تقلیدِ شخصی اور اس کی شرعی حیثیت
تقلیدِ شخصی اور اس کی شرعی حیثیت
ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے طریقہ پر احکامِ شرعیہ بجا لانا تقلیدِ شخصی کہلاتاہے ، مثلاً امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ یا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں سے کسی کے طریقے پر عمل کرنا ۔
تقلید شخصی کی شرعی حیثیت میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ يَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِيْ مَعْرَفَةِ الشَرِيْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِيْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِيْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِيْنَ، وَ هَکَذَا فِيْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ .
ترجمہ : امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا ۔ (شاه ولی اﷲ، عقد الجيد، 1 : 31)
اسی طرح تقلید شخصی کو لازم کرنے کی ایک واضح نظیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ہے، جب انہوں نے قرآنِ حکیم کا ایک رسم الخط متعین کر دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے قرآنِ حکیم کو کسی بھی رسم الخط کے مطابق لکھا جا سکتا تھا کیونکہ مختلف نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مختلف تھی اور اس ترتیب کے مطابق قرآنِ حکیم لکھنا جائز تھا لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰٰ عنہ نے امت کی اجتماعی مصلحت کے پیشِ نظر اس اجازت کو ختم فرما کر قرآن کریم کے ایک رسم الخط اور ایک ترتِیب کو متعین کر کے امت کو اس پر متفق و متحد کر دیا اور امت میں اسی کی اتباع پر اجماع ہوگیا ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، 4 : 1908، رقم : 4702)۔
تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح
تقلید کی تعریف : کسی کا قول اس لئے ماننا کہ آپ کو یقین ہو کہ وہ شخص کتاب و سنت کے موافق بتلائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ تقلید کا شرعی معنی ہے، اب تقلید کے مطابق کسی راوی کی روایت کو قبول کر لینا تقلید فی الروایت، اور کسی مجتھد کی درایت کو قبول کرنا تقلید فی الدرایت ہے ۔
کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو صحیح یا ضعیف کہنا بھی تقلید ہے، اور ثقہ یا مجہول کہنا بھی تقلید۔
اسی طرح کسی امتی کے بنائے گئے اصول حدیث و اصول تفسیر و اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید کہلاتا ہے ۔
کیا تقلید واجب ہے ؟ : تقلید واجب ہے جب خود عقل نہ ہو، حدیث اور قران کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، ساتھ ہی اتنی بصیرت نہ ہو کہ کسی غیر منصوص مسئلہ کے مطلب کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔ یہ کام فقہا کا ہے کہ انہوں نے احادیث طیبہ سے وہ مسائل نکالے جو ہماری سوچ میں کبھی نہیں سما سکتے تھے۔ اس لئے ہر انسان جو غیر مجتہد ہو اس پر تقلید واجب ہے، اس کی عام مثال دی جاتی ہے کہ جو خود ڈاکٹر نہ ہو وہ کسی اچھے اور جانے مانے ڈاکٹر سے ہی دوا لے گا، کسی لا علم سے ہرگز نہیں اور اسی طرح نہ ہی اس ڈاکٹر کے دئے گئے نسخے کو جا کر علمِ طب کی کتب میں تصدیق کرے گا اور پھر کھائے گا۔ بلکہ وہ اسی بھروسے پر اس دوا کو استعمال کرے گا کہ اس ڈاکٹر (جو سب مریضوں اور تجربہ کاروں کے مطابق اچھا اور مستند مانا ہوا ہے) نے اسے صحیح دوا تجویز کی ہے۔ اور ان شا اللہ شفایاب بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تقلید اس ڈاکٹر کی واجب ہے۔ ہم بھی بیمار ہیں، اور جانتے ہیں کہ جب تک کوئی بڑا طبیب علاج کے لئے میسر نہ آئے ہمارے مرض کا درماں ممکن نہیں، اس لئے فقیہہ امام کی تقلید ضروری ہے ورنہ کیا ہوتا ہے ؟
ورنہ یہ ہوتا ہے کہ میں محدث ہی کیوں نہ ہوجاؤں مگر فقہ سے نا واقف ہوں تو حدیث کے سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہوں جیسے ایک غیر فقیہہ محدث نے چالیس سال تک یہ نظریہ اپنائے رکھا کہ نماز جمعہ سے پہلے سر منڈوانا درست نہیں اور حدیث کیا تھی ؟ ” نَھٰی عَنِ الحَلَقِ قَبلَ الصَّلٰوۃِ یَومُ الجُمُعَہ “ ۔ یہی حال ہوتا ہے جب تقلید نہیں ہوتی ، اپنی عقل چلتی ہے ، پیروی چھوٹ جاتی ہے ، گمراہی آجاتی ہے ۔
مقلد اپنے آپ کو مقلد کہتا ہے اس لیئے نہیں کہ وہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے ، بلکہ وہ ایسے شخص کا مقلد ہے جو قرآن اور حدیث کو اس مقلد اور ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو وہ سمجھاتا ہے مقلد اسکی بات کو مان لیتا ہے ۔ لیکن یہ کہاں ہے کہ مقلد حدیث کو نہیں بلکہ امام کو مانتا ہے ؟ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں سائنس کے ٹیچر کی بات سنوں تو مجھ پر طعن ہو کہ تم سائنس کی ٹیکسٹ بک کو چھوڑ کر ٹیچر کی بات مانتے ہو ۔ اور یہ غلط ہے، مگر میں کیا کروں کہ مجھے اس ٹیکسٹ بک کی سمجھ نہیں آتی مگر ٹیچر اسی ٹیکسٹ بک میں سے وہ کچھ سمجھا دیتا ہے جو میرے وہم و گمان تک میں نہ تھا ۔ تو ٹیچر کی تقلید واجب ہے مجھ پر ۔
غیر مقلدین کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں : تقلید کا اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ ماننا اور عمل کرنا اس شخص کے قول پر بلا دلیل جس کا قول حجت شرعی نہ ہو ، تو اس اصطلاح کی بنیاد پر عامی کا مجتھدوں کی طرف رجوع کرنا کوئی تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے ۔ تقلید کے معنی عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی میں میں کسی اہل علم کا قول اور اس پر عمل کرنا اور اسی عرفی معنی میں مجتہدوں کی ”اتباع“ کو تقلید کہا جاتا ہے ۔ گویا اتباع ہی تقلید ہے اور تقلید کا معنی ہی اتباع کرنا ہے ۔ (معیار الحق)
آگے عقیدۃ الفرید کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اور فاضل حبیب اللہ قندھاری فرماتے ہیں : تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جس کا قول حجت شرعیہ نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی اور اجماع کی طرف تقلید نہیں کہلائے گا ۔ اور اسی طرح کسی انجان کا مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا یا کسی قاضی کا ثقہ آدمی کے قول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ تو بحکم شرع واجب ہے ۔ اب اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب یہ چیز واجب ہے تو اتباع کو اگر تقلید کا نام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔
اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں
(1) لا علمی کے وقت مجتہد کی طرف رجوع کرنا تقلید ہے اور اسے ہی اتباع و تقلید کہتے ہیں ۔
(2) مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہا جاتا ہے یعنی بالمآل تقلید اور اتباع میں کوئی فرق نہیں ۔
(3) لا علم اور انجان کا کسی مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا صرف تقلید ہی نہیں بلکہ بحکم شرع واجب ہے ۔
(4) جس طرح مجتہدین کے اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے ۔
تقلیدِ شخصی کیوں واجب ہے ؟
پوری امت ایک راستے پر چلتی چلی آرہی ہوتی ہے۔ اس کا ایک منہج ، ایک نظریہ اور ایک فکر ہوتی ہے۔ گویا ایک اجتماعیت ہوتی ہے جس میں اس کی قوت و مضبوطی پنہاں ہوتی ہےپر فساد اور انتشار کی ابتدا وہاں سے ہوتی ہے جہاں سے اس کے منہج و نظریئے کی یا تو غلط تعبیر و تشریح کی جائے یا اس کے سابق منہج سے سرمو انحراف کرکے الگ راہ نکال لی جائےاور سبیل ِالمؤمنین کی مخالف راہ اختیار کی جائے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے امت کی وحدت پارہ پارہ ہوتی ہے اور فتنہ ، فساد اور انتشار کو ہوا ملتی ہے۔ قدرت نے جس طرح اسلام کی بقا کی ضمانت لی ہے جو بذریعہ نزولِ ملائکہ نہیں کہ فرشتے اتریں اور اسلام کی اشاعت و حفاظت کا فریضہ سرانجام دیں بلکہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کو گروہِ انسانیت میں سے پیدا کرکے اپنے پیغام کی تبلیغ کرائی گئی ٹھیک اسی طرح اسلام کی حفاظت کے لیے ایسے رجالِ کار کو امتِ مسلمہ میں پیدا فرمایا جنہوں نے اسلام کےنظریئے اور مزاج کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا اور تھکایا یہاں تک کہ اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا۔
نبی کری صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب تک ظاہری حیات میں موجود رہے صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے مسائل کے حل کے لیے درِ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر حاضر ہوجاتے وہاں سے انہیں مسائل کا حل مل جاتا۔
ظاہری وصال سے کچھ عرصہ قبل آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی امت کو ارشاد فرمایا : (فاقتدوابالذین من بعدی ابی بکرو عمر) تم میرے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرنا ۔
(ترمذی۔ابنِ ماجہ۔مستدرک)
اس امر کی تعمیل میں لوگ آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی رحلت شریفہ کے بعد سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آنے لگے۔جب کہ صحابہ کرام میں اجلہ صحابہ کی ایک معتد بہ تعداد منصب اجتہاد کو پہنچی ہوئی تھی جنہیں آقا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے علم کا وافر حصہ ازبر تھا وہ لوگوں کو نئے پیش آمدہ مسائل کا حل بتایا کرتے تھے ۔
یہ وہ وقت تھا جب شریعت کے تمام مسائل مدون اور مرتب نہیں ہوئے تھے اس لیے کسی ایک عالم کی اتباع کا اس درجے اہتمام نہیں تھاکہ اس کے سوا دوسرے عالم سے رجوع جائز نہ ہو، بلکہ لوگ کسی ایک عالم سے رجوع کرتے تو کبھی دوسرے سے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک ہی عالم کے تقویٰ ، تبحرِ علمی اوراس پر اعتمادِ خاص کی وجہ سے لوگ اسی سے ہی تمام یا اکثر مسائل میں رجوع کرتے ، اس کے ہوتے ہوئے دوسرے سے رجوع مناسب نہ سمجھتے۔ اور اس سے اس مسئلے کی دلیل بھی طلب نہیں کرتے تھے بس تقویٰ اور تبحرِ علمی پر ہی اعتماد کرتےتھے اور یہی اصطلاح میں تقلید کامطلب ہےکہ ’’مجتہد کے قول پر بغیر مطالبۂ دلیل عمل کرنا اس حسنِ ظن کے ساتھ کہ وہ قرآن و سنت سے ماخوذ اور مطابق ہے ۔
اس نوعیت کی ایک روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے’’اہلِ مدینہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا کہ ’’کیا جب عورت حیض میں مبتلا ہوجائے تو اس کے لیے طواف زیارت کے بعد طواف ِ وداع چھوڑ کر اپنے وطن جانا جائز ہے؟‘‘جواب میں سیدنا ابن ِ عباس ؓ نے جواز کا قول فرمایا جس پر لوگ کہنے لگے ہم آپ کی بات لے کر سیدنا زید ؓ کی بات نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ وہ فرماتے ہیں کہ عورت کے لیے طوافِ وداع چھوڑ کروطن جانا جائز نہیں۔اس کی وجہ حضرت زید رضی اللہ عنہ پر ان کا زیادہ اعتماد تھاتبھی سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے فتوے پر توجہ نہ دی پھر جب سیدنا زید ؓ تک حدیثِ صفیہ ؓ پہنچی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا۔یہ اس بات کی مثال تھی کہ لوگ اپنے اعتماد والے عالم پر دیگر علماء کی نسبت زیادہ رجوع کرتے تھےاور اس کے فتاویٰ کو دوسرے علماء کے فتاویٰ پر ترجیح دیتے تھے۔
یہ سب اس وقت تھا جب مذاہب مدون نہ تھے۔ ان کے اصول وضع نہیں ہوئے تھے۔اس لیے لوگ کسی خاص فقہ کے پابند بھی نہ تھے۔بس بعض تو مختلف علماء سے جہاں موقع ملتا رجوع کرلیا کرتے اور بعض اپنے معتمد علیہ فقیہ کے فتاویٰ پر انحصار کرتے۔خیرالقرون کے زمانے میں فقہاء مجتہدین کی کمی نہ تھی، وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے جو بلادِ اسلامیہ میں پھیلے ہوئے تھے۔لیکن جو مقبولیت اللہ کی طرف سے فقہائے اربعہ امام ابوحنیفہ ،امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کو حاصل ہوئی وہ کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
سب سے پہلے جدید پیش آمدہ مسائل کی تدوین کی طرف سیدنا ابوحنیفہ رحمہ اللہ متوجہ ہوئے انہوں نے باقاعدہ قرآن و سنت میں غور و خوض کر کے فقہ کے اصول مرتب فرمائےاور یوں سلسلہ چل نکلا اور وقت گزرنے کے ساتھ چار فقہ متعارف ہوگئیں جنہیں لوگوں میں قبولیتِ تامہ حاصل ہوئی۔جب کہ باقی فقہاء کو وہ مقام اور مقبولیت نصیب نہ ہوسکی یہاں تک کہ ان کا نام و نشان مٹ گیا یاکہیں کسی کتاب میں ان فقہاء کا کوئی ایک آدھ قول مل جاتا ہے۔جب کہ مدون اور مرتب صورت میں ان چار فقہوں کو شہرت حاصل ہوگئی۔ جن کا ماخذ صرف اور صرف قرآن و سنت تھا نہ کہ خواہشاتِ و ہوائے نفس کی اتباع ، جن سے یہ فقہاء ماوراء تھے۔فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین اہلِ علم نے اس میں انسانی زندگی سے متعلق تمام گوشوں سے متعلق مسائل حل فرما کر امت سے استنباط و استخراج کا بوجھ اتار دیا اور صحیح منہج امت کو دے گئے۔
یہ چاروں فقہ عالمِ اسلام میں رائج ہوگئیں۔ ان کے مرتب اور مدون ہونے کے بعد انتظامی طور پر لوگ کسی ایک فقہ جن پر ان کا اعتماد تھا عمل پیرا ہوگئے اور اپنی زندگی میں پیش آمدہ تمام مسائل کے حل کے لیے اس فقہ کے ماہر علماء سے رجوع کرنے لگے۔عالم اسلام کے تمام اہل علم کا ان مذاہبِ اربعہ کی حقانیت پر اجماع ہوگیا ۔ در اصل یہی اہل سنت و جماعت کا اصلی مصداق ہیں جن سے روگردانی کرنا نجات یافتہ طبقےاہل سنت و جماعت سے باہر ہونا ہے ۔
ان میں واقع ہونے والا آپس میں فقہی اختلاف در اصل احادیث مبارکہ اور اقوال و اعمال صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے رونما ہوا۔ ہر فقیہ نے دلائل کی بنیاد پر ایک جانب کو راجح قرار دے کر دوسری جانب کو مرجوح قرار دیا۔ ان میں سے کسی کو بھی قرآن و سنت کی مخالفت کرنے اور خواہشات پر عمل کرنے والا نہیں کہا جاسکتا۔ جسے بنیاد بنا کر یار لوگوں نے ان چاروں فقہ کا نہ صرف انکار کیا بلکہ اسے قرآن و سنت سے مخالف اور گمراہی کا موجب بنا کرپیش کیا (معاذاللہ) اور تقلید کے خلاف مکمل محاذ آرائی قائم کرلی اور امت کے متواتر و متوارث طریقے کے خلاف ایک الگ راہ اختیار کرکے خود کو مجتہد سمجھنے لگے۔یاد رکھیے کہ غیر مجتہد پر چاروں فقہ میں سے کسی ایک فقہ کی تقلید لازم ہے اور یہ لزوم و وجوب کسی شرعی و قطعی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ انتظامی طور پر ہے ۔
اب یہاں سے اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ بیک وقت تمام فقہوں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا صرف تقلید شخصی کو کیوں واجب کیا گیا ہے ؟
اس کا جوا ب یہ ہے کہ اگر تمام فقہوں کی بیک وقت تقلید جائز قرار دی جائے تو اس سے اتباعِ شریعت کے بجائے اتباعِ خواہشات لازم آتی ہے ۔ خاص طور اس فساد کے دور میں جب کہ احکامات پر عمل کمزور پڑگیا ہے اور دین کے بجائے خواہشات کی اتباع کی جارہی ، لوگ ان فقہاء کے اقوال کو کھیل بنالیں گے۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں بدن سے خون نکلنا ناقضِ وضو نہیں ہے جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے ۔ اس طرح بیسیوں مسائل ہیں ۔ اب کوئی شخص اپنی آسانی دیکھتے ہوئے جس وقت جس پر چاہے عمل کرلے گا جب کہ یہ شریعت پر عمل تو نہ ہوا خواہشات کی تقلید ہوئی جسے حرام کہا گیا ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم کے عظیم شارح علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’ المجموع شرح المہذب ، مقدمہ ، فصل فی آداب المستفتی ( ۱؍ ۵۵ ) ‘‘ میں لکھا ہےکہ ’’ اگر لوگوں کے لیے اپنی چاہت کے مذاہب پر عمل کو جائز قرار دیا جائے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہوگی کہ وہ ان مذاہب اربعہ کے رخصت اور آسانی والی مسائل کو چن کر عمل کرنے لگیں گے جو کہ خواہشات کی اتباع ہے نہ کہ شریعت کی۔
اسی وجہ سے علمائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : غیر مجتہد کے لیئے ان چار مذاہبِ فقہیہ میں سے ایک کی تقلید اس طور پر واجب ہے کہ اس کے سوا پھر دوسرے مذہب کی تقلید نہ کرے ۔ اور یہ وجوب انتظاما ہے ۔ اللہ تعالی خواہشات کی اتباع سے محفوظ فرما کر اپنے دین کی اتباع کرنے کی اور امت کے سوادِ اعظم کے ساتھ چمٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment