Wednesday 31 January 2018

داڑھی مبارک کا مذاق اڑانا کفر ہے

0 comments
داڑھی مبارک کا مذاق اڑانا کفر ہے

محترم قارئین : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے آج کے پر فتن دور میں دیکھا اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے کمنٹس و بعض تحریریں پڑھیں ۔ ایک شخص داڑھی نہیں رکھتا یہ ترک سنت کے گناہ کا مرتکب ہے مگر بعض جہلاء نام نہاد لبرل مسلمان جو خود بھی داڑھی نہیں رکھتے اور داڑھی مبارک کا مذاق اڑاتے ہیں ایسے لوگوں کے جواب اور سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کے تحفظ کےلیئے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے سر دست یہ مختصر مضمون ترتیب دیا ہے پڑھیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں :

مردوں کے لیئے داڑھی رکھنا واجب ‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور قومی شعار، اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل اور صورت نورانی ہوتی وتی ہے‘ آنحضرت صلی اللہ کا دائمی عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور گناہ ہے ۔

داڑھی تمام انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی متفقہ سنت ، مردانہ فطرت اور شعارِ اسلام ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے بار بار داڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے او راسے صاف کرانے پر غیظ وغضب کا اظہار فرمایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ داڑھی رکھنا تمام ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کے ہاں متفقہ طور پر واجب ہے اور منڈانا ایک مٹھی سے کم ہونے کی صورت میں کترانا بالاتفاق حرام، گناہ کبیرہ ، فسق، فطرتِ انسانی کی خلاف ورزی، شرافتِ انسانی کی توہین، جملہ انبیائے کرام علیہم السلام کی مخالفت اور اغوا ئے شیطان سے الله تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑنا ہے ، عورتوں کے ساتھ مشابہت کی بنا پر موجبِ لعنت ہے، مجوس، مشرکین، یہود ونصاری، فساق وفجار اور مغاربہ کا شیوہ ہے، تمام اولیاء الله او راکابر امت کی عملاً مخالفت ہے ، نماز، روزہ، حج غرض ہر عبادت کے دوران ساتھ رہنے والا گناہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔

باقی یہ کہنا کہ” داڑھی تو اتنی رکھنا ضروری ہے کہ جس کا چالیس قدم کے فاصلے سے پتہ چل جائے اور داڑھی کی کم مقدار متعین نہیں جتنی بھی ہو بس داڑھی ہو او رحضرت عمر رضی الله عنہ کی داڑھی ایک مٹھی سے کم تھی وغیرہ “ بے بنیاد اور بے دلیل ہے ، دشمنانِ دین کا پروپیگنڈہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم او رحضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیہم اجمعین پر بہتان تراشی ہے ۔

حدیث شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتی ہیں : ”عشر من الفطرة قص الشارب واعفاء اللحیة․․․ الخ“ ۔ (مسلم ج:۱‘ص:۱۲۹)
ترجمہ : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : (1) مونچھوں کا کتروانا ۔ (2) داڑھی بڑھانا ۔ (3) مسواک کرنا ۔ (4) ناک میں پانی ڈال کرناک صاف کرنا ۔ (5) ناخن تراشنا ۔ (6) بدن کے جوڑوں کو دھونا ۔ (7) بغل کے بال اکھاڑنا ۔ (8) زیر ناف بال صاف کرنا ۔ (9) پانی سے استنجاء کرنا‘ راوی کو دسویں چیز یاد نہ رہی‘شارحین فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہ و۔ اس حدیث میں جوکہ سنداً نہایت قوی حدیث ہے‘ دس چیزوں کو جن میں سے داڑھی کا بڑھانا اور مونچھوں کا کترانا بھی فطرت بتلایا گیا ہے اور فطرت عرف شرع میں ان امور کو کہا جاتا ہے جوکہ تمام انبیاء اور رسل علیہم السّلام کی معمول بہ اور متفق علیہ سنت ہو اور امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہو ۔

صاحب مجمع البحار اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ”عشر من ”الفطرة“ ای من السنة ای سنن الانبیاء علیہم السلام التی بالاقتداء بہم فیہا ای من السنة القدیمة التی اختارہا الانبیاء علیہم السلام‘ واتفقت علیہا الشرائع فکأنہا امر جبلی فطروا علیہ“۔ (مجمع البحار‘ ج:۴‘ ص:۱۵۵)
ترجمہ : دس چیزیں فطرت (سنت) میں سے ہیں یعنی انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی ان سنتوں میں سے ہیں جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا یعنی اس سنت قدیم میں سے ہے جس کو انبیاء کرام علیہم السلام نے اختیار فرمایا اور اس پر تمام شرائع متفق ہیں‘ گویا کہ وہ امر جبلی ہے جس پر تمام انبیاء علیہم السلام کو پیدا کیا گیا ہے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں : ”قالوا: ومعناہ انہا من سنن الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم“ ۔(نووی شرح مسلم‘ ج:۱‘ ص:۱۲۸)
ترجمہ : فطرت کے معنی یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِؤُونَ -لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۔ (سورہ توبہ ،آیت نمبر ، 65 ، 66 )

ترجمہ : (65) اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو،
(66) بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے ۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک میں ایک شخص نے ایک مجلس میں مذاق اڑاتے ہوئے کہا : '' ہم نے اپنے ان قاریوں سے بڑھ کر پیٹ کا پجاری ، زبان کا جھوٹا اور لڑائی کے میدان میں بزدل اور ڈرپوک نہیں دیکھا '' اس مجلس کے ایک دوسرے شخص نے کہا : '' تو جھوٹا ہے ، منافق ہے ، میں اس کی اطلاع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دونگا '' جب نبی کریم علیہ السلام کو یہ خبر پہنچی تو اس بارے میں قرآن حکیم کی مذکورہ آیت نازل ہوئی ـ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : '' میں نےاس منافق کو دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا پالان پکڑا ہوا ہے اور پتھروں پر سے گھسٹتا ہوا جا رہا ہے اور کہ رہا ہے :'' ائے اللہ کے رسول ! ہم تو ہنسی مذاق اور تفریح کر رہے تھے '' ـ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے جا رہے تھے : '' کیا تم اللہ ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مذاق کر رہے تھے ـ"
(تفسیر طبری ، ابن ابی حاتم ، حسن لشواہدہ )ـ
محترم قارئین : مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث پاک سے یہ معلوم ہوا کہ دین کا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ، یا اللہ تعالٰی کا ، یا شریعت کا ، یا دین کے کسی مسئلہ کا ، مذاق اڑانا کتنا بڑا اور خطر ناک گناہ ہے ، جس سے آدمی بسا اوقات دین سے خارج ہو جاتا ہے ـ

اس لیئے دین کا ، یا دین کے متعلق کسی بھی مسئلہ کا خواہ بطور تفریح ہی سہی ، مذاق اڑائیں ، کیونکہ جو شخص بھی دین سے متعلق کسی بھی چیز یا مسئلہ کا مذاق اڑائے ، مثلا :: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مذاق ، مسواک کا مذاق ، داڑھی کا مذاق ، یا شرعی پردے کا مذاق ، یا زنا کا مذاق ، شراب اور قتل کی سزا کا ، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے مشروع کیا ہے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اسلام کا حکم ہے ، یا وہ اللہ تعالی کو گالی دیتا ہے ،یا دین و شریعت کو بر بھلا کہتا ہے ، یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی رسالت اور شخصیت پر حملہ کرتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ ایسا آدمی ان باتوں سے دین سے خارج ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں ہے ـ

محترم قارئین : یاد رکھیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ استہزا و مذاق کے ضمن میں درج ذیل باتین بھی داخل ہیں : قرآن مجید کا، یا اللہ تعالٰی کی آیتوں کا ، یا اس کے اسما ء و صفات کا مذاق اڑانا ، یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک اڑانا ، یا کسی صحیح حدیث کا انکار کرنا ، یا قرآن و حدیث لکھے ہوئے اوراق کو کوڑے یا نجاست کی جگہوں میں ڈالنا ، یا جس اخبار یا جریدہ میں اللہ تعالٰی کے اسماء و صفات لکھے ہوئے ہوں ، اس پر کھانا کھانا ، نیز مدارس کےنصاب و کورس کی کتابوں کو جن میں قرآن آیات یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم لکھے ہوئے ہوں ، قصدا پٹخنا یا بے حرمتی کے ساتھ پھینکنا وغیرہ تمام باتیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے مذاق میں داخل ہیں ـ

جولوگ داڑھی والوں کا مذاق اس لیے اڑاتے ہیں کہ داڑھی رکھنے والوں نے اپنے چہروںپرسنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کوسجارکھا ہےاوروہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں توایسے لوگوں کا صرف نکاح ہی نہیں ایمان بھی ختم ہوجاتاہے، ان پرلازم ہے کہ ایمان اورنکاح دونوں کی تجدید کریں اورآئندہ کے لیے سنت نبوی کی توہین سے باز رہیں۔ داڑھی رکھنے والوں پربھی لازم ہے کہ وہ خود بھی داڑھی کا احترام اورلحاظ رکھیں یعنی ایسی حرکات اور ایسے اعمال سے اجتناب کریں جن کی وجہ سے لوگ داڑھی کی توہین کے جرم میں مبتلاء ہوں ۔

جو داڑھی کٹواتا ہو اور اس کی داڑھی حدِ شرع سے کم ہو اس کو تراویح کی امامت کرانا ہر گر جائز نہیں، ایسا شخص فاسق معلن ہے۔ فتاوی رضویہ میں ہے: داڑھی ترشوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ہے ۔ (فتاوی رضویہ: 603/6)

کچھ حفاظ رمضان آنے سے پہلے داڑھی بڑھالیتے ہیں اور بعد میں کٹوادیتے ہیں، ہرگز ایسے حفاظ تراویح کی امامت کے قابل نہیں، جب متشرع ودین دار حافظ، قاری، عالم امام موجود ہیں تو ان کی موجودگی میں ایسے افراد کو نماز تراویح کا امام بنانا ہر گز جائز نہیں، اس مسئلہ کی مزید تفصیل تفہیم المسائل 475/4پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

داڈھی رکھنا واجب ہے مگر اس کا ثبوت سنت یعنی حدیث سے ہے ۔اسی لیے بعض لوگ سنت کہ دیتے ہیں ۔چناچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ تحریر فر ماتے ہیں ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ داڈھی سنت ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلامی طریقہ ہے یا اس کا واجب ہونا حدیث سے ثابت ہوا ہی۔بلکہ ہر واجب سنت ہی سے ثابت ہوتا ہی۔جیسے کہ در مختار باب وتر میں ہے یعنی نماز وتر کے واجب ہونے کا ثبوت سنت سے ثابت ہوا ہے نہ کہ قرآن سی(لمعات شرح مشکوۃ)
داڈھی کو سنت کہنا ایسا ہے جیسے کہ قربانی کوسنت ابراہیم علیہ اسلام کہا جاتا ہے ۔پس جب کہ قربانی کو سنت ابرہیمی کہنے سے یہ قربانی فرض ہونے سے نکل کر مستحب نہیں بن جاتی ۔اسی طرح داڈھی کو سنت رسول کہدینے سییہ واجب ہونے سے نہیں نکل جاتی بلکہ اس کا منڈوانا حرام ہی رہتا ہے ۔ خالقواالمشرکین ووفرواللحی واحفو الشوارب۔ مسلم۔ مشرکین کے طریق سے خلاف رہو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو اور کم کرو مونچھوں کو ۔ جز الشوارب وارخو اللحی خالقوا المجوس ۔ بخاری ۔ کتراو مونچھوں کو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو ۔خلاف کرو مجوسیوں کے ۔ من لم یا خذ من شاربہ فلیس منا ۔ترمذی۔ جو شخص مونچھیں کم نہ کرائے وہ ہم میں سے نہیں۔عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ۔ابو داؤد وغیرہ ۔ دس چیزیں فطرت سے ہیں مونچھوں کا کٹوانا ،داڑھی کا بڑھانا ،مسواک کرنا وغیرہ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑ لیتے تھے جو حصہ زائد ہوتا تھا اس کو کتروا دیا کرتے تھے ۔

اگر غور کیا جائے تو اسی سے داڑھی رکھنے کا وجوب بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مواظبت بلا ترک فر مائی ہے یعنی ہمیشگی کے ساتھ داڑھی رکھنے کے عمل کو جاری رکھا ہے جس میں کبھی تخلف نہیں ہوا جو اصولا وجوب کی علامت ہے اگر مواظبت مع الترک ہو یعنی کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو ترک بھی فر مادیا ہو تو وہ عمل سنت کہلاتا ہے ۔ لیکن داڑھی کا رکھنا کبھی ایک ساعت کے لئے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک نہیں فر مایا اس لئے اس مواظبت بلا ترک سے ہم داڑھی رکھنے کے وجوب بھی استدلال کر سکتے ہیں ۔

حضرت حسان بن بلال رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کی تو اپنی داڑھی میں خلال بھی کیا آپ سے عرض کیا گیا یہ کیا بات ہے آپ داڑھی میں خلال فر مارہے ہیں ۔حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ،تو مجھے اپنی داڑھی میں خلال کرنے سے کون سی بات روک سکتی ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ۔ابو عیسیٰ ترمذی فر ماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما راویت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فر ماتے تھے تو رخسار مبارک کو کس قدرملا کرتے تھے پھر ''ریش مبارک'' میں انگلیاں نیچے کی طرف سے داخل کرکے جال سا بنا کر خلال کیا کرتے تھے ۔ابن سکن نے اس روایت کی تصحیح فر مائی ہے ۔ نوٹ یہ روایتیں متعدد صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے ابوداؤد، ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی، دار قطنی وغیرہ محدثین نے ذکر فر مائی ہیں ۔

جولوگ داڑھی والوں کا مذاق اس لیے اڑاتے ہیں کہ داڑھی رکھنے والوں نے اپنے چہروںپرسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوسجارکھا ہےاوروہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں توایسے لوگوں کا صرف نکاح ہی نہیں ایمان بھی ختم ہوجاتاہے، ان پرلازم ہے کہ ایمان اورنکاح دونوں کی تجدید کریں اورآئندہ کے لیئے سنت نبوی کی توہین سے باز رہیں ۔

داڑھی رکھنے والوں پربھی لازم ہے کہ وہ خود بھی داڑھی کا احترام اورلحاظ رکھیں یعنی ایسی حرکات اور ایسے اعمال سے اجتناب کریں جن کی وجہ سے لوگ داڑھی کی توہین کے جرم میں مبتلاء ہوں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔