَبان سے بھی کہہ لینا افضل ہے لہٰذا زبان سے اِس طرح نیّت کیجئے کہ میں حُکمِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ بجا لانے اور پاکی حاصل کرنے کیلئے وُضو کر رہا ہوں ۔ بسمِ اللہ کہہ لیجئے کہ یہ بھی سنّت ہے ۔ بلکہ بسمِ اللہِ وَالحمدُ لِلّہ کہہ لیجئے کہ جب تک باوُضو رہیں گے فِرشتے نیکیاں لکھتے رہیں گے۔ (اَلْمُعْجَمُ الصَّغیر لِلطَّبَرَانِی ج۱ص۷۳حدیث ۱۸۶)
اب دونوں ہاتھ تین تین بارپَہنچوں تک دھوئیے ، (نل بند کرکے ) دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں کا خِلال بھی کیجئے ۔ کم از کم تین تین بار دائیں بائیں اُوپر نیچے کے دانتوں میں مِسواک کیجئے اور ہر بارمِسواک کو دھولیجئے۔ امام محمدبن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسواک کرتے وقت نَماز میں قراٰنِ مجید کی قِراءت اور ذِکرُ اللہ کے لئے مُنہ پاک کرنے کی نیّت کرنی چاہئے ۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۱ص۱۸۲)
اب سیدھے ہاتھ کے تین چُلّو پانی سے ( ہر بار نل بند کرکے) اس طرح تین کُلّیاں کیجئے کہ ہر بارمُنہ کے ہر پرزے پر (حلق کے کَنارے تک ) پانی بہ جائے ،اگر روزہ نہ ہو تو غَرغَرہ بھی کرلیجئے ۔ پھر سیدھے ہی ہاتھ کے تین چُلّو (اب ہر بار آدھا چُلّو پانی کافی ہے ) سے ( ہر بار نل بند کرکے) تین بار ناک میں نرم گوشت تک پانی چڑھائیے اور اگر روزہ نہ ہو تو ناک کی جڑ تک پانی پہنچائیے ، اب (نل بند کرکے) اُلٹے ہاتھ سے ناک صاف کرلیجئے اور چھوٹی اُنگلی ناک کے سُوراخوں میں ڈالئے ۔ تین بار سارا چِہرہ اِس طرح دھوئیے کہ جہاں سے عادَتاً سر کے بال اُگنا شروع ہوتے ہیں وہاں سے لیکرٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لَو سے دوسرے کان کی لَو تک ہر جگہ پانی بہ جائے ۔ اگر داڑھی ہے اور اِحرام باندھے ہوئے نہیں ہیں تو ( نل بند کرنے کے بعد) اِسطرح خِلال کیجئے کہ اُنگلیوں کو گلے کی طرف سے داخِل کر کے سامنے کی طرف نکالئے ۔ پھر پہلے سیدھا ہاتھ اُنگلیوں کے سرے سے دھونا شروع کر کے کہنیوں سمیت تین بار دھوئیے ۔ اِسی طرح پھر اُلٹا ہاتھ دھولیجئے ۔ دونوں ہاتھ آدھے بازو تک دھونا مستحب ہے ۔اکثر لوگ چُلّو میں پانی لیکر پہنچے سے تین بار چھوڑ دیتے ہیں کہ کہنی تک بہتا چلا جاتا ہے اس طرح کرنے سے کہنی اور کلائی کی کروٹوں پر پانی نہ پہنچنے کا اندیشہ ہے لہٰذا بیان کردہ طریقے پر ہاتھ دھوئیے۔ اب چُلّو بھر کر کہنی تک پانی بہانے کی حاجت نہیں بلکہ ( بِغیر اجازتِ صحیحہ ایسا کرنا) یہ پانی کا اِسرا ف ہے ۔ اب (نل بند کرکے) سر کا مسح اِس طرح کیجئے کہ دونوں اَنگوٹھوں اور کلمے کی اُنگلیوں کو چھوڑ کر دونوں ہاتھ کی تین تین اُنگلیوں کے سِرے ایک دوسرے سے مِلا لیجئے اور پیشانی کے بال یا کھال پر رکھ کر کھینچتے ہوئے گُدّی تک اِس طرح لے جائیے کہ ہتھیلیاں سَر سے جُدا ر ہیں ، پھر گدّی سے ہتھیلیاں کھینچتے ہوئے پیشانی تک لے آئیے ( سرپر مسح کا ایک طریقہ یہ بھی تحریر ہے اِس میں بالخصوص خواتین کیلئے زیادہ آسانی ہے چُنانچِہ لکھا ہے : مسحِ سرمیں ادائے سنَّت کو یہ بھی کافی ہے کہ انگلیاں سر کے اگلے حصّے پر رکھے اور ہتھیلیاں سر کی کروٹوں پر اور ہاتھ جما کر گُدّی تک کھینچتا لے جائے۔ (فتاویٰ رضویہ ج۴ص۶۲۱) کلمے کی اُنگلیاں اور اَنگوٹھے اِس دَوران سَر پر باِلکل مَس نہیں ہونے چاہئیں ، پھر کلمے کی اُنگلیوں سے کانوں کی اندرونی سَطح کا اور اَنگوٹھوں سے کانوں کی باہَری سَطح کا مَسح کیجئے اورچُھنگلیاں (یعنی چھوٹی انگلیاں ) کانوں کے سُوراخوں میں داخِل کیجئے اور اُنگلیوں کی پُشت سے گردن کے پچھلے حصّے کامَسح کیجئے۔ بعض لوگ گلے کا اور دھلے ہوئے ہاتھوں کی کہنیوں اور کلائیوں کا مَسْح کرتے ہیں یہ سنّت نہیں ہے ۔ سر کا مسح کرنے سے قبل ٹونٹی اچھی طرح بند کر نے کی عادت بنالیجئے بِلا وجہ نل کُھلا چھوڑ دینا یا اَدھورا بند کرنا کہ پانی ٹپک کر ضائع ہوتارہے اِسراف وگُنا ہ ہے ۔پہلے سیدھا پھر اُلٹا پاؤں ہر بار اُنگلیوں سے شُروع کرکے ٹخنوں کے او پر تک بلکہ مستحَب ہے کہ آدھی پِنڈلی تک تین تین باردھولیجئے۔ دونوں پاؤں کی اُنگلیوں کا خِلال کرنا سنّت ہے ۔ (خِلال کے دَوران نل بند رکھئے ) اس کا مُستحَب طریقہ یہ ہے کہ اُلٹے ہاتھ کی چھنگلیا سے سیدھے پاؤں کی چھنگلیا کا خِلا ل شروع کر کے اَنگوٹھے پر ختم کیجئے اور اُلٹے ہی ہاتھ کی چھنگلیا سے اُلٹے پاؤں کے انگوٹھے سے شروع کر کے چھنگلیاپر ختم کرلیجئے ۔ (عامۂ کُتُب)
حضرت امام محمدبن محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہر عُضْو دھوتے وقت یہ امّید کرتا رہے کہ میرے اِس عُضْو کے گناہ نکل رہے ہیں ۔
(اِحیاءُ الْعُلوم ج۱ص۱۸۳)
وضو کے بچے ہوئے پانی میں 70بیماریوں سے شِفا
لوٹے وغیرہ سے وضو کرنے کے بعد بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینے میں شفا ہے امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فتاوٰی رضویہ جلد 4 صَفْحَہ 575 تا 576 پر فرماتے ہیں : بَقِیَّۂ وضو (یعنی وضو کے بچے ہوئے پانی) کے لیے شرعاً عَظَمت و احترام ہے اور نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم سے ثابِت کہ حُضُور نے وُضو فرما کر بقیہ آب (یعنی بچے ہوئے پانی) کو کھڑے ہو کر نوش فرمایا اور ایک حدیث میں روایت کیا گیا کہ اس کا پینا ستَّر مَرَض سے شفا ہے ۔ تو وہ ان اُمُور میں آبِ زمزم سے مُشابَہَت رکھتا ہے ایسے پانی سے استنجا مناسب نہیں ۔’’ تنویر‘‘ کے آدابِ وضو میں ہے : ’’وضو کے بعد وُضو کا پَسمَاندہ (یعنی بچا ہوا پانی) قبلہ رُخ کھڑے ہو کرپئے۔‘‘علّامہ عبد الغنی نابُلُسی رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : میں نے تجرِبہ کیا ہے کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وُضو کے بَقِیَّہ پانی سے شِفا حاصِل ہو جاتی ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کے اس صحیح طبِّ نبوی میں پائے جانیوالے ارشادِ گرامی پر اعتماد کرتے ہوئے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔
جنّت کے آٹھوں دروازے کُھل جاتے ہیں
حدیثِ پاک میں ہے : جس نے اچّھی طرح وُضو کیا اور پھر آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اورکَلِمۂ شہادت پڑھا اُس کے لئے جنّت کے آٹھوں درواز ے کھول دیئے جاتے ہیں جس سے چاہے اندر داخِل ہو ۔ (سُنَنِ دارمی ج ۱ ص ۱۹۶حدیث ۷۱۶)
نظر کبھی کمزور نہ ہو
جو وُضو کے بعد آسمان کی طرف دیکھ کر سُورۂ اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ پڑھ لیا کرے اِنْ شَآءَ اللہ اُس کی نظر کبھی کمزور نہ ہوگی ۔ (مَسائلُ القُراٰن ص۲۹۱)
وُضو کے بعد تین بار سورۂ قَدر پڑھنے کے فضائل
حدیثِ مبارَک میں ہے : جو وُضو کے بعد ایک مرتبہ سُوْرَۃُ الْقَدْرپڑھے تو وہ صِدِّیقین میں سے ہے اور جو دو مرتبہ پڑھے تو شُہداء میں شمار کیا جائے اور جو تین مرتبہ پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ میدانِ محشر میں اسے اپنے انبیاء کے ساتھ رکھے گا ۔
(کَنْزُالْعُمّال ج۹ص۱۳۲رقم۲۶۰۸۵،اَلحاوی لِلفتاوٰی للسُّیوطی ج۱ص۴۰۲)
وُضو کے بعد پڑھنے کی دُعا ( اوّل و آخِر دُرود شریف)
جو وُضو کرنے کے بعد یہ کلمات پڑھے
سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااَنْتَ اَسْتَغْفِرُ کَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ ۔
ترجَمہ : اے اللہ!تو پاک ہے اور تیرے لئے ہی تمام خوبیاں ہیں میں گو اہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،میں تجھ سے بخشش چاہتاہوں اور تیری بارگاہ میں تو بہ کرتاہوں ۔
تواس پرمُہر لگا کر عرش کے نیچے رکھ دیا جائے گا اورقِیامت کے دن اس پڑھنے والے کودے دیا جائے گا ۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۲۱ رقم ۲۷۵۴)
وُضو کے بعد یہ دُعا بھی پڑھ لیجئے( اوّل و آخِر دُرود شریف)
اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ ۔ ( تِرمِذی ج۱ص۱۲۱حدیث۵۵)
ترجَمہ : اے اللہ مجھے کثرت سے توبہ کرنے والوں میں بنا دے اورمجھے پاکیزہ رہنے والوں میں شامل کردے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment