Thursday 18 January 2018

اصولِ حدیث اور احادیث کی مختصر تعریف

0 comments
اصولِ حدیث اور احادیث کی مختصر تعریف

حدیث کی تعریف :حدیث:رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے قول وفعل اور تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے،تقریر کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی بارگاہ میں کسی شخص نے کوئی کام کیا یا کوئی بات کہی اور آپ نے اس پر انکار نہ فر مایا ،نہ ہی اس سے منع فر مایابلکہ اس پر خاموش رہ کر اسے ثابت و بر قرار رکھا۔

سند:راویوں کا وہ سلسلہ جن کے ذریعے حدیث کو بیان کیا گیا۔

متن:وہ کلام جو سند کے بعد ہو۔

حدیث کی قسمیں : منتہائے سند کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱)مرفوع (۲)موقوف

(مقطوع) مر فوع:وہ حدیث جس کی سند حضو ر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم تک پہونچے۔

موقوف:وہ حدیث جس کی سند صحابی تک پہونچے۔

مقطوع:وہ حدیث جس کی سند تا بعی تک پہونچے۔

سند کے اتصال وانقطاع کے اعتبار سے حدیث کی دو قسمیں ہیں۔(۱)متصل (۲)غیر متصل۔متصل:وہ حدیث جس کی سند میں کوئی راوی چھو ٹا نہ ہو۔

غیر متصل:وہ حدیث جس کی سند میں کہیں سے ایک یا چند راوی چھوٹ گئے ہوں ۔

غیر متصل کی پانچ قسمیں ہیں ۔(۱)معلق (۲)مرسل(۳)معضل (۴)منقطع (۵)مدلس۔
معلق:وہ حدیث جس کی سند میں ابتدا ء سے راوی ساقط ہو۔

مرسل:وہ حدیث جس کے آخر سند سے تا بعی کے بعد کوئی راوی چھوڑ دیا گیا ہو۔
معضل:وہ حدیث جس کی سند کے درمیان سے متواتر دو راوی ساقط ہو۔

منقطع:وہ حدیث ہے جس کی سند میں درمیان سے ایک راوی یا متعدد مقام سے کئی راوی ساقط ہوں۔

مدلس:وہ حدیث جس کی سند میں کسی نے تدلیس کیا ہو،یعنی راوی نے جس سے حدیث سنی ہے ان کا نام نہ لے کر ان سے اوپر والے راوی کا نام لے،اور لفظ ایسا استعمال کرے جس سے سماع کا وہم ہو۔

حدیث کے راویوں کی قلت و کثرت کے اعتبار سے چارقسمیں ہیں (۱)غریب (۲)عزیز (۳)مشہور (۴)متواتر

غریب:وہ حدیث ہے جس کا راوی کسی دور یا ہر دور میں ایک ہو۔

عزیز:وہ حدیث ہے جس کے راوی ہر طبقے میں دو ہوں ۔

مشہور:وہ حدیث ہے جس کے راوی ہر دور میں دو سے زائد ہوں ۔

متواتر:وہ حدیث ہے جس کے راوی ہر دور میں اتنے زیادہ ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃََ محال ہو۔

راویوں کے قوت و ضعف کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں ۔(۱)صحیح (۲)حسن (۳)ضعیف۔

صحیح:وہ حدیث ہے جس کے عادل، تام الضبط راوی کی روایت سے مروی ہواور اس کی سند متصل ہو ،معلل اور شاذ نہ ہو۔اس کی دو قسمیں ہیں ۔(۱)صحیح لذاتہ (۲)صحیح لغیرہ

صحیح لذاتہ :وہ حدیث ہے جس میں صحیح کی تعریف میں مذکور تمام کامل طور پر پائیں جائیں ۔

صحیح لغیرہ:وہ حدیث ہے جس کے اندر صحت کے شرا ئط مذکو رہ میں صفات کچھ کمی ہو مگر تعدد طر ق سے اس کی تلافی ہو گئی ہو۔

حسن لذاتہ:وہ حدیث ہے جس میں صحت کے مذکو رہ بالا شرائط میں کسی قسم کی کمی پائی جاتی ہو اور تعدد طرق سے اس کی تلافی نہ ہوئی ہو۔

حسن لغیرہ:وہ حدیث ضعیف ہے جس کے ضعف کی تلافی ہو گئی ہو۔تلافی ضعف کی کئی صورتیں ہیں ،مثلا کئی سندوں سے مروی ہونایا ائمہ کا اس پر عمل کرنا وغیرہ۔
ضعیف:وہ حدیث ہے جس میں صحیح کے تمام یا بعض شرائط نہ پائے جاتے ہوںاور کسی طرح اس کی تلافی بھی نہ ہو ئی ہو۔

حدیث ضعیف کی چار قسمیں ہیں(۱)ضعف بضعف قریب(۲)ضعیف بضعف قوی(۳)مطروح(۴)موضوع

ضعیف بضعف قریب:یعنی ضعف اتناکم ہے کہ اعتبار کے لائق ہے مثلا یہ ضعف اختلاط راوی،سوئے حفظ یا تد لیس وغیر ہ کی وجہ سے ہے ۔یہ متا بعات و شواہد کے کام آتی ہے اور جابر سے قوت پاکر صحیح لغیرہ تک پہونچ جاتی ہے۔

ضعیف بضعف قوی:وہ حدیث جو راوی کے فسق وغیر ہ کے سبب متروک ہوبشر طیکہ حد کذب تک نہ پہونچی ہو۔یہ احکام میں لائق استدلال نہیں البتہ مذہب راجح پرباب فضائل میں مقبول ہے ،ہاں تعدد طرق سے انجبار کے بعد بالاتفاق مقبول ہے ۔

مطروح:وہ جس کا راوی وضّاع کذاب یا متہم بالکذب ہو۔یہ حدیث ضعیف کی بد تر ین قسم ہے۔اور یہ بھی حکما موضوع میں داخل ہے۔

موضوع :گڑھی ہوئی حدیث کو کہتے ہیں ،یہ باالاجماع مردود ہے بلکہ اسے حدیث کہنا بطور مجاز ہے،حقیقت میں یہ حدیث ہی نہیں۔

حدیث ضعیف چند وجہوں سے قوی ہو جاتی ہے،وہ وجوہات مند رجہ ذیل ہیں

(۱)تعدد طرق،یعنی کئی سندوں سے مروی ہونا۔(۲)اہل علم کا عمل،اہل علم کے عمل سے بھی حدیث ضعیف قوی ہو جا تی ہے اسی وجہ سے امام ترمذی نے جگہ جگہ اپنی کتاب میں فرمایا’اہل علم کے نزدیک اس پر عمل ہے‘۔(۳)صالحین کے عمل سے بھی حدیث ضعیف قوی ہو جاتی ہے۔(۴)مجتھد کے استدلال سے بھی حدیث ضعیف قوی ہو جاتی ہے۔(۵)تجر بہ و کشف کے ذریعے بھی حدیث ضعیف قوی ہو جا تی ہے۔

تفصیل کے لئے بڑی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

فائدہ:عام بول چال کی زبان میں لفظ’صحیح‘غلط کے مقابل میں بولا جاتاہے۔مگر محد ثین کی اصطلاح ایسا نہیں،اس لئے کسی حدیث کے بارے میں ان کافرمانا کہ ’یہ حدیث صحیح نہیں‘اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا کہ یہ حدیث غلط ،باطل اور موضوع ہے۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ ،یہ حدیث سب سے اعلی قسم کا نہیں۔بلکہ صحیح لغیرہ یا حسن لذاتہ وغیرہ میں سے ہے۔بعض کم پڑھے لکھے لوگ صحیح حدیث کے علاوہ ساری حدیثوں کے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں ،یہ نہایت بد تر ین جرم ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔