مفسر قرآن کے لئے ضروری علوم
آج کے پر فتن دور میں جہاں بے شمار فتنے ہیں وہاں ایک فتنہ بڑا خطرناک ہے مسلمان اہل علم اس کی سرکوبی کےلیئے توجہ فرمائیں وہ یہ ہے کہ آج کل کچھ اردو خوان حضرات اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ ہر بندہ چند اردو کی کتابیں پڑھ لینے والا ترجمہ و تفسیر قرآن خود کر سکتا ہے ایسے اجہل لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں آیئے مختصر پڑھتے ہیں کہ ایک مفسر قرآن کےلیئے کون سے علوم حاصل کرنا ضروری ہیں ۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (م911ھ/1505ء) مفسر قرآن کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ضروری قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ مفسر قرآن کم از کم درج ذیل علوم پر ضروری دسترس رکھتا ہو :
’علم اللغۃ، علم نحو، علم صرف، علم اشتقاق، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم قرأت، علم اصول دین، علم اصول فقہ، علم اسباب نزول، علم قصص القرآن، علم الحدیث، علم ناسخ و منسوخ، علم محاورات عرب، علم التاریخ اور علم اللدنی ۔ (الا تقان فی علوم القرآن جلد 2 ص: 180 سہیل اکیڈمی 1980ء)
مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ ساتھ مفسر کو بہت زیادہ وسیع النظر ، صاحب بصیرت ہونا چاہیے کیونکہ ذرا سی کوتاہی تفسیر کو تفسیر باالرائے بنا دے گی جس کا ٹھکانہ پھر جہنم ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ۔
(ومن قال فی القران برایئہِ فلیتبوأ مقعدہ من النار )جامع ترمذی جلد 2 حدیث 861)
اور جو قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے ۔
محترم قارئین : علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ شرائط کی روشنی میں مترجم قرآن کی ذمہ داری مفسر قرآن سے بھی زیادہ سخت نظر آتی ہیں کیونکہ تفسیر میں مفسر ایک لفظ کی شرح میں ایک صفحہ بھی لکھ سکتا ہے مگر ترجمہ قرآن کرتے وقت عربی لفظ کا ترجمہ ایک ہی لفظ سے کرنا ہوتا ہے اس لئے مترجم قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ منشا الٰہی کے مطابق یا منشائے الٰہی کے قریب قریب کرنا مشکل ترین کام ہے۔ البتہ تمام شرائط کے ساتھ ترجمہ قرآن اس وقت ممکن ہے کہ جب مترجم قرآن تمام عربی تفاسیر ، کتب احادیث ، تاریخ، فقہ اور دیگر علوم و فنون پر دسترس کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب پر مکمل عبور رکھتا ہو اور وہ ایک عبقری شخصیت کا حامل ہو ساتھ ہی مترجم قرآن کتاب اللہ کو عربی زبان میں سمجھنے کی حد درجہ صلاحیت رکھتا ہو تب ہی ترجمہ قرآن منشائے الٰہی اور فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تر ہو گا ۔
علماءِ کرام و آئمہ مفسرین علیہم الرّحمہ نے مفسر کے لئے جن علوم کو ضروری قرار دیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں : (1) لغت کا علم ۔ (2)نحو کا علم ۔ (3) صرف کا علم ۔ (4) اشتقاق کا علم ۔ (5،6،7) ۔ معانی، بیان اور بدیع کا علم ۔ (8) قرائتوں کا علم ۔ (9)اصولِ دین کا علم ۔ (10) اصولِ فقہ کا علم ۔ (11) اسبابِ نزول کا علم ۔ (12) ناسخ اور منسوخ کا علم ۔ (13) مُجمَل اور مُبہَم کی تفسیر پر مبنی احادیث کا علم ۔
اِن علوم کو سامنے رکھتے ہوئے اُن خواتین وحضرات کو اپنے طرزِ عمل پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی حاجت ہے جو قرآن مجید کا صرف اردو ترجمہ اورتفاسیر کی اردو کتب پڑھ کر ترجمہ و تفسیر کرنا اور اس کے معانی و مطالب بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک اقدام ہے ۔اسے یو ں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص از خودمیڈیکل کی کتابیں پڑھ کے اپنا کلینک کھول لے اور مریضوں کا علاج کرنا اور ان کے آپریشن کرنا شروع کردے تو اس کا کیا نتیجہ ہو گا ؟
اسی طرح بلکہ ا س سے کہیں زیادہ نازک قرآنِ مجید کے ترجمہ وتفسیر کا معاملہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا معنی و مفہوم اور اس کی مراد بیان کرنی ہوتی ہے اور یہ کام سیکھے بغیر کرنا اور علم کے بغیر کرنا جہنم میں پہنچا دے گا ۔
اس لئے اگرکسی کو تفسیر بیان کرنے کا شوق ہے تواسے چاہیے کہ باقاعدہ علومِ دینیہ سیکھ کر اس کا اہل بنے ۔
امام حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : عجمیوں کو اس بات نے ہلاک کر دیاکہ ان میں سے کوئی قرآنِ مجید کی آیت پڑھتا ہے اور وہ اس کے معانی سے جاہل ہو تا ہے تو وہ اپنی اس جہالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھنا شروع کر دیتا ہے ۔ (البحر المحیط، مقدمۃ المؤلف، الترغیب فی تفسیر القرآن، ۱/۱۱۸-۱۱۹)
معلم کائنات سرور عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں : جس شخص نے قرآنِ مجید میں بغیر علم کچھ کہا اسے اپنا ٹھکانہ دوزخ سمجھ لینا چاہئے ۔ (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ما جاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ، ۴/۴۳۹، الحدیث : ۲۹۵۹) (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment