Monday 22 January 2018

شریعت ، طریقت ، حقیقت اور معرفت

0 comments
شریعت ، طریقت ، حقیقت اور معرفت

شریعت ، طریقت ، حقیقت اور معرفت ان چاروں کا ذکر مشہور حدیث جبریل علیہ السّلام میں موجود ہے : عَنْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِسْلَامِ قَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ السَّاعَةِ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ لِي يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ(متفق عليه)
ترجمہ : حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک روزحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے کہ اچانک ہمارے روبروایک شخص ظاہرہوا،جس کے کپڑے بے حدسفیداوربال نہایت سیاہ تھے، نہ تو اس پرسفرکے آثارتھے اورنہ ہم میں کوئی اس سے واقف تھا، وہ (شخص)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبروبیٹھ گیااوراپنے دونوں زانوں کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زانوئے مبارک سے لگادیااوراپنے ہاتھوں کواپنے دونوں زانوؤں پررکھ لیا اورعرض کیا :ائے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )مجھے بتلائے کہ :۔ ارکان اسلام پانچ ہیں﴾ اسلام کیا ہے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ توگواہی دے کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں،اوریہ کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں،اورنمازکواچھی طرح پابندی سے اداکرے،اورزکوۃ دے اوررمضان کے روزے رکھے اورخانۂ کعبہ کاحج کرے بشرطیکہ وہاں تک پہنچنے پرقادرہو،اس شخص نے (یہ سن کر)کہا کے آپ نے سچ فرمایا۔ ہم سب کواس پرحیرت ہوئی کہ آپ سے پوچھتاہے اورساتھ ہی تصدیق بھی کردیتاہے، اس شخص نے کہا کہ مجھے۔ ارکان ایمان چھ ہیں ﴾ ایمان سے آگاہ کیجئے ،آپ نے ارشادفرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پرایمان لائے اوراسکے فرشتوں پر اوراسکی کتابوںپر ،اوراس کے رسولوں پر،اورروزقیامت پر،اوریقین رکھے خیروشرپرکہ وہ قضاء وقدرسے ہیں،اس شخص نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔پھراس شخص نے پوچھامجھے بتائے کہ :۔ ارکان احسان دوہیں ﴾ احسان کیا ہے ؟آپ نے ارشاد فرمایاکہ تواللہ تعالی کی (دل لگاکر)اس طرح عبادت کرے گویاکہ تواس کودیکھ رہا ہے، اگرتواس کواس طرح نہ دیکھ سکے تو(خیراتناتوخیال رکھ)کہہ وہ تجھ کودیکھ رہاہے ،پھراس شخص نے پوچھامجھے :۔ قیامت اوراس کی نشانیاں﴾ قیامت کے بارے میں خبردیجئے؟آپ نے فرمایا :جس سے تم دریافت کررہے ہووہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا،پھراس نے پوچھاکہ قیامت کی نشانیاںکیا ہیں؟آپ نے فرمایا: جب لونڈی مالک کوجنے اوریہ کہ ننگے پیرچلنے والے‘ ننگے بدن ‘تنگدست اوربکریاںچرانے والوں کوتودیکھے کہ وہ بلندعمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پرفخرکریں گے ،راوی یعنی عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ وہ شخص چلاگیااورمیں دیرتک ٹھیرارہاپھرآپ نے مجھ سے فرمایا: کہ ائے عمر(رضی اللہ عنہ )کیا تم جانتے ہوکہ سائل کون تھا؟میں نے جواب دیاکہ اللہ اوراس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں، آپ نے فرمایا: وہ توجبرئیل (علیہ الصلوۃ والسلام)تھے ،تمہارے پاس اس غرض سے آئے تھے کہ تم کوتمہارا دین سکھادیں۔ (اس حدیث کی مسلم نے روایت کی ہے)اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے،اوران کی روایت کے اختلافی الفاظ یہ ہیں،جب تم ننگے پیرچلنے والے،ننگے بدن ،بہروں اورگونگوں کوزمین کے بادشاہ دیکھیں، (قیامت کا آنا)ان پانچ چیزوں میںہے،جن کواللہ تعالی کے سواکوئی نہیں جانتا۔پھرحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے (سورۂ لقمٰن پ ۲۱ع۴کی )یہ آیت پڑھی ،ان اللہ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وماتدری نفس ماذاتکسب غداوماتدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر۔(بے شک اللہ بزرگ وبرترہی کوقیامت کی خبرہے اوروہی بارش برساتاہے اوروہی جانتاہے جوکچھ رحم میں ہے (یعنی حاملہ کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی )اورکوئی شخص نہیں جانتاکہ وہ کل کیا عمل کرے گااورکوئی شخص نہیں جانتاکہ وہ کس زمین پرمرے گا،بے شک اللہ سب باتوں کاجاننے والاباخبرہے (بخاری )اورمسلم نے بالاتفاق اس کی روایت کی ہے ) ایمان اوراسلام کے مباحث ﴾ (۱)کیا قول اورعمل داخل ایمان ہیں؟ (۲)کیا ایمان بڑھتااورگھٹتاہے؟ (۳)کیا ایمان اوراسلام دوالگ چیزیں ہیں؟ یہ حدیث اوراسکے بعدوالی حدیثیں تین چیزوں کے بارہ میں ہیں (۱)کیا قول اورعمل داخل ایمان ہیں؟(۲)کیا ایمان بڑھتااورگھٹتاہے؟(۳)کیا ایمان اوراسلام دوالگ چیزیں ہیں؟ان مباحث میں علماء کے درمیان اختلاف ہے،علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اختلاف محض لفظی ہے کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک میں ایمان دونوں معنوں میں آیا ہے ۔ ایمان ‘حدیث میں دومعنوں میں استعمال ہواہے ﴾ (۱)ایک معنی کے لحاظ سے ایمان سے مراد محض عقیدہ ہے جس میں عمل داخل نہیں ،چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادسے یہی ظاہرہوتاہے اوروہ ارشادیہ ہے کہ ’’توایمان رکھے اللہ بزرگ وبرترپراوراس کے فرشتوں پراوراللہ تعالی سے ملنے پر‘اوراس کے رسولوں پراور مرنے کے بعد اٹھنے پریقین رکھے‘اوراسلام یہ ہے کہ تواللہ بزرگ وبرترکی عبادت کرے اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناے اورنمازکواچھی طرح پابندی سے اداکرے ،فرض زکوۃ اداکرے ،اوررمضان کے روزے رکھے (تاآخرحدیث )۔(اس حدیث میں ایمان سے صرف عقیدہ اوراسلام سے صرف اعمال مرادہیں)- وہ حدیث جس میں ایمان سے مراد عقیدہ اورعمل دونوں ہیں اوریہ ایمان کا مل ہے﴾ دوسرے یہ کہ لفظ ایمان حدیث میں ایمان کامل کے معنی میں بھی آیا ہے اوراس میں عمل داخل ہے ،چنانچہ وفد عبد القیس کی حدیث میں سرکارصلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف فرماتے ہوئے اس میں عقیدے کے علاوہ عمل کوبھی داخل فرمایا ہے ،حدیث یہ ہے: کیا تم جانتے ہواللہ واحد پرایمان کیا ہے ؟انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اوراس کے رسول خوب جانتے ہیں ،آپ نے ارشاد فرمایا :اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ،اوریہ کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ،اورنمازکا پابندی سے اچھی طرح اداکرنا‘اورزکوۃ کا دینا‘اوررمضان کے روزے رکھنا‘اوریہ کہ تم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ دیا کرو‘اس معنی کے لحاظ سے یہ وہی ایمان ہے جس کی نفی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک میں موجودہے ،وہ حدیث یہ ہے ’’ایسا نہیں ہوسکتاکہ زناکرنے والازناکرے اور اس کا ایمان بھی باقی رہے ‘‘(تاآخرحدیث )الغرض ہروہ مقام جوایساہووہاں یہی مرادہے ۔ وہ ایمان جسکی وجہ سے مسلمان دوزخ میں نہ ہوگا‘اعمال سے آراستہ ایمان ہے ﴾ اوروہ جس کی وجہ سے مسلمان دوزخ میں داخل نہ ہوگاوہ باتفاق یہی ایمان کامل ہے جواعمال سے آراستہ ہواوراس معنی پرجمیع مسلمین کا اتفاق ہے ۔ ایمان کے ساتھ عمل نہ ہوتوگناہوں کی وجہ سے دوزخ میں داخل توہوگالیکن ہمیشہ نہ رہے گا۔ اوروہ ایمان جس کی وجہ سے دوزخ میں (گناہوں کی وجہ سے داخل توہوجائے گا)لیکن ہمیشہ نہ رہے گا،وہ باتفاق اہل سنت وجماعت پہلا ایمان ہے جس کے ساتھ اعمال نہ پائے جائیں اس پرکئی دلیلیں ہیں ،جس میں ایک ابوذررضی اللہ عنہ کی حدیث ہے (کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے )فرمایا کہ بندہ لاالہ اللہ کہے اوراسی پراسکی موت واقع ہوپھروہ جنت میں داخل نہ ہوایسانہیں ہوسکتا،میں نے عرض کیا:اگرچہ اس سے زنااورچوری ہوجائے؟ توآپ نے جواب دیا اگرچہ کہ اس سے زنااورچوری ہوجائے (تاآخرحدیث) دوسری دلیل حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اورارشاد ہے وہ یہ کہ ’’ہروہ شخص جس کے دل میں ذرہ برابرایمان ہووہ دوزخ سے نجات پائے گا۔‘‘ عمل کن معنوں میں ایمان کا رکن ہے﴾ خلاصہ یہ ہے کہ اسلاف اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے عمل کوایمان کے دوسرے معنی کے لحا! سے ایمان کا رکن بنایا اوراگرایمان کے ساتھ اعمال نہ پائے جائیں توپہلے معنی کے لحاظ سے اس پرایمان کے باقی رہنے کا حکم لگایا،کیوں کہ ایمان اس کے سینہ میں موجوہے (ایساشخص) بالآخردوزخ سے چھٹکاراپائے گااگرچہ اس کے پاس ایمان کے ساتھ اعمال نہ ہوں۔ ایمان سے مراد تصدیق قلبی ہوتوایمان میں کمی اورزیادتی نہیں ہوتی‘لیکن ایمان سے مرادطاعتیں ہوں توایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے ۔﴾ ایمان سے مراد تصدیق قلبی ہوتواس معنی کے لحاظ سے ایمان میں کمی اورزیادتی نہیں ہوتی اوراگرایمان سے مرادطاعتیں اورعبادتیں ہوں توایمان میں کمی اورزیادتی ہوتی ہے‘اورحقیقت یہ ہے کہ عبادتیں تصدیق کی تکمیل کرتی ہیں توہروہ حدیث جوایمان کے نہ بڑھنے اورنہ گھٹنے پردلالت کرتی ہوتواس سے مراد ایمان کا مل ہوتا ہے جس میں اعمال داخل ہیں ۔ ایمان اوراسلام مفہوم میں الگ ہیں لیکن مصداق میں ایک ہیں ﴾ دوسری بحث اس بارے میں ہے کہ ایمان اوراسلام دوالگ چیزیں ہیں یادونوں ایک ہیں ،ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا :حق یہ ہے کہ ایمان اوراسلام میں لفظی اختلاف ہے کیونکہ اول (یعنی ایمان اوراسلام کا الگ الگ ہونا)لغت پرموقوف ہے، اورثانی (یعنی ایمان اوراسلام کا ایک ہونا)شریعت پرمنحصرہے، تحقیق یہ ہے کہ ایمان اوراسلام مفہوم کے لحاظ سے ایک دوسرے سے الگ ہیں لیکن دونوں کا مصداق ایک ہی ہے ۔ ایمان شرعی میں تصدیق قلبی اوراقرارلسانی داخل ہیںاورعمل کمال ایمان کی شرط ہے﴾ ہدایۃ المسالک فی حل تفسیرالمدارک میں لکھا ہے کہ ایمان شرعی سے مراد تصدیق قلبی مع اقرارلسانی ہے اورعمل اس میں داخل نہیں بلکہ اس سے خارج ہے اورکمال ایمان کی شرط ہے اورجمیع احناف جوامام ابومنصورماتریدی رحمۃ اللہ علیہ کے پیروہیں ‘ان کے پاس یہی راجح ہے ،البتہ محققین کا مذہب یہ ہے کہ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے اوراشاعرہ یعنی شافعی حضرات نے اسی کوراجح قراردیاہے ۔ اقرارزبانی ایمان کا مشروط رکن ہے ﴾ پس جوشخص دل سے تصدیق کرے اوربغیرعذرکے زبان سے اقرارنہ کرے وہ عنداللہ مومن نہیں اوروہ حضرات جن کے پاس اقرارزبانی ایمان کا رکن ہے ایساشخص دوزخی ہوگا۔امام فخرالاسلام اورشمس الائمہ اوراکثرفقہاء نے اسی کواختیارکیا ہے البتہ وہ حضرات جن کے پاس اقرارزبانی ایمان کا رکن نہیں ،ایساشخص ان کے پاس مومن توہے اوراللہ تعالی کے پاس دنیاوی احکام میں غیرمومن ہے ،یہ صورت منافق کے برعکس ہے (کیونکہ منافق عنداللہ کافررہتاہے لیکن عندالناس مومن) شرح مقاصدمیں لکھاہے کہ یہ اختلاف اسی صورت میں ہے کہ آدمی گفتگوکرسکتاہو،اوراس کا اقرارنہ کرناانکارکی وجہ سے نہ ہو،مگرایک شخص جس نے دل سے تصدیق کرلی ،لیکن اس کوزبان سے اقرارکرنے کا وقت نہ مل سکاتوسب اس بات پرمتفق ہیں کہ بالاتفاق وہ مومن ہوگا،شرح مقاصدکی عبارت سے یہی واضح ہوتاہے اورملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح شفاء میں لکھا ہے کہ وہ شخص جواقرارشہادت پرقادرنہ ہوسکاباوجودیکہ اس سے تصدیق قلبی ثابت ہوئی وہ مومن نہیں ہے کہناضعیف ہے ،ہاں اس کواتنا وقت ملاکہ اس میں وہ اقرارکرسکتاتھا اوراس سے اقرارکا مطالبہ بھی کیا گیا اوراس نے انکارکیا توایساشخص باتفاق مومن نہیں بلکہ وہ عنادوسر کشی کی وجہ سے کافرہی ہوگا۔ اقرارزبانی کن معنوں میں ایمان کا رکن ہے ﴾ الغرض اس تفصیل سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اقرارزبانی ایمان کا ایک اوررکن ہے مگریہ یادرہے کہ اصل ایمان تودل سے تصدیق ہی کا نام ہے ،یہ ایک واضح بات ہے کہ زبان خیالات کے اظہارکا ذریعہ ہے اس لئے ایمان کا زبان سے اقرارایمان کے دل میں ہونے یا نہ ہونے کی دلیل ہوگی، اس لحاظ سے یہ صحیح ہے کہ اقرارزبانی ایمان کا ایک ایسارکن ہے جوبعض حالات میں ساقط ہوسکتاہے ،لہذاحالت اختیاری میں اقرارجزء ایمان قراردیا جا ئیگا اورجبرواکراہ کے نہ ہونے کی حالت میں اقرارکا نہ ہونا تصدیق کے نہ ہونے کی دلیل ہوگا،الغرض اقرارزبانی کا اس طرح رکن ہونا اس بات کے خلاف نہیں کہ ایمان کی حقیقت تصدیق ہی ہے اورجن حضرات کے پاس اقرارایمان کا رکن ہے وہ اصل انہی معنوں میں ہے ۔ جمہورمحدثین کے نزدیک عمل کمال ایمان کا جزء ہے ﴾ جمہورمحدثین رحمہم اللہ کے نزدیک عمل ایمان کا جزء ہے اس طرح جیساکہ ہاتھ انسان کا جزء ہے توجس طرح ہاتھ کی نفی سے ایمان کی نفی نہیں ہوسکتی بلکہ ایک نقص اورعیب ہوگا بالکل اسی طرح عمل کی نفی سے ایمان کی نفی نہیں ہوسکتی ،مختصریہ کہ عمل کمال ایمان کا جزء ہے البتہ معتزلہ اورخوارج کے نزدیک عمل ایمان کا جزء اصلی ہے اورعمل کے نہ ہونے سے ان پاس ایمان باقی نہیں رہتا۔ ایمان ‘اسلام ‘تصدیق ‘اقراراورعمل کے مباحث کا خلاصہ ﴾ خلاصہ یہ کہ ایمان سے مراد اگرتصدیق ہوتواس میں کمی اورزیادتی نہیں ہوتی ،اورایمان سے مراداگرتصدیق ‘اقراراورعمل تینوں چیزیں ہوں تواس میں عمل کے لحاظ سے کمی اورزیادتی ہوگی‘لیکن ایمان کی کمی اورزیادتی معنی اول یعنی صرف تصدیق کے لحاظ سے اس اعتبارسے ہوگی کہ جس شئے پرایمان لا یا گیا ہے اس شئے میں زیادتی یا کمی ہوئی نہ کہ نفس ایمان میں ۔ مذکورہ مباحث کے لحاظ سے آیات اوراحادیث میں تطبیق ممکن ہے ﴾ ان تفصیلات سے بحمداللہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی وہ آیتیں اورحدیث کی وہ روایتیں جن سے ایمان کا گھٹنا اوربڑھناظاہرہوتاہے ‘ان سب آیتوں اورحدیثوں میں جمع اورتطبیق ممکن ہے اوریہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں اوراس میں جوکچھ اختلاف ہواہے وہ نزاع لفظی کی حد تک ہے، اس لئے خوب سمجھواورغورکرو۔ ( صحیح مسلم، کتاب الایمان، مسند امام احمد، باب الایمان و الاسلام وا لاحسان، ج ۱ ص۶۴)

(1) رکن اسلام

یہ دین کا عملی پہلو ہے جس کا تعلق جسم کے ظاہری اعضاء سے ہے اور جس میں عبادات ، معاملات اور دیگر دینی امورشامل ہیں جن کی تعمیل کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔اہل علم دین کی اصطلاح میں اس کو شریعت کہتے ہیں۔اس پہلو کی تحقیق و تشریح میں فقہائے کرام کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔

(2) رکن ایمان

یہ دین کا وہ اعتقادی پہلو ہے جس کا تعلق قلب سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں ، یوم آخرت اور قضاء و قدر پر ایمان لانا شامل ہے۔ اس پہلو کی تحقیق کاسہرا علم کلام کے ماہرین کے سر ہے۔

(3) رکن احسان

یہ دین کا خالص ، روحانی اور قلبی پہلو ہے۔ جیساکہ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اگر تم یہ مقام حاصل نہ کر پاؤ تو تم اللہ کی عبادت اس طرح کرکہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس تیسرے پہلو میں وہ تمام عرفانی احوال و مقامات ، وجدانی ذوق اور علوم لدنیہ شامل ہیں۔ جو مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق عبادت کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں۔ علماء کی اصطلاح میں اسے حقیقت کہتے ہیں۔اس پہلو کی توضیح و تشریح کا حق صوفیائے کرام نے ادا کیا ہے۔

شریعت اور حقیقت کے باہمی ربط و تعلق کا اندازہ اس مثال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ مثلا اگر نماز کو اس کے ظاہری اعمال و حرکات اور فقہائے کرام کے بیان کردہ ارکان و شرائط کے مطابق ادا کیا جائے تو اسے شریعت کا نام دیا جا سکتا ہے۔اور اگر نماز میں حضور قلب اور خشوع و خضوع حاصل ہو جائے تو اسے حقیقت کہتے ہیں ۔اور یہی روح نماز ہے ۔

اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نماز کے ظاہری اعمال اس کے جسم کے مانند ہیں اور اس میں خشوع و خضوع اس کی روح ہے ۔روح کے بغیر جسم کا کوئی فائدہ نہیں۔ تو جس طرح روح اپنے قیام کے لئے ایک جسم کی محتاج ہے اسی طرح جسم کو ایک روح کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جیساکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : اقیمو الصلوۃ واٰتو الزکوۃ (سورۃ البقرہ:110)
ترجمہ : نماز کو (صحیح سے) قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو ۔

نماز قائم کرنے کا مفہوم یہ کہ اس کو جسم اور روح کے ساتھ ادا کیا جائے ۔ یہی وجہ کہ اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا کہ نماز پڑھو ۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اور حقیقت کے درمیان اسی طرح گہرا تعلق ہے جس طرح جسم اور روح کے درمیان ۔ کامل مومن وہی ہے جو شریعت اور حقیقت کا جامع ہو۔یہی وہ تعلیم ہے جس کی طرف صوفیائے کرام اور اولیائے عظام راہنمائی فرماتے ہیں۔وہ قرآن وسنت کے مطابق عمل کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نقش قدم پر گامزن رہتے ہیں ۔

کامل مومن ہونے اور اس کے اعلی مقام کو حاصل کرنے کے لئے راہ طریقت کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ یعنی کسی مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر مجاہدۂ نفس کرنا اور ناقص صفات کو صفات کاملہ کے ساتھ تبدیل کرتے ہوئے معرفت الہی کی منزل تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ گویا طریقت وہ پل ہے جو سالک کو شریعت سے حقیقت تک پہنچا دیتا ہے ۔

یہاں مزید وضاحت کرنا ضروری ہے کہ دینِ اسلام میں اصل شریعت ہے اور اِس کی فرع طریقت ہے۔ شریعت سرچشمہ و منبع ہے اور طریقت اِس سے نکلا ہوا دریا ہے۔ طریقت کو شریعت سے جدا تصور کرنا غلط ہے۔ شریعت پر طریقت کا دار و مدار ہے۔ شریعت ہی معیار ہے۔ طریقت میں جو فیض ہے اور جو کچھ منکشف و مکشوف ہوتا ہے وہ شریعت ہی کے اِتباع کا صدقہ ہے۔ پس جو شخص طریقت، معرفت، حقیقت، سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شریعت مطہرہ کو جھٹلائے، مخالفت کرے اور رد کرے وہ بے دین ہے۔ اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طریقت میں شریعت کا پاس و لحاظ نہ ہو وہ بے دینی ہے اور جس شریعت کے ساتھ طریقت و معرفت نہ ہو وہ بھی ناقص اور ادھوری ہے۔ ظاہری اعمال کے ساتھ باطنی پاکیزگی کا حسین امتزاج ہی ہمارا نکتۂ امتیاز ہے ۔

علی بن محمد سید شریف جرجانی (740 تا 816ھ،1339 تا1413 ء) اپنی کتاب ’’تعریفات‘‘ میں فرماتے ہیں: (الطريقة هي السيرة المختصة بالسالكين إِلى الله تعالى، من قطع المنازل والترقي في المقامات)
ترجمہ : طریقت سے مراد وہ مخصوص طرز عمل ہے جس کو سالکین معرفت الٰہی کی منازل طے کرنے اور اعلی مقامات کے حصول کے لئے اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (تعریفات سید جرجانی ، ص 94)

اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ شریعت اساس و بنیاد ہے اور طریقت اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ اور حقیقت ان پر مرتب ہونے والا ثمرہ ہے۔ ان تینوں چیزوں کا آپس میں بہت گہرا ربط و تعلق ہے ۔ جس نے شریعت کو مضبوطی سے تھام لیا وہ راہ طریقت پر چلتا ہوا حقیقت تک پہنچ جائے گا ۔ ان میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ہی کوئی تناقض ۔

اسی وجہ سے صوفیائے کرام فرماتے ہیں : کل حقیقۃ خالفت الشریعۃ فھی زندقۃ‘‘ یعنی ’’ہر حقیقت جو شریعت کے مخالف ہو وہ زندیقی ہے ۔

تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حقیقت ، شریعت کے مخالف ہو کیونکہ شریعت پر عمل کرکے ہی تو سالک کو حقیقت تک رسائی حاصل ہوتی ہے ۔

مشہور صوفی فقیہ امام احمد زروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لا تصوف إِلا بفقه ، إِذ لا تعرف أحكام الله الظاهرة إِلا منه. ولا فقه إِلا بتصوف، إِذ لا عمل إِلا بصدق وتوجه لله تعالى. ولا هما [التصوف والفقه] إِلا بإِيمان، إِذ لا يصح واحد منهما دونه. فلزم الجميع لتلازمها في الحكم، كتلازم الأجسام للأرواح، ولا وجود لها إِلا فيها، كما لا حياة لها إِلا بها، فافهم)
ترجمہ : فقہ کے بغیر تصوف کا کوئی تصور نہیں ۔ کیونکہ فقہ ظاہری احکام کو جاننے کا ذریعہ ہے ۔ اور اسی طرح فقہ تصوف کے بغیر نامکمل ہے۔ کیونکہ کوئی ظاہری عمل صدق نیت اور رضائے الٰہی کے بغیر مقبول نہیں۔ اور اسی طرح تصوف اور فقہ کی بنیاد ایمان پر ہے۔ کیونکہ بغیر ایمان کے نہ فقہ مقبول ہے اور نہ ہی تصوف ۔ ( قواعد التصوف للشیخ احمد زروق، قاعدۃ 3، ص3)

اس سے معلوم ہوا کہ ان تینوں ارکان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ جس طرح جسم اور روح آپس میں لازم و ملزوم ہیں کہ روح کا وجود جسم کے بغیر ممکن نہیں۔ اور ایسے ہی جسم کی زندگی روح کے بغیر ممکن نہیں ۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : من تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق۔ومن تفقہ ولم یتصوف فقد تفسق ومن جمع بینھما فقد تحقق ۔
ترجمہ : جس نے تصوف کو اپنایا اور فقہ سے بے خبر رہا ، وہ زندیق ہوا۔ اور جس نے علم فقہ کو سیکھا اور تصوف پر عمل پیرا نہ ہوا ، وہ فاسق ہوا۔ اور جس نے ان دونوں کو جمع کر لیا ، اس نے حقیقت کو پا لیا ۔ ( شرح عين العلم وزين الحلم" للإِمام مُلا علي القاري ج1. ص33)

پہلا شخص زندیق اس لئے ہوا کیونکہ اس نے حقیقت کو شریعت سے جدا تصور کیا ۔ اس لئے و ہ جبریہ کے عقائد کی طرف مائل ہو گیا اور کہنے لگا کہ انسان کو کسی بھی معاملہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں ۔

دوسرا شخص اس لئے فاسق ہو گیا ، کیونکہ اس کے دل میں تقوی کا نور اور اخلاص داخل نہ ہوا۔ نہ ہی اس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا تاکہ اس کو معصیت سے روکتا اور شریعت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ۔

تیسرے شخص نے حقیقت تک رسائی اس لئے حاصل کی ، کیونکہ اس نے دین کے تمام ارکان یعنی ایمان ، اسلام اور احسان کو جمع کیا ، جس کا ذکر حدیث جبریل میں آیا ہے ۔

جس طرح علمائے ظاہر حدود شریعت کی حفاظت کرتے ہیں، اسی طرح صوفیائے کرام تصوف کے آداب اور اس کی روح کی حفاظت کرتے ہیں ۔

جس طرح علمائے ظاہر کے لئے جائز ہے کہ وہ ادلہ شریعت کی حفاظت کرتے ہیں ، اسی طرح صوفیائے کرام علیہم الرّحمہ تصوف کے آداب اور اس کی روح کی حفاظت کرتے ہیں ۔

جس طرح علمائے ظاہر کے لئے جائز ہے کہ و ہ ادلہ شریعت کے استنباط اور حدود و فروع کے تعین کے لئے اجتہاد کریں ، اور ان چیزوں پر حلت و حرمت لگائیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں واضح طور پر نہیں بیان کیا گیا ۔ اسی طرح عارفین اور صوفیائے کرام کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ مریدین اور سالکین کی اصلاح و تربیت کے لئے آداب اور طریقے مستنبط کریں ۔

سلف صالحین ،عارفین ،صوفیائے کرام اور اولیائے عظام علیہم الرّحمہ نے حقیقی اسلام کی معرفت حاصل کر لی تھی ۔ کیونکہ وہ شریعت ، طریقت اور حقیقت پر بیک وقت عمل پیرا رہے۔ کیونکہ وہ خود ان سنہری اصولوں پر عمل پیرا تھے۔ اس لئے انہوں نے دوسرے لوگوں کی بھی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی ۔ اگر حقیقت کو دین سے الگ کر دیا جائے تو اس کی جڑخشک ہو جائے ، اور ٹہنیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں ۔ اور اس طرح اس کا ثمرہ فاسد ہو جائے ۔ اللہ والوں کے دستِ حق پر بیعت کرنا مسنون و مستحب ہے لیکن اسی پر اکتفا کر لینا اور اوامر و نواہی کی پابندی نہ کرنا قطعاً درست نہیں ۔ باطن کی اصلاح کے لئے بیعت کرنا مسنون ہے لیکن فرائض و واجبات اور سنن پر عمل دین کی بنیادی ضرورت ہے ۔ بیعت محض کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا نام نہیں بلکہ بیعت کا اصل مقصد دین پر استقلال کے ساتھ کاربند رہنے کا عہد ہے ۔ کامل شیخ اور پیر طریقت کی مدد اور راہنمائی سے شیطان و نفس کے حملوں کا دفاع اور عبادت و ریاضت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت و محبت کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔ کسی اجتماعی شکل میں آکر اگر یہ مقاصد حاصل ہو جائیں تو باطن کی اصلاح کا یہ طریقہ بھی اختیار کرنا درست ہے۔ اس سے مقصود نفس کی اصلاح اور تزکیہ باطن ہے جس کا حصول خواہ استاد سے حاصل ہویا باپ سے ، شیخ سے یا کسی اجتماعی نظم سے ، جملہ ذرائع درست ہیں، لیکن بیعت کو رسم و رواج یا عادت بنا لینا مقصود طریقت نہیں۔ کوئی بھی سلسلۂ طریقت جس سے مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہوں اسے اختیار کیا جا سکتا ہے ، ورنہ تصوف و طریقت کے نام پرآج کل بہت سارے کاروباری قسم کے لوگ اپنی اپنی دکانیں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے حتی الامکان بچنا چاہیے ۔ بے عملی ، بے ادبی اور حرص جاہ و مال سے بچ کر ہی اصلاح نفس ممکن ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔