نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے کرتہ مبارک سے شفاء حاصل کرنا
ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں
صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء
حدثنا يحيى بن يحيى أخبرنا خالد بن عبد الله عن عبد الملك عن عبد الله مولى أسماء بنت أبي بكر وكان خال ولد عطاء قال أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة العلم في الثوب وميثرة الأرجوان وصوم رجب كله فقال لي عبد الله أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من العلم في الثوب فإني سمعت عمر بن الخطاب يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما يلبس الحرير من لا خلاق له فخفت أن يكون العلم منه وأما ميثرة الأرجوان فهذه ميثرة عبد الله فإذا هي أرجوان فرجعت إلى أسماء فخبرتها فقالت هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت هذه كانت عند عائشة حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها ۔
ترجمہ : حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں ۔
(مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 : 1641، رقم : 2069 )( أبوداود، السنن، کتاب اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 : 49، رقم : 4054 )( بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 423، رقم : 4010)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں : وفي هذا الحديث دليل علي استحباب التبرک بآثار الصالحين وثيابهم .
ترجمہ : اس حدیث میں آثارِ صالحین اور ان کے ملبوسات سے حصولِ تبرک کے جائز و پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے ۔ (نووي، شرح علي صحيح مسلم، 14 : 44)
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی صحابیہ بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو ایک طرف، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کرتہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے ۔ (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے)
(1) کیا ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا ؟
(2) اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی ؟
خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی ؟
یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ؟
انتہائی اہم اصول : ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت
اگرچہ کی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول اہلحدیث حضرات) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے ۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں : ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا ۔
عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے ۔ (بخاری و مسلم )
اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔
مگر غیر مقلدین نام نہا اہلحدیث حضرات نے اسکا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ : اعمال کا دارومدار اُن کے ظاہر پر ہے ۔ لاحول واللہ قوۃ اللہ باللہ العلی العظیم ۔
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مدد طلب کرنے کا مطلب اُن کی شفاعت کے ذریعے مدد طلب کرنا ہے ۔
جب ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے اور باطنی نیت یہی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست ہے کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعا فرما کر ہماری مدد فرمائیں ۔
غیر مقلد نام نہاد اہلحدیث حضرات کی دوہرے معیار
اگرچہ کہ غیر مقلد نام نہاد اہلحدیث حضرات میں انتہا درجہ کی ظاہر پرستی کی بیماری پائی جاتی ہے ، مگر پھر بھی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے معاملے میں وہ اس قابل ہیں کہ اس عمل کے پیچھے چھپی ہوئی ان کی باطنی نیتوں کو سمجھ سکیں ۔ مگر جب ہمارا معاملہ آتا ہے اور ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مجازی معنوں میں مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفاعت و دعا کے ذریعے ہماری مدد فرمائیں (اور حقیقی معنوں میں ہم اللہ سے ہی مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں) تو یہی غیر مقلد نام نہاد اہلحدیث حضرات ایسی کسی باطنی نیت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تمام آیات ہم پر چسپاں کرنے لگتے ہیں جو کہ کفار اور ان کے بتوں کے لیے نازل ہوئی ہیں ۔
اور اگر اب بھی ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ، تو پھر وہ ان آیات کو جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عہم پر چسپاں کیوں نہیں کرتے ؟ مثلاً یہ آیت کہ : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۔
ترجمہ : ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تچھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔
اور اسی طرح قران کو وہ تمام آیات بھی ان پر چسپاں کیوں نہیں کرتے جس میں اللہ فرما رہا ہےکہ اللہ کے سوا کوئی انہیں نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان ۔
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ۔ (القران 21:66)
ترجمہ : (ابراہیم نے) کہا، „تو کیا تم اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں کسی قسم کا فائدے پہنچا سکیں اور نہ نقصان ؟
اگر یہ دہرا معیار اور منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
No comments:
Post a Comment