Thursday 25 January 2018

وسیلہ کا شرعی مفہوم و جواز

0 comments
وسیلہ کا شرعی مفہوم و جواز


















وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آستانہ پر آجائیں اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور ﷺ ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے''( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89) ۔
مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیںکہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں نہیں لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔
بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں ۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آستانہ پر آجائیں اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ (سورة البقرہ، 144) ۔
ترجمہ : ہم آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھاہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیردیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔

معلوم ہواکہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لئے ہوئی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ معلم و مقصود کائنات کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ کا محتاج ہے تو دوسروں ک اکیا پوچھنا ہے ۔

احادیث مبارکہ اور وسیلہ

مسندامام احمدبن حنبل میں حضرت شریح ابن عبید سے بروایت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے چالیس (40)ابدال کے متعلق فرمایا۔ ان چالیس(40) ابدال کے وسیلہ سے بارش ہوگی دشمنوں پر فتح حاصل کی جائے گی اور شام والوں سے عذاب دورہوگا۔ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے وسیلہ سے بارش فتح ونصرت ملتی ہے اوربلادفع ہوتی ہے۔(مشکوٰة باب ذکریمن وشام)۔

دارمی شریف میں ہے کہ ایک دفعہ مدینہ شریف میں بارش بندہوگئی اور قحط پڑگیا لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیاآپ نے فرمایاکہ روضۂ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی چھت کھولدوکہ قبرانور اورآسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے تولوگوں نے ایساہی کیاتو فوراً بارش ہوئی یہاں تک کہ چارہ اُگااونٹ موٹے ہوگئے گویا چربی سے بھرگئے ۔(مشکوٰة ،باب الکرامات)

مشکوٰ شریف باب المعراج میں ہے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم واپسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پرگذرے توآپ نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم ملا؟ فرمایا ہردن پچاس (50) نمازوں کافرمایا۔حضور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں اتنی طاقت نہیں میں بنی اسرائیل کوآزماچکا ہوں ۔ اپنی امت کیلئے رب سے رعایت مانگئے غرضیکہ کئی بار عرض کرنے پر پانچ رہیں معلوم ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے یہ رعایت اوررحمت ملی کہ پچاس (50) نمازوں کی صرف پانچ باقی رہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کاوسیلہ ان کی وفات کے بعد بھی فائدہ مند ہے ۔

مسلم وبخاری میں ہے کہ حضور نے فرمایا ''انما اناقاسم واللہ یعطی'' (مشکوٰة ،کتاب العلم) ۔
ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ دیتاہے ۔
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی نعتمیں حضورپرنور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے ہیں اور تقسیم فرمانے والا وسیلہ ہوتاہے لہٰذا نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خالق کی ہرنعمت کاوسیلہ ہیں ۔

شرح سنہ میں ہےکہ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے ایک اونٹ نے جوکھیت میں کام کررہاتھا حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کودیکھا اور منھ اپنازانوئے مبارک پررکھ کرفریاد ی ہوا سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے مالک کو بلاکر فرمایا یہ اونٹ شکایت کرتا ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہواورچارہ کم دیتے ہو ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرو ۔ معلوم ہواکہ بے عقل جانور بھی حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کورفع حاجات کیلئے وسیلہ جانتے ہیں ۔ جو انسان ہو کران کے وسیلہ کا منکر ہووہ اونٹ سے زیادہ بے عقل ہے ۔

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کودودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)

معلوم ہوا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ ایسی نعمت ہے جس ک افائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان تو ان ک ابندۂ بے دام ہے ۔

اشیاء کا وسیلہ : مسلم شریف میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا جُبہّ شریف تھا ۔ یہ جُبّہ شریف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا ان کی وفات کے بعد میں نے اسے لے لیا اس جُبّہ شریف کو نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے اور اب ہم یہ کرتے ہیں کہ مدینہ میں جو بیمار ہوجاتا ہے اسے دھوکر پلاتے ہیں اس سے شفا ہوجاتی ہے ۔ (مشکوٰة، کتاب اللباس)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بدن شریف سے مس کئے ہوئے کو شفا کا وسیلہ سمجھ کر اسے دھو کر پیتے تھے ۔

بخاری شریف کتاب المساجد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حج کوجاتے ہوئے ہراس جگہ نماز پڑھتے تھے جہاں نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حج کے موقع پر نماز پڑھی تھی ۔ یہ مقامات بخاری نے بتائے بھی ہیں معلوم ہواکہ جس جگہ بزرگ عبادت کریں وہ جگہ قبولیت کاوسیلہ بن جاتی ہے ۔

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما کو دے کر فرمایا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا ۔

یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ثابت ہوتا ہے ۔

بزرگانِ دین علیہم الرّحمہ کے اقوال : صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم سے لیکر آج تک کے تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مخلوق کیلئے وسیلہ ٔ عظمیٰ ہیں اورحضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ سے اولیاء اللہ اورعلماء بھی وسیلہ ہیں ۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں فرماتے ہیں ۔

اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک
ترجمہ : یارسو ل اللہ میں حضور کی عطا کا امیدوار ہوں اورمخلوق میں ابوحنیفہ کیلئے آپ کے سوا کوئی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا وسیلہ مانتے ہیں ۔

امام حضور غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے قصیدہ ٔ غوثیہ میں اپنے خداد اد اختیارات بیان فرما کر ارشاد فرماتے ہیں ۔

وکل ولی لہُ قدم وانی
علیٰ قدم النبی بدرالکمال
ترجمہ : میں جودنیا پرراج کررہا ہوں اور میرے قبضہ میں زمین و زمان ، مکین و مکان ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پر ہوتا ہے میں نبیوں کے چاند اور رسولوں کے سورج حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پرہوں ۔ معلوم ہواکہ حضورغوثِ پاک کی نگاہ میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایسی اہم خلقت ہیں کہ انہیں سارے مراتب عالیہ اسی سرکار سے میسرہوئے ۔

امام بوصیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں اوریہ مقبول بارگاہ مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہوچکا ہے ۔

ومن تکن برسول اللہ نصرتہ
ان تلقہ الاسدفی احامھابجم
ترجمہ : یعنی جس کی مدد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرمادیں وہ شیروں سے بھی بچ جاتا ہے ۔معلوم ہواکہ ہربزرگ بھی حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ہر مصیبت کے دفع کا وسیلہ مانتے ہیں ۔

مولانا جلال الدین رومی قدس سرة العزیز اپنی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں ۔

اے بسادرگوخفتہ خاک دار
بہ ز صداحیاء بنفع وابتشار

سایہ اوبورخاکش سایہ مند
صدہزاراں زندہ درسایہ دے اند
ترجمہ : بہت سے قبروں میں سونے والے بندے ہزاروں زندوں سے زیادہ نفع پہنچاتے ہیں ان کی قبر کی خاک بھی لوگوں پر سایہ فگن ہے لاکھوں زندے ان قبروالوں کے سایہ میں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ مولانا قدس سرہ ' اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کوبعدوفات زندوں کاوسیلہ مانتے ہیں ۔

عقلی دلائل اور وسیلہ : عقل کا بھی تقاضہ یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے حسب ذیل دلائل سے ''رب تعالیٰ غنی اور ہم سب فقیر''جیسا کہ ارشاد تبارک وتعالیٰ ہے ''اللہ غنی وّ انتم الفقراء ُ '' اوروہ غنی ہمیں بغیروسیلہ کے کوئی نعمت نہیں دیتا ۔ ماں باپ کے وسیلہ سے جسم دیتا ہے ۔استاد کے ذریعہ علم ، پیر کے ذریعہ شکل ، ملک الموت کے ذریعہ موت ، غرضیکہ کوئی نعمت بغیروسیلہ نہیں دیتا توہم فقیر ومحتاج ہوکربغیروسیلہ اس سے کیسے لے سکتے ہیں ۔ اگر اس کو سب کچھ خود کنت ہوتا تو وہ رسول کو کیوں بھیجتا ۔ بلکہ خود ہی سب کو ہدایت دے دیتا ۔ معاذ اللہ ۔

دنیا ادنی اور تھوڑی ہے آخرت اعلیٰ اور زیادہ ہے''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''قل متاع الدنیا قلیل ''اورفرماتاہے ''والاٰ خرة خیروّ ابقیٰ '' جب دنیاجیسی حقیر بغیروسیلہ نہیں ملتی توآخرت جودنیاسے اعلیٰ ہے بغیر وسیلہ کیوں کر مل سکتی ہے۔ اس لئے قرآن وایمان دینے کیلئے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کومبعوث فرمایا ۔

ہمارے اعمال کی مقبولیت مشکوک ہے اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم واولیاء اللہ کی مقبولیت یقینی ہے۔ جب مشکوک اعمال وسیلہ بن سکتے ہیں تو یقینی مقبول بندے بدرجۂ اولیٰ وسیلہ ہیں ۔

اعمال صالحہ وسیلہ ہیں رب سے ملنے کااور اعمال کاوسیلہ انبیاء ،اولیاء ،علما ء تویہ حضرات وسیلہ کے وسیلہ ہوئے اور وسیلہ کابھی وسیلہ ہے لہٰذا یہ حضرات بھی وسیلہ ہیں ۔

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے تین سوسال تک خانۂ کعبہ میں بت رکھےگے تھے۔ حضور علیہ الصلاة والسلام کے دست اقدس سے کعبہ پاک صاف کیا گیا تا کہ معلوم ہو کہ کعبہ معظمہ جو خداتعالیٰ کا گھر ہے وہ بھی بغیر وسیلہ مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پاک نہ ہوسکا تو تمہارے دل بغیر اس ذاتِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ہرگز پاک نہیں ہوسکتے ۔

رب فرماتا ہے: '' وکونوامع الصادقین '' سچوں کے ساتھ رہو ۔اور سارے سچے اولیاء علماء وسیلہ کے قائل رہے۔ لہٰذا وسیلہ کامانناہی سچاراستہ ہے۔

شیطان نے ہزاروں برس بغیر وسیلہ والی عبادت کیں مگروہ وسیلہ والا ایک سجدہ نہ کیاتو مردودہوگیا ملائکہ نے وسیلہ والا سجدہ کرکے محبوبیت پائی۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ والی عبادت تھوڑی بھی ہوتو مقبول بارگاہِ الٰہی ہے۔

قبرمیں مردہ سے تین سوال ہوتے ہیں پہلاسوال توحیدکا اوردوسرا دین کا۔ مگر ان دونوں سوالوں کے جواب درست دینے پربھی بندہ کامیاب نہیں ہوتا اور جنت کی کھڑکی نہیں کھلتی۔ سوال تیسرا یہ ہوتا ہے'' ماکنت تقول فی حق ہذاالرجل '' تواس کالی زلفوں والے ہرے گنبد والے محبوب کوکیا کہتا تھا ۔ دیکھ یہ تیرے سامنے جلوہ گرہیں ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرماں بردار بندہ جواب دیتا ہے یہ میرے رسول میرے نبی ہیں اور میں ان کا امتی ہوں ۔

مسجد نبوی شریف میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار ہے ۔ کیوں ؟ کیادوسری مسجدیں خدا کا گھر نہیں ہیں ؟۔ صرف اسی لئے یہ ثواب بڑھاکہ ا س میں حضور محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمارہے ہیں اسی طرح بیت المقدس میں کئی ہزارپیغمبر جلوہ گرہیں ۔ کعبہ وہاں بھی ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ اس لئے کہ وہ حضور پُرنور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ک امقام پیدائش ہے اور وہاں بیت اللہ چاہ ِ زم زم اورمقام ِ ابراہیم ہے۔ ان کے وسیلہ سے ثواب زیادہ ہوگا ۔وسیلہ والی عبادت کادرجہ زیادہ ہے۔ معلوم ہواکہ وسیلۂ انبیاء واولیاء اعلیٰ چیزہے۔۔

منکرین وسیلہ کی سوچ کا جواب : وسیلہ کے معانی جو کہ لغت میں بیان کیے گۓ ہیں وہ یہ ہیں۔ " ذریعہ، واسطہ، شفاعت، دستگیری، حمایت"

یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کی قران میں وسیلہ علیحدہ سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔ حالانکہ پورے قران میں نیک اعمال کیا ہیں تفصیل سے بیان کیئے گۓ ہیں ۔ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ نیک اعمال ہی وسیلہ ہیں - اگر ایسا ہے تو پھر تلاش کیا کرنا ہے ۔ اسی ایت میں جہاد بھی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اگر صرف وسیلہ کو نیک عمل ہی سمجھا جائے تو جہاد بھی تو نیک عمل ہے تو ایک ہی ایت میں یہ علیحدہ سے کیوں بیان کیا گیا۔ علیحدہ آیت میں بھی تو جہاد کا ذکر ہو سکتا تھا- اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وسیلہ نیک عمل کرنے میں جو چیز مدد فراہم کرے وہ وسیلہ ہے اور جب نیک عمل ہو جاۓ گا تو اللہ کا قرب ملے گا-

یہ ایسا ہی ہے کہ آپ لاہور سے اسلام اباد میلاد شریف کی محفل کے لۓ جا رہے ہوں تو اس میں سواری وسیلہ ہے اور آب کا ارادہ اور سفر نیک عمل۔ اس میں سواری اور پیٹرول نیک عمل نہیں ہیں بلکہ ذریعہ یا وسیلہ ہیں۔

اسی طرح انبیاء اور صالحین جو کہ نیک عمل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔۔ یہ سب وسیلہ ہیں-

نیچے دی گی مثال میں نسبت بھی ایک بہت بڑا وسیلہ ہے کا ثبوت بخاری شریف سے پیش ہے۔

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل سے ابولہب کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوئی ۔کیونکہ اس کی لونڈی ثویبہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کودودھ پلایا تھا ۔ (بخاری شریف ،کتاب الرضاع)
معلوم ہوانبی کاوسیلہ ایسی نعمت ہے جس کافائدہ ابولہب جیسے مردود نے کچھ پالیا مسلمان توان کابندۂ بے دام ہے۔

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک حضرت عمر اور علی کو دے کر کہا تھا کی یہ چادرمیرے بعد اویس قرنی کے پاس لے جانا اور کہنا کہ امت کے لےدعا کریں اور ایسا ہی کیا گیا۔
یہ اولیاء سے وسیلہ کا ثبوت حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ثابت ہوتا ہے۔

یاد رہے جو سوچ آپ بیان کر رہے ہیں وہ ہجرت کے 700 سال بعد کی ہے۔ یہ ہم سب ماننتے ہیں کہ جتنا زمانہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک ہو گا اتنا صحیح ہو گا۔ آپ کی دی گئی تفصیل میں جن تفاسیر کا بیان ہے ان کے بارے میں دیکھیں کہ تفسیر الجلالین 864ھ 1459ع کی ہے تفسير الخازن 741ھ کے قریب ہے ۔ تفسیر حافظ ابن کثیر 774ھ سے ذرا پہلے کی ہے ۔

اب حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک کے زمانہ کو سوچ پڑھیں ۔

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ ٔ نعمان میں فرماتے ہیں ۔ ( 80ھ تا 150ھ تابعین)

اناطامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفةَ فی الانام ِسواک

ترجمہ : یارسو ل اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کا امیدوار ہوں اورمخلوق میں ابوحنیفہ کیلئے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی نہیں ۔ معلوم ہواکہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا وسیلہ مانتے ہیں ۔

پہلی مثال سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے اور مثال نمبر دو سے نیک لوگوں کووسیلہ کرنا حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے ۔(یہ مضمون نے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے استاذی المکرّم حضور غزالی زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی اور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہما الرّحمہ کی کتب سے مرتب کیا ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔