Saturday, 20 January 2018

معجزہ کسے کہتے ہیں ؟

معجزہ کسے کہتے ہیں ؟

علامہ علی بن محمد بن علی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَمْرٌخَارِقٌ لِّلْعَادَۃِ مِنْ قِبَلِ شَخْصٍ مُقَارِنٍ لِّدَعْوَی النُّبُوَّۃِ ۔ (کتاب التعریفات ص129، وکذا فی النبراس)
ترجمہ : وہ خلاف عادت کام جوایسے شخص سے ظاہر ہوجودعویٔ نبوت کرتاہو‘اسے معجزہ کہتے ہیں ۔

علامہ نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المعجزہ ھی امر یظاھر بخلاف العادۃ علیٰ ید مدعی النبوۃ عند تحدی المنکرین علیٰ وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ ۔
(شرح العقائد للنسفی:ص146)
ترجمہ : یعنی معجزہ وہ امر ہے جو خلاف معمول اور عادت جاریہ کے خلاف ایسے شخص کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو اپنے دعویٰ نبوت میں سچا ہواور ایسے وقت میں ظاہر ہو کہ جب وہ منکرین کو اس کی مثل لانے کا چیلنج دے اور وہ نہ لاسکیں یعنی اس سے عاجز آجائیں ۔

معجزہ و کرامت دونوں حقیقت میں ایک ہی آفتاب توحید و رسالت کی کرنیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر خلاف عقل و خرد اور خلاف عادت فعل کسی نبی سے فعل صادر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں اور کسی غیر نبی یا ولی سے ظاہر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں، ان دونوں کے پیچھے فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہی کار فرما ہے۔

لفظِ معجزہ کا مادّۂ اِشتقاق : عَجِزَ، یَعْجَزُ عَجْزًا ہے، جس کے معنی : ’’کسی چیز پر قادِر نہ ہونا‘‘، ’’کسی کام کی طاقت نہ رکھنا‘‘ یا ’’کسی اَمر سے عاجز آ جانا‘‘ وغیرہ ہیں۔ محاورۂ عرب میں کہتے ہیں : عَجِزَ فُلَانٌ عَنِ الْعَمَلِ ’’ فُلاں آدمی وہ کام کرنے سے عاجز آ گیا‘‘۔ ای کبر و صار لا یستطیعہ فھو عاجزٌ (المنجد : 488) یعنی اُس کام کا بجا لانا مشکل بھی ہے اور وہ اُس کام کو کرنے کی اِستعداد بھی نہیں رکھتا۔ ۔ ۔ اُسے رُو بہ عمل لانے کی بنیادی صلاحیت اُس میں موجود نہیں، اِس لئے وہ یہ کام کرنے سے عاجز ہے۔ المفردات میں اِمام راغب اِصفہانی معجزے کا مفہوم بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں : و العجز أصله التّأخرعن الشئ‘ و حصوله عند عجز الأمر‘ أی : مؤخره. . . و صار فی التّعارف ، إسماً للقصور عن فعل الشئ‘ وهو ضد القدرة.
ترجمہ : ’’عجز‘‘ کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانے یا اُس کے ایسے وقت میں حاصل ہونے کے ہیں جبکہ اُس کا وقت نکل چکا ہو۔ ۔ ۔ عام طور پر یہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ ’’القدرۃ‘‘ کی ضد ہے۔
(المفردات‘ بذيل عجز : 547)

معجزہ کا اِصطلاحی مفہوم : مختلف اَدوار میں اَربابِ علم و فن نے معجزہ کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں۔ چند اہم تعریفات یہ ہیں :

أمر خارق العادة يعجز البشر عن أن يأتوا بمثله . (المنجد : 488)
معجزہ اُس خارقُ العادت چیز کو کہتے ہیں جس کی مِثل لانے سے فردِ بشر عاجز آ جائے۔

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : إعلم أنّ معنٰی تسميتنا ماجاء ت به الأنبياء معجزة هو أن الخلق عجزوا عن الإتيان بمثلها.(الشفاء، 1 : 349)
یہ بات بخوبی جان لینی چاہئے کہ جو کچھ انبیاء علیھم السلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اُسے ہم نے معجزے کا نام اِس لئے دیا ہے کہ مخلوق اُس کی مِثل لانے سے عاجز ہوتی ہے۔

اِمام خازن رحمۃ اللہ علیہ معجزہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : المعجزة مع التحدّی من النبی قائمة مقام قول اﷲ عزّوجلّ :’’صَدَقَ عَبْدِيْ فَأَطِيْعُوْه وَ
اتَّبَعُوْه‘‘ و لأن معجز النبی شاهدٌ علٰی صدقه فيما يقوله و سُمِّيت المعجزةُ معجزةً لأن الخلق عجزوا عن الإتيانِ بمثلها . (تفسير الخازن، 2 : 124)
معجزہ اللہ کے نبی اور رسول کی طرف سے (جملہ اِنسانوں کے لئے) ایک چیلنج ہوتا ہے اور باری تعالیٰ کے اِس فرمان کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ : میرے بندے نے سچ کہا، پس تم اُس کی (کامل) اِطاعت اور پیروی کرو‘‘۔ اِس لئے کہ نبی و رسول کا معجزہ جو کچھ اُس نے فرمایا ہوتا ہے اُس کی حقّانیت اور صداقت پر دلیلِ ناطق ہوتا ہے اُسے (عرفاً و شرعاً) معجزہ کا نام اِس لئے دیا گیا ہے کہ اُس کی مِثل (نظیر) لانے سے مخلوقِ اِنسانی عاجز ہوتی ہے۔

المعجزة عبارةٌ عن إظهار قدرة اﷲ سبحانه و تعالٰی و حکمته علٰی يد نبی مرسل بين أُمّته بحيث يعجز أهل عصره عن إيراد مثلها . (معارج النبوة، 4 : 377)

معجزہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا اُس کے برگزیدہ نبی کے دستِ مبارک پر اِظہار ہے تاکہ وہ اپنی اُمت اور اہلِ زمانہ کو اُس کی مِثل لانے سے عاجز کر دے۔

ابوشکورسالمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی معجزہ کی بڑی جامع تعریف کی ہے، فرماتے ہیں : حد المعجزة أن يظهر عقيب السوال و الدّعوىٰ ناقضاً للعادة من غير إستحالة بجميع الوجوه و يعجز الناس عن إتيان مثله بعد التجهد و الإجتهاد إذا کان بهم حذاقة و رزانة فی مثل تلک الصنيعة.(کتاب التمهيد فی بيان التوحيد از ابو شکور : 71)
معجزہ کی تعریف یہ ہے کہ سوال اور دعویٰ کے بعد (اللہ کے رسول اور نبی کے ہاتھ پر) کوئی ایسی خارقِ عادت چیز ظاہر ہو جو ہر حیثیت سے مُحال نہ ہو اور لوگ باوجود کوشش اور تدبیر کے اُس قسم کے معاملات میں پوری فہم و بصیرت رکھتے ہوئے بھی اُس کے مقابلے سے عاجز ہوں ۔

مندرجہ بالا تعریفات سے یہ بات اظہر مِن الشمس ہو جاتی ہے کہ :

معجزہ مِن جانبِ اللہ ہوتا ہے لیکن اُس کا صدُور اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول کے ذرِیعہ ہوتا ہے ۔

معجزہ مروّجہ قوانینِ فطرت اور عالمِ اَسباب کے برعکس ہوتا ہے ۔

معجزہ نبی اور رسول کا ذاتی نہیں بلکہ عطائی فعل ہے اور یہ عطا اللہ ربّ العزّت کی طرف سے ہوتی ہے ۔

معجزے کا ظہور چونکہ رحمانی اور اُلوہی قوّت سے ہوتا ہے اِس لئے عقلِ اِنسانی اُس کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے اور تصویرِ حیرت بن کر سرِتسلیم خم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ وہ اس کی حقیقت کا اِدراک نہیں کر سکتی ۔

اِصطلاحِ معجزہ کی حقیقت : محدّثین، مفسّرین اور مفکّرین نے ہر ہر مسئلہ کے ہر ہر پہلو پر علم و حِکمت کے موتی بکھیرے ہیں اور کمالِ عرق ریزی سے اُمور و مسائل کی گتھیاں سُلجھانے کی سعی کی ہے۔ اَربابِ علم و دانش نے اپنے محدود پیرائے میں معجزہ کے بارے میں بھی عِلمی، فِکری اور اِعتقادی سطح پر حرفِ حق کی تلاش کا سفر جاری رکھا ہے اور تحقیق و جستجو کے محاذ پر دادِ شجاعت دی ہے۔ اِس ضمن میں بعض اہلِ سیر نے لکھا ہے کہ ’’معجزہ‘‘ کا لفظ اللہ ربّ العزّت نے قرآنِ مجید میں کسی ایک مقام پر بھی اِستعمال نہیں کیا۔ اِس لئے وہ اِحتیاطاً معجزات کے بیان اور اُن کے اِثبات کے لئے قرآنی لفظ ’’آیات‘‘ کا اِستعمال کرتے ہیں۔ یہ اِستعمال یقیناً درُست ہے لیکن قرآن کا اُسلوب ہمارے پیشِ نظر رہنا چاہیئے۔ یہ بات ذِہن نشین رہنی چاہئے کہ قرآن اِصطلاحات اور مخصوص اَلفاظ کو بیان نہیں کرتا بلکہ وہ فقط نفسِ مضمون دیتا ہے اور اِیمانیات کے بنیادی تصوّرات سے بحث کرتا ہے۔ بعد اَزاں اہلِ عِلم اُسے اِصطلاحی زبان دے کر ترسیلِ مفہوم کی سعی کرتے ہیں۔ یہی حال تصوّف کا بھی ہے۔ قرآنِ مجید میں تصوف کے لئے لفظ ’’تزکیہ‘‘ اور حدیث میں ’’اِحسان‘‘ کا لفظ آیا ہے مگر جب وہ باقاعدہ عِلم بنا تو اُسے تصوّف کا نام دیا گیا۔ اِسی طرح دیگر اِصطلاحاتِ علوم تشکیل پذیر ہوئیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ لفظِ آیات میں لفظِ معجزہ کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظِ ’’آیات‘‘ میں عمومیت ہے جبکہ لفظِ ’’معجزہ‘‘ میں خصوصیّت ہے۔ لفظِ ’’معجزہ‘‘ اصل فعل کے صدُور اور وُقوع کی کیفیّت کو بھی بیان کرتا ہے۔ اِنسان کی ساری ظاہری اور باطنی صلاحیتیں اور قوّتیں معجزہ کے صدُور پر عاجز رہ جاتی ہیں ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...