غسل کے شرعی مسائل و احکام
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو بہت سے احباب نے میسج کیئے کہ ڈاکٹر صاحب غسل کے مسائل پر تفصیل سے لکھیں کچھ لوگ اس بارے میں غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں سو فقیر نے اس پر مختصر مگر جامع مضمون لکھ دیا ہے اہل علم کہیں غلطی پائیں تو ضرور آگاہ فرمائیں تاکہ اصلاح کی جائے۔آپ کی آراء کا منتظر ڈاکٹر فیض احمد چشتی۔
ارشادِ باری تعاليٰ ہے : وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَرُوْا . (المائدة، 5: 4)
ترجمہ : اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ ۔
غسل کا مسنون طریقہ : غسل کرنے والے کو چاہئے کہ وہ پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر بدن پر جوناپاکی لگی ہوئی ہے اس کو صاف کرے اور استنجاء بھی کرلے۔پھر مسنون طریقہ پر وضو کرے۔ وضو سے فراغت کے بعد پہلے سر پر پانی ڈالے ، پھر دائیں کندھے پر اور پھر بائیں کندھے پر پانی بہائے اور بدن کو ہاتھ سے ملے۔ یہ عمل تین بار کرلے تاکہ یقین ہوجائے کہ پانی بدن کے ہر ہر حصہ پر پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ شاور سے نہارہے ہیں تب بھی اس کا اہتمام کرلیں تو بہتر ہے ورنہ کوئی حرج نہیں۔ اگر نہانے کا پانی غسل کی جگہ پر جمع ہورہا ہے تو وضو کے ساتھ پیروں کو نہ دھوئیں بلکہ غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے علیحدہ ہوکر دھوئیں۔
غسل کے تین فرض ہیں : (1) کلی کرنا، اس طرح کہ پانی حلق کی جڑ تک پہنچ جائے۔ لیکن روزہ کی حالت میں اِحتیاط کی جائے۔ اگر حالتِ روزہ میں پانی حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا ۔ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق بعض علماء کی رائے ہے کہ یہ وضو کی طرح غسل میں بھی سنت ہیں، مگر فقہاء وعلماء کی بڑی جماعت (مثلاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ) کی رائے ہے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میں ضروری ہے اور اس کے بغیر غسل ہی نہیں ہوگا ۔ ہندوپاک کے جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے ۔ سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین نے بھی یہی کہا ہے۔ جن علماء نے ان دونوں اعمال کو سنت قرار دیا ہے، ان کے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص واجب غسل میں یہ دونوں اعمال چھوڑکر غسل کرکے نمازیں ادا کرلے تو نمازوں کا اعادہ ضروری نہیں ہے، جبکہ علماء احناف کی رائے میں نمازوں کا اعادہ ضروری ہوگا ۔
نوٹ : اگر کسی شخض کو غسل سے فراغت کے بعد یاد آیا کہ کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا ہے تو غسل کے بعد بھی جو عمل رہ گیا ہے اس کو پورا کرلے، دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کلی اور ناک میں پانی ڈالے بغیر قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور علماء کی رائے ہے کہ غسل صحیح نہیں ہوگا۔
(2) ناک میں پانی ڈالنا کہ جہاں تک نرم ہڈی ہے دُھل جائے ۔
(3) سارے بدن پر ایک بار اس طرح پانی بہانا کہ کوئی بھی جگہ خشک نہ رہ جائے۔
غسل فرض ہونے کی پانچ صورتیں ہیں
(1) خروج منی : یعنی منی کا شہوت کے ساتھ جسم سے باہر نکلنا خواہ سوتے میں ہو یا جاگتے میں ۔
(2) سوتے میں احتلام ہونا ۔
(3) جماع : یعنی مرد وعورت نے صحبت کی جس سے مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ عورت کی شرمگاہ میں چلا گیا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے ۔
نوٹ: بیوی کے ساتھ بوس وکنار کرنے میں صرف چند قطرے رطوبت کے (مذی) نکل جائیں تو اُس سے غسل واجب نہیں ہوتا ۔
(4) عورت کا حیض سے فارغ ہونا ۔
(5) نفاس ختم ہونا یعنی بچہ پیدا ہونے کے بعد آنے والے خون کا بند ہونا ۔
صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے: ان دنوں بعض حضرات نے غسل کے واجب ہونے کے دوسرے سبب کے سلسلہ میں جمہور علماء کے فیصلہ کے خلاف عام لوگوں کے سامنے کچھ شک وشبہات پیدا کردیئے ہیں ، ان حضرات کا مؤقف ہے کہ صرف صحبت کرنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے بلکہ غسل کے واجب ہونے کے لئے منی کا نکلنا بھی ضروری ہے ۔ مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر اس موضوع پر میں دلائل کے ساتھ قدرے تفصیلی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
خیر القرون سے آج تک جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کی رائے ہے کہ اگر مرد وعورت نے اس طرح صحبت کی کہ مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ عورت کی شرمگاہ میں چلا گیا تو غسل واجب ہوجائے گا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ 80 ہجری میں پیدا ہوئے مشہور فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، علماء احناف اور ہندو پاک کے جمہور علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ سعودی عرب کے بیشتر علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ ابتدائے اسلام میں اس مسئلہ میں کچھ اختلاف رہا ہے، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ازواج مطہرات سے رجوع کرنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع ہوگیا کہ محض جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے، جیسا کہ عقائد کی سب سے مشہور کتاب تحریر کرنے والے 239ھجری میں مصر میں پیدا ہوئے حنفی عالم امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
جمہور علماء کے دلائل : جمہور علماء کے متعدد دلائل ہیں، اختصار کے مدنظر صرف تین احادیث ذکر کررہا ہوں :
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد عورت کے چہار زانو میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ کوشش کی تو غسل واجب ہوگیا ۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الغسل ۔ باب اذا التقی الختانان) صحیح مسلم ۔ باب بیان الغسل کی اس حدیث میں یہ الفاظ بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) خواہ منی نہ نکلے، یعنی صرف جماع کرنے سے غسل واجب ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے (صحیح بخاری) میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث اس باب کی تمام احادیث میں عمدہ اور بہتر ہے اور ہم نے دوسری احادیث فقہاء کے اختلاف کے پیش نظر ذکر کی ہیں اور احتیاط اسی میں ہے کہ جماع کی صورت میں منی کے نہ نکلنے پر بھی غسل کیا جائے۔ غرضیکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے کہ صحبت میں منی نہ نکلنے پر بھی غسل کیا جائے۔ صحیح مسلم میں وارد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قول (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) سے مسئلہ بالکل ہی واضح ہوجاتا ہے کہ جماع میں منی نہ نکلنے پر بھی غسل واجب ہوتا ہے ۔
نوٹ : دونوں کی شرمگاہ کے صرف ملنے پر غسل واجب نہ ہوگا بلکہ مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونا ضروری ہے جیسا کہ محدثین وفقہاء وعلماء نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دیگر اقوال کی روشنی میں اس حدیث کے ضمن میں تحریر کیا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے ۔ (ترمذی ۔۔۔ ابواب الطہارۃ ۔...۔۔ باب ما جاء اذا التقی الختانان) یہ حدیث ترمذی کے علاوہ متعدد کتب حدیث میں موجود ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا کہ صحابۂ کرام (جن میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر ،حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں) کا یہی قول ہے۔ فقہاء وتابعین اور ان کے بعد علماء حضرت سفیان ثوری ، حضرت احمد اور حضرت اسحاق علیہم الرّحمہ کا قول ہے کہ جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے ۔
حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں اور حشفہ (مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ) چھپ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے ۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ) ۲۶۰ھ میں پیدا ہوئے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کی کتاب (المعجم الاوسط) میں حدیث کے الفاظ اس طرح ذکر فرمائے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں اور حشفہ (مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ) چھپ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے ۔
جن حضرات نے غسل کے واجب ہونے کے لئے منی کے نکلنے کو ضروری قرار دیا ہے، وہ عموماً صحیح مسلم میں وارد اس حدیث کو دلیل کے طور پر پیش فرماتے ہیں : (انما الماء من الماء) پانی پانی سے واجب ہوتا ہے، جس کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ غسل منی کے نکلنے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے علاوہ بھی احادیث ذکر فرمائی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل کے لئے خروج منی ضروری ہے۔ مگر امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام احادیث کو ذکر کرنے کے لئے جو اِس باب (Chapter) کا نام رکھا ہے وہ یہ ہے: (ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہے) امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے اس باب کے یہ نام رکھنے سے مسئلہ خود ہی روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ابتدائے اسلام میں غسل واجب نہ تھا بعد میں وہ حکم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منسوخ کرکے ارشاد فرما دیا کہ منی نکلے یا نہ نکلے، صرف جماع سے ہی غسل واجب ہوجائے گا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر یہ بھی تحریر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ایک حدیث دوسری حدیث کو منسوخ کردیتی ہے جس طرح قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوجاتی ہے۔ صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے امام نوویرحمۃ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا اس بات کو ذکر کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ پہلی احادیث منسوخ ہیں کیونکہ بعد کی احادیث میں صراحۃ موجود ہے کہ خواہ منی نکلے یا نہ نکلے ، محض حشفہ اندر جانے سے مردوعورت دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے اور اسی پر اجماع امت ہے ۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے یہی فرمایا کہ مردو عورت کی شرمگاہ کے ملنے سے غسل واجب ہوجاتا ہے،میں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ مشہور ومعروف صحابی اور کاتب وحی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فرمان اپنی کتاب (ترمذی) میں ذکر فرماتے ہیں : ( ابتدائے اسلام میں غسل اسی وقت فرض ہوتا تھا جب منی نکلے، یہ رخصت کے طور پر تھا، پھر اس سے منع کردیا گیا،یعنی یہ حکم منسوخ ہوگیا)۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور غسل کے واجب ہونے کے لئے ابتدائے اسلام میں منی کا نکلنا ضروری تھا، مگر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اسی طرح کئی صحابہ نے روایت کیا ہے۔ اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرے تو میاں بیوی دونوں پر غسل واجب ہوجائے گااگرچہ منی نہ نکلے۔ (ترمذی )
خلاصہ کلام : خلفائے راشدین ، کاتب وحی حضرت ابی بن کعب، حضرت عائشہ ، دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، محدثین وفقہاء وعلماء علیہم الرّحمہ کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعد میں صرف جماع سے بھی غسل واجب ہوا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب یہ مسئلہ اٹھا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جلیل القدر صحابہ کو مشورہ کے لئے طلب کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ازواج مطہرات (یعنی امہات المؤمنین) سے اس مسئلہ میں رجوع کیا جائے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب ختان ختان سے تجاوز کرجائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تصدیق کی کہ غسل کے لئے صرف مرد کی شرمگاہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونا کافی ہے ، منی نکلنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ اسی کے مطابق فیصلہ کردیا گیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اس کے خلاف میں نے کسی سے کچھ سنا تو اسے لوگوں کے لئے عبرت بنادوں گا۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (239ھ۔321 ھ) نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین نے تحریر کیا کہا ہے کہ صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے مگر بہت سارے لوگوں پر ہفتے اور مہینے گذر جاتے ہیں اور وہ اپنی بیوی سے بغیر انزال کے صحبت کرتے رہتے ہیں اور غسل نہیں کرتے ۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے ۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی حدود سے واقف ہو ۔ انسان نے اگر صحبت کی تو غسل واجب ہوگیا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے ۔ (مجموع فتاوی ورسائل الشیخ عثیمین باب الغسل ۱۱/ ۲۱۷)
انما الماء من الماء کا حکم منسوخ ہے : جہاں تک حدیث (انما الماء من الماء) کا تعلق ہے تو یا تو یہ منسوخ ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے صحبت یافتہ وکاتب وحی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے : (ابتداء اسلام میں غسل اسی وقت فرض ہوتا تھا جب منی نکلے، یہ رخصت کے طور پر تھا، پھر اس سے منع کردیا گیا یعنی یہ حکم منسوخ ہوگیا) ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ قول امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر فرما کر تحریر کیا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
یہ مسئلہ ایسا ہی ہے کہ ابتدائے اسلام میں آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضوٹوٹ جاتا تھا مگر بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا ، پہلے حکم سے متعلق احادیث بھی کتب حدیث میں موجود ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہے ۔ بڑے بڑے محدثین مثلاً امام بخاری ، امام مسلم ، امام ترمذی اور امام نووی علیہم الرّحمہ نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ اس حدیث کا تعلق احتلام سے ہے، یعنی اگر کسی شخص کو احتلام ہوجائے تو غسل واجب ہے۔ اس صورت میں اس حدیث (انما الماء من الماء) کا مطلب ہوگا کہ پانی (غسل) پانی (احتلام) کی وجہ سے واجب ہے۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث جماع کے لئے منسوخ ہوچکی ہے لیکن احتلام کے لئے اب بھی واجب العمل ہے۔ اور ایسا بکثرت ہوتا ہے کہ ایک حدیث کے بعض جزئیات منسوخ اور بعض واجب العمل ہوں۔ قرآن کریم کی بعض آیات کا حکم بھی منسوخ ہے لیکن اس کی تلاوت قیامت تک باقی رہی گی ۔
مجھے اس مسئلہ میں بہت تعجب ہوتا ہے کہ بعض حضرات جو حدیث کا علم بلند کرکے اس پر عمل کرنے کی دعوت تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں باوجودیکہ احادیث میں ہی وضاحت موجود ہے کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا لیکن 1400 سال کے بعد بھی اپنی غلطی پر مصر ہیں حالانکہ دلائل شرعیہ کی موجودگی کے باوجود احتیاط کا تقاضی بھی یہی ہے کہ غسل کو واجب قرار دیا جائے تاکہ انسان ناپاکی کی حالت میں ساری دنیا کا چکر نہ لگاتا پھرے اور اسی حال میں نماز نہ پڑھتا رہے ۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس بحث پر جو باب باندھا ہے وہ اس طرح ہے : (ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہے)۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلہ روز روشن کی طرح واضح کردیا کہ ابتدائے اسلام میں غسل واجب نہ تھا، بعد میں وہ حکم (انما الماء من الماء) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منسوخ کرکے ارشاد فرمادیا (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) منی نکلے یا نہ نکلے، صرف جماع سے غسل واجب ہوجائے گا۔ غرضیکہ محدثین کرام خاص کر امام بخاری ، امام مسلم اور امام ترمذی کی وضاحتوں سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا۔ امام نووی علیہم الرّحمہ جیسے محدث نے بھی یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور صحابہ اور ان کے بعد کے علماء نے یہی کہا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے ۔
سعودی عر ب کے مشہور عالم شیخ محمد صالح المنجد صاحب سے جب مسئلہ مذکورہ میں رجوع کیا گیا تو جواب دیاکہ علماء کا اجماع ہے کہ جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو اور انہوں نے دلیل کے طور پر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد اُس حدیث کا ذکر کیا جو میں نے جمہور علماء کے دلائل کے ضمن میں سب سے پہلے ذکر کی ہے۔ اور فرمایا کہ (ریاض الصالحین کے مصنف اور مشہور محدث) امام نوویرحمۃ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کے عورت کی شرمگاہ میں جاتے ہی غسل واجب ہوجائے گا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ بعض صحابہ کا اس میں اختلاف تھا مگر بعد میں اجماع ہوگیا جیسا کہ ذکر کیا گیا۔ اور شیخ محمد بن صالح العثیمین نے لکھا کہ یہ حدیث منی نہ نکلنے پر بھی جماع سے غسل کے واجب ہونے میں صریح ہے اور جو حضرات جماع میں انزال نہ ہونے پر غسل نہیں کرتے وہ غلطی پر ہیں۔ نیز سعودی عرب کی لجنہ دائمہ کے فتاوی (۳۱۴ / ۵) میں وارد ہے کہ عورت کی شرمگاہ میں مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کے داخل ہونے پر غسل واجب ہوجائے گا خواہ انزال ہو یا نہ ۔ سعودی عرب کے مشہور عالم شیخ محمد صالح المنجد صاحب کا یہ جواب انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے: http://islamqa.info/ar/36865
درج ذیل اوقات میں غسل کرنا سنت ہے
(1) نماز جمعہ کے لیے ۔
(2) دونوں عیدوں کی نماز کے لیے ۔
(3) احرام باندھتے وقت ۔
(4) عرفہ کے دن ۔
درج ذیل صورتوں میں غسل کرنا مستحب ہے
(1) جو آدمی پاکیزگی کی حالت میں مسلمان ہوا ہو۔
(2) جو بچہ عمر کے اعتبار سے بالغ ہو۔
(3) جو شخص جنون کے عارضہ سے صحت یاب ہوا ہو۔
(4) نشتر لگوانے کے بعد۔
(5) میت کو غسل دینے کے بعد۔
(6) شبِ برآت میں عبادت کے لیے۔
(7) لیلۃ القدر میں بطورِ خاص عبادت کے لیے۔
(8) مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لیے۔
(9) مدینہ طیبہ میں داخل ہونے کے لیے۔
(10) قربانی کے دن مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لیے۔
(11) طوافِ زیارت کے لیے۔
(12) سورج گرہن کی نماز کے لیے۔
(13) نمازِ اِستسقاء کے لیے۔
(14) خوف کے وقت۔
(15) دن میں سخت اندھیرے کے وقت۔
(16) تیز آندھی کے وقت۔
غسل کے مسائل
رمضان کی رات جنبی ہوا تو بہتر یہی ہے کہ طلوعِ فجر سے پہلے غسل کرے تاکہ روزے کا ہر حصہ جنابت سے خالی ہو۔ اگر غسل نہیں کیا تو روزہ میں کچھ نقصان نہیں۔ جنبی کا مسجد میں جانا، طواف کرنا، قرآنِ پاک کو چھونا اور پڑھنا حرام ہے۔ جنبی نے اگر درود شریف یا کوئی دعا پڑھ لی تو کوئی حرج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ وضو یا کلی کر کے پڑھے۔ جنبی کے لیے اذان کا جواب دینا جائز ہے۔ جس پرغسل واجب ہو اس کو چاہیے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے کیوں کہ جس گھر میں جنبی ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ وضو یاغسل کے لیے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنا چاہیے ۔ اگر باتھ روم میں غسل کررہے ہیں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے تو ننگے ہوکر غسل کرنا جائز ہے چاہے کھڑے ہوکر غسل کریں یا بیٹھ کر، لیکن بیٹھ کر غسل کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے ۔
اگر ناخن پالش لگی ہوئی ہے تو وضو اور غسل میں اس کو ہٹاکر وضو اور غسل کرنا واجب ہے، اگر اس کو ہٹائے بغیر کوئی عورت وضو یا غسل کرے گی تو اس کا وضو یا غسل صحیح نہیں ہوگا۔ لیکن اگر بالوں یا جسم پر منہدی لگی ہوئی ہے تو اس کے ساتھ وضو اور غسل صحیح ہے کیونکہ منہدی جسم میں پیوست ہوجاتی ہے جبکہ ناخن پالش ناخن کے اوپر رہتی ہے اور اس کو ہٹایا بھی جاسکتا ہے اور یہ پانی کو اندر تک پہنچنے سے مانع بنتی ہے ۔
غسل میں پانی کا بے جا اسراف نہ کریں، ضرورت کے مطابق ہی پانی کا استعمال کریں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پانی کی بہت کم مقدار سے غسل کرلیا کرتے تھے ۔
عورت کے حیض یا نفاس سے پاک ہونے کے بعد غسل سے فراغت کے بعد ہی صحبت کی جاسکتی ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment