Thursday, 18 January 2018

مسئلہ صحیح حسن یا ضعیف کا نہیں ہے اور یہ ہی مسئلہ آج کل منکران حدیث کا ہے

مسئلہ صحیح حسن یا ضعیف کا نہیں ہے اور یہ ہی مسئلہ آج کل منکران حدیث کا ہے

مسئلہ صحیح، حسن یا ضعیف کا نہیں ہے۔ اور یہ ہی مسئلہ آج کل منکران حدیث کا ہے۔ بدقسمتی سے یہ دور ہی ایسا ہے کہ دیسی گھی کو ڈالڈا بنا دیا جاتا ہے اور ڈالڈا کو دیسی گھی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی حال ہے کہ منکرانِ حدیث نے اہلحدیث کا لبادا اوڑھ لیا ہے کہ اب ان کو کون جھٹلائے گا ۔ ایسے ہی ناصر البانی نام کے صاحب ہیں۔ جو کہ اپنے علمی کارنامے سے زیادہ اپنے مشہور حدیث اسکینڈل کے سبب منظرنامے پر نظر آئے۔ موصوف امام بخاری کی غلطیوں کی تصحیح کا ٹھیکہ لے بیٹھے اور پھر امام بخاری کی ادب المفرد کو کانٹ چھانٹ کر دو حصے بنا دیئے یعنی ایک جو انکے مطلب کا تھا وہ قبول ٹھرا اور دوسرا اپنے مسلک کے لئے درد سر تھا اسے کھڈے لائن لگادیا۔ یہ تو امام بخاری کی اوقات رہ گئی ہے بھائی لوگوں کے ہاں۔ اگلے فیز میں بھائی لوگوں کی ذمہ داری لگادی گئی کہ وہ ضعیف احادیث کے نا منظور کا خوب غلغلہ کریں تاکہ اسکی آڑ میں مزید لوگوں کو بیوقوف بنایا جائے۔ اگرالبانی اینڈ کمپنی کو امام بخاری کی کتاب مسئلہ کرتی تھی تو موصوف اپنے نام سے کوئی حدیث کی کتاب لکھ لیتے، مثلا جامع البانی یا جامع ناصر یا جامع چھکڑانوی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن البانی اینڈ کمپنی نے اپنے منصوبے کو عملی موم جامہ پہنانے کیلئے امام بخاری پہ ہی ہاتھ صاف کرلئے۔ اور اپنے تئیں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امام بخاری شائید پیچھے غلطیاں چھوڑ گئے تھے اور یہ کہ امام بخاری کے ضعیف احادیث کو درج کرنے کے ثبوت مٹائے جائیں۔ یعنی کاندھا بخاری کا استعمال ہوجائے اور کام اپنا نکل جائے۔ یہی ہے آج کل کے ڈالڈا محدثوں کا حال کہ صحیح کرنے پر آئیں تو بخاری کو بھی درست کرکے رکھ دیں۔ امام بخاری کا الادب المفرد میں ضعیف احادیث شامل کرنا ہی اس امر کی دلیل ہے کہ ان کی ہاں یہ کوئی شجرممنوعہ نھیں تھیں۔ اسی طرح بعد میں آنے والے تمام محدثین نے اپنی اپنی (نہ کہ دوسروں کی) کتابوں میں ہزارہا غیر صحیح احادیث شامل کیں۔ اور تمام محدثین کا اس امر پر اجماع رہا کہ فضائل اعمال اور ترہیب و ترغیب کے ضمن میں ضعیف احادیث قبول ہیں۔ چہ جائیکہ ان کو حکم کے ضمن میں استعمال نہ کیا جائے۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ جو کہ لازمی فرائض و واجبات ہیں اور ان کا عام حکم ہے، لہذا ان کا استدلال کرتے ہوئے ضعیف حدیث سے احتیاط برتی جائے۔ لیکن اگر بات ہو فرد واحد کے اپنے ذوق کی تو وہ ان احادیث کو فضائل اعمال اور ترہیب و ترغیب کے ضمن میں نہ صرف قبول کرسکتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرسکتا ہے۔ اور اسکی حیثیت فرائض و واجبات اورتاکیدی سنن کی یقینا نھیں ہوگی بلکہ اسے مستحب یا افضل گردانا جائے گا۔ اب جو باذوق ہے وہ مذکورہ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اولیاء اکرام و بزرگان دین کے ہاتھ پیر چومنے کا عمل جاری رکھے اور بے ذوق کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ لازما ایسا ہی کرے۔ اب ہوا کیا، کہ بات گھوم پھر کر وہیں آگئی کہ ڈالڈا نے دیسی گھی کا روپ دھار لیا یعنی بےذوق نے اپنا نام ہی باذوق رکھ لیا سو اب اسے کون جھٹلائے۔

اب وہ ضعیف حدیث کے شجرممنوعہ ہونے کا ڈھول نہ پیٹے تو اور کیا کرے۔ لیکن البانی اینڈ کمپنی کا ارادہ تو اپنا ذوق دوسروں پر تھوپنے کا تھا اسکے لئے انکل البانی کو تیار کیا گیا اور چونکہ وہ بے چارے اناڑی محدث تھے لہذا بجائے اپنی کوئی کتاب مرتب کرنے کے انھوں نے امام بخاری کی کتابوں کے حصے بخرے کرنے کی ٹھانی اور اور یہ ظالمانہ سلوک عام محدث سے ہی نہیں بلکہ ہاتھ صاف بھی کیا تو کس پرخود امام بخاری پر۔ اور انکی مشہور زمانہ کتاب "الادب المفرد" سے موصوف نے کم وبیش 340 ایسی احادیث نکال باہر کیں جن میں انکے عقیدے کے خلاف، حضور نبی اکرم کے ہاتھ اور پاؤں چومنے کی سنت ثابت ہوتی تھی۔ امام بخاری کو بھی تو پتا تھا کہ یہ احادیث ضعیف ہیں۔ آپ کو تو یہ احادیث سننا تک گوارا نھیں اور امام بخاری انھیں باقاعدہ حدیث کی کتب میں بطور حدیث درج کرتے رہے۔ یا تو آپ چالاک ہیں یا امام بخاری بھولے تھے۔ اور نھیں تو امام بخاری ان احادیث کو دو الگ الگ کتابوں میں خود ہی بانٹ دیتے، انھیں کیا پتا تھا کہ آگے چودہ سوسال بعد لبادہ اوڑھ کر خاص اہلحدیث آنے والے ہیں جو انکی ساری غلطیاں درست کردیں گے۔

اب ذرا آجائیں ضعیف حدیث کے مفہوم کی طرف یعنی وہ حدیث جسکی سند میں کوئی ضعف پایا جائے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی تندرست انسان کو کسی بیماری کی وجہ سے ضعف آجائے۔ کیا ایسے انسان کو مردہ سمجھا جائے گا۔ کوئی بھی شخص چاہے وہ 200 سال کا انتہائی بوڑھا ہی کیوں نہ ہو اور پچاسیوں امراض میں بھی مبتلا ہو تب بھی دنیا کا کوئی ڈاکٹر یا حکیم اسے مردہ نھیں کہہ سکتا۔ جب تک اسکا آخری سانس باقی ہے اس وقت تک وہ زندہ ہی کہلائے گا۔ کیا آپ اپنے ضعیف والدین کو انکے ضعف کیوجہ سے مردہ قرار دے کر زندہ ہی دفن کرکے آجاتے ہیں۔ آپکو شاید اصول حدیث سمجھنے میں تھوڑا سی غلطی لگی ہے کہ صحیح کا لفظ اصول حدیث کے قواعد میں غلط کے مقابل نہیں بولا جاتا بلکہ یہ اصول حدیث کی ایک خاص اصطلاح ہے جو کہ اس حدیث پر بولی جاتی ہے کہ جس میں یہ پانچ خوبیاں پائی جائیں ۔۔ اول اسکی سند اول سے آخر تک متصل ہو دوم اس کے تمام روای عادل ہوں سوم تمام کے تمام ضابط ہوں چہارم حدیث شاذ نہ ہو پنجم روایت کسی بھی علت قادحہ سے پاک ہو، جسکو آپ صحت مند انسان سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ لیکن ضعیف ہمیشہ صرف ضعف کو ظاہر کرتی ہے نہ کہ مردہ۔ جبکہ جھوٹھی اور گھڑی ہوئی روایت کیلئے مردود یا موضوع کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جسکو درج بالا مثال کیمطابق آپ مردہ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہی "موضوع یا مردود" وہ حقیقت ہے جسکو چھپانے کیلئے البانی اینڈ کمپنی نے امام بخاری کی کتاب کے بخیئے ادھیڑ دیئے۔ اور آپ ضعیف احادیث کو موضوع سے تبدیل کرکے انھیں گول کرنا چاہتے ہیں اور نام بھی آپ نے دیسی گھی والا یعنی اہلحدیث رکھا لیا ہے تاکہ کوئی شک نہ کرے اور آپ کو کوئی روک ٹوک نہ ہو۔
جمہور علماء، محدثین و سلف صالحین کا پوری چودہ سو سال کی تاریخ میں یہی موقف رہا اور سب ضعیف حدیث کو فضائل اور ترہیب و ترغیب کے باب میں حجت مانتے رہے۔ ضعیف حدیث عقائد و احکام کے علاوہ جمہور کے نزدیک قابل عمل ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ حرام و حلال کا معاملہ ہو تو ہم سندوں میں سختی سے کام لیتے ہیں اور جب ترغیب و ترہیب کی بات ہوتو ہم اسانید میں تساہل برتتے ہیں ،یعنی عقائد و احکام کے باب میں تشدد (یعنی سختی یعنی صرف صحیح حدیث کا قابل حجت ہونا) جب کے ترہیب و ترغیب کے باب میں تساہل (یعنی سستی و نرمی یعنی ضعیف احادیث کا بھی قابل عمل ہونا)
امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد روایت کرتے ہیں :
سَمِعْتُ اَبِیْ يَقُوْلُ اَلْحَدِيْثُ الضَّعِيْفُ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الرأیِ.
"میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبل) سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے رائے سے کئی زیادہ حدیثِ ضعیف محبوب ہے"۔
حنبلی اہل سنت میں سب سے زیادہ سخت مذہب تصور کیا جاتا ہے۔ انکل تیمیہ بھی کم و بیش انہی کے مقلد ہیں، وہ خود کو مجتہد کہتے ہیں مگر ان کا رجحان انہی کی تابعیت میں ہیں۔ حافظ ابن کثیر، علامہ ابن القیم،بڑے انکل محمد بن عبدالوہاب النجدی بھی اسی حنبلی مذہب پر تھے۔
امام حاکم "المدخل" میں بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ضعیف حدیث کے حوالے سے فرماتے ہیں :
اِذِا رَوَيْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ تَشَدَّدْنَا وَاِذَا رَوْيْنَا عَن النبی فِی الْفَضَائِل الاعْمَال وَمَالا يَضَعُ حُکْمًا وَلَا يَرْفَعُ تَسَاهَلْنَا فِی الْاَسَانِيْد.
"یعنی ہم اگر حلال و حرام کے احکام کو روایت کرتے تو اسانید میں سختی اختیار کرتے اور اگر فضائل کو بیان کرتے تو ہم اسانید اور رجال میں نرمی اور ڈھیل دیتے"۔
امام ابو داؤد کا بھی ضعیف حدیث کے حوالے سے یہی مذہب ہے۔ اور اسے مجموع الفتاویٰ میں انکل تیمیہ نے جلد 18، صفحہ 52 پر لکھا ہے۔ یہ وہ مذہب ہے کہ اگر کسی ایک موضوع پر حدیث صحیح دستیاب نہ ہو تو خواہ احکام کا مسئلہ ہو، خواہ فضائل کا مسئلہ ہو تو اس موضوع پر حدیث ضعیف کو قبول کرلیا جائے گا کیونکہ حدیث ضعیف سے اوپر والے درجے کی حدیث "صحیح" یا "حسن" اس موضوع پر میسر نہیں ہے کیونکہ جب صحیح حدیث میسر نہ ہو تو پھر دو ہی صورتیں ہیں۔
1۔ حدیث ضعیف کو قبول کیا جائے۔ 2۔ اپنی رائے پر فتویٰ دیا جائے۔
پس اس صورت حال میں ان دو صورتوں میں سے امام ابو داؤد اور امام احمد بن حنبل ذاتی رائے کے مقابلے میں حدیث ضعیف کو قبول کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مزید امام نسائی کا بھی یہی قول ہے۔ ۔ ۔ امام ابن ابی حاتم کا بھی یہی مذہب ہے۔ ۔ ۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ ۔ ۔ امام سرخسی (احناف) کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی کا قول، امام نووی نے "کتاب الاذکار" کے اندر درج کیا ہے۔ ۔ ۔ ابن ہمام نے "فتح القدیر" میں اس کو بیان کیا ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام حاکم نے اپنی کتاب میں حدیث کی قبولیت اور عدم قبولیت کے باب میں اصول درج کئے ہیں کہ اگر حدیثِ صحیح میسر نہ ہو تو امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک ’’رائے‘‘ سے زیادہ بہتر ہے کہ مرسل اور ضعیف حدیث کو قبول کیا جائے۔ جس امام پر رائے کا الزام لگتا ہے، اس امام نے رائے کو سب سے آخر میں رکھا ہے، کوئی نص نہ ملے تو رائے کی طرف گئے وگرنہ امام اعظم نے حدیث ضعیف تک کو مقدم جانا۔
یہی مذہب امام سفیان ثوری کا ہے اور آپ امیرالمومنین فی الحدیث ہیں۔ آپ امام مالک (94ھ) کے زمانے میں (97ھ) میں پیدا ہوئے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم سمیت کل صحاح ستہ ان کی مرویات سے بھری پڑی ہیں۔ امام سفیان ثوری فرماتے ہیں : لَا تَاْخُذُ هٰذَا الْعِلْمَ فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَام اِلاَّمِنَ الرَّؤُوْساءِ الْمَشْهُوْرِيْنَ وَلَا بَحْثَ بِمَا سِوآء ذٰلِکَ مِنَ الْمشائِخ.
"یعنی حلال و حرام کے معالے میں بڑے ائمہ کے سواء کسی اور سے یہ علم (روایتِ حدیث) قبول نہ کرو"۔ اور اگر دیگر معاملات ہوں تو ان رؤوساء مشہورین کے علاوہ دیگر چھوٹے مشائخ ہیں (جن پر گفتگو اور طعن بھی ہو جاتی ہے) ان سے بھی حدیث قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے"۔ (الکفایہ فی علم الروایہ، خطیب بغدادی)
امام سفیان بن عیینہ (107ھ) کا بھی یہی قول ہے۔ وہ احباب جن پر ضعف کا الزام تھا ان کا نام لے کر امام سفیان بن عیینہ نے کہا : وَاسْمَعُوْا مِنْه مَاکَانَ فِی ثَوَابٍ وَغَيْرِه.
"یعنی فلاں فلاں راوی جن پر ایسا طعن ہے جس سے حدیث کی سند ضعیف ہو جاتی ہے، ان سے سماع کر لیا کرو، ان کی حدیث قبول کر لیا کرو اگر ثواب، عقاب اور اس طرح کے دیگر مسائل پر روایت کریں"۔
امام عبدالرحمن بن مہدی (136ھ) کا قول بھی یہی ہے اور آپ امام بخاری و مسلم کے رجال ائمہ میں سے ہیں۔ فرماتے ہیں : اِذَا رَوَيْنَا فِی الثَّوَابِ وَالْعِقَابِ وَفَضَائِلِ الْاَعْمَال تَسَاهَل فِی الْاَسَانِيْد وَسَمَّحْنَا فِی الرّجَال.
یعنی جب ہم فضائل اعمال، ثواب و عتاب کے باب میں روایت کرتے تو اسانید کے معاملے میں ڈھیل اختیار کرتے، نرمی کرتے، سختی نہیں کرتے تھے اور رجال پر جرح و تعدیل کے معاملے میں نرمی سے کام لیتے تھے، چھوٹی چھوٹی چیزوں سے درگزر کرتے تھے، ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے درگزر کرنے سے حدیث کی سند ضعیف بنتی ہے۔
وَاِذَا رَوَيْنَا فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ وَالْاَحْکام تَشَدَّدْنَا فِی الْاَسَانِيْد وَانْتَقَدْنا الرِّجَال.
"یعنی اور جب حلال و حرام اور احکام کا مسئلہ آتا تو اس میں ہم اسانید کے معاملے میں سخت ہو جاتے اور رجال پر جرح و تعدیل کے معاملے میں سختی کرتے"۔
مشھور محدث حافظ سخاوی علیہ رحمہ نے امام احم، ابن معین، ابن المبارک،سفیان ثوری اور ابن عینیہ سے یہی نقل کیا ہے ۔ اور امام نووی نے تو اس پر اجماع کا دعوٰی نقل کیا ہے ۔ اور امام نووی کی الاربعین کی شرح میں ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل پر علماء کا اتفاق ہے کیونکہ اگر وہ واقعی صحیح تھی تو اس کو اسکا حق مل گیا (یعنی اس پر عمل ہوجانے کی صورت میں) وگرنہ اس پر عمل کرنے سے نہ تو حلال کو حرام کرنا لازم آیا اور نہ ہی اس کے برعکس اور نہ ہی کسی کا حق مارا گیا۔ الغرض ضعیف حدیث کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ فضائل اور ترہیب و ترغیب میں معتبر ہے۔
امام ابن حجر عسقلانی کا بھی یہی مذہب ہے مگر آپ نے 3 شرائط لگائی ہیں۔
حدیث ضعیف سے شریعت میں اصول قائم نہ ہوں گے۔
حدیث ضعیف اس وقت قابل قبول ہوگی جب شریعت کے خلاف نہ ہو۔
اس کے ضعف میں ضعفِ شدید نہ ہو۔
ایک لطیف بات امام عسقلانی یہ بھی فرماتے ہیں کہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا مگر یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل یا قول ثابت ہوگیا بلکہ احتیاط کا عقیدہ رکھا جائے کہ اگرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن اگر اس پر عمل نہ کیا تو ممکن ہے فضیلت ترک نہ ہو جائے۔ ترک فضیلت سے بچنے کے لئے عقیدہ احتیاط کے ساتھ عمل کیا جائے۔ ثبوت کا عقیدہ نہ ہو، احتیاط کا عقیدہ ہو کہ کہیں فضیلت سے محروم نہ رہ جائیں کیونکہ دونوں امکان ہیں، ممکن ہے فرمایا ہو، ممکن ہے نہ فرمایا ہو۔
سب سے بڑے انکل تیمیہ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ فتاویٰ ابن تیمیہ جلد 18، ص 26 قسم الحدیث میں انکل کہتے ہیں کہ "اگر کوئی ضعیف راوی ہے، کثرت غلط کی بنیاد پر اپنی روایت میں غلط ہے پھر بھی غالب امر اس کا حدیث کو روایت کرنے کا صحیح ہے تو اس پر بھی اعتبار کیا جائے گا، حدیث قبول کی جائے گی اور اس کی تائید کے ساتھ ضعیف طریق بھی اٹھ کر حسن کے درجے میں چلا جائے گا"۔
یہی مذہب امام ابو ذکریا العنبری کا ہے۔
یہی مذہب امام حاکم نیشا پوری کا ہے۔
یہی مذہب امام بیہقی کا ہے۔
یہی مذہب امام ابن الکتان کا ہے۔
یہی مذہب امام شافعی کا ہے۔
امام سِلَفِیْ کا مذہب بھی یہی ہے۔
امام حاکم کا مذہب بھی یہی ہے۔
امام سیوطی کا مذہب بھی یہی ہے جسے التدریب میں روایت کیا ہے۔
امام ابن الصلاح کا مذہب بھی یہی ہے۔
امام نووی کا مذہب بھی یہی ہے۔
امام نسائی کا بھی یہی مذہب ہے۔
امام سخاوی کا بھی یہی مذہب ہے۔
علامہ ابن القیم کا بھی یہی مذہب ہے۔
امام جلال الدین دوانی کا بھی یہی مذہب ہے۔
پس یہ اصل مذہب مختار ہے اس لئے بہت سی چیزیں جو فضائل کے باب میں آتی ہیں حدیثِ ضعیف کی بنیاد پر اُن پر عمل کرنا جائز ہے۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم پاک پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا، یہ حدیث بھی ضعیف ہے، "موضوع" نہیں ہے۔ فضائل اور ترغیب و ترہیب میں چونکہ حدیثِ ضعیف قبول کیا جاتا ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم گرامی کو سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا جائز ہے۔
انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنے سے کئی بےذوق اختلاف کرتے ہیں مگر اس تناظر میں وہ وضوکے دوران گردن پر مسح کرنے کے حوالے سے کیا کہیں گے۔ تمام مسالک کے ماننے والے وضو کے دوران گردن پر مسح کرتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں مگر یہ حدیث ضعیف سے ثابت ہے جبکہ گردن پر مسح کرنا، احکام کا مسئلہ ہے۔ فضائل کا مسئلہ نہیں ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ عمل کرنے پر آئیں تو حدیث ضعیف پر احکام میں بھی عمل ہو رہا ہے اور اگر تنقید کرنے پر آئیں تو فضائل میں بھی تنقید کر رہے ہیں، کیا بات ہے ۔ اسی طرح زکوۃ کے تفصیلی نصاب جس حدیث میں بیان ہوئے ہیں اس حدیث کی سند ضعیف ہے حالانکہ یہ بھی احکام میں سے ہے۔ آپ تو زکوۃ بھی بالتفصیل ادا نہ کر سکیں، زکوۃ کے نصاب کی تفصیل ہمیں نہ ملے اگر سند ضعیف کا اعتبار ختم ہو جائے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...