Monday, 22 January 2018

اے شریعت کے باغیو شریعت پر عمل کرنا لازم ہے

اے شریعت کے باغیو شریعت پر عمل کرنا لازم ہے

شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا تعلق ایمان و عقائد سے ہے اور عقائد میں کسی کی تقلید نہیں کی جاتی بلکہ جو اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا، اس پر ایمان لایا جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور اس نے اﷲ تعالیٰ کو اپنا معبود اور محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو اﷲ کا رسول مان لیا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے احکامات کی بے چوں وچرا پابندی کرے۔ اب اس کی مرضی، خواہش اور عقل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے لئے کوئی چیز اہمیت رکھتی ہے تو وہ صرف احکام الٰہی عزوجل اور احکام رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔

قرآن کریم پارہ نمبر 22 سورۃ الاحزاب آیت نمبر 36 میں ارشاد فرمایا گیا ہے : اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اﷲ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اﷲ اور اس کے رسول کا وہ بے شک صریح گمراہی بہکا ۔

اگر آپ تاریخ کے اکابر صوفیاء کے حالات کو دیکھیں تو آپ کو یہ ماننے میں ذرا بھر تامل نہ رہے گا کہ تقریبا سبھی نے مدارس میں جاکر تعلیم حاصل کی۔ نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ تصوف کا اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے بعد بھی انہوں نے علم شریعت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور علم شریعت کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اپنی اپنی خانقاہوں کے ساتھ بڑے بڑے مدارس کا قیام فرمایا ۔

اگر مدارس میں علم شریعت حاصل کیا جاتا ہے تو خانقاہوں میں اس علم شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ شریعت سب کے لئے یکساں ہے۔ یہ وہ توشہ ہے جس کو حاصل کرکے انسان منزل تک پہنچتا ہے ۔

شریعت کی راہ پر چلنے والوں کو خدا ملتا ہے۔ قرآن کریم پارہ نمبر 12 سورہ ہود آیت نمبر 56 میں ہے : بے شک میرا رب سیدھے راستہ پر ملتا ہے ۔
اور اس راہ کی مخالفت کرنے والا بددین گمراہ ہے ۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم پارہ نمبر 8 سورۂ الانعام آیت نمبر 153 میں ارشاد فرماتا ہے : اور یہ کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلو اور راہیں نہ چلو کہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی یہ تمہیں حکم فرمایا کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ۔

حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں۔ شریعت وہ حکم ہے جس کی قہر کی تلوار اپنے مخالف و مقابل کومٹا دیتی ہے اور اسلام کی مضبوط رسیاں اس کی حمایت کی ڈوری پکڑے ہوئے ہیں۔ دونوں جہاں کے کاموں کا دارومدار فقط شریعت پر ہے اور شریعت کی ڈوریوں سے ہی دونوں جہاں کی منزلیں وابستہ ہیں ۔ (بہجۃ الاسرار، ص 40، مطبوعہ مصر)

وہ تمام اعمال جو بظاہر ہم زندگی بھر شریعت کے حکم کے تحت کریں، اگر ان کے پس پردہ نیات درست نہ ہوں، ہمارے اغراض و مقاصد درست نہ ہوں تو یہ اعمال نفاق میں چلے جاتے ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ طریقت، شریعت کی نیت ہوتی ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ہجرت مدینہ کے وقت ہی اعلان فرمادیا تھا کہ عمل کا اعتبار نیات اور مقاصد سے ہے ۔

انما الاعمال بالنیات
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔

سوچنے اور غور کرنے کا پہلو یہ ہے کہ آج دنیا کے ہر خطے میں امت مسلمہ کیوں ظلم و جبر اور ذلت و پستی کا شکار ہے؟ مسلمان کیوں پریشان حال ہیں ؟

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ابتدائی دور کے مسلمانوں نے اپنے کردار، اپنی فکر، اپنے اخلاق اور مزاج کو شریعت کے احکام کے مطابق ڈھالا تھا اور اپنے اجتماعی تہذیب و تمدن کی جس طرح شریعت کے مطابق بنیاد رکھی اور اس کی تشکیل کی، افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی چیز آج امت مسلمہ کے اندر موجود نہیں ہے۔ شریعت مطہرہ سے دوری کی وجہ سے آج امت مسلمہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔

حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں، پاکیزہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم دین اسلام کا پھلدار درخت ہے۔ شریعت وہ سورج ہے جس کی چمک سے تمام جہاں کی اندھیریاں جگمگا اٹھیں۔ شریعت کی پیروی دونوں جہاں کی سعادت بخشتی ہے۔ خبردار اس کے دائرے سے باہر نہ جانا، خبردار اہل شریعت کی جماعت سے باہر نہ نکلنا ۔ (بہجۃ الاسرار، ص 49، مطبوعہ مصر)

آیئے غور کریں کہ آج شریعت پر کتنا عمل کیا جارہاہے۔ سب سے پہلے ہم تذکرہ کریں گے مزارات اولیاء رحمہم اﷲ کا۔ کچھ لوگ مزارات اولیاء پر حاضری کے وقت سجدہ یا طواف کرتے ہیں۔ سجدہ کی دو قسمیں ہیں۔ سجدۂ عبادت اور سجدہ تعظیمی۔ عبادت کا سجدہ غیر خدا کو کیا جائے تو شرک ہوگا جبکہ تعظیماً سجدہ بھی شریعت محمدی میں حرام ہے۔

مزارات اولیاء پر حاضری کے وقت شریعت کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق حاضری دینی چاہئے تاکہ بزرگان دین کے فیوض و برکات سے صحیح طور پر مستفید ہوسکیں۔ ہمارے علماء کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ مزارات اولیاء پر کم از کم چار ہاتھ فاصلہ سے کھڑے ہوں۔ یہی ادب کا تقاضا ہے اور عورتوں کو تو مزارات اولیاء اور مقابر عوام پر جانے کی مطلقاً ممانعت ہے ۔

آج مزارات اولیاءعلیہم الرّحمہ پر جاکر دیکھئے کہ معاشرے کا بگڑا ہوا شخص وہاں نظر آئے گا۔ مثلا شرابی ، چرسی، ہیروئنچی، جواری، عادی بھکاری نے مزارات اولیاء کے احاطوں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ کیا مزارات کا تقدس پامال نہیں ہورہا؟ بزرگان دین جنہوں نے اپنی ساری زندگی دین کا درس دیا اور زندگیاں دین کے لئے وقف کردیں۔ آج ان کے مزارات پر جو کچھ ہورہا ہے، وہ کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کیا ہماری شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ مزارات کا تقدس پامال کیا جائے؟ ان کی حرمت کا خیال نہ رکھا جائے ؟

اب آیئے معاشرے کے غریب، مفلس اور نادار لوگوں کے حقوق پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کیا ان کے حقوق ان کو مل رہے ہیں ؟

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا فرمان ہے کہ زکوٰۃ دے کراپنے مال، مضبوط قلعوں میں کرلو اور صدقہ کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ صدقہ رب عزوجل کے غضب کو بجھاتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے اور فرمایا کہ صدقہ برائی کے ستر دروازوں کو بند کردیتا ہے ۔

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے ہمیں زکوٰۃ اور صدقہ دینے کی اہمیت و فضیلت معلوم ہوئی ۔
زکوٰۃ صاحب نصاب لوگوں پر فرض ہے۔ زکوٰۃ و صدقہ، قربانی کی کھالوں کے پیسے غریبوں کا حق ہے۔ کیا غریبوں کو ان کا حق مل رہا ہے؟ کیا اصل حق دار تک حق پہنچ رہا ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہورہا… بلکہ آج غریبوں کا یہ حق کوئی اور وصول کررہے ہیں… اور کس طرح وصول کررہے ہیں… یہ کسی کی نظروںسے پوشیدہ نہیں… اور پوشیدہ کیونکر ہوگا جبکہ غریبوں کا حق تو دن دہاڑے دبایا جاتا ہے۔ کیا ہماری شریعت غریبوں کا حق دبانے کی اجازت دیتی ہے…؟ نہیں دیتی… تو پھر سوچیں کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے ؟

اور پھر جب غریبوں کو ان کا حق نہیں ملتا تو ان میں سفید پوش لوگ تو صبر کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور بعض غریب لوگ تنگ دستی سے تنگ آکر اپنی اولاد کو قتل کرنے اور خودکشی جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور بعض ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرکے اپنا حق چھیننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اسلام میں سود اور رشوت کا لین دین بھی حرام ہے۔ قرآن پاک پارہ نمبر 2 سورۃ البقرہ آیت نمبر 188 میں ارشاد فرمایا : اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچائو کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر ۔

حضرت صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمتہ اﷲ علیہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے خزائن العرفان میں فرماتے ہیں۔ اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا۔ خواہ لوٹ کر یا چھین کر یا چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں سے یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے… یہ سب ممنوع و حرام ہے ۔

مسئلہ اس سے معلوم ہوا کہ ناجائز فائدہ کے لئے کسی پر مقدمہ بنانا اور اس کو حکام تک لے جانا ناجائز و حرام ہے۔ اس طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو ضرر پہنچانے کے لئے حکام پر اثر ڈالنا رشوتیں دینا حرام ہے جو حکام رس لوگ ہیں وہ اس آیت کے حکم کو پیش نظر رکھیں۔ حدیث شریف میں مسلمان کو ضرر پہنچانے والے پر لعنت آئی ہے ۔

شریعت مطہرہ نے سود کو حرام قرار دیا ہے مگر آج اکثریت سودی نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔ پیسے کا لین دین سود کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ہماری زیادہ تر بینکاری سود پر چل رہی ہے ۔

رشوت اور سود کا لین دین کرنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ رشوت اور سود دونوں بڑے گناہ ہیں… لیکن ہمارے ہاں رشوت اور سود بالکل ایک معمول بن چکا ہے… کبھی دینے والے کو اس ناجائز کاروبار پر پشیمانی نہیں ہوتی… اور نہ لینے والے کو ندامت ہوتی ہے ۔

آج ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں، دلوں، مزاجوں اور رویوں پر مغربی تہذیب کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ اس تہذیب نے ہماری نوجوان نسل کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔ آپ خود دیکھیں اور غور کریں کہ آج ہمارے معاشرے میں کیا کچھ نہیں ہورہا اور کس کس انداز سے ہورہاہے۔ لڑکوں نے لڑکیوں کی طرح بال بڑھالئے اور باقاعدہ پونی باندھ لی۔ جبکہ سنت مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بال مبارک بڑھتے تو مبارک شانوں کو چومنے لگتے اور اس سے زیادہ بال بڑھانے کی ہماری شریعت میں اجازت نہیں ہے ۔

اور داڑھی جس کے بارے میں حکم مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم یہ ہے کہ داڑھی بڑھائو اور مونچھیں پست کرو اور میرے دشمنوں (یہودونصاریٰ) کی سی صورت نہ بنائو ۔

یاد رکھئے کہ داڑھی منڈانا اور ایک مٹھی سے گھٹانا دونوں حرام فعل ہیں، لیکن آج معاشرے میں کتنے چہروں پر یہ مبارک سنت نظر آتی ہے ؟

ایک اور قابل غور بات کہ پہلے شاذونادر کسی شخص کے ایک کان میں بالی نظر آتی تھی۔ لیکن آج کے نوجوانوں نے دونوں کانوں میں بالیاں سجالیں جبکہ مردوں کے کانوں میں بالیاں، ایک میں ہو یا دونوں میں مطلقاً ناجائز ہیں ۔

آج مسلمان انگلش لباس پہننے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ سوچئے کہ کیا کبھی انگریز نے مسلمان کی نقل کی ہے؟ ہمارے جیسا حلیہ اپنایا… نہیں ہرگز نہیں… بلکہ یہ مسلمان ہی ہے جو کہ انگریزی فیشن پر مرمٹتا ہے۔ اور اب تو مسلمان عورت بھی زیادہ تر جینز اور چست و مختصر لباس میں نظر آتی ہیں… انہیں دیکھ کر غیرت مند مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتاہے ۔

ذرا غور تو کیجئے کہ کیا یہ سب کام شریعت کے عین مطابق ہیں یا نہیں…؟ آج بعض پڑھے لکھے نادان لوگ کہتے ہیں کہ سامنے والے کی مرضی وہ جو بھی کرے، جیسا رہن سہن رکھے اور جیسا بھی چال چلن اپنائے… لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا کہ شریعت کے خلاف ہوتا دیکھ کر غیور مسلمان کچھ نہ کریں اور بالکل خاموش رہیں… ہمارے اسلاف نے بہت محنت اور لگن سے تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔اگر وہ بھی یہی سوچ رکھتے تو یقیناًآج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کے نام روشن نہ ہوتے۔ ان کے مزارات پر عقیدت مندوںکا ہجوم نہ ہوتا اور ہمارے دلوں پر ان کی حکومت نہ ہوتی ۔

اﷲ غنی، شان ولی، راج دلوں پر
دنیا سے چلے جائیں حکومت نہیں جاتی

حدیث مبارکہ میں بھی حکم دیا جارہا ہے کہ ’’پہنچا دو میری طرف سے اگرچہ ایک ہی آیت ہو‘‘ اس حدیث مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ہوگا ۔

آج ہمارے معاشرے میں فحاشی و عریانی عروج پر ہے اور ہمارے نوجوان اس کی جانب تیزی سے رواں دواں ہیں۔ سربازار عریاں پوسٹر اور اخلاق سے گرا ہوا لٹریچر ملتا ہے۔ گانے باجوں کی کثرت ہے۔ غیر شریف گھرانوں کی نام نہاد مسلمان لڑکیاں، مردوں کے سامنے عریاں لباس میں ناچتی گاتی ہیں اور اس پر ان کے والدین کی نگاہیں فخر سے چمک اٹھتی ہیں۔ آزاد خیال مسلمانوں کا کوئی فنکشن، تقریب ناچ گانے اور رقص و سرور سے خالی نہیں ہوتی اور پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان راگ کی تقریبات میں شراب کا استعمال پانی کی طرح کیا جاتا ہے ۔

کیا ہماری شریعت میں شراب کی کہیں اجازت ملتی ہے…؟ نہیں اور موسیقی کے شوقین اور اسے روح کی غذا سمجھنے والے حضرات اس حدیث مبارکہ سے درس حاصل کریں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا۔ میں آلات موسیقی اور آلات لہولعب کو تورنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔

حضرت امام قشیری رحمتہ اﷲ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں ’’خلق پر تمام راستے بندہیں مگر وہ جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے شان قدم کی پیروی کرے ۔ (رسالہ قشیریہ ص 24 مطبوعہ مصر)

حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے شعر کا ترجمہ ہے ’’جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے خلاف راستہ اختیار کیا، وہ ہرگز منزل تک نہیں پہنچ سکتا ۔

سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمتہ اﷲ علیہ عارفوں کے امام ہیں۔اس لئے آپ شریعت نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ہٹ کر کوئی بات کرتے ہی نہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ۔

ہر مراتب از شریعت یاختم
پیشوا ء خود شریعت ساختم
ترجمہ: میں نے ہر مرتبہ شریعت کی پیروی سے پایا اور شریعت ہی کو میں نے اپنا پیشوا بنایا ۔

اور فرمایا ’’شریعت سے ہٹ کر جو راہ بھی ہے وہ کفر و زندقہ کی راہ ہے‘‘ (عین الفقر ص 7)
آج ہماری نوجوان نسل کا شریعت پر کتنا عمل ہے، سب کھلے عام ہے۔ اب تہذیب کا نرالا بیج بویا جارہا ہے۔ اب دانشوروں کے تیور ہی کچھ اور ہیں… اب بھلائی کی بات کو کھلم کھلا دبایا جارہا ہے۔ اب نگاہوں کو نئے رنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ اب ذہن کو دنیاوی مقاصد کے لئے تیار کیا جارہاہے… اب حرص و ہوس کی چنگاریاں شعلے کی صورت اختیار کرچکی ہیں… اب زندگی کا مقصد صرف حصول دولت بن گیا ہے… اب غلط کاری اور خطاکاری پر دل کی دھڑکنیں تیز نہیں ہوتیں… اب برائی کرکے اور برائی دیکھ کر دل میں اضطراب و خلش کی لہریں نہیں دوڑتیں ۔

اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف شریعت سے روگرانی ہے اور یاد رکھئے کہ جس نے شریعت کو نظرانداز کردیا، اس کی دنیاو آخرت دونوں برباد ہوجاتی ہیں۔
قرآن کریم پارہ نمبر 25 سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 30 میں اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
ترجمہ : اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا ۔
شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، ہماری آئین ساز ہوگی
خدا کا قانون ، اپنا قانون بن گیا تو کمال ہوگا ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...