وسیلہ کے جواز پر مختصر تحریر ایک بار ضرور پڑھیں
یاایھاالذین اٰمنوا اتقوااللہ وابتغواالیہ الوسیلۃ ۔ (سورۃ المآئدہ،۳۵)
اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف جانے کے لیے وسیلہ تلاش کرو ۔
اگر بزرگوں کی دعاؤں کا وسیلہ جائز ہے تو ان کی ذوات کا وسیلہ بھی درست ہے،کیونکہ دعا تو رد بھی ہوسکتی ہے،محبوبان خداتو اس کے مقبول بندے ہیں اور ویسے بھی ذات اصل ہے اوردعا فرع ہے۔اگر فرع کا وسیلہ درست ہے تو اصل کا وسیلہ بھی درست ہے ۔
قرآن مجید میں نیک لوگوںسے وابستہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاایھالذین اٰمنوااتقواللہ وکونوامع الصادقین۔(التوبۃ،۱۱۹)
ترجمہ : ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔
اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کوبھی واضح کردیا گیا ہے،کہ وسیلہ سے مراد اللہ والوں کی ذات سے تعلق قائم کرنا ہے۔اور انہیں اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ بنانا ہے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعا مانگنے کا خود حکم دیا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا:اچھے طریقہ سے وضو کرے اور دو رکعتیں پڑھنے کے بعد یہ دعا کرے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قدتوجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضیٰ اللھم فشفعہ فیّ ۔
ترجمہ : اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور رحمت والے نبی محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یارسول اللہ ! میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ اسے پورا کردیا جائے ۔اے اللہ!آپ کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما ۔
( یہ حدیث صحیح ہے ، سنن ابن ماجہ صفحہ۱۰۰،مسند احمد جلد۴صفحہ ۱۳۸، المستدرک جلد۱صفحہ۳۱۳،۵۱۹،۵۲۶،عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی صفحہ ۲۰۲،دلائل النبوۃ للبیہقی جلد۶صفحہ۱۶۷،السنن الکبریٰ للنسائی جلد ۶ صفحہ ۱۶۹،الاذکار للنووی صفحہ۱۶۷،عمل الیوم واللیلۃ للنسائی صفحہ ۴۸۱ ، الترغیب والترہیب جلد۱صفحہ۴۷۳ ،صحیح ابن خزیمہ جلد۲صفحہ۲۲۵، ترمذی جلد۲صفحہ ۱۹۸،البدایہ والنھایہ جلد۱صفحہ۱۳۰۱مطبوعہ دار ابن حزم، الخصائص الکبریٰ جلد۲صفحہ ۲۰۲،الجامع الصغیر جلد۱صفحہ۴۹صحیح کہا)
واضح رہے !اس حدیث کو وحید الزمان حیدرآبادی وہابی نے (ھدیۃ المھدی صفحہ ۴۷)
نواب صدیق حسن خان بھوپالوی وہابی نے (نزل الابرار صفحہ۳۰۴)
غیر مقلد نجدیوں کے’’ مجتہد‘‘ قاضی شوکانی نے تحفۃ الذکرین صفحہ ۱۳۷ پر نقل کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ ائمہ حدیث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
غیر مقلد وہابیوں اور دیوبندیوں کے’’ بزرگ‘‘ ابن تیمیہ حرانی نے فتاویٰ ابن تیمیہ جلد۱صفحہ ۲۷۵ پر نقل کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وان کانت لک حاجۃ فافعل مثل ذلک ۔ ترجمہ : تجھے جب بھی کوئی حاجت درپیش ہو تو اسی طرح کرنا ۔ اسی حدیث کو علامہ اشرفعلی تھانوی دیوبندی نے نشرالطیب صفحہ ۲۵۳ ۔ اور شبیر احمد دیوبندی نے یا حرف محبت اور باعث رحمت ہے صفحہ ۴۲ پر نقل کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل صرف اس وقت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے عام ہے ۔
اور دور فاروقی میں قحط سالی کے وقت حضرت فاروق اعظم رضی اللّه عنہ عرض کرتے ہیں : للھم انا کنا نتوسل الیک بنبیناافتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون۔(صحیح البخاری ابواب الا ستسقا ، باب سوال الناس الامام الاستسقا اذا قحطوا۔۱/۱۳۷۔کتاب المناقب، باب ذکر عباس بن عبدالمطب رضی اللہ عنہم ۱/۵۲۶)
ترجمہ : اے اللہ !ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتے تھے اور تو ہمیں سیراب کردیتا تھا،اب کی بار ہم اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں،لہٰذا تو ہم پر باران رحمت کا نزول فرما۔ راوی کا بیان ہے، تو انہیں سیراب کردیا گیا ۔
معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور دیگر صالحین کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment