نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس کی زیارت تعظیم اور وسیلہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ (یعنی اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انہیں قبرستان کی طرح ویران نہ رکھو) اور نہ ہی میری قبر کو عیدگاہ بناؤ (کہ جس طرح عید سال میں دو مرتبہ آتی ہے اس طرح تم سال میں صرف ایک یا دو دفعہ میری قبر کی زیارت کرو بلکہ میری قبر کی جس قدر ممکن ہو کثرت سے زیارت کیا کرو) اور مجھ پر (کثرت سے) درود بھیجا کرو پس تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔اس حدیث کو امام ابو داود، احمد، ابن ابی شیبہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام نووی نے فرمایا کہ اسے امام ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر نے بھی ان کی تائید کی ہے۔.
(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2042، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 367، الرقم : 8790، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 150، الرقم : 7542، 3 / 30، الرقم : 11818، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 81، الرقم : 8030، والبزار عن علي رضی الله عنه في المسند، 2 / 147، الرقم : 509، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 491، الرقم : 4162، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم : 7307، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1 / 44، الرقم : 27، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 13 / 516، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 316)
حضرت ابو جوزاء اوس بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے، تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی، یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہٰذا اس سال کا نام ہی عَامُ الْفَتْق (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔
(أخرجه الدارمي في السنن، باب : (15) : ما أکرم اﷲ تعالی نبيه صلی الله عليه وآله وسلم بعد موته، 1 / 56، الرقم : 92، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 4 / 400، الرقم : 5950، وابن الجوزي في الوفاء بأحوال المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم، 2 / 801، وتقي الدين السبکي في شفاء السقام، 1 / 128، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 4 / 276، والزرقاني في شرحه، 11 / 150)
حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے تو ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر اطہر پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ (اﷲ تعالیٰ سے) اپنی اُمت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے تو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن تمہاری جان لینے کے درپے ہیں ان سے) ہوشیار رہو، ہوشیار رہو۔ پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اﷲ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ کسی کام میں عاجز ہو جاؤں۔اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے۔ امام ابن کثیر نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔ امام عسقلانی نے بھی فرمایا کہ امام ابن ابی شیبہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 130، والهندي في کنز العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تيمية في اقتضاء الصراط المستقيم، 1 / 373، وابن کثير في البداية والنهاية، 5 / 167، وقال : إسناده صحيح، والعسقلاني في الإصابة، 3 / 484)
حضرت داؤد بن ابو صالح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز (خلیفہ وقت) مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا چہرہ جھکائے ہوئے ہے، تو اس نے اس آدمی سے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ (صحابی رسول) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے (جواب میں) فرمایا : ہاں (میں جانتا ہوں) میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں اور کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : میں کسی تاریک جگہ پر نہیں آیا) میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : دین پر مت رؤو جب اس کا ولی اس کا اہل ہو، ہاں دین پر اس وقت رؤو جب اس کا ولی نا اہل ہو۔اس حدیث کو امام احمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 422، الرقم : 23632، والحاکم في المستدرک، 4 / 560، رقم : 8571، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 158، الرقم : 3999، وفي المعجم الأوسط، 1 / 94، الرقم : 284، 9 / 144، الرقم : 9366، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 57 / 249، 250، والسبکي في شفاء السقام1 / 113، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 245، والهندي في کنز العمال، 6 / 88، الرقم : 14967)
حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے قریب ایک بڑے سوراخ کی طرف آتا اور اس میں داخل ہو کر دعا مانگتا۔ تو انہوں نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے اپنے والد سے سنی، انہوں نے اسے اپنے باپ سے انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (سن کر) اسے روایت کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری قبر کو عیدگاہ نہ بناؤ اور نہ ہی اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ اور مجھ پر (کثرت سے) درود بھیجا کرو بے شک تمہارا درود، تم جہاں کہیں بھی ہو، مجھے پہنچ جاتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا سلام مجھے پہنچ جاتا ہے۔اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں مذکور راوی حفص بن ابراہیم کو ابن ابی حاتم نے بھی اپنی سند میں ذکر کیا ہے اور ان میں کوئی جرح ذکر نہیں کی، اور اس حدیث کے بقیہ راوی بھی ثقہ ہیں ۔
(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 150، الرقم : 7542، 3 / 30، الرقم : 11818، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 71، 577، الرقم : 4839، 6726، وأبو يعلی في المسند، 1 / 361، الرقم : 469، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13 / 26، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 35، الرقم : 20، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 49، الرقم : 428، والعسقلاني في المطالب العالية، 7 / 159، الرقم : 1324، وفي لسان الميزان، 2 / 106، الرقم : 432، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 4 / 483، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 3، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 516، والعظيم آبادي في عون المعبود، 6 / 24، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 2 / 24، الرقم : 143)
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری زندگی بھی تمہارے لئے خیر ہے کیونکہ (بذریعہ وحی الٰہی اور میری سنت) تمہیں نئے نئے احکام ملتے ہیں اور میری وفات بھی تمہارے لئے خیر ہے کیونکہ (میری قبر میں بھی) تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوا کریں گے۔ چنانچہ اگر نیکیاں (تمہاری) دیکھوں گا تو اﷲ کا شکر بجا لایا کروں گا اور اگر برائیاں دیکھوں گا تو تمہارے لئے اﷲ تعالیٰ سے استغفار کیا کروں گا ۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه البزار في المسند، 5 / 308، الرقم : 1925، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 38. 39، الرقم : 25. 26، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 194، والشاشي في المسند، 2 / 253، الرقم : 826، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 183، الرقم : 686، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 24، والحارث في المسند، 2 / 884، الرقم : 953)
حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے (اور سمجھنے) کی قوت عطاء فرمائی ہے، پس روزِ قیامت تک جو بھی مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود پڑھنے والے کا نام اور اس کے والد کا نام مجھے پہنچائے گا، اور عرض کرے گا : یا رسول اﷲ! فلاں بن فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔اس حدیث کو امام بزار نے اور بخاری نے ’’التاریخ الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں ابن حمیری راوی ہے میں اسے نہیں جانتا اس کے علاوہ تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔ امام ابو شیخ ابن حبان کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے، جسے اﷲ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے (اور سمجھنے) کی قوت عطا فرمائی ہے، پس وہ فرشتہ میری قبر پر کھڑا ہے، جب سے میں نے اس دنیا سے (ظاہراً ) پردہ کیا ہے، وہ قیامت تک کھڑا رہے گا۔ پس میری اُمت میں سے جو بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے، وہ فرشتہ اس کا نام اور اس کے باپ کا نام مجھے بتاتا ہے، اور یوں کہتا ہے، اے محمد! فلاں شخص نے آپ پر درود بھیجا ہے، پس اﷲ تعالیٰ اس شخص پر ہر ایک درود کے بدلے میں دس رحمتیں بھیجے گا۔
(أخرجه البزار في المسند، 4 / 255، الرقم : 1425، 1426، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 416، الرقم : 2831، وابن حيان في العظمة، 2 / 762، الرقم : 1، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2574، وقال : رواه الطبراني في الکبير بنحوه، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 249، الرقم : 678، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162، وقال : رواه الطبراني، والمناوي في فيض القدير، 2 / 483، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 2 / 497، والحارث في المسند، 2 / 962، الرقم : 1063)
حضرت قاسم (بن محمد بن ابو بکر الصدیق) رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : اماں جان! میرے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں ساتھیوں (یعنی حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما) کی قبر انور بھی کھول دیں، انہوں نے میرے لیے تینوں مقدس قبور (کا دروازہ) کھول دیا جو کہ نہ بہت بلند تھیں اور نہ ہی بالکل زمین سے ملی ہوئی۔ اور ان کے اوپر میدان کی سرخ کنکریاں ڈالی ہوئی تھیں۔ امام ابو علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کہ بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سب سے آگے ہے اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور کے پاس ہیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سر مبارک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک میں ہے ۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ حضرت ابن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے عرض کیا کہ وہ اس کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ اقدس کھول دیں۔ تو انہوں نے اس عورت کے لئے روضہ اقدس کھول دیا تو وہ عورت (روضہ اقدس کے پاس) اتنا روئی کہ (فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ) اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے کتاب الزھد میں روایت کیا ہے۔
(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الجنائز، باب : في تسوية القبر، 3 / 215، الرقم : 3220، وأبو يعلی في المسند، 8 / 53، الرقم : 4571، والحاکم في المستدرک، 1 / 524، الرقم : 1368، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 3، الرقم : 6549، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 209، والنميري في أخبار المدينة، 2 / 93، الرقم : 1628، وأحمد بن حنبل في الزهد، 1 / 369، والوادياشي في تحفة المحتاج، 1 / 610، الرقم : 823، والمزي في تهذيب الکمال، 22 / 158، والزيلعي في نصب الرأية، 2 / 304، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 257، وفي الدراية، 1 / 242، وابن حزم في المحلی، 5 / 134، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 204، الرقم : 303، والشوکاني في نيل الأوطار، 4 / 129)
حضرت نبیہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا۔ حضرت کعب ص نے کہا : جب بھی دن نکلتا ہے ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اقدس کو (اپنے نورانی وجود سے) گھیر لیتے ہیں اور قبر اقدس پر (حصول برکت و توسل کے لئے) اپنے پَر مس کرتے ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود (و سلام) بھیجتے ہیں اور شام ہوتے ہی آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے مزید اُترتے ہیں اور وہ بھی دن والے فرشتوں کی طرح کا عمل دہراتے ہیں۔ حتی کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک (روزِ قیامت) شق ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں (میدانِ حشر میں) تشریف لائیں گے۔
(أخرجه الدارمي في السنن، باب : ما أکرم اﷲ تعالی نبيه بعد موته، 1 / 57، الرقم : 94، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 492، الرقم : 4170، وابن حيان في العظمة، 3 / 1018، الرقم : 537، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 390، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، في قول اﷲ تعالی : هو الذي يصلي عليکم وملائکته. . . الخ 3 / 518)
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری قبر کی زیارت کی (روزِ قیامت) اس کے حق میں میری شفاعت واجب ہو گئی۔.
(أخرجه الدار قطني في السنن، 2 / 278، الرقم : 194، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 490، الرقم : 4159، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2، وَقَالَ الهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ البَزَّارُ، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 2 / 67)
حضرت ابو حرب ہلالی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے فریضہ حج ادا کیا، پھر وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر آیا، وہاں اپنی اونٹنی بٹھا کر اسے باندھنے کے بعد وہ مسجد میں داخل ہو گیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک کی جانب کھڑا ہو گیا اور عرض کیا :اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ.
پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنھما کی خدمت میں سلام عرض کیا، پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے روضہ اقدس) کی جانب (دوبارہ) بڑھا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں گناہوں اور خطاؤں سے لدا ہوا آپ کے دربار میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ کے رب کی بارگاہ میں آپ کو اپنی بخشش کا وسیلہ بنا سکوں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ پاک میں فرمایا ہے : ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ اور (یا رسول اللہ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں آپ کے پاس گناہوں اور خطاؤں سے لدا ہوا آیا ہوں، اور میں آپ کے رب کے حضور آپ کو اپنا وسیلہ بناتا ہوں اور یہ (عرض ہے) کہ آپ (اپنے رب کی بارگاہ میں) میرے حق میں سفارش فرمائیں، پھر وہ صحابہ کے ایک بڑے گروہ کی طرف بڑھا (جو کہ اسے دیکھ رہے تھے) اور (ان اشعار میں اپنے دل کی کیفیت) بیان کرنے لگا :اے وہ بہترین (ہستیو!) جن کی مبارک استخوان اس (با برکت) زمین میں مدفون ہیں، پس ان (کے جسدِ اقدس) کی پاکیزہ خوشبو سے اس زمین کے ٹکڑے اور ٹیلے بھی معطر و پاکیزہ ہیں، (یا رسول اللہ!) میری جان اس روضہ اقدس پر فدا ہو جس میں آپ آرام فرما ہیں اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی) اس قبر انور میں (بھی اسی طرح) پاکدامنی اور جود و کرم کا سرچشمہ اور منبع ہیں (جیسے اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھے)۔
علامہ ابن قدامہ اور ابن کثیر نے بیا ن کیا ہے کہ (ثقہ اصحاب کی) ایک جماعت نے حضرت عتبی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، ان میں شیخ ابو منصور صباغ بھی اپنی کتاب الشامل الحکایۃ المشہورۃ میں بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی قبر انور پر حاضر ہوا اور عرض کیا :اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ.(پھر عرض کیا : ) میں نے اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا ہے : ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ اور (یا رسول اللہ!) بے شک میں آپ کے پاس اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے اور اپنے رب کے ہاں آپ کو وسیلہ بنانے کے لیے آیا ہوں۔ پھر وہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے) ان اشعار میں اپنا حال دل عرض کرنے لگا : اے وہ بہترین ہستیو! جن کی مبارک استخوان اس (با برکت) زمین میں مدفون ہیں، پس ان (کے جسدِ اقدس) کی پاکیزہ خوشبو سے اس زمین کے ٹکڑے اور ٹیلے بھی معطر و پاکیزہ ہیں، (یا رسول اللہ!) میری جان اس روضہ اقدس پر فدا ہو جس میں آپ آرام فرما ہیں اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی) اس قبر انور میں پاکدامنی اور جود و کرم کا سرچشمہ اور منبع ہیں (جیسے اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھے)۔پھر (حضرت عتبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) وہ اعرابی (روتا ہوا وہاں سے) چلا گیا اور میری آنکھ لگ گئی، تو میں اسی وقت خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : اے عتبی! فوراً اس اعرابی کے پاس جاؤ اور اسے یہ خوشخبری سناؤ کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے۔
(أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 495، الرقم : 4178، وابن قدامة في المغني، 3 / 298، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 521، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 570)
امام ابن قدامہ نے اس حدیث کی تخریج کے بعد (روضہ انور کی زیارت کے آداب بیان کرتے ہوئے) یہ اضافہ فرمایا ہے کہ (اے زائر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!) پھر تو قبر انور کے پاس آ اور قبلہ کی طرف پشت کر کے اور قبرِ انور (کی طرف منہ کر کے حجرہ مبارک) کے وسط میں کھڑا ہو جا اور یوں عرض کر :اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا نَبِيَّ اﷲِ وَخِيْرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ.سلام کے بعد (یوں عرض کرے یا رسول اﷲ!) میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اپنے رب کے پیغامات کو بندوں تک (نہایت احسن طریقہ سے) پہنچا دیا ہے، اور آپ نے ہمیشہ اپنی اُمت کی خیر خواہی چاہی، اور لوگوں کو اپنے رب تعالیٰ کے راستے کی طرف اور حکمت اور موعظتِ حسنہ کے ساتھ دعوت دی۔ اور آپ نے اپنے پروردگار کی اس قدر عبادت کی کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو حق الیقین کی دولت سے نواز دیا۔ پس اﷲ تعالیٰ آپ پر (اپنی شان کے لائق) بے پناہ درود و سلام بھیجے جیسا ہمارا رب چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے۔اے ہمارے اﷲ! تو ہماری طرف سے ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ افضل ترین جزاء عطا فرما جو تو نے انبیاء و رسل میں سے کسی کو بھی عطا (نہیں) فرمائی ہے۔ اور انہیں اس مقامِ محمود پر پہنچا دیا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا تھا اور جس پر اگلے اور پچھلے (انبیاء و اولیائ) تمام لوگ رشک کرتے ہیں۔ اے اﷲ! تو درود بھیج محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔ اے اﷲ! بے شک تو نے ہی یہ فرمایا ہے اور تیرا فرمان (یقینا) حق ہے : ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ اور (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں براہِ راست توسل کرتے ہوئے یوں عرض کرے) (یا رسول اللہ!) بے شک میں آپ کے پاس اپنے گناہوں کی معافی اور آپ کو اپنے رب کے ہاں وسیلہ بنا کر مغفرت طلب کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، اے میرے رب! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے لئے مغفرت کو اسی طرح واجب کر دے جس طرح تو نے اس شخص کے لئے واجب کی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (گناہوں کی مغفرت کے لئے) حاضر ہوا (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب بھی اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ کی طرح ہی جلوہ افروز ہیں۔) اے اﷲ! میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روز محشر سب سے پہلا شفاعت کرنے والا اور تیری بارگاہ میں سب سے کامیاب (و احسن انداز میں) سوال کرنے والا بنا اور اے رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے رب! تو اپنی رحمت کے وسیلہ جلیلہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگلوں اور پچھلوں (انبیاء و اولیاء) میں سب سے معزز بنا۔پھر اپنے والدین، بہن بھائیوں، اور تمام مسلمانوں کے لئے دعا مانگے، پھر تھوڑا سا آگے بڑھے اور (حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما کے مزارات پر کھڑے ہو کر) یوں عرض کرے : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّيْقَ. اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا عُمَرَ الْفَارُوْقُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمَا يَا صَاحَبَي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَضَجِيْعَيْهِ وَوَزِيْرَيْهِ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ. اَللَّهُمَّ اجْزَهُمَا عَنْ نَبِّیِهِمَا وَعَنِ الإِسْلَامِ خَيْرًا. سَلَامٌ عَلَيْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ.
(اے ابوبکر صدیق آپ پر سلامتی ہو، اے عمر فاروق آپ پر سلامتی ہو، اے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں محبوب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب میں آرام کرنے والے اصحاب! اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں وزیرو! آپ پر سلامتی اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ اے اﷲ! انہیں (یعنی حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما) ان کے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی طرف سے جزائے خیر عطا فرما۔ پس آپ پر سلامتی ہو آپ کے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ )
(پھر یوں عرض کرے : ) اے اﷲ! اے تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! میری اس زیارت کو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور اپنی مسجد کے حرم کی آخری زیارت نہ بنا (بلکہ بار بار مجھے حاضری کی توفیق عطا فرما)۔
امام مالک علیہ الرحمۃ نے حضرت عبد اﷲ بن دینار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما کو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس کھڑے ہو کر بار ہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما پر درود و سلام بھیجتے ہوئے دیکھا۔
(أخرجه مالک في الموطأ، 1 / 166، الرقم : 397، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 83، الرقم : 98، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 245، الرقم : 10052، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 210، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 / 323، الرقم : 368، وفي التمھيد، 17 / 304، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 587، الرقم : 1480، والزرقاني في شرحه، 1 / 477)
حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما جب اپنے کسی سفر سے واپس لوٹتے تو (سب سے پہلے) مسجد نبوی میں دو رکعت نفل نماز ادا کرتے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر حاضری دیتے اور اپنا دائیاں ہاتھ قبرِ انور پر رکھتے اور قبلہ کی طرف پشت کر لیتے اور پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنھما کی خدمت میں سلام عرض کرتے۔اور امام ذہبی نے فرمایا کہ حضرت نافع سے مراد حضرت ابو عبد اﷲ مدنی رضی اللہ عنہ ہیں جو کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما کے آزاد کردہ غلام اور نہایت جلیل القدر تابعی، ثقہ، ثبت اور مشہور فقیہ ہیں، اور ان کا وصال سن 117 ھ یا اس کے بھی بعد ہوا۔اور ایک روایت میں حضرت نافع رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما کو 100 سے بھی زائد مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر (باقاعدگی سے حاضر ہو کر) سلام عرض کرتے دیکھا ہے۔ آپ روضہ اقدس پر حاضر ہو کر یوں سلام عرض کرتے : اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، اَلسَّلَامُ عَلَی أَبِي بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَی أَبِي. اس کے بعد آپ کہیں اور تشریف لے جاتے۔
(أخرجه الجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 84، الرقم : 101، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 586، الرقم : 1477، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 308، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 5 / 95. 101)
حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما جب کبھی کہیں باہر جانے کا ارادہ فرماتے تو (سب سے پہلے) مسجد نبوی میں جا کر نوافل ادا کرتے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہوتے اور یوں سلام عرض کرتے : ’’اَلسَّلَامُ عَلََيْکُمْ يَا رَسُوْلَ اﷲِ‘‘ اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا أَبَا بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا أَبَتَاهُ‘‘ پھر جہاں کہیں تشریف لے جانا ہوتا وہاں جاتے اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو بھی آپ اپنے گھر میں داخل ہونے سے قبل روْضہ انور پر اسی طرح سلام عرض کرنے تشریف لے جاتے۔ (اور پھر اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے)۔اور ایک روایت میں حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما اپنے کسی سفر سے واپس لوٹتے، توسب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے اور بلندی درجات کے لئے دعا کرتے، لیکن (ازرائے ادب و تعظیم) قبر انور کو مَس نہ کرتے، پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سلام عرض کرتے، پھر (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضر ہو کر) یوں سلام عرض کرتے : اے میرے ابا جان! آپ پر سلامتی ہو۔امام ذہبی نے فرمایا کہ حضرت نافع سے مراد حضرت ابو عبد اﷲ مدنی رضی اللہ عنہ ہیں جو کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں اور نہایت جلیل القدر تابعی، ثقہ، ثبت اور مشہور فقیہہ ہیں اور ان کی وفات سن 117 ھ یا اس کے بھی بعد ہوئی۔‘‘
امام عسقلانی نے فتح الباری میں بیان کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر شریف کو چومنے کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے ۔۔۔ اور اسی طرح مکہ کے شافعی علماء میں سے ایک جید حضرت عالم ابو صیف یمانی رحمۃ اﷲ علیہ سے بھی قرآن پاک، اَحادیث مبارکہ کے اجزاء اور قبورِ صالحین تک کو چومنے کا جواز بھی منقول ہے اور اﷲ تعالیٰ جسے توفیق عطا فرماتا ہے (وہی پر اچھے اعمال بجا لاتا ہے)۔
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک دن وہ مسجد نبوی کی طرف گئے تو وہاں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس بیٹھ کر زار و قطار روتے ہوئے پایا۔۔۔الحديث۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، طبری، حاکم، طبرانی، قضاعی اور ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
(أخرجه ابن أبي شيبة في المنصف، 3 / 28، الرقم : 11793، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 576، الرقم : 6724، والجهضمي في فضل الصلاة علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 84، الرقم : 99. 100، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 245، الرقم : 10051، وفي شعب الإيمان، 3 / 487، 490، الرقم : 4150، 4161، وابن سعد فی الطبقات الکبری، 4 / 156، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 586، الرقم : 1474، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 5 / 95. 101، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 475، والشوکاني في نيل الأوطار، 5 / 115، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 570، والعيني في عمدة القاري، 8 / 70، الرقم : 22)ایک روایت میں امام محمد بن منکدر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے قریب (زار و قطار) روتے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ وہ کہتے جا رہے تھے : ’’(یہی درِ محبوب ہے) جہاں (نذرانہ محبت) آنسوؤں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔
(أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب من ترجی له السلامة من الفتن، 2 / 1320، الرقم : 3989، والحاکم في المستدرک، 1 / 44، الرقم : 4، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 491، الرقم : 4163، والطبري في تهذيب الآثار، 2 / 795، الرقم : 1118، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 147، الرقم : 1071، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 153. 154، الرقم : 321. 322، والرازي في الفوائد، 1 / 22، الرقم : 28، وابن أبي الدنيا في الأولياء، 1 / 11، الرقم : 6، والقرشي في التواضع والخمول، 1 / 28، الرقم : 8، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 146، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 448، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 570)
حضرت عبد اﷲ بن منیب بن عبد اﷲ بن ابی امامہ رضی اللہ عنہم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی طرف آتے ہوئے اور پھر وہاں ٹھہرتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ آپ نماز پڑھنے لگے ہیں (لیکن وہ روضہ انور پر سلام عرض کر رہے تھے) پھر وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے بعد وہاں سے تشریف لے گئے۔
(أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 491، الرقم : 4164، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 586، الرقم : 1473، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 570)
حضرت سلیمان بن سحیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو عرض کیا : یارسول اﷲ! یہ لوگ جو آپ کی قبرِ انور پر سلام پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں، کیا آپ ان کا سلام سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (بارگاہِ الٰہی میں اُن کی شفاعت بھی کرتا ہوں)، اور میں خود ان کے سلام کا جواب بھی دیتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
(أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 491، الرقم : 4165، وأيضا في حياة الأنبياء في قبورهم، 1 / 20، الرقم : 19، وأيضا في ما ورد في حياة الأنبياء بعد وفاتهم، 1 / 3، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 576، الرقم : 1444، والسمهودي في خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 42، واليسوطي في الدر المنثور، 1 / 570، والصالحي في سبل الهدی والرشاد، 12 / 357، وابن منظور في مختصر تاريخ دمشق، 1 / 307)
حضرت ابن ابی فدیک سے روایت ہے کہ میں نے بعض (تابعین) سے سنا انہوں نے فرمایا کہ ہمیں (صحابہ کرام سے) یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس حاضر ہو کر یہ آیت کریمہ : ’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبيِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘ تلاوت کرے اور ساتھ ہی ستر مرتبہ یہ بھی پڑھے : ’’صَلَّی اﷲُ عَلَيْکَ يَا مُحَمَّدُ‘‘ (اے محمد مصطفی! اﷲ تعالیٰ آپ پر (اپنی شان کے لائق بے شمار) رحمتیں نازل فرمائے۔‘‘ تو (اس کے فارغ ہونے سے قبل) ایک فرشتہ اسے جواب دے گا : اے فلاں درود بھیجنے والے! اﷲ تعالیٰ تجھ پر بھی درود (بصورتِ رحمت) بھیجے، اور تمہاری کوئی حاجت ایسی باقی نہ رہے جو پوری نہ ہو۔
(أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 492، الرقم : 4169، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 585، الرقم : 1471، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1 / 220، الرقم : 347، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 570)
اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الشِّفا میں بیان کرتے ہیں کہ امام اسحاق بن ابراہیم فقیہ بیان کرتے ہیں کہ اور وہ چیز جو آج بھی ہر حج کرنے والے شخص کی شان ہے کہ جب وہ مدینہ منورہ سے گزرے، (تو لازمًا) مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز کا قصد کرے، اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ انور سے، منبر مبارک سے، قبر انور سے، مجلس مبارک سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس سے مَس شدہ اشیاء سے، اور ان چیزوں سے جنہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک کا بوسہ لینے کا شرف حاصل ہوا، اور اس ستون سے جس کے ساتھ ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تھے، اور جس پر حضرت جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر حاضر ہوتے تھے، اور ان (تمام) مقامات سے جن کا قصد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ مسلمین نے کیا ہے (وہ بھی بالالتزام اور رغبت قلبی کے ساتھ ان سے) برکت حاصل کرے، اور ان تمام چیزوں کو صمیم قلب سے (بابرکت) اور صحیح تر جانتے ہوئے ان سے (حصولِ تبرک و توسّل کرے)۔
حضرت ابو اسحاق قرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں مدینہ منورہ میں ہمارے پاس ایک آدمی تھا جب وہ کوئی ایسی برائی دیکھتا جسے وہ اپنے ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس آتا اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں یوں) عرض کرتا :اے (سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) صاحب قبر! (اور اپنی قبور میں آرام فرما) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں رفقاء! اور اے ہمارے مددگار (اور ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کاش آپ ہماری (اس ناگفتہ بہ حالتِ زار پر) نظر کرم فرمائیں۔(أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 495، الرقم : 4177)
حضرت یزید بن ابو سعید مقبری علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب وہ شام کے خلیفہ تھے، تو (وقتِ رخصت) جب میں نے انہیں الوداع کہنے لگا تو انہوں نے فرمایا : مجھے آپ سے ایک کام ہے، اور وہ یہ کہ جب آپ مدینہ منورہ جائیں اور (دور سے) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کی زیارت کرتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میری طرف سے سلام عرض کرنا۔ اور حضرت عبد اﷲ بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک ثقہ شخص نے بتایا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ملک شام سے حضرت سلیمان بن سحیم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کرتے تھے۔ (کہ میری طرف سے روضہ انور پر حاضر ہو کر خصوصی سلام عرض کریں)۔اور ایک روایت میں حضرت حاتم بن مردان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس پر سلام عرض کرنے کے لئے خصوصی قاصد مدینہ منورہ روانہ فرمایا کرتے تھے۔ اس روایت کو امام بیہقی نے ذکر کیا ہے۔
(أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 491. 492، الرقم : 4166. 4167، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 585، الرقم : 1472، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 65 / 204، وابن حزم في المحلی، 9 / 516، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 570)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (شخص) میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے، میں خود اسے سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے، تو (اسے میں خود بھی سنتا ہوں اور بارگاہ الٰہی سے) اس کے لیے ایک فرشتہ بھی مقرر ہے جو میری خدمت میں وہ (تحفہ) درود پہنچاتا ہے، اور یہ درود اس بھیجنے والے کے لئے دنیا وآخرت کے معاملات کا کفیل ہو جاتا ہے، اور (قیامت کے روز) میں خود اس درود پڑھنے والے کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا۔
(أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 489، الرقم : 4156، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3 / 292، والهندي في کنز العمال، 1 / 498، الرقم : 2197)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (شخص) میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے میں بذاتِ خود اسے سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ (بھی) مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (شخص) میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے میں خود اسے سنتا ہوں، (اور جواب بھی دیتا ہوں) اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے، تو اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر ہے، جو مجھے وہ درود پہنچاتا ہے اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ بھی مجھے بتا دیا جاتا ہے۔
(أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 218، الرقم : 1583، والزيلعي في تخريج الأحاديث الآثار، 3 / 135، والذهبي في ميزان الاعتدال، 6 / 328، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 516، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 488، والهندي في کنز العمال، 1 / 492، الرقم : 2165، والمناوي في فيض القدير، 6 / 170، والعظيم آبادي في عون المعبود، 6 / 21. 22، وقال : وأخرج أبو بکر ابن أبي شيبة والبيهقي، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 654، وفي شرحه علی سنن النسائي، 4 / 110)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment