حدیث ضعیف اور حدیث موضوع میں فرق حدیث غیر صحیح کی وضاحت
تمثیلاً حدیث صحیح کا استنباط بخاری شریف کی اس حدیث مبارکہ سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ 70 ہزار افراد اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق یہ 7 لاکھ افراد ہوں گے جو بغیر حساب و کتاب کے بخشے جائیں گے۔ بغیر حساب و کتاب کے بخشے جانے والے یہ افراد مثل حدیث صحیح ہیں۔
ذہن میں رکھ لیں کہ قرآن و حدیث کا اطلاق کرنا باقاعدہ ایک فن ہے۔ اسی کی رو سے یہ بیان کر رہا ہوں۔ پس اگر کوئی حدیث صحیح مل جاے تو اس کا کوئی حساب و کتاب ہی نہیں، کوئی چھان پھٹک اور پوچھ گچھ کی بھی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح قبول کر لو۔
اسی طرح قیامت کے دن کچھ وہ لوگ ہوں گے جو تھوڑے بہت حساب کتاب کے بعد جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے یا شفاعت کے ذریعے دخول جنت ہوں گے، ان کے اعمال میں موجود تھوڑی کمی شفاعت کے ذریعے پوری ہوگی۔ یہ تشبیہاً حدیث حسن کی مثل ہیں۔
ایک طبقہ قیامت والے دن وہ ہوگا جو اپنی کمزوریوں کی وجہ سے کچھ تکلیف بھگتے گا اور آخر پر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء کرام کی نگاہ ان پر پڑے گی تو وہ عرض کریں گے کہ مولیٰ یہ ہمارے ساتھ دنیا میں رہتے تھے، نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے تھے، ہماری سنگت میں رہتے تھے۔ ہم اس وقت تک جنت میں نہیں جائیں گے جب تک ان کو ساتھ نہ لے جائیں، پوچھا جائے گا کہ کیا آپ ان کو پہچانتے ہیں؟۔ ۔ ۔ عرض کریں گے : ہاں پہچانتے ہیں۔ ۔ ۔ حکم ہوگا کہ جائیں، جن جن کو پہچانتے ہیں نکال کر جنت میں اپنے ساتھ لے جائیں۔ ۔ ۔ کئی ایسے ہوں گے جو ابھی دوزخ میں گئے نہیں ہوں گے مگر اپنے گناہوں کی وجہ سے انہیں پروانہ مل چکا ہوگا کہ ان کو دوزخ میں بھیج دیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے ذریعے انہیں بھی جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔
پس نظام قدرت یہ ہے کہ دنیا کے نظام سے لے کر نظام قیامت تک اور جنت میں جانے والے 3 طبقات ہیں اور جب ان کو جنت میں بھیج دیا جائے گا وہ کہیں گے :وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌO(فاطر : 34)
ترجمہ:’’اور وہ کہیں گے: اﷲ کا شکر و حمد ہے جس نے ہم سے کُل غم دور فرما دیا، بیشک ہمارا رب بڑا بخشنے والا، بڑا شکر قبول فرمانے والا ہےo‘‘۔
یہ اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ ان کے اعمال میں جو کمزوریاں اور ضعف تھے اور جن کی وجہ سے قبولیت میں مشکلات تھیں ان کو شفاعت کی اضافی مدد ملی تو اللہ تعالیٰ نے وہ کمزوریاں دور کردیں۔
اسی طرح حدیث جبریل میں بھی 3 طبقات بیان ہوئے۔ محض اسلام کے عنوان والے حدیث ضعیف کی مثل ہیں۔ جن کے اوپر اوپر اسلام ہے ابھی باطن اور مَن میں اسلام داخل نہیں ہوا مگر وہ بھی مسلم ہیں۔
جن کے دلوں میں ایمان داخل ہوگیا وہ مومن ہیں۔ پس ایمان کے عنوان والے حدیث حسن کی مثل ہیں۔ ۔ ۔
جن کے ظاہر و باطن میں ایمان داخل ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشاہدہ و مراقبہ کے تعلق میں جڑ گئے پس یہ احسان کے عنوان والے مثل حدیث صحیح ہیں۔
خالی اسلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درجہ ضعیف ہے
ایمان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درجہ حسن ہے
احسان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درجہ صحیح ہے
اس طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا۔(الحجرات : 14)
ترجمہ:’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں الفاظ ’’کہ اگر تم اطاعت کرو گے تو تمہارے اعمال بھی ضائع نہیں جائیں گے‘‘یہ مثل حدیث ضعیف کے درجے کی بات ہے۔
اسی طرح ضعیف کی اقسام میں آخری درجہ موضوع ہے۔ ارشاد فرمایا :إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًاO(النسآء : 145)
ترجمہ:’’بیشک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور آپ ان کے لئے ہرگز کوئی مددگار نہ پائیں گےo‘‘۔
منافقین اصطلاح حدیث میں مثل موضوع، کے ہیں وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا، کہ اگر متابعات اور شواہد بھی ہوں تو ان کو نفع نہیں دیں گے، کسی کی شفاعت ان کو نفع نہ دے گی وہ دوزخ میں جائیں گے۔ یہ درجہ موضوع کا ہے۔
پس اَلسَّابِق بِالْخَیْرَات، تشبیہاً حدیث صحیح کے مثل ہیں۔ ۔ ۔ اَلْمُقْتَصِدْ، حدیث حسن کی مثل ہوئے۔ ۔ ۔ اَلظَّالِمْ لِنَفْسِہ، حدیث ضعیف کی مثل ہوئے۔ ۔ ۔ ۔
ان تینوں کو اللہ رب العزت نے اپنے چنے ہوئے بندے، وارثان کتاب اورجنت میں داخل ہونے والوں میں شامل کیا۔ ۔ ۔ المنافقین، موضوع کے درجہ کی مثل ہوئے ان کی کوئی مدد اور قبولیت نہیں ہے۔ ۔ ۔
پس السابق بالخیرات، مقتصد، الظالم لنفسہ جن معانی پر دلالت کرتی ہیں، مصطلحات حدیث میں تشبیہاً ان تینوں سے صحیح، حسن، ضعیف مراد لی جاسکتی ہیں اور منافقین سے تشبیہاً مراد حدیث موضوع ہے کہ یہ مردود ہے اور اس کے لئے قبولیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اسکو شفاعت نفع نہیں دیتی۔
توابع و شواہد مثلِ ’’شفاعت‘‘
عقیدہ میں موجود تصور ’’شفاعت‘‘ سے اصول حدیث میں توابع و شواہد مراد ہیں۔ جب مختلف اسناد سے آنے والی احادیث، روایات اسی معنی کی تائید میں آتی ہیں تو وہ مل کر کمزور کو طاقتور کر دیتی ہیں۔ پس یہ Supporting Evidence ہوتے ہیں۔ توابع اور شواہد، شفاعت کی مانند حدیث ضعیف کو طاقت اور ترقی دے کر حسن بنادیتے ہیں اور بسا اوقات اگر چھوٹا ضعف ہو تو درجہ صحت تک پہنچا دیتے ہیں۔ نتیجتاً حدیث ضعیف یہ نفع حاصل کر کے مقبول ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ’’موضوع‘‘ ہو تو پھر یہ توابع و شواہد فائدہ نہیں دیتے، پس موضوع بالکل مردود ہے۔
’’موضوع‘‘، حدیث میں شامل ہی نہیں:امام جلال الدین سیوطی نے ’’التقریب‘‘ کی شرح ’’التدریب‘‘ میں اس جملہ ’’اَلْحَدِيْثُ صَحِيحٌ وَحَسَنٌ وَضَعِيْفٌ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:اِنَّمَا لَمْ يَذْکُرِ الْمُوْضُوْعَ. ’’موضوع کو اقسام حدیث میں ذکر نہیں کیا گیا‘‘۔
وہ لوگ جو حدیث ضعیف کو دیکھتے ساتھ ہی قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے، ہم اسے نہیں مانتے، گویا وہ اس کے ساتھ موضوع والا سلوک کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ امام سیوطی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:لِاَنَّه لَيْسَ فِی الْحَقِيْقَةِ بِحَدِيْثٍ اِصْطِلَاحًا.
’’اس لئے کہ واقعتاً اصطلاحات حدیث میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے‘‘۔
موضوع تو Febrication ہے، کسی شخص نے وضع کر کے، گھڑ کر جھوٹی بات کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے، جس کے بارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّاَ مِنَ النَّارِ.(صحيح بخاری، کتاب العلم، ج 1، ص52، رقم : 110)
ترجمہ:’’جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لے‘‘۔
حدیث، موضوع تب بنتی ہے جب پوری سند میں کوئی راوی کذاب ہو، اس کی نسبت کثرت کے ساتھ جھوٹ ثابت ہو۔ ۔ ۔ اگر کسی راوی پر جھوٹ کی تہمت ہو پھر بھی اس راوی کی سند والی روایت کو موضوع نہیں کہتے، اس کو متروک کہتے ہیں۔ اگر راوی کا کذاب ہونا ثابت ہو تو وہ سند اور روایت موضوع ہوگی اور اگر راوی پر کذب کی تہمت لگائی ہو تو اس سند کو متروک کہا جاتا ہے۔ صرف ان دو کو یعنی ’’موضوع‘‘ اور ’’متروک‘‘ کو بالاتفاق مردود قرار دیا جاتا ہے۔
ضعیف اور موضوع کا اختلاط جہالت ہے
’’ضعیف‘‘ کی تقریباً 15 اقسام بیان ہوئی ہیں یعنی 15 اسباب ہیں جن کی وجہ سے حدیث ضعیف بنتی ہے اور ان 15 اقسام میں صرف 2 قسمیں ’’موضوع‘‘ اور ’’متروک‘‘ ایسی ہیں جو بالاتفاق مردود ہیں۔ بقیہ 13 اقسام وہ ہیں جو مردود نہیں ہیں یعنی ان میں مقبول ہونے کی گنجائش موجود رہتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پس جس شخص نے فقط لفظ ’’ضعیف‘‘ پڑھ لیا اور اپنی جہالت، کم علمی، فن اور علم سے بے خبری کے باعث ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور عامۃ الناس کو پریشان کر دیا، بہکا دیا اور ہزارہا امور خیر اور امور مستحسن سے محروم کر دیا اور کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ ضعیف ہونے کی وجہ سے قبول ہی نہیں کی جا سکتی۔ یاد رکھ لیں کہ فن و علم حدیث میں اس سوچ سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں۔ ضعیف کی 15 میں سے 5 اقسام یعنی ضعف کے 5 اسباب تو ایسے ہیں کہ محدثین ان کو ضعیف کے ذیل میں Disscuss ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو حسن اور صحیح کی طرف لے جاتے ہیں، یعنی ضعف کے اسباب ہونے کے باوجود انہیں مقبول کے درجے پر رکھتے ہیں۔
علامہ ذہبی نے ’’الموقظہ‘‘ میں ’’ضعیف‘‘ اور ’’موضوع‘‘ کے درمیان حدِّ فاصل قائم کرنے اور فرق واضح کرنے کے لئے ’’مطروح‘‘ کا ذکر کیا ہے۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ امام ترمذی سے پہلے امام بخاری و مسلم نے الگ سے ’’حسن‘‘ کا درجہ ہی مقرر نہ کیا تھا بلکہ وہ ’’حدیث حسن‘‘ کو ’’صحیح‘‘ میں ہی شمار کرتے تھے اور حدیث کی وہ اسناد جو ’’حسن‘‘ کی شرائط پوری کرتی ہیں ان کو بھی امام بخاری و مسلم نے ’’حدیث صحیح‘‘ کے طور پر ذکرکیا ہے۔ امام ترمذی نے آکر فرق کو واضح کرنے کے لئے ’’صحیح‘‘ اور ’’ضعیف‘‘ کے درمیان بطور اصطلاح ’’حسن‘‘ کے نام سے تیسرا درجہ متعین کیا۔ گویا پہلے ائمہ ’’حسن‘‘ کو ’’صحیح‘‘ میں شمار کرتے تھے، اس کو الگ قسم بھی نہیں گردانتے تھے۔ اس وقت حدیث کی دو بڑی قسمیں بنتی تھیں۔ 1۔ صحیح، 2۔ ضعیف۔
علامہ ذہبی، ’’الموقظہ‘‘ میں حدیث ضعیف کی بحث میں لکھتے ہیں :مَا نَقَصَ عَنْ دَرَجَةِ الْحَسَنِ قَلِيْلاً.علامہ ذہبی حدیث ضعیف کی بہت ہی جامع اور لطیف تعریف کرتے ہیں کہ حدیث ضعیف وہ ہے ’’جو درجہ حسن سے تھوڑی سی ناقص اور کمزور ہو‘‘۔ اور یہ اس لئے ضعیف ہے کہ اس میں لوگوں کو ترددّ پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ درجہ حسن میں داخل ہوتی ہے یا نہیں۔ پس قلیل سا نقص واقع ہو جائے تو وہ ضعیف ہو جاتی ہے۔
کجا یہ کہ قلیل نقص درجہ ’’حسن‘‘ میں ہو جائے تو اس کو ضعیف کا درجہ دیا جائے اور کجا یہ کہ اس کو موضوع اور مردود سمجھ کر رد کردیا جائے، یہ علم ہے اور وہ جہالت کی انتہا ہے۔علامہ ذہبی اس کے بعد ایک اور لطیف بات لکھتے ہیں کہ:وَاٰخِرُ مَرَاتِبِ حَسَن هِیَ اَوَّلُ مَرَاتِبِ الضَّعِيْف.’’حسن کا آخری مرتبہ ضعیف کا پہلا درجہ ہے‘‘۔
اسی طرح بعض ائمہ اسلاف نے ضعیف کی 49 اقسام بیان کی ہیں، بعض محدثین نے حدیث ضعیف کے 80 درجے و اقسام بھی بیان کئے ہیں۔ صرف لفظ ’’ضعیف‘‘ پڑھ کر شور و ہنگامہ بپا کردینا یہ آخری درجہ کی جہالت و بے خبری اور لاعلمی بلکہ دین کے ساتھ ظلم ہے۔
ضعیف کے مراتب کیوں قائم کئے؟ پہلے ائمہ نے 49 درجے کیوں بنائے؟۔ ۔ ۔ بعد کے ائمہ نے 72 درجے کیوں بنائے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ چھوٹی چھوٹی کمزوریاں، ضعف اور علل کی بناء پر ضعیف کی اقسام بڑھتی رہیں اور ہر ایک کا الگ نام رکھ دیا گیا۔
پس علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ حسن کا آخری درجہ ہی ضعیف کا اعلیٰ درجہ ہے۔ گویا ضعیف کا ایک مرتبہ اور حسن کا ایک مرتبہ، ایک مقام پر ایک ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر حدیث حسن اور حدیث ضعیف ایک ہو جاتے ہیں۔ فن و اصطلاح میں اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اب کسی نے اس کی چھان بین ہی نہیں کی کیونکہ فن سے واقفیت ہی نہیں، ضعیف پڑھا اور پوری امت، نوجوان نسل اور عامۃ الناس کو ضعیف کے لفظ سے ڈرا اور دھمکادیا کہ یہ ضعیف ہے، اسے قبول ہی نہیں کرتے۔
ضعیف کا اعلیٰ مرتبہ حسن میں آگیا، اس لئے کہ اس کو شواہد مل گئے۔ External Evidence کی تائید مل گئی۔ ضعیف کے آخری درجہ کا نام محدثین نے ’’موضوع‘‘ رکھا ہے، یہ سب سے آخری لاعلاج مرض ہے، جس کا کوئی علاج نہ ہوسکے، جس کا کسی بھی تابع و شاہد اور مدد سے ازالہ نہ ہوسکے اور مکمل طور پر مردود ہو کیونکہ اس کا راوی مسلّمہ کذاب ہے۔ احتیاط کے پیش نظر اس کو موضوع کر دیا اور اگر اتہام کذب ہے تومتروک کردیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حدیث کی تقسیم علامہ ذہبی کی نظر میں : علامہ ذہبی نے یہاں بھی فرق قائم کر دیا اور انہوں نے اپنی کتاب ’’الموقظہ‘‘ میں موضوع کو ضعیف کی اقسام میں کم تر درجہ میں بھی نہیں لکھا بلکہ ضعیف کے درجات سے ہی خارج کر دیا ہے تاکہ مغالطہ ہی دور ہو جائے، علامہ ذہبی نے شاندار اور اعلیٰ تقسیم کی۔ علامہ ذہبی نے جو تقسیم قائم کی وہ اس طرح ہے۔
1۔ صحیح 2۔ حسن 3۔ ضعیف 4۔ المطروح
’’فتح المغیث‘‘ میں ’’امام سخاوی‘‘ نے بھی اس پر بحث کی ہے۔ ’’مطروح‘‘ کو بعض احباب نے ’’منکر‘‘ کا بدل بھی قرار دیا۔ علامہ ذہبی ’’مطروح‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’مطروح‘‘ درجہ ضعیف سے گری ہوئی سند کا نام ہے، جو ضعیف کے درجہ سے بھی نیچے گرجائے۔ مطروح کا مطلب ہے کسی کو دور کر دیا جائے۔ مطروح کو بیان کرنے کے بعد پانچویں قسم موضوع کو الگ بیان کیا اور موضوع کی تعریف یہ کی کہ
مَا کَانَ مَتَنُه مُخَالِفًا لِلْقَوَاعِدِ وَرَاويه کَذَّابًا.یعنی موضوع کی دو شرائط ہیں۔
راوی کذاب ہو ۔ اس کا متن خلاف شرع ہو۔
موضوع، قرار دینے کے لئے صرف کذب کا ثبوت ہی کافی نہیں کہ کبھی اس نے جھوٹ بولا یا کبھی کبھی جھوٹ بولنا ثابت ہو جائے اس سے بھی اس راوی کی وجہ سے حدیث ’’موضوع‘‘ نہیں بنتی۔ حدیث موضوع اس وقت بنے گی جب وہ راوی حدیث کے باب میں علی الاطلاق جھوٹ بولنے والا ہو، اتنی تحقیق سے ثابت ہو، اس لئے ائمہ فن نے لفظ کاذب نہیں بلکہ کذاب کہا ہے۔
کاذب وہ جس نے ایک دو مرتبہ جھوٹ بول دیا، کبھی کبھار جھوٹ بولنا ثابت ہو گیا ہو مگر کذاب وہ ہے جس نے 24 گھنٹے ہی جھوٹ بولنا ہے اور حدیث میں بھی کثرت سے جھوٹ بولنے کو عیب نہیں سمجھتا۔ پس موضوع وہ سند ہو گی جس میں راوی کذاب ہو اور متن میں قواعد شریعت کی واضح مخالفت ہو۔ یہ دو شرائط پوری ہوں تو اس سند و روایت کو موضوع کہا جائے گا اور یہ مردود ہوگی۔
کذب کا ثبوت کیسے ہوگا؟اب اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی تحقیق کس طرح ہو گی کہ اس نے جھوٹ بولا ہے؟ غور کریں کہ محدثین نے کس قدر احتیاط کی ہے اور ہم کتنے بے احتیاط ہو گئے ہیں اور کتنے جرات مند اور جسارت والے ہو گئے کہ حدیثوں کو رد کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے۔ احادیث کے ذخیرے کو بیک جنبش لب متروک کر دیتے ہیں۔
علامہ ذہبی محتاط ائمہ فن میں سے ہیں، جس طرح امام ابن الجوزی ہیں۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ ثابت کیسے ہوگا کہ یہ موضوع ہے تاکہ اس کو رد کردیں؟
اس کا ثبوت ایک تو یہ ہے کہ لوگ شہادت دیں۔
اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی زبان سے اقرار کرے گا کہ میں نے فلاں حدیث جو روایت کی وہ جھوٹ بولا تھا۔
اس پر علامہ ذہبی نے بڑی لطیف بات کہی ہے کہ جب وہ اقرار کر رہا ہے کہ میں نے وہ غلط بیان کیا تھا۔ ممکن ہے اُس وقت تو صحیح بیان کیا ہو مگر اب جھوٹ بول رہا ہو۔ اب اس کی گردن پر کسی نے تلوار رکھ کر پوچھا ہو کہ تم نے جو فلاں روایت بیان کی تھی کیا وہ درست ہے؟ اب ہو سکتا ہے وہ اپنی جان بچانے کے لئے کہہ دے کہ جھوٹ بولا تھا حالانکہ اس نے اس وقت سچ بولا ہو۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانے میں یہ کام کثرت سے ہوتے تھے۔ حضرت سیدنا مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں اگر کسی نے حدیث روایت کی تو بعض حکمران ایسے بھی تھے جو اہل بیت کے مناقب بیان کرنے پر پابندی لگاتے تھے کیونکہ وہ اسے اپنی ذات اور حکومت کے لئے چیلنج سمجھتے تھے۔ جبر کرتے تھے اس پر الگ شواہد ہیں۔
امام حسن بصری رضی اللہ عنہ حضرت علی کا نام لئے بغیر روایات مرسلاً اس لئے روایت کرتے ہیں کہ اس زمانے میں دباؤ تھا، حجاج بن یوسف کا زمانہ تھا، وہ اہل بیت کے مناقب کے بیان کو جبراً روکتا اور اس کے برعکس کرنے کے لئے دباؤ ڈالتا تھا۔
’’امام مزی‘‘ نے ’’تہذیب الکمال‘‘ اور ’’التدریب‘‘ میں امام جلال الدین سیوطی نے بیان کیا کہ امام حسن بصری نے خود بیان کیا ہے کہ میں کیوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام نہ لے کر روایت کرتا تھا۔
حضرت امام حسن بصری سے ان کے شاگرد یونس بن عبید نے پوچھا کہ آپ ہمیں احادیث سناتے ہیں اور اکثر مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، مگر آپ تو صحابی نہیں ہیں، آپ تو تابعی ہیں، لامحالہ آپ نے کسی صحابی سے سنا ہوگا تو آپ ہمیں راوی کا نام کیوں نہیں بتاتے کہ آپ کو کس نے بتایا؟ آپ نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں۔
لَقَدْ سَاَلْتَنِیْ عَنْ شَيْئًا مَاسَاَلَنِیْ عَنْه اَحَدًا قَبْلَکَ اِنِّیْ فِیْ زَمَانٍ کَمَا تَرا وَ کَانَ فِیْ زَمَنٍ حَجَّاج وَکُلُّ شَيْئٍ سَمِعْتَنِیْ اَقْوْلُه قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی الله عليه واله وسلم فَهُوَ عَنْ علی بن ابی طالب غَيْرَ عنِّیْ فِیْ زَمَانٍ لَا اَسْتَطِيْعُ اَنْ اَذْکَرَ عَلِيًا.
’’تو نے مجھ سے اس چیز کی بابت سوال کیا ہے جو تجھ سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا تجھے معلوم ہے کہ ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں (اور وہ زمانہ حجاج بن یوسف کا تھا) ہر وہ چیز جو آپ مجھ سے سنیں یا آپ نے مجھ سے سنی جس میں میں نے صحابی کا نام لئے بغیر براہ راست یہ کہہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، وہ ہر حدیث میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے مگر زمانہ (بنو امیہ کا) ایسا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کرسکتا‘‘۔
’’اگر اُن کا نام لے کر روایت کروں تو نہ جانے وہ کیا کیا فتنہ پیدا کردیں حکمت یہ ہے کہ دین کا ابلاغ نہ رکے اس لئے میں مرسلاً روایت کردیتا ہوں، نہ ہم نے کبھی جھوٹ بولا اور نہ ہمیں کبھی جھوٹا سمجھا گیا‘‘۔
ایک مقام پر آپ نے فرمایا کہ ’’ہم نے 300 صحابہ کرام کو دیکھا ہے‘‘۔
یہ تو حسن بصری تھے جنہوں نے مرسلاً روایت کردی ان کے بعد دوسرے احباب بھی آئے تو اگر کسی نے تلوار رکھ کر پوچھ لیا کہ فلاں کی شان میں تم نے یہ بات کہی تھی تو اگر وہ بندہ انکار کردے تب بھی جھوٹ ہوگیا، یا اپنی جان بچانے کے لئے یہ کہے کہ ہاں کہی تھی مگر ایسے ہی کردی اس میں کوئی صداقت نہیں، یہ بھی جھوٹ ہوگیا۔ علامہ ذہبی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ممکن ہے کہ پہلے روایت کرتے وقت اس نے سچ کہا ہو اب جو انکار کر رہا ہے وہ جان بچانے کے لئے جھوٹ بول رہا ہو۔
یہ بھی تو امکان ہے کہ جھوٹ اس وقت بولا مگر روایت صحیح کردی تھی۔ یعنی کیا جھوٹا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ہر بات جھوٹ ہوگی؟ اگر وہ 90 فیصد جھوٹ بولتا ہے تو 10 فیصد سچ بھی تو کہتا ہوگا۔ 100 فیصد تو کوئی جھوٹا نہیں ہوتا، کسی مصلحت و مفاد کے تحت جھوٹ بول دیا اور جہاں مصلحت و مفاد نہیں ہے وہاں سچ بھی کہہ دیا۔
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت حدیث
محدثین اس سماع کا انکار کرتے ہیں کیونکہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر روایت نہیں کرتے تھے، مرسلاً روایت کرتے ہیں، لہذا روایت میں ثبوت نہ ملتا تھا۔ صوفیاء حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سماع، لقاء، صحبت، فیض مانتے تھے، اس لئے کہ اکثر سلاسل حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کے ذریعے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ تک اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتے تھے۔ اور اگر وہ نہ مانیں تو ان کا تو سلسلہ ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ صوفیاء کے پاس قرائن تھے۔ اس لئے کہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ 20ھ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے اور 16 سال تک مدینہ میں رہے اور جب سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا دارالحکومت 37ھ میں کوفہ منتقل کیا تو اس وقت آپ بصرہ چلے گئے۔
پس آپ 16 برس مدینہ میں رہے اور کبار صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صحبت و فیض کو حاصل کیا۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کا بچپن اہل بیت کے گھر میں گزرا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آپ کی والدہ خادمہ تھیں اور جب کبھی آپ روتے اور آپ کی والدہ نہ ہوتیں تو ام المومنین آپ کو اپنا دودھ پلاتیں۔ اس بات کو ائمہ محدثین نے اپنی کتب میں لکھا ہے۔ ۔ ۔ ’’امام مزی‘‘ نے ’’تہذیب الکمال‘‘ اور علامہ ذہبی نے ’’سیرالاعلام النبلائ‘‘ میں اس کا تذکرہ کیا۔ ۔ ۔ الغرض کل ائمہ حدیث اور اسماء الرجال کی کتب میں بھی اس کو بیان کیا گیا ہے۔
المختصر یہ کہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لقاء و سماع کا صوفیاء اقرار کرتے رہے اور محدثین انکار۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ کا موقف تھا کہ لقاء و سماع اور روایت ثابت نہیں ہے، وہ محدثانہ طریق پر ثبوت مانگتے تھے جبکہ حضرت شاہ فخر جہاں دہلوی رحمۃاللہ علیہ سماع و لقاء کے ہونے کے اثبات پر قائم تھے۔
1000 سال کی تاریخ میں صرف امام جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ علیہ ہی وہ امام ہیں جنہوں نے اس پر کچھ کام کیا مگر وہ کام بھی تشنہ تکمیل تھا، ابھی اس پر بہت کام کی ضرورت تھی اور 1000 سال سے یہ کام بھی امت پر ادھار تھا، الحمدللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے صدقے سے توفیق ہوئی اور اس خلیج کو جو 1000 سال سے چلی آرہی تھی، اس کام کو ہم نے الحمدللہ مکمل کر دیا اور وہ احادیث جو امام حسن بصری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیں اور محدثین ان روایات کو نہیں مانتے تھے اور ثبوت کا تقاضا کرتے تھے۔ الحمدللہ میں نے 35 احادیث ذخیرہ احادیث میں تلاش کرکے مکمل ثبوت کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کر دی ہیں جس میں امام حسن بصری نے براہ راست حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اس کتاب میں، میں نے لقاء و سماع کے حوالے سے امام بخاری اور امام ترمذی تک کے حوالے درج کئے ہیں۔
سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آپ نے 35 احادیث، ذخیرہ حدیث سے نکال لیں تو پہلے آئمہ محدثین کو کیوں نہیں ملیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کسی کا قصور نہیں ہے اکابر، اکابر ہی ہیں ہم تو ان کی خیرات سے اپنا کام چلانے والے ہیں، یہ انہی کی مدد، برکت اور فیض سے ہی کام مکمل ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس زمانے میں کل کتب اور احادیث کے ذخائر مخطوطات کی شکل میں منتشر تھے، کسی کے پاس کوئی قلمی نسخہ کامل تھا، کوئی نامکمل تھا۔ ۔ ۔ آج کل کتب اور مخطوطات چھپ کر سامنے آگئے ہیں، کرتے رہے اور ایک ہزار سال سے یہ خلیج پُر نہ ہو سکی اور اس بارے دو مکتبہ فکر بن گئے۔ حتی کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ اور حضرت شاہ فخر جہاں دہلوی رحمۃاللہ علیہ (سلسلہ چشتیہ کے امام) کا اس موضوع پر 3 دن تک مناظرہ ہوتا رہا۔ ذرائع ابلاغ میں اضافہ ہو گیا ہے، یہ چیزیں اور وسائل پہلے ائمہ کے پاس موجود نہیں تھے۔ جس کے پاس جتنے مخطوطات آئے اس کی بنیاد پر وہ تحقیق کرتے۔ اب وہ ہزارہا مخطوطات جو بند پڑے ہوئے تھے، کبھی شائع نہ ہوئے تھے، وہ مخطوطات رفتہ رفتہ منظر عام پر آتے گئے اور مشرق و مغرب اور عرب و عجم کے محققین ان پر تحقیق کر کے، موازنہ کرکے شائع کرتے جارہے ہیں، وہ ہزارہا ذخائر جو مطبوعہ نہ تھے اب مطبوعہ ہیں، آج علم کی Access بڑھ گئی، نتیجتاً نئی نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں اور نامکمل کام تکمیل پاتے رہے ہیں۔ حتی کہ جامع ترمذی کی کتاب الحدود سے اس سماع و لقاء کے ثبوت پر حدیث مل گئی جو میں نے اس کتاب کے آغاز پر درج کی۔
’’موضوع‘‘ ایک ظنی امر۔ ۔ ۔ مگر : علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ امام ابن دقیق العید نے کہا ہے (ائمہ محدثین میں علم میں بڑے متشدد، سخت گیر سمجھے جاتے ہیں) کہ امکان ہے کہ : اِقْرَارُالرَّاوِیْ بِالْوَضْعِ فِیْ رَدِّه لَيْسَ بِقَاطِعٍ فِی قَوْلِه مَوْضُوْعًا لِجَوَازِ اَنْ يَّکْذِبَ فِی الاقْرار. ترجمہ : ’’اس کا اس بات کا اقرار کرنا کہ میں نے حدیث وضع کی تھی، جھوٹ بولا تھا، یہ بات حدیث کو موضوع بنانے میں قطعی نہیں ہوسکتی اس لئے کہ ممکن ہے کہ جو اپنے جھوٹ بولنے کا اقرار کررہا ہے، یہ اقرار ہی جھوٹ ہو اور جو روایت کی تھی وہ صحیح کی تھی‘‘۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کسی حدیث کو موضوع کہنا یہ فی نفس الامر، خود ایک ظنی امر ہے، قطعی امر نہیں ہے۔ مگر احتیاط اس میں ہے کہ اس کو مردود ہی سمجھا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے تقدس اور اس حکم کی پیروی کے لئے احتیاط یہ ہے کہ اسے ترک کر دیا جائے۔ اگر موضوع ایک ظنی امر ہے قطعی نہیں ہے تو ضعیف کا درجہ تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اس کو کسی بھی طرح رد نہیں کیا جاسکتا۔
’’موضوع‘‘ کیلئے لفظ ’’حدیث‘‘ کا استعمال کیوں؟علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ موضوع سے اوپر درجہ ’’مطروح‘‘ ہے اور اس سے اوپر درجہ ضعیف کا ہے۔ اس کے بعد پھر حسن اور صحیح کا درجہ ہے۔ پس کل آئمہ نے حدیث کی تقسیم کرتے ہوئے صحیح، حسن اور ضعیف کا ذکر کیا ہے اور موضوع کا ذکر نہیں کیا۔ اس لئے کہ موضوع تو حقیقتاً حدیث رسول ہوتی ہی نہیں ہے۔ وہ تو Febrication کا نام ہے، وہ تو من گھڑت قول ہوتاہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹا منسوب کیا جاتا ہے۔
پس موضوع تو اصلاً اصطلاح میں حدیث ہی نہیں ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ موضوع کے لئے حدیث کا لفظ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اس کو موضوع حدیث کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا جواب وہ دیتے ہیں کہ
بِزَعْمِ بِوَاضِعِه وضع کرنے والے نے چونکہ اسے حدیث بنا کر پیش کیا ہے اس لئے صرف اس کے زعم کی وجہ سے لفظ ’’حدیث‘‘ لکھ دیا جاتا ہے، اصطلاحاً اور حقیقتاً وہ حدیث ہے ہی نہیں، وہ جھوٹ ہے۔ اس کے برعکس ’’ضعیف‘‘ حدیث کی حد اور تعریف و تقسیم میں شامل ہے۔
’’حدیثِ ضعیف‘‘ کی مثال سے وضاحت : اس کی مثال اس طرح سمجھی جا سکتی ہے۔ ایک شخص مکمل صحت یاب ہے اور اس کو کوئی بیماری نہیں۔ یہ شخص مثل صیح اور حسن ہے۔ ایک اور شخص ہے، اس کو کوئی بھی بیماری ہے تو وہ مثل ضعیف ہے، اس کو ڈاکٹر بیمار (ضعیف) لکھ دیتا ہے۔ جس کو چھوٹے درجہ کی بیماری مثلاً نزلہ و زکام ہو تو اس کو بھی ضعیف (بیمار، کمزور) ہی لکھیں گے، اس سے پوچھا جائے گا کہ کیسے ہو؟ وہ کہے گا I am not feeling well (میں ٹھیک نہیں ہوں)۔ پس حدیث ضعیف کا مطلب ہے
Not feeling Well
There is somthing wrong
There is some disease
There is some illness
Some weekness
ضعیف کا مطلب ہے کمزوری، اس کی اسناد میں کوئی کمزوری ہے۔ کیا کمزوری کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بیمار ہے اس کو اٹھا کر پھینک دیا جائے، نہیں۔ ۔ ۔ بلکہ اس وقت تک گھر سے نہیں نکالتے جب تک روح پرواز نہ کرجائے اور میت نہ ہوجائے۔ پس جب مردہ ہوگیا تو موضوع ہو گیا۔ تب آپ اس کو گھر میں نہیں رکھتے، قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ جب تک روح نہیں نکلی وہ مردہ نہیں بنا، اس وقت تک وہ بیمار (ضعیف) کہلاتا ہے۔ یہ مردہ اور بیمار میں فرق ہے۔ ۔ ۔ مردہ، موضوع بن گیا لہذا مردود ہوگیا۔ نکال دیا جاتا ہے۔ آخری دن تک جب تک روح جسم سے نہیں نکلتی وہ ضعیف (بیمار) رہتا ہے۔
زکام، نزلہ، گلا خراب، کھانسی، سر درد، بخار ہر ایک بیماری ہے اور ان میں مبتلا شخص ضعیف (بیمار / کمزور) کہلائے گا اور ان بیماریوں کی ادویات استعمال کرنے سے وہ شخص ٹھیک ہو گیا۔ ۔ ۔ اس طرح حدیث کی سند ضعیف تھی، آپ نے اس کی تائید میں ایک اور روایت دی جس سے وہ روایت مقبول ہو گئی اور اس کا ضعف دور ہو گیا۔ ۔ ۔ بیماری دور ہو گئی اور وہ مقبول، صحت مند، ہو گیا۔
المختصر یہ کہ کسی شخص کو بیمار (ضعیف) قرار دیتے ہوئے ہم اس مرض کے کتنے درجے ملحوظ رکھتے ہیں اور ہر بیماری دوسری بیماری سے مختلف ہے، ان کے اندر فرق ہے۔ بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اس میں مبتلا شخص کو بیمار کہا جاتا ہے اور بڑی بیماری کے باوجود وہ مردہ نہیں بنتا اس لئے کہ اس کا علاج موجود ہے۔ ۔ ۔ کسی کو Infection ہوجاتی ہے تو آپ اس کو پھینکتے نہیں ہیں، وہ موضوع نہیں بنا۔ ۔ ۔ ابھی تک ضعیف ہے، بیمار ہے، مردہ نہیں ہوا کیونکہ اس کا علاج ہے۔ آپ اس کا ٹیسٹ کرواتے ہیں کہ کون سی Infection ہے۔ ۔ ۔ اس کا Culture Insensitivity Test کرواتے ہیں جس میں پتہ چل جاتا ہے کہ کس قسم کے جراثیم ہیں، پس آپ اس کے لئے مخصوص ادویات دے دیتے ہیں۔ ۔ ۔ حدیث کی اصطلاح میں یہ Culture Insensitivity Test علم جرح و تعدیل کہلاتا ہے۔ اسی کو Analysis کا علم کہتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ کس قسم کی کمزوری اور نقص ہے اور اس کو دور کرنے کے لئے کس سطح کی حدیث اس کی تائید میں چاہئے۔ ۔ ۔ مزید کیا شواہد اس کے ضعف کو دور کرنے کے لئے چاہئیں۔ اس سے وہ Improve کر جاتا ہے اور مرض سے نکل کر صحت مند ہو جاتا ہے۔ انسان، ہزار بار بیمار ہوتا ہے اور دوائی سے صحت مند ہو جاتا ہے۔ مریض کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ دوائی سے صحت مند ہو جاتا ہے، پھر آپ اسے کلیتاً مردود کیسے کہہ سکتے ہیں۔
کئی ایسی بیماریاں (ضعف) بھی ہیں جن کو مسلسل علاج کی مدد ملتی رہے تو آدمی ٹھیک رہتا ہے۔ میں عرصہ 25/24 سال سے دل کا مریض ہوں اور مسلسل ادویات استعمال کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود 10، 10 گھنٹے مسلسل لیکچر دیتا ہوں گویا اتنا ضعیف (بیمار) ہونے کے باوجود اتنا صحیح ہوں۔ اسی طرح بلڈ پریشر، شوگر کے مریض ہیں جو مسلسل ادویات کے استعمال سے ٹھیک رہتے ہیں۔
ایک قسم ضعف (بیماری / کمزوری) کی وہ تھی کہ دوائی کے استعمال سے آرام آگیا ہے۔ ۔ ۔ اور ایک قسم ضعف کی یہ ہے کہ اگر مسلسل ادویات استعمال کرتے رہیں تو صحیح رہیں گے۔ ۔ ۔ تیسری قسم ضعف (بیماری / کمزوری) کی یہ ہے کہ بعض امراض کو ڈاکٹر نے لاعلاج قرار دے دیا مثلاً کینسر، ہیپاٹائٹس C وغیرہ۔
اب ڈاکٹر کینسر والے کو بھی مریض، بیمار، ضعیف کہہ رہے ہیں اور زکام والے کو بھی مریض، بیمار اور ضعیف کہہ رہے ہیں۔ لفظ دونوں کے لئے ایک استعمال کیا تو کیا کینسر اور زکام والے برابر ہوئے؟ جس طرح آپ نے یہ فرق سمجھ لیا کہ دو انتہائیں ہیں اس طرح لفظ ایک ہی استعمال ہوا ضعیف کہ یہ حدیث ضعیف ہے، کمزور ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وہ سند جس کو ضعیف کہہ دیا اس کو کلیتاً رد کر دیا جائے، وہ قابل علاج بھی ہوتی ہے، مقبول بھی بن جاتی ہے۔
افسوسناک طرزِ عمل : حدیث میں علم جرح و تعدیل، علم اسماء الرجال کے امام اصل میں ڈاکٹر ہوتے ہیں جو تشخیص کرتے ہیں کہ ضعف کس قسم کا ہے، وہ جاہل نہیں ہوتے کہ لفظ ضعیف دیکھا تو اٹھا کر مردود کر دیا۔ ضعیف کو مردود کہنے والے اصل میں ان پڑھ لوگ ہیں۔
ان کی مثال عطائی ڈاکٹر کی طرح ہے۔ انہوں نے تقریر و وعظ کرنا سیکھ لیا ہے، TV پر خطابات کر لیتے ہیں مگر ان کو فن کی الف، ب ج نہیں آتی اور بجائے اس کے کہ اعتراف کرے کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں وہ ڈاکٹری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی مثال اس طرح ہے کہ اگر یہ ڈاکٹر ہونے کے دعویدار ہیں تو ڈاکٹری بھی کر لیتے ہیں۔ ۔ ۔ کار خراب ہو جائے تو اس کا انجن بھی صحیح کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ہوائی جہاز کے پرزے بھی صحیح کرنا شروع کر دیں گے۔ ۔ ۔ گویا ہر ایک کام کے اندر گھس کر اس کی رہی سہی کسر بھی نکال دیں گے اور اس کا ماہر ہونے کا دعویٰ بھی کریں گے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو بندہ جس فیلڈ کا ہو اس کو وہی کام کرنا چاہئے۔ جو چیز جس کو نہیں آتی اسے اعتراف کرنا چاہئے کہ مجھے یہ چیز نہیں آتی۔ مگر افسوس کہ آج وہ دور ہے کہ ہر شخص، ہر موضوع پر بات کرتا ہے اور اس پر اتھارٹی ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔
بر صغیر کا کلچر بھی اسی طرح ڈھلا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی بھی مرید کو لے لیں وہ اپنے پیر و مرشد کو کسی بھی صورت قطب سے نیچے ماننے کو تو تیار ہی نہیں۔ ۔ ۔ وہ قطب الاقطاب اور قطب العالم سے شروع ہو کر غوث تک کے القابات اس کے ساتھ لگائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو درجہ ابدال کا مقرر کیا تھا، آپ کسی سے سن لیں جو اپنے پیر کو ابدال ہی مانتا ہو۔ ۔ ۔ وہ کہتا ہے کہ ابدال تو چھوٹا درجہ ہے، وہ اس سے اوپر قطب سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ساری خرابیاں ہر مسلک میں موجود ہیں، کیونکہ یہ تمام کچھ ایک کلچر میں رچ بس گیا ہے، اس سے ایک مزاج بن گیا ہے کہ ہر شخص سب کچھ ہے، ہر شے ہے۔
ہمارے ہاں لفظ ’’علامہ‘‘ بہت زیادہ عام استعمال ہوتا ہے اور ہم ہر ایک کے لئے استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔ عرب دنیا میں ’’علامہ‘‘ کا لفظ ہر ایک کے لئے استعمال نہیں کرتے۔ 70/60 سال کی عمر میں کوئی شخص پہنچے اور اس کا علم و عمل اتھارٹی ہو تو اس کو علامہ کہا جاتا ہے۔ عرب دنیا میں جس کو علامہ کہا جاتا ہے اس کا مطلب ’’علامۃ الدہر‘‘ (زمانے کا عالم) ہے۔ عرب دنیا ہمارے ہندوستان کے اس کلچر پر ہنستی ہے کہ یہاں تو ہر شخص ہی علامہ ہے۔ ۔ ۔ چار سطروں پر مشتمل القاب سے پہلے تو اس کا نام نہیں آتا۔ یہ سب اس بات کی نشانی ہے کہ علم رخصت ہوگیا ہے، جہالت نے جگہ لے لی ہے۔ علم کی ساری کمی القابات سے پوری کرلی۔ ولایت، تصوف و روحانیت، زہد و ورع، تقویٰ گیا اور اس کی کمی القاب سے پوری کرلی۔ یہی حال دیگر مسالک کا بھی ہے۔ وہ بھی اپنے بڑوں کا تذکرہ اسی طرح القابات سے یوں کرواتے ہیں کہ وہی سب کچھ تھے۔
ایک مکتبہ فکر کے عالم مبارکپوری صاحب کی شرح ترمذی، تحفۃ الاحوزی میری نظر سے گزری جس میں مصنف اپنے استاد مولانا نذیر احمد صاحب کے تعارف میں طویل القابات کی فہرست لکھتے ہوئے انہیں حدیث میں اپنے زمانے کے امام بخاری رحمۃاللہ علیہ، فقہ و اجتہاد میں امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ اور تصوف و روحانیت میں امام شبلی رحمۃاللہ علیہ قرار دیتے ہوئے آخر پر ان کے لئے ’’شیخ الکل فی کل‘‘ کے الفاظ تحریر کئے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہی چیز جو وہ اپنے عالم کے لئے لکھ رہے ہیں اگر کوئی دوسرے مسلک والا اپنے کسی شیخ کے لئے لکھ دے تو اس پر شرک و بدعت کا فتویٰ لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے مبالغہ کیا ہے، حد سے بڑھا دیا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان زیادہ بیان کر دے تو اس کو کہتے ہیں کہ تم نے مبالغہ کر دیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ سے ملا دیا ہے۔ ایک طرف یہ طرز عمل ہے اور دوسری طرف اپنے استاذ کے لئے ہر طرح کے القابات بلا جھجک استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔
اگر ہم حضور غوث الاعظم کے لئے ’’شیخ الکل‘‘ کا لقب استعمال کریں تو ہم پر شرک کا فتویٰ لگا دیں گے کہ ’’شیخ الکل‘‘ تو اللہ کا نبی ہوتا ہے یہ کہاں سے ’’شیخ الکل‘‘ ہیں۔
اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’مختار کل‘‘ کہہ دیں تو شرک کا فتویٰ لگا دیں گے جبکہ اپنے استاد کے لئے ’’شیخ الکل فی کل‘‘ کے الفاظ ہیں۔ مختار، اختیار کا مفہوم بھی رکھتا ہے اور چنیدہ کا مفہوم بھی رکھتا ہے کہ ہر شے پر اختیار بھی رکھتے ہیں اور پوری مخلوق میں سے چنے ہوئے بھی ہیں۔
آپ علماء دیوبند اشرف علی تھانوی صاحب، قاسم نانوتوی صاحب، رشید احمد گنگوہی صاحب اور دیگر کی کتب اٹھائیں اور ان کے القابات پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ آدھا آدھا صفحہ القابات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ وہ لقب پڑھیں گے جو کبھی ہم نے بھی اپنے شیوخ کے لئے استعمال نہیں کئے ہوں گے۔
یہی کام اہل سنت میں مریدین اور محبیین اپنے علماء و مشائخ کے لئے بھی کرتے ہیں اور پھر انہیں قطب، غوث، غوث العالم بھی کہتے ہیں اور میں نے کچھ اشتہارات پر کسی کو غوث الاعظم لکھا ہوا بھی پڑھا ہے۔ بس نہیں چلتا ورنہ بہت سوں کا تو اس سے بھی اوپر جانے کو جی چاہتا ہے۔
افسوس! کہ مبالغہ آرائی اس حد تک ہے اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس کا مقام یہی ہے کہ اس حد تک مبالغہ آرائی اپنے لئے جائز اور دوسرے کے لئے حرام قرار دی جاتی ہے، گویا دوہرے معیار ہیں۔
’’حدیث غیر صحیح‘‘ کی وضاحت : حدیث صحیح ایک درجہ ہے، صحیح کا مطلب Correct نہیں، یہ اردو زبان میں استعمال ہونے والا ’’لفظ صحیح‘‘ نہیں ہے۔ ورنہ تو حدیث حسن بھی حکماً صحیح کے درجہ میں ہے۔
حدیث کی اسناد میں جو خصوصیات ہیں ان میں سے راویوں اور اسناد کی سب سے زیادہ highest quality کو صحیح کہتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے دستور میں highest rank وزیراعظم کا ہے۔ ۔ ۔ اگر کوئی شخص کسی کو دیکھ کر پوچھے کہ کیا یہ وزیراعظم ہے تو دوسرا شخص یہ جواب دے کہ یہ وزیراعظم نہیں ہے۔ ۔ ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کوئی حدیث و سند پیش ہوئی اور کسی نے پوچھا کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ (حدیث صحیح احادیث و اسناد کی دنیا میں اسانید کی وزیراعظم ہوتی ہے) دوسرے محدث نے کہا کہ نہیں ’’ہذا غیر صحیح‘‘ یہ ’’صحیح نہیں‘‘ ہے۔ مراد یہ کہ یہ وزیراعظم نہیں ہے۔ ۔ ۔ احادیث کی کتابوں میں بھی یہی درج ہوتا ہے، ’’ہذا غیر صحیح‘‘ ’’لا یصح‘‘ یہ صحیح نہیں ہے۔ ۔ ۔ مگر بعض لوگ کم علمی و جہالت کی وجہ سے شور مچاتے ہیں اور لوگوں کو کہتے ہیں کہ دیکھو یہ لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں ہی ہے جیسے دوسرے شخص کو جواب دیا گیا تھا کہ یہ وزیراعظم نہیں ہے، اس کا Highest rank نہیں ہے۔ تو کیا اس کی ’’نہیں‘‘ کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ اگر یہ وزیراعظم نہیں ہے تو سب سے بڑا ڈاکو ہے، مجرم ہے۔ ۔ ۔ ؟
’’وزیراعظم نہیں ہے‘‘ اس بات کا اس سے کیا تعلق ہے کہ اگر وزیراعظم نہیں ہے تو پھر ڈاکو ہی ہوگا۔ ۔ ۔ اسی طرح ہذا حدیث غیر صحیح ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘ کا اس بات سے کیا تعلق کہ یہ حدیث مطلقاً ہی غلط ہے۔ پس ’’موضوع‘‘ کو درج بالا مثال کے مطابق ڈاکو، مجرم، قرار دیا جاسکتا ہے مگر ہر وہ حدیث جس کے آخر میں ’’غیر صحیح‘‘ کے الفاظ آجائیں اس سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ یہ حدیث ہی نہیں ہے یا اس کی سند سرے سے غیر معتبر ہے۔
سمجھانے کے لئے مزید وضاحت کردوں کہ اگر کہا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وزیراعظم (highest rank) نہیں ہے مگر اس کے نیچے وفاقی وزراء، وزراء میں سے ہے۔ ۔ ۔ پس اگر وہ وزیر ہوا تو وہ مثل حدیث حسن ہوا۔ یہ کلمہ درست ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں ہے مگر ہوسکتا ہے کہ نیچے کوئی حکومتی ذمہ داری اس کے پاس ہو۔ ۔ ۔ وزیراعظم نہیں ہے اس سے یہ معنیٰ کہاں سے نکل آیا کہ یہ مجرم، ڈاکو اور چور ہے۔ ۔ ۔ چور، ڈاکو، مجرم قرار دینے کا مطلب یہ ہے جیسے ’’موضوع‘‘ ہے۔ ۔ ۔ پس جس طرح وزیراعظم اور چور و ڈاکو کے درمیان ہزار مراتب اور مختلف عہدے موجود ہیں اسی طرح حدیث ’’صحیح‘‘ اور ’’موضوع‘‘ کے درمیان کم از کم 80 مراتب موجود ہیں۔
حسن ہے، ضعیف ہے اور پھر ضعیف کی 80 اقسام ہیں ان کے بعد ’’متروک‘‘ و ’’موضوع‘‘ ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا قطعاً یہ معنی نہیں ہے کہ یہ موضوع ہے اس کو قبول نہ کیا جائے۔ ۔ ۔ حتی کہ یہ معنی بھی نہیں ہے کہ یہ ضعیف ہے کیونکہ ضعیف سے اوپر ایک درجہ ’’حسن‘‘ کا بھی ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث اگر صحیح نہیں ہے تو حسن ہے اور حسن حکماً، حجیتاً حدیث صحیح کے درجہ میں ہے۔ احکام شریعت کی کثیر تعداد 80 فیصد سے 90 فیصد تک جن پر تمام مسلمان عمل کرتے ہیں وہ حدیث حسن سے ثابت ہیں۔ نیز حدیث حسن فن حدیث میں ’’غیر صحیح‘‘ ہے، اس کو صحیح نہیں کہتے، اس لئے الگ نام دیا گیا ہے۔
’’غیر صحیح‘‘ کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہ ’’موضوع‘‘ ہے اور غیر صحیح کہنے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ ’’ضعیف‘‘ ہے۔ یہ حدیث حسن بھی ہو سکتی ہے اور اگر ضعیف ہے تو توابع و شواہد کے ساتھ ضعیف رہ کر بھی درجہ حسن اور درجہ صحیح تک بھی جاسکتی ہے۔
حدیث حسن کے بارے میں اتفاق ہے کہ حکم میں، تمام امثال و آثار میں بغیر انکار کے اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ حدیث حسن حجت ہے اور حکم میں صحیح کے درجہ میں لی جاتی ہے۔ اصطلاحاً وہ صحیح نہیں ہے مگر حکماً صحیح کے درجہ میں لی جاتی ہے۔ اس سے شریعت میں احکام ثابت ہوتے ہیں۔
امام ابن الصلاح رحمۃاللہ علیہ کا قول : درج بالا تمام گفتگو پر میں امام ابن الصلاح کا حوالہ پیش کرتا ہوں۔ وہ مقدمہ ابن الصلاح ص 13 پر لکھتے ہیں کہ : وَکَذَالِکَ اِذَا قَالُوْا فِیْ حَدِيْثٍ اِنَّه غَيْرُ صَحِيْح فَلَيْسَ ذٰلِکَ قَطْعًا بِاَنَّه کَذِبٌ فِی نَفْسِ الْاَمْر.
’’محدثین کسی حدیث کے بارے میں یہ کہیں یا لکھیں کہ یہ غیر صحیح ہے تو قطعاً یہ نہ سمجھو کہ یہ حدیث غلط ہے‘‘۔
اِذْ قَدْ يکونُ صِدْقاً فِی نَفْسِ الْاَمْر
’’اصطلاح میں غیر صحیح کہہ دیا مگر نفس الامر میں وہ سچی ہوگی‘‘۔
وَاِنَّمَا اَلْمُرَادُ بِه اَنَّه لَمْ يَصِحُّ اِسْنَادُه عَلٰی الشَّرْطِ الْمَذْکُوْر.
’’یہ کہنا کہ صحیح نہیں اس کا صرف ایک فنی مطلب ہے کہ صحیح کے لئے جو خاص شرائط مقرر کی گئی ہیں یہ ان شرائط کے مطابق نہیں‘‘۔
اس کی مثال یوں بھی لی جا سکتی ہے کہ کسی شخص میں آئی جی کی شرائط پوری نہیں ہو رہی مگر ڈی آئی جی کی شرائط پوری ہو رہی ہیں اور اگر DIG کی شرائط پوری نہیں ہو رہیں تو AIG کی شرائط پوری ہو رہی ہیں۔
حدیث صحیح نہ کسی امام کے ساتھ مشروط ہے اور نہ کسی کتاب کے ساتھ مشروط ہے، اس کے لئے پانچ شرائط ہیں، جہاں یہ شرائط پائی جائیں گی اسے صحیح کا نام دیا جائے گا اور جہاں اس highest rank کی شرائط پوری نہ ہو رہی ہوں اسے غیر صحیح کہا جائے گا کہ یہ اس سے نچلے والے کسی Rank کی شرائط پر پوری اتر رہی ہے، اسکو غلط اور کذب نہ سمجھا جائے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا قول
یہی بات امام نووی نے التقریب میں فرمائی کہ
وَاِذَا قِيْلَ غَيْرُ صَحِيْحٍ فَمَعْنَاه لَمْ يَصِحْ اِسْنَادُه.
’’جب کسی حدیث کے بارے یہ کہا جائے کہ یہ غیر صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اسناد مرتبہ صحت یا شرائط صحت کو نہیں پہنچتی، یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ نفس الامر میں یہ غلط ہے‘‘۔
اس کے کئی مدارج ہیں وہ کسی بھی درجہ میں آسکتی ہے۔
درج بالا حوالہ جات اصول حدیث کے متن میں سے دیئے اور یہ وہ متن ہیں جو بغیر کسی مکتبہ فکر کے اختلاف کے جمیع اہل سنت (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی)، ہندوستان کے تمام مکاتب فکر، سلفی، غیر مقلدین، اہل الحدیث الغرض کل مکاتب فکر کے ہاں قبول کئے جاتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ فن حدیث کے جس بھی امام کو آپ پڑھیں آپ کو صحیح اور غیر صحیح کے حوالے سے بغیر اختلاف کے یہی بات ملے گی جو میں نے ذکر کر دی۔ یہ اتنی پختہ اور متفقہ علیہ بات ہے کہ اس میں ائمہ حدیث میں سے کسی ایک کا بھی اس کے برعکس قول نہ ملے گا۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
السلام وعلیکم
ReplyDeleteڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب آپ بہت اچھا تحریر کرتے ہیں، بہت سارے مسائل پہ آپ کی تحریریں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔
آج کل تو ویسے بھی ہمارے بہت سارے جید علماء کرام نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بہت سی احادیث صحیحہ کو اپنے مسلک سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ایسی تاویلات کی ہیں کہ اُن کو ضعیف حدیث کے مطابق ڈھال لیا اور پھرضعیف حدیث کا ضُعف دور کرنے کے لئے ایسی ایسی فلسفیانہ تحقیق و گفتگو کی ہے کہ #الامان_الحفیظ
خیر بندۂ نا چیز کی ایک کنفیوژن یہ تحریر پڑھ کر بھی دور نہ ہو سکی کہ کسی عبادت یا نیک عمل کی ادائیگی کے لئیے صحیح حدیث میں طریقہ موجود ہو پھر بھی کسی ضعیف حدیث کا ضُعف دور کرکے اُس حدیث پر کاربند رہنا سمجھ سے بالاتر ہے، جبکہ بحثیت طالب علم یہ عرض ہے کہ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ جب تک صحیح حدیث کا نسخ ثابت نہ ہو صحیح حدیث کو ہی ترجیح دی جائے گی؟
اس بارے میں براہ کرم رہنمائی فرما دی جائے۔
والسلام ڈاکٹر محمد ارشد ناصر