صحیح مسلم شریف کا مختصر تعارف
صحیح مسلم کتب صحاح ستہ میں صحیح بخاری کے بعد شمار کی جاتی ہے ، امام مسلم بن حجاج نے اس کی احادیث کو انتہائی محنت اور کاوش سے ترتیب دیا ہے حسن ترتیب اور تدوین کی عمدگی کے لحاظ سے یہ صحیح بخاری پر بھی فوقیت رکھتی ہے اور زمانہ تصنیف سے لیکر آج تک اس کو قبولیت عامہ کا شرف حاصل رہا ہے ۔
متقدمین میں سے بعض مغاربہ اور محققین نے صحیح مسلم کو بے حد پسند کیا ہے اور ا س کو صحیح بخاری پر بھی ترجیح دی ہے چنانچہ ابو علی حاکم نیشاپوری اور حافظ ابوبکر اسماعیلی صاحب مدخل کا یہی قول ہے اور امام عبد الرحمان نسائی نے کہا کہ امام مسلم کی صحیح امام بخاری کی صحیح سے عمدہ ہے (الشیخ محی الدین ابوذکریا یحیٰی بن شرف النووی المتوفی 676 ھ مقدمہ شرح مسلم ص 13مطبوعہ نور محمد اصح المابع کراچی1375ھ) اور مسلم بن قاسم قرطبی معاصر دارقطنی نے کہا کہ امام مسلم کی صحیح کی مثل کوئی شخص نہیں پیش کرسکتا ، ابن حزم بھی صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر ترجیح دیتے تھے ۔(حافظ الشہاب الدین ابن حجر عسقلانی المتوفی 852ھ ہدی الساری جلد 1صفحہ 24مطبوعہ مصر)اور خود امام مسلم نے اپنی کتاب کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر محدثین دو سو سال بھی احادیث لکھتے رہیں پھر بھی ان کا مدار اسی کتاب پر ہوگا (شیخ محی الدین ابو ذکریا یحیٰی بن شرف نووی متوفی 676ھ مقدمہ شرح مسلم ص 13 مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی 1375ھ) ۔ اور اب تو دو سو برس چھوڑکر گیارہ سو برس ہونے کو آئے لیکن ان مرد خدا کے قول کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آیا اور شاہ عبد العزیز بیان کرتے ہیں کہ ابو علی زعفرانی کو کسی شخص نے وفات کے بعد خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ تمہاری بخشش کس سبب ہوئی تو انہوں نے صحیح مسلم کے چند اجزا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ان اجزا ءکے سبب اللہ تعالی نے مجھے بخش دیا ۔(شاہ عبد العزیز محدث دہلوی متوفی 1229 ھ بستان المحدثین ص281مطبوعہ سعید اینڈ کمپنی کراچی ) اس خواب سے معلوم ہوا کہ صحیح مسلم اللہ تعالی کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرچکی ہے ۔
سبب تالیف اور مدت : امام مسلم نے اپنی صحیح کی تالیف کا سبب خود بیان فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں کہ مجھ سے میرے بعض تلامذہ نے درخواست کی کہ میں احادیث صحیحہ کا ایک ایسا مجموعہ تیار کروں جس میں بلاتکرار احادیث کو جمع کیا جائے چنانچہ ان کی درخواست پر میں نے اپنی صحیح کی تالیف کی ، امام مسلم نے تین لاکھ احادیث میں سے اپنی جامع کا صحیح کا انتخاب فرمایا اور جن مشائخ کی احادیث کو انہوں نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ان سب سے انہوں نے بالمشافہ اور براہ راست سماع کیا ہے اور اس تصنیف میں انہوں نے صرف اپنی ذاتی تحقیق پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید احتیاط کے پیش نظر اس مجموعہ میں صرف ان احادیث کو لائے ہیں جن کی صحت پر اس وقت کے اکابرین کا اتفاق تھا اور پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ تحقیق مزید کے لیے کتاب کی تکمیل کے بعد اسے حافظ عصر ابو زرعہ کی خدمت میں پیش کیا جو اس زمانہ میں علل حدیث اور جرح و تعدیل کے فن میں امام گردانے جانتے تھے اور جس روایت کے بارے میں انہوں نے علت کی نشاندہی کی امام مسلم نے اس کو کتاب سے خارج کردیا ، اس طرح پندرہ سال کی لگاتار جدوجہد اور شدید مشقت کے بعدصحیح مسلم کی صورت میں یہ مجموعہ احادیث تیار ہوگیا ۔(حافظ شمس الدین مذہبی المتوفی 748ھ تذکرۃ الحفاظ جلد2 صفحہ 590، مطبوعہ ادارۃ احیاءالتراث العربی بیروت )
تسمیہ : حاجی خلیفہ اور دیگر مورخین نے صحیح مسلم کا نام الجامع الصحیح بیان کیا ہے مگر اس نام پر بعض حضرات نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جامع حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں تفسیر بھی ہو اور صحیح مسلم میں تفسیر سے متعلق احادیث بہت کم ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جامع کی تحقیق کے لیے کتاب میں نفس تفسیر کالانا شرط ہے قلت یا کثرت ملحوظ نہیں ہے ۔چنانچہ متقدمین میں سے سفیان ثوری اور سفیان بن عینیہ کی جو تصانیف جامع کے نام سے مشہور ہیں ان میں بھی تفسیر بہت کم ہے ۔
صحیح مسلم میں تفسیر اس قدر کم لانے کا سبب یہ ہے کہ تفسیر سے متعلق اکثر روایات امام مسلم کتاب کے شروع میں لے آئے ہیں اور چونکہ اس کتاب میں انہوں نے حتی الامکان تکرار سے گریز کیا ہے اس لیے کتاب التفسیر میں ان روایت کو دوبارہ نہیں لائے ۔
اسلوب : امام مسلم نے اپنی صحیح کی تالیف اور ترتیب میں انتہائی حزم و احتیاط اور کامل ورع اور تقویٰ سے کام لیا ہے ، امام ابن شہاب زہری ، امام مالک اور امام بخاری حدثنا اور اخبرنا کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ابن جریح ، اوزامی ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، یحیٰی بن یحیٰی ، عبد اللہ بن مبارک اور دیگر تمام محدثین حدثنا اور اخبرنا میں فرق کرتے ہیں ، حدثنا کی استعمال اس وقت کرتے ہیں جب استاد حدیث کی قرات کرے اور شاگرد سن رہے ہوں اور اخبرنا کا استعمال اس وقت کرتے ہیں جب شاگرد پڑھے اور استاد سن رہا ہو ، چونکہ محد ثین اخبرنا اور حدثنا میں ایک کا استعمال دوسرے کی جگہ جائز نہیں رکھتے اس لیے احتیاط کے پیش نظر امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے اور حدثنا اور اخبرنا کے فرق کو قائم رکھا ہے ۔
امام مسلم نے سند حدیث میں راویوں کے اسماءکے ضبط کا بھی بڑا خیال رکھا ہے جس راوی کا اصل سند میں صرف نام ذکر کیا گیا ہو اور نسب کا ذکر نہ ہو جس کے سبب ابہال پیدا ہو تو اس کی وضاحت کرتے ہیں مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ استاذ کے بیان کئے ہوئے الفاظ میں خلل نہ آئے ، مثلا انہوں نے ایک سند ذکر کی ۔ حدثنا سلیمان یعنی ابن بلال عن یحیٰی وہو ابن سعید ، اس مقام پر استاذ نے سلیمان بن بلال کا نام صرف سلیمان اور یحیٰی بن سعید کا نام صرف یحیٰی ذکر کیا تھا اور ان کے نسب کو ظاہر نہیں کیا تھا ، امام مسلم چاہتے تو اس کو سلیمان بن بلال اور یحیٰی بن سعید کے نام سے ذکر کرسکتے تھے لیکن اس صورت میں یہ وہم ہوتا کہ شاید استاذ نے اپنی سند میں ان کا ذکر اسی طرح کیا ہے اس لیے احتیاط امام مسلم نے ایک نام کے ساتھ یعنی ابن بلال اور دوسرے نام کے ساتھ وہو ابن سعید لکھا ۔ اسی طرح راوی کے اسم ،صفت ، کنیت یا نسب میں اختلاف ہو تو امام مسلم اس کا بھی بیان کردیتے ہیں ، نیز جس اسناد میں کوئی علت خفیہ ہو اس کو بھی ظاہر کردیتے ہیں ۔سند میں اگر اتصال یا ارسال اور متن میں زیادتی یا کمی کا اختلاف ہو تو اس کو واضح کردیتے ہیں الفاظ حدیث کے اختلاف کو واللفظ لفلان کے ساتھ اسی جگہ بیان کردیتے ہیں ، صحیح مسلم ان خوبیوں میں منفرد ہے امام بخاری کی صحیح میں یہ خوبیاں نہیں ۔
ایک متن حدیث جب اسانید متعددہ سے مروی ہو تو امام مسلم ان تمام اسانید کو ان کی حدیث کے ساتھ ایک جگہ ذکر کردیتے ہیں وہ نہ ان احادیث کو متعدد ابواب میں متفرق کرتے ہیں نہ ایک حدیث کی مختلف ابواب میں تقطیع کرتے ہیں، حدیث کو اس کے اصل الفاظ کے ساتھ وارد کرتے ہیں نہ روایت بالمعنی کرتے ہیں اور نہ حدیث کا اختصار کرتے ہیں نیز باب کے تحت صرف احادیث لاتے ہیں ، آثار صحابہ اور اقوال تابعین کے ساتھ احادیث کو مختلط نہیں کرتے ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں احادیث کو ترتیب وار ابواب کے لحاظ سے وارد کیا ہے لیکن تراجم اور عنوانات مقرر نہیں کیے امام نووی فرماتے ہیں اس کا سبب یا تو اختصار تھا یا کوئی اور امر جس کو امام مسلم ہی بہتر طور پر جانتے تھے، بہرحال بعد کے لوگوں نے ان ابواب کے تراجم مقرر کردیے ہیں جن کو صحیح مسلم کے حواشی میں ذکر کیا گیا ہے ان تراجم میں بعض بہت عمدہ ہیں اور بعض میں رکاکت اور تقصیر ہے ۔
شرائط : امام مسلم نے اپنی جامع صحیح میں احادیث وارد کرنے کی یہ شرط مقرر کی ہے کہ حدیث کو نقل کرنے والے تمام راوی مسلم ، عادل ، ثقہ ، متصل غیر شاذ اور غیر معلل ہوں ۔ ثقہ کا معیار امام مسلم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ راوی طبقہ اولی اور ثانیہ سے ہوں ۔یعنی کامل الضبط والاتقان اور کثیر الملا زمت مع الشیخ ہوں یہ طبقہ اولیٰ ہے یا کامل الضبوط اور قلیل الملازمت ہوں ۔ یہ طبقہ ثانیہ ہے رہا طبقہ ثالثہ یعنی ناقص الضبط اورکثیر الملازمت تو ان کی روایات سے امام مسلم انتخاب کرتے ہیں اور استیعاب فقط پہلے دو طبقوں سے کرتے ہیں اور اتصال کا معیار ان کے نزدیک یہ ہے کہ راوی اور مروی عنہ کے درمیان معاصرت کا ثبوت ہو ۔ ( طاہر بن صلاح الجزائری الدمشقی توحید النظر ص 86مطبوعہ مصر )
امام مسلم نے رداۃ حدیث کے تین طبقات مقرر کیے ہیں اول وہ ضبط اور اتقان میں اعلی درجہ پر ہیں ، ثانی متوسطین اور ثالث متروکین جو متہم بالکذب ہوں اور امام مسلم نے اس کتاب میں حدیث لانے کی شرط یہ قائم کی ہے کہ وہ راوی پہلے دو طبقوں میں سے ہوں اور دونوں میں پہلے طبقہ کی روایات مقدم ہوں گی اور تیسرے طبقہ کے بارے میں انہوں نے تصریح کر دی ہے کہ وہ اس طبقہ کی احادیث کی تخریج نہیں کریں گے ۔(امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی 261 ھ مقدمہ صحیح مسلم ص3تا5مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی 1375ھ)اس کے باوجود صحیح مسلم میں تیسرے طبقہ کی روایات موجود ہیں ، اس کی توجیہ میں یہ کہا گیا ہے کہ امام مسلم نے اس طبقہ کی روایات اصالۃ وارد نہیں کیں بلکہ ان کو بالتیع تائید کے مرتبہ میں لائے یا اس طبقہ کی روایات کو اس وقت لائے ہیں جب وہ کسی زائد کی خوبی مثلا علو اسناد پر مشتمل تھیں نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس ضعیف کی وجہ سے ان راویوں کو طبقہ ثالثہ میں شمار کیا گیا ہے ان میں وہ ضعف مثلا نسیان یا اختلال وغیرہ صحیح مسلم میں ان کی احادیث کے اندراج کے بعد لاحق ہوا ہے ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں احادیث وارد کرنے کے لیے ایک شرط یہ بھی عائد کی ہے کہ اس حدیث کی صحت پر اجماع ہو چکا ہو کیونکہ جب ان سے حدیث ابوہریرہ فاذا قراتا فانصتو ا کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ نے اس کو اپنی صحیح میں درج کیوںنہیں کیا تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے ہر اس حدیث کو کتاب میں درج نہیں کیا جو صرف میرے نزدیک صحیح تھی ۔بلکہ اس حدیث کو درج کیا ہے جس کی صحت پر اتفاق ہوچکا ہو ۔(امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی 261ھ صحیح مسلم ج 1 صفحہ 174مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی )
امام مسلم کی اس شرط پر اعتراض ہوتا ہے کہ صحیح مسلم میں بہت سی ایسی احادیث ہیں جن کی صحت پر سب کا اتفاق نہیں ہے امام نووی نے شرح مسلم میں اس کا جواب دیا ہے کہ جن احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے ان کے خیال میں ان کی صحت پر سب کا اتفاق ہوچکا تھا خواہ فی الواقع ایسا نہ ہوا ہو ۔ اور حافظ بن صلاح نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ جو احادیث مجمع علیہ نہیں ہیں ممکن ہے ان کو وارد کرتے وقت امام مسلم کو یہ شرط یاد نہ رہی ہو اور علامی سیوطی نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس اجماع سے اجماع اضافی مراد ہے یعنی امام احمد بن حنبل ، یحیٰی بن معین ، عثمان بن ابی شیبہ اور سعید بن منصور کا اجماع اور امام مسلم کی لائی ہوئی احادیث اس قسم کے اجماع سے بہرحال خالی نہیں ہیں ۔ امام بخاری اور علی بن مدینی اتصال کے لیے صرف راوی اور مروی عنہ کی معاصرت کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان میں باہم ملاقات کی بھی شرط لگاتے تھے اس لیے امام مسلم نے مقدمہ صحیح میں ان لوگوں پر انتہائی شدید اور تند و تیز رد کیا ہے جس کا ذکر امام مسلم کے ذکر کردہ مقدمہ میں آرہا ہے ۔
تعلیقات : امام بخاری کی طرح اما م مسلم نے اپنی صحیح میں تعلیقات کی کثرت نہیں کی ، حافظ ابن صلاح نے صحیح مسلم کے صرف چودہ مقامات گنوائے ہیں جہاں مسلم نے سند معلق کے ساتھ احادیث وارد کی ہیں تفصیل یہ ہے :
حدیث ابی جہم باب تیمم
حدیث ابی العلاءباب صلوۃ النبی
حدیث یحیٰی بن عسان باب سکوت بین التکبیر والقراۃ
حدیث عائشہ کتاب الجنائز
حدیث عائشہ باب الجوائح
حدیث جعفر بن ربیعہ باب الجوائح
حدیث کعب بن مالک فی تقاضی ابن حدرد
حدیث معمر باب احتکار الطعام
حدیث ابی اسامہ باب فقہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم
حدیث ابن عمر آخر باب الفضائل
حدیث ابی سعید خدری آخر کتاب القدر
حدیث براءبن عازب فی الصلوۃ الوسطی
حدیث ابو ہریرہ باب الرجم
حدیث عوف بن مالک کتاب الامارۃ
حافظ ابن صلاح لکھتے ہیں کہ یہ چودہ احادیث اگرچہ سند منقطع سے واردہیں لیکن یہ احادیث دوسرے طرق سے جہات صحیحہ سے سند موصول کے ساتھ مروی ہیں اس لیے یہ روایات بھی حکما صحیح ہیں ۔( شیخ محی الدین یحیٰی بن شرف نووی متوفی 676ھ مقدمہ شرح مسلم جلد1 صفحہ 14 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی 1346 ھ)
عدد مرویات : صحیح مسلم کی کل احادیث کی تعداد میں بھی اختلاف ہے، ابو الفضل احمد بن سلمہ نے بیان کیا ہے کہ صحیح مسلم کی کل احادیث بارہ ہزار ہیں اور ابو حفص نے بیان کیا ہے کہ آٹھ ہزار ہیں الجزائری نے اسی کو توثیق کی ہے اور حزف مکررات کے بعد صحیح مسلم میں بالاتفاق چار ہزار احادیث ہیں ۔(شیخ طاہر بن صلاح الجزائری توجیہ النظر صفحہ 93مطبوعہ مصر) حافظ ابن صلاح لکھتے ہیں کہ حافظ ابو قریش بیان کرتے ہیں کہ ہم شیخ ابوزرعہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ امام مسلم آئے اورسلام کرکے مجلس میں بیٹھ گئے پھر اپنی صحیح کو پیش کرکے کہا یہ چارہزار احادیث صحیحہ کا مجموعہ ہے شیخ ابوزرعہ نے سن کر کہا باقی احادیث کس کے لیے چھوڑدیں ۔ حافظ ابن صلاح لکھتے ہیں کہ چار ہزار احادیث سے امام مسلم کی مراد وہ احادیث تھیں جو غیر مکرر ہیں ۔
مستخرجات : اصطلاح حدیث میں مستخرج حدیث کی اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں کسی کی احادیث کو دیگر اسانید کے ساتھ اس کے مصنف کی شرائط پر جمع کیا جائے صحیح مسلم کی احادیث کی تخریج میں بہت سی کتب تصنیف کی گئی ہیں چند ازاں یہ ہیں ۔
المسند الصحیح علی مسلم : یہ حافظ ابوبکر محمد بن محمد النیشاپوری الاسفرائنی المتوفی 286ھ کی تصنیف ہے ، حافظ اسفرائنی اکثر شیوخ میں امام مسلم کے شریک ہیں ۔
التخریج علی صحیح مسلم : یہ ابو جعفر احمد بن حمدان علی النیشاپوری المتوفی 311ھ کی تالیف ہے ۔
مختصر المسند الصحیح علی مسلم : یہ حافظ ابو عوانیہ یعقوب بن اسحاق الاسفرائنی المتوفی 316ھ کی تصنیف ہے انہوں نے یونس بن عبد الاعلی اور دوسرے شیوخ مسلم سے روایت کی ہے ۔
التخریج علی مسلم : یہ ابو نضر محمد بن محمد الطوسی الشافعی المتوفی 344ھ کی تالیف ہے ۔
التخریج علی مسلم : یہ ابوحامد احمد بن محمد الشاذلی الشافعی الہروی المتوفی 355ھ کی تالیف ہے ۔
المسند الصحیح علی مسلم : یہ ابوبکر محمد بن عبد اللہ الجوزتی النیشاپوری المتوفی 388ھ کی تالیف ہے ۔
المسند المستخرج علی مسلم : یہ حافظ ابونعیم احمد بن عبد اللہ الاصفہانی المتوفی 430ھ کی تالیف ہے ۔
المخرج علی صحیح مسلم : یہ ابو الولید حسان بن محمد القرشی المتوفی 439ھ کی تصنیف ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment