Friday 31 August 2018

جو دیوبندی حضرات علماء دیوبند کی صریح توہینی عبارتوں میں توہین نہیں مانتے ان کی خدمت میں مخلصانہ گزارش

0 comments

جو دیوبندی حضرات علماء دیوبند کی صریح توہینی عبارتوں میں توہین نہیں مانتے ان کی خدمت میں مخلصانہ گزارش

جو دیوبندی حضرات علماء دیوبند کی صریح توہینی عبارتوں میں توہین نہیں مانتے ان کی خدمت میں مخلصانہ گزارش ہے کہ آپ کے علماء کی عبارات کے مقابلے میں مودودی صاحب کی وہ عبارتیں توہین کے مفہوم سے بہت دور ہیں جن سے خود آپ کے علماءدیوبند نے توہین کا مفہوم نکال کر مودودی صاحب پر الزامات توہین عائد کئے ہیں۔ اگرچہ ہمارے نزدیک دونوں میں کوئی فرق نہیں لیکن عبارات میں صراحت و وضاحت توہین کے بین تفاوت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مودودی صاحب کی ان عبارات میں سے صرف ایک عبارت بلا تشریح تحریر کرتے ہیں جس کی بنا پر علماءدیوبند نے مودودی صاحب کو توہین خدا اور رسول کا مجرم گردانا ہے۔ اسی طرح اس عبارت کے مقابلے میں تین عبارتیں اکابر علماءدیوبند کی بھی بلا تشریح پیش کرتے ہیں جن سے علماءاہل سنت نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی توہین سمجھی ہے اور یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ مفہوم توہین میں کس کی عبارت زیادہ واضح اور صریح ہے۔

مودودی صاحب کی وہ عبارت جس سے علماءدیوبند نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی توہین اخذ کر کے مودودی صاحب پر خدا اور رسول کی توہین کا الزام عائد کیا ہے
’’حضور کو اپنے زمانے میں یہ اندیشہ تھا کہ شاید دجال آپ کے عہد میں ظاہر ہو جائے یا آپ کے بعد کسی قریبی زمانے میں ظاہر ہو لیکن کیا ساڑھے تیرہ سو برس کی تاریخ نے یہ ثابت نہیں کر دیا کہ حضور کا یہ اندیشہ صحیح نہ تھا۔ اب ان چیزوں کو اس طرح نقل و روایت کئے جانا کہ گویا یہ بھی اسلامی عقائد ہیں نہ تو اسلام کی صحیح نمائندگی ہے اور نہ اسے حدیث ہی کا صحیح مفہوم کہا جا سکتا ہے جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ اس قسم کے معاملات میں نبی کے قیاس و گمان کا درست نہ نکلنا ہرگز منصب نبوت پر طعن کا موجب نہیں ہے۔‘‘ (ماخوذ از ترجمان القرآن)

رسالہ ’’حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب‘‘ مؤلفہ مولوی احمد علی صاحب امیر انجمن خدام الدین دروازہ شیرانوالہ لاہور ص ۱۸

اب ملاحظہ ہوں اکابر علماءدیوبند کی وہ عبارات جن سے علماءاہل سنت نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی توہین سمجھ کر ان پر توہین خدا اور رسول کا حکم لگایا ہے

۱۔ ’’اور انسان خود مختار ہے اچھے کام کریں یا نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کو پہلے سے کوئی علم بھی نہیں ہوتا کہ کیا کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کو ان کے کرنے کے بعد معلوم ہو گا اور آیاتِ قرآنی جیسا کہ ’’وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ‘‘ وغیرہ بھی اور احادیث کے الفاظ اس مذہب پر منطبق ہیں۔‘‘ (بلغۃ الحیران، مصنفہ مولوی حسین علی صاحب، ص ۱۵۷۔ ۱۵۸)

۲۔ ’’پھر دروغ صریح بھی کئی طرح پر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کا حکم یکساں نہیں۔ ہر قسم سے نبی کو معصوم ہونا ضروری نہیں۔‘‘(تصفیۃ العقائد ص ۲۵ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی)

۳۔ ’’بالجملہ علی العموم کذب کو منافی شانِ نبوت بایں معنی سمجھنا کہ یہ معصیت ہے اور انبیاء علیہم السلام معاصی سے معصوم ہیں خالی غلطی سے نہیں۔‘‘(تصفیۃ العقائد ص ۲۸ مولوی محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند)

مودودی صاحب اور علماءدیوبند دونوں کی اصل عبارات بلا کم و کاست آپ کے سامنے موجود ہیں۔ اگر آپ نے خوفِ خدا کو دل میں جگہ دے کر پوری دیانت داری سے بنظر انصاف غور فرمایا تو آپ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ مودودی صاحب کی عبارت کے مقابلہ میں علماءدیوبند کی عبارات مفہوم توہین میں زیادہ صریح ہیں۔

دیوبندی حضرات کا علماء اہل سنت پر ایک اعتراض اور دیوبندی عالم کی تحریر سے اس کا جواب : دیوبندی حضرات علماءاہل سنت پر اعتراض کرتے ہیں کہ علماءدیوبند پر اعتراض کرنے والے ان کی عبارتوں کے سیاق و سباق کو نہیں دیکھتے۔ جو فقرہ قابل اعتراض ہوتا ہے فقط اس کو پکڑ لیتے ہیں اور صرف اسی فقرہ کے باعث علماءدیوبند پر طعن و تشنیع شروع کر دیتے ہیں۔

برادرانِ اسلام! سیاق و سباق سے دیوبندی حضرات کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اگلی پچھلی عبارتوں کو دیکھ کر پھر اعتراض ہو تو کرنا چاہئے۔

جواباً عرض ہے۔ مودودی صاحب پر اعتراض کرنے والے دیوبندیوں پر بعینہٖ یہی اعتراض انہیں الفاظ میں مودودیوں کی طرف سے آپ کے مولوی احمد علی صاحب دیوبندی نے اپنے رسالہ ’’حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب‘‘ کے صفحہ ۸۰ پر نقل کیا ہے اور اس کا جواب بھی اسی صفحہ پر دیا ہے۔ ہم بعینہٖ وہی جواب نقل کئے دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے
’’اگر دس سیر دودھ کسی کھلے منہ والے دیگچے میں ڈال دیا جائے اور اس دیگچہ کے منہ پر ایک لکڑی رکھ کر ایک تاگہ میں خنزیر کی ایک بوٹی ایک تولہ کی اس لکڑی میں باندھ کر دودھ میں لٹکا دی جائے پھر کسی مسلمان کو اس دودھ میں سے پلایا جائے وہ کہے گا کہ میں اس دودھ سے ہرگز نہ پیوں گا کیونکہ سب حرام ہو گیا ہے۔ پلانے والا کہے گا کہ بھائی دس سیر دودھ کے آٹھ سو تولے ہوتے ہیں آپ فقط اس بوٹی کو کیوں دیکھتے ہیں۔ دیکھئے اس بوٹی کے آگے پیچھے، دائیں بائیں اور اس کے نیچے چار انچ کی گہرائی میں دودھ ہی دودھ ہے۔ وہ مسلمان یہی کہے گا کہ یہ سارا دودھ خنزیر کی ایک بوٹی کے باعث حرام ہو گیا۔ یہی قصہ مودودی صاحب کی عبارتوں کا ہے۔ جب مسلمان مودودی صاحب کا یہ لفظ پڑھے گا کہ خانہ کعبہ کے ہر طرف جہالت اور گندگی ہے۔ اس کے بعد مودودی صاحب اس فقرہ سے توبہ کر کے اعلان نہیں کریں گے، مسلمان کبھی راضی نہیں ہوں گے جب تک خنزیر کی یہ بوٹی اس دودھ سے نہیں نکالیں گے۔(ص ۸۰۔ ۸۱)

پس دیوبندی حضرات یہی جواب ہماری طرف سے سمجھ لیں اور خوب یاد رکھیں کہ علماءدیوبند کی عبارات میں محبوبانِ حق تبارک و تعالیٰ کی ہزار تعریفیں ہوں مگر جب تک وہ توہین آمیز فقروں سے توبہ نہ کریں گے اہل سنت ان سے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔

ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ بعض حضرات توہین آمیز عبارات کے صریح مفہوم کو چھپانے کے لئے علماءدیوبند کی وہ عبارات پیش کر دیتے ہیں جن میں انہوں نے توہین و تنقیص سے اپنی برات ظاہر کی ہے یا حضور ﷺ کی تعریف و توصیف کے ساتھ عظمت شان نبوت کا اقرار کیا ہے۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ وہ عبارات انہیں قطعاً مفید نہیں جب تک ان کی کوئی ایسی عبارت نہ دکھائی جائے کہ ہم نے فلاں مقام پر جو توہین کی تھی اب اس سے ہم رجوع کرتے ہیں۔ مثلاً مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے تحذیر الناس میں خاتم النبیین کے معنی منقول متواتر آخر النبیین کو عوام کا خیال بتایا ہے۔ اب اگر ان کی دس بیس عبارتیں بھی اس مضمون کی پیش کر دی جائیں کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں یا حضور ﷺ کے بعد مدعی نبوت کافر ہے تو اس سے کچھ فائدہ نہ ہو گا تاوقتیکہ مولوی محمد قاسم صاحب کا یہ قول نہ دکھایا جائے کہ میں نے جو خاتم النبیین کے معنی منقول متواتر آخر النبیین کا انکار کیا تھا اب میں اس سے توبہ کر کے رجوع کرتا ہوں۔ دیکھئے مرزائی لوگ مرزا غلام احمد کی برات میں جو عبارتیں مرزا صاحب کی کتابوں سے پیش کیا کرتے ہیں ان کے جواب میں مولوی مرتضیٰ صاحب دربھنگی ناظم تعلیمات مدرسہ دیوبند نے بھی یہی لکھا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے اشد العذاب مطبوعہ مطبع مجتبائی جدید دہلی صفحہ ۱۵ سطر ۱۶، ۱۷

جو عبارات مرزا صاحب اور مرزائیوں کی لکھی جاتی ہیں جب تک ان مضامین سے صاف توبہ نہ دکھائیں یا توبہ نہ کریں تو ان کا کچھ اعتبار نہیں۔

دیوبندیوں کی توہین آمیز عبارات کے اظہار کی ضرورت : بعض دیوبندی حضرات کہا کرتے ہیں کہ علماء دیوبند کی ان عبارات کے اظہار و اشاعت کی کیا ضرورت ہے جن سے آپ لوگ توہین سمجھتے ہیں۔ اس زمانے میں ان عبارات کی اشاعت بلاوجہ شور و شر، فتنہ و فساد کا موجب ہے اور یہ بڑی ناانصافی ہے کہ علماء دیوبند کے ساتھ لڑائی مول لی جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ علماءدیوبند کی توہینی عبارتوں کے اظہار کی وہی ضرورت ہے جو مولوی احمد علی صاحب کو مودودیوں کا پول کھولنے کے لئے پیش آئی کہ علماءدیوبند نے تمام مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف اللہ تعالیٰ اور انبیاء و اولیاء کی مقدس شان میں وہ شدید اور ناقابل برداشت حملے کئے ہیں جنہیں کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ مولوی احمد علی صاحب اس ضرورت کو حسب ذیل عبارت میں بیان فرماتے ہیں
’’کیا جب ڈاکو کسی کے گھر میں گھس آئے تو گھر والا ڈاکو سے مقابلہ کر کے اپنا مال اور اپنی جان نہ بچائے اور اگر مال اور جان بچانے کے لئے ڈاکو سے مقابلہ کرے تو پھر کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ گھر والا بڑا ہی بے انصاف ہے کہ ڈاکو سے لڑ رہا ہے۔‘‘(رسالہ مذکور مولوی احمد علی صاحب ص ۸۴)

علماءدیوبند کی تہذیب کا ایک مختصر نمونہ : دیوبندی حضرات عام طور پر کہتے ہیں کہ بریلوی مولوی علماءدیوبند کو گالیاں دیا کرتے ہیں۔ اس الزام کی حقیقت تو ہمارے اسی رسالہ سے منکشف ہو جائے گی اور ہمارے ناظرین کرام پر روشن ہو جائے گا کہ جس شائستگی اور تہذیب سے ہم نے علمائے دیوبند کے خلاف یہ رسالہ لکھا ہے اس کی مثال ہمارے مخالفین کی ایک کتاب سے بھی پیش نہیں کی جا سکتی لیکن مزید وضاحت کے لئے بطور نمونہ ہم مولوی حسین احمد صاحب صدر مدرس مدرسہ دیوبند کی کتاب ’’الشہاب الثاقب‘‘ سے چند وہ عبارات پیش کرتے ہیں جن میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کو شدید ترین قسم کی دلآزار گالیاں دی گئی ہیں۔ ان عبارات کو پڑھ کر ہمارے ناظرین کرام علماءاہل سنت اور فضلاء دیوبند کی تہذیب کا مقابلہ کر لیں۔ ملاحظہ فرمایئے۔
۱۔ پھر تعجب ہے کہ مجدد بریلوی آنکھوں میں دھول ڈال رہا ہے اور کذب خالص مشہور کر رہا ہے۔ ’’لعنۃ اللّٰہ تعالٰی فی الدارین۔‘‘ اٰمین۔ یعنی لعنت کرے اللہ تعالیٰ اس (مجدد بریلوی) پر دونوں جہانوں میں‘‘ (الشہاب الثاقب ص ۸۱)
۲۔ ’’آپ حضرات ذرا انصاف فرمائیں اور اس بریلوی دجال سے دریافت کریں۔‘‘ (الشہاب الثاقب ص ۸۶)
۳۔ ’’مجدد الضالین فرماتے ہیں۔‘‘
۴۔ ’’ہم آگے چل کر صاف طور پر ظاہر کر دیں گے کہ دجال بریلوی نے یہاں پر محض بے سمجھی اور بے عقلی سے کام لیا ہے۔‘‘ (ص ۹۵)
۵۔ ’’اس کے بعد مجدد الضالین علیہ ما علیہ الخ‘‘ ( ص ۱۰۳)
۶۔ ’’سلب اللّٰہ ایمانک وسود وجہک فی الدارین وعاقبک بما عاقب بہٖ ابا جہل و عبد اللّٰہ بن ابی یا رئیس المبتدعین۔ اٰمین‘‘ یعنی اے بدعتیوں کے سردار (مجدد بریلوی) سلب کرے اللہ تعالیٰ تیرا ایمان اور دونوں جہان میں تیرا منہ کالا کرے اور تجھے وہی عذاب دے جو ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی کو دیا تھا۔ اٰمین‘‘ (ص ۱۰۴،۱۰۵)
۷۔ ’’مگر تہذیب علم کوئی لفظ مجدد بریلوی کے شایانِ شان قلم سے نہیں نکلنے دیتی۔‘‘ (ص ۱۰۵)
۸۔ ’’فسود اللّٰہ وجہہٗ فی الدارین واسکنہٗ بحبوحۃ الدرک الاسفل من النار مع اعداء سید الکونین علیہ الصلٰوۃ والسلام۔ اٰمین یا رب العٰلمین۔‘‘ (ص ۱۱۹) یعنی اللہ تعالیٰ اس (مجدد بریلوی) کا دونوں جہان میں منہ کالا کرے اور اسے حضور کے دشمنوں کے ساتھ جہنم کے سب سے نیچے گڑھے میں رکھے۔
۹۔ ’’یہ سب تکفیریں اور لعنتیں بریلوی اور اس کے اتباع کی طرف لوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے لئے موجب خروج ایمان و ازالہ تصدیق و ایقان ہوں گی اور قیامت میں ان کے جملہ متبعین کے واسطے اس کی موجب ہوں گی کہ ملائکہ حضور ﷺ سے کہیں گے ’’اِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ‘‘ اور رسول مقبول ﷺ دجال بریلوی اور ان کے اتباع کو سحقاً سحقاً فرما کر اپنے حوض مورود و شفاعت محمود سے کتوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر و ثواب و منازل و نعیم سے محروم کئے جاویں گے۔‘‘
’’سود اللّٰہ وجوہہم فی الدارین وجعل قلوبہم قاسیۃ فلا یؤمنوا حتّٰی یروا العذاب الالیم۔‘‘ (الشہاب الثاقب ص ۱۲۰) یعنی ان بریلویوں کا منہ دونوں جہان میں کالا کرے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تو وہ ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ عذابِ الیم کو دیکھ لیں۔
ان تمام بد دعاؤں اور گالیوں کے جواب میں صرف اتنا عرض ہے کہ الحمد للّٰہ! اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تو ہرگز اس بدگوئی کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ البتہ بمقتضائے حدیث اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جیسی مقدس ہستی کے حق میں ایسے ناپاک کلمے بولنے والا ان شاء اللہ دنیا اور آخرت میں اپنے کلمے کا خود مصداق بنے گا۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو علماءدیوبند کی عبارات پر علماء حرمین طیبین سے کفر کے فتوے حاصل کر کے ’’حسام الحرمین‘‘ میں شائع کئے اس کے جواب میں علماءدیوبند نے ’’حسام الحرمین‘‘ کے خلاف تائید میں علماءحرمین طیبین کے فتوے ’’المہند‘‘ میں چھاپے اور تمام ملک میں اس کی اشاعت کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب نے علماءدیوبند کی عبارات کو توڑ مروڑ کر غلط عقائد ان کی طرف منسوب کئے تھے۔ جب علماءدیوبند کی اصل عبارات اور ان کے اصلی عقائد سامنے آئے تو علماء حرمین طیبین نے ان کی تصدیق و تائید فرما دی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ پر یہ الزام قطعاً بے بنیاد ہے کہ انہوں نے دیوبندیوں کی عبارتوں میں رد و بدل کیا ہے یا غلط عقائد ان کی طرف منسوب کئے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ حسام الحرمین کے شائع ہونے کے بعد دیوبندی حضرات نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنی عبارتوں کی خود قطع و برید کی اور اپنے اصل عقائد چھپا کر علمائے عرب و عجم کے سامنے اہل سنت کے عقیدے ظاہر کئے جس پر علمائے دین نے تصدیق فرمائی چونکہ اس مختصر رسالہ میں تفصیل کی گنجائش نہیں اس لئے صرف ایک دلیل اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش کرتا ہوں ملاحظہ کیجئے۔

محمد بن عبد الوہاب نجدی کے بارے میں دیوبندیو ںکا اعتقاد یہ ہے کہ وہ بہت اچھا آدمی تھا۔ اس کے عقائد بھی عمدہ تھے۔ دیکھئے فتاویٰ رشیدیہ ص ۵۵۱ پر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے لکھا کہ
’’محمد بن عبد الوہاب کے مقتدیوں کو نجدی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد عمدہ تھے۔ مذہب ان کا حنبلی تھا۔ البتہ ان کے مزاج میں شدت تھی مگر وہ اور ان کے مقتدی اچھے ہیں۔ مگر ہاں جو حد سے بڑھ گئے ہیں ان میں فساد آ گیا اور عقائد سب کے متحد ہیں۔ اعمال میں فرق، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کا ہے۔‘‘ (رشید احمد گنگوہی)

ناظرین کرام نے فتاویٰ رشیدیہ کی اس عبارت سے معلوم کر لیا ہو گا کہ دیوبندیوں کے مذہب میں محمد بن عبد الوہاب نجدی کے عقائد عمدہ تھے اور اچھا آدمی تھا لیکن جب علماء حرمین طیبین نے دیوبندیوں سے سوال کیا کہ بتاؤ محمد بن عبد الوہاب کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ کیسا آدمی تھا؟ تو حیلہ سازی سے کام لے کر اپنا مذہب چھپا لیا اور لکھ دیا ’’ہم اسے خارجی اور باغی سمجھتے ہیں۔‘‘(ملاحظہ ہو المہند ص ۱۹، ۲۰)

ہمارے نزدیک ان کا حکم وہی ہے جو صاحب در مختار نے فرمایا ہے۔ اس کے چند سطر بعد مرقوم ہے کہ علامہ شامی نے اس کے حاشیہ میں فرمایا ہے جیسا کہ ہمارے زمانے میں محمد بن عبد الوہاب کے تابعین سے سرزد ہوا کہ نجد سے نکل کر حرمین شریفین پر متغلب ہوئے۔ اپنے کو حنبلی مذہب بتاتے تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہو وہ مشرک ہے اور اسی بناء پر انہوں نے اہل سنت اور علماءاہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھا تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شوکت توڑ دی۔ (انتہیٰ)

دیکھئے یہاں اپنے مذہب کو کیسے چھپایا اور فتاویٰ رشیدیہ کی عبارت کو صاف ہضم کر گئے۔ یہ تو ایک نمونہ تھا۔ تمام کتاب کا یہی حال ہے کہ جان بچانے کے لئے اپنے مذہب پر پردہ ڈال دیا۔ اپنی عبارات کو بھی چھپا دیا۔ اب ناظرین کرام خود فیصلہ فرما لیں کہ خیانت کرنے والا کون ہے؟

آخری سہارا : اس بحث میں ہمارے مخالفین (حضرات علماءدیوبند) کا ایک آخری سہارا یہ ہے کہ بہت سے اکابر علماء کرام و مشائخ عظام نے علماءدیوبند کی تکفیر نہیں کی۔ جیسے سند المحدثین حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب مجددی رام پوری رحمۃ اللہ علیہ اور قبلہ عالم حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ اسی طرح بعض دیگر اکابر امت کی کوئی تحریر ثبوت تکفیر میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس کے متعلق گزارش ہے کہ تکفیر نہ کرنے والے حضرات میں بعض حضرات تو وہ ہیں جن کے زمانے میں علماءدیوبند کی عبارات کفریہ (جن میں التزام کفر متیقن ہو) موجود ہی نہ تھیں۔ جیسے مولانا ارشاد حسین صاحب رام پوری رحمۃ اللہ علیہ ایسی صورت میں تکفیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور بعض وہ حضرات ہیں جن کے زمانے میں اگرچہ وہ عبارات شائع ہو چکی تھیں مگر ان کی نظر سے نہیں گزریں اس لئے انہوں نے تکفیر نہیں فرمائی۔ ہمارے مخالفین میں سے آج تک کوئی شخص اس امر کا ثبوت پیش نہیں کر سکتا کہ فلاں مسلم بین الفریقین بزرگ کے سامنے علماءدیوبند کی عبارات متنازعہ فیہا پیش کی گئیں اور انہوں نے ان کو صحیح قرار دیا یا تکفیر سے سکوت فرمایا۔ علاوہ ازیں یہ کہ جن اکابر امت مسلم بین الفریقین کی عدم تکفیر کو اپنی برات کی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے تکفیر فرمائی ہو اور وہ منقول نہ ہوئی ہو کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ کسی کی کہی ہوئی ہر بات منقول ہو جائے۔ لہٰذا تکفیر کے باوجود عدم نقل کے احتمال نے اس آخری سہارے کو بھی ختم کر دیا ہے۔ وللّٰہ الحمد!

ایک تازہ شبہ کا ازالہ : ایک مہربان نے تازہ شبہ یہ پیش کیا ہے کہ کسی کو کافر کہنے سے ہمیں کتنی رکعتوں کا ثواب ملے گا۔ ہم خواہ مخواہ میں کسی کو کافر کیوں کہیں۔ توہین آمیز عبارات لکھنے والے مر گئے۔ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حدیث شریف میں وارد ہے ’’اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ‘‘ ’’تم اپنے مردوں کو خیر کے ساتھ یاد کرو۔‘‘
پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مرتے وقت انہوں نے توبہ کر لی ہو۔ حدیث شریف میں ہے ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ‘‘ ’’اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔‘‘

ہمیں کیا معلوم کہ ان کا خاتمہ کیسا ہوا؟ شاید ایمان پر ان کی موت واقع ہوئی ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کفر و اسلام میں امتیاز کرنا ضروریاتِ دین سے ہے۔ آپ کسی کافر کو عمر بھر کافر نہ کہیں۔ مگر جب ان کا کفر سامنے آ جائے تو بربنائے کفر اسے کافر نہ ماننا خود کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ بے شک اپنے مردوں کو خیر سے یاد کرنا چاہئے مگر توہین کرنے والوں کو مومن اپنا نہیں سمجھتا۔ نہ وہ واقع میں اپنے ہو سکتے ہیں۔ اس لئے مضمون حدیث کو ان سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ خاتمہ پر اعمال کا دارو مدار ہے۔ مگر یاد رکھئے دم آخر کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا عمل بھی اس کی طرف مفوض ہے۔ احکام شرع ہمیشہ ظاہر پر مرتب ہوتے ہیں اس لئے جب کسی شخص نے معاذ اللہ علانیہ طور پر التزام کفر کر لیا تو وہ حکم شرعی کی رو سے قطعاً کافر ہے تاوقتیکہ توبہ نہ کرے۔ اگر کوئی مسلمان ایسے شخص کو کافر نہیں سمجھتا تو کفر و اسلام کو معاذ اللہ یکساں سمجھنا کفر قطعی ہے۔ لہٰذا کافر کو کافر نہ ماننے والا یقینا کافر ہے اور اگر بفرض محال ہم یہ تسلیم کر لیں کہ حضور ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیاں کرنے والوں کو کافر نہ کہنا چاہئے اس لئے کہ شاید انہوں نے توبہ کر لی ہو اور ان کا خاتمہ بالخیر ہو گیا ہو تو اسی دلیل سے مرزائیوں کو کافر کہنے سے بھی ہمیں زبان روکنی پڑے گی کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین سب کے لئے یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ شاید ان کا خاتمہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان پر مقدر فرما دیا ہو تو ہم انہیں کس طرح کافر کہیں لیکن ظاہر ہے کہ مرزائیوں کے بارے میں یہ احتمال کارآمد نہیں تو گستاخانِ نبوت کے حق میں کیونکر مفید ہو سکتا ہے۔

ایک ضروری تنبیہ : بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ توہین آمیز عبارات پر سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور بسا اوقات مجبور ہو کر اقرار کر لیتے ہیں کہ واقعی ان عبارات میں حضور ﷺ کی توہین ہے لیکن جب ان عبارات کے قائلین کا سوال سامنے آتا ہے تو ساکت اور متامل ہو جاتے ہیں اور اپنی استادی، شاگردی، پیری، مریدی یا رشتہ داری و دیگر تعلقات دنیوی خصوصاً کاروباری، تجارتی نفع و نقصان کے پیش نظر ان کو چھوڑنا، ان کے کفر کا انکار کرنا ہرگز گوارہ نہیں کرتے۔ ان کی خدمت میں مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ قرآن مجید کی حسب ذیل آیتوں کو ٹھنڈے دل سے ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا اٰبَائَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَائَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَo‘‘ (توبہ : ۲۳)
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں تو ان کو اپنا رفیق نہ بناؤ اور جو تم میں سے ایسے باپ بھائیوں کے ساتھ دوستی کا برتاؤ رکھے گا تو یہی لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک ظالم ہیں۔‘‘
’’قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وَاَبْنَاؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِاقْتَرَ فْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَo‘‘ (توبہ : ۲۴)
’’اے نبی ﷺ! آپ مسلمانوں سے فرما دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے مندا پڑ جانے کا تم کو اندیشہ ہو اور مکانات جن میں تم رہنے کو پسند کرتے ہو اگر یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے تم کو زیادہ عزیز ہوں تو ذرا صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کو لے آئے اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘

ان دونوں آیتوں کا مطلب واضح ہے کہ عقیدے اور ایمان کے معاملے میں اور نیکی کے کاموں میں بسا اوقات خویش و اقارب کنبہ اور برادری محبت اور دوستی کے تعلقات حائل ہو جایا کرتے ہیں۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں کو ایمان سے زیادہ کفر عزیز ہے ایک مومن انہیں کس طرح عزیز رکھ سکتا ہے۔ مسلمان کی شان نہیں کہ ایسے لوگوں سے رفاقت اور دوستی کا دم بھرے۔ خدا اور رسول کے دشمنوں سے تعلقات استوار کرنا یقینا گنہ گار بننا اور اپنی جانوں پر ظلم کرنا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ الحق سے اگر یہ خیال مانع ہو کہ کنبہ اور برادری چھوٹ جائے گی۔ استادی شاگردی یا دنیاوی تعلقات میں خلل واقع ہوگا۔ اموال تلف ہوں گے یا تجارت میں نقصان ہو گا۔ راحت اور آرام کے امکانات سے نکل کر بے آرام ہونا پڑے گا تو پھر ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے عذاب کے حکم کا منتظر رہنا چاہئے جو اس نفس پرستی، دنیا طلبی اور تن آسانی کی وجہ سے ان پر آنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس واضح اور روشن ارشاد کو سننے کے بعد کوئی مومن کسی دشمن رسول سے ایک آن کے لئے بھی اپنا تعلق برقرار نہیں رکھ سکتا۔ نہ اس کے دل میں حضور ﷺ کی توہین کرنے والوں کے کافر ہونے کے متعلق کوئی شک باقی رہ سکتا ہے۔

حرفِ آخر : دیوبندی مبلغین و مناظرین اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیال علماء کی بعض عبارات بزعم خود قابل اعتراض قرار دے کر پیش کیا کرتے ہیں۔

اس کے متعلق سردست اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ اگر فی الواقع علماء اہل سنت کی کتابوں میں کوئی توہین آمیز عبارت ہوتی تو علماء دیوبند پر فرض تھا کہ وہ ان علماء کی تکفیر کرتے جیسا کہ علماءاہل سنت نے علماءدیوبند کی عبارات کفریہ کی وجہ سے تکفیر فرمائی لیکن امر واقع یہ ہے کہ دیوبندیوں کا کوئی عالم آج تک اعلیٰ حضرت یا ان کے ہم خیال علماء کی کسی عبارت کی وجہ سے تکفیر نہ کر سکا نہ کسی شرعی قباحت کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دے سکا۔ دیکھئے دیوبندیوں کی کتاب قصص الاکابر ملفوظات مولوی اشرف علی صاحب تھانوی شائع کردہ کتب خانہ اشرفیہ ص ۹۹، ۱۰۰ پر ہے ۔

ایک شخص نے پوچھا کہ ہم بریلی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ فرمایا (حضرت حکیم الامت مدظلہ نے) ہاں ہم ان کو کافر نہیں کہتے۔ اس کے چند سطر بعد مرقوم ہے، ہم بریلی والوں کو اہل ہوا کہتے ہیں، اہل ہوا کافر نہیں۔

اس سلسلے میں مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کا ایک اور مزیدار ملفوظ ملاحظہ فرمایئے۔ الافاضات الیومیہ جلد پنجم مطبوعہ اشرف المطابع تھانہ بھون ص ۲۲۰ پر ملفوظ نمبر ۲۲۵ میں مرقوم ہے
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ دیوبند کا بڑا جلسہ ہوا تھا تو اس میں ایک رئیس صاحب نے کوشش کی تھی کہ دیوبندیوں میں اور بریلویوں میں صلح ہو جائے۔ میں نے کہا ہماری طرف سے کوئی جنگ نہیں۔ وہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہم پڑھ لیتے ہیں۔ ہم پڑھاتے ہیں وہ نہیں پڑھتے تو ان کو آمادہ کرو (مزاحاً فرمایا کہ ان سے کہو کہ آ، مادہ! نر آ گیا) ہم سے کیا کہتے ہو۔

اس عبارت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ علماءاہل سنت (جنہیں بریلوی کہا جاتا ہے) دیوبندیوں کے نزدیک مسلمان ہیں اور ان کا دامن ہر قسم کے کفر و شرک سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ دیوبندیوں کی نماز ان کے پیچھے جائز ہے۔ عبارت منقولہ بالا سے جہاں اصل مسئلہ ثابت ہوا وہاں علماءدیوبند کے مجدد اعظم حکیم الامت مولوی اشرف علی صاحب کی تہذیب اور مخصوص ذہنیت کا نقشہ بھی سامنے آ گیا۔ جس کا آئینہ دار مولوی اشرف علی صاحب کے ملفوظ کا یہ جملہ ہے کہ : ان (بریلویوں) سے کہو کہ آ، مادہ، نر آ گیا ۔
دیوبندی حضرات کو چاہئے کہ اس جملہ کو بار بار پڑھیں اور اپنے عارف ملت و حکیم کے ذوق حکمت و معرفت سے کیف اندوز ہو کر اس کی داد دیں ۔ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کے ملفوظ منقول الصدر سے یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ بعض اعمال عقائد مختلف فیہا کی بنا پر مفتیانِ دیوبند کا اہل سنت (بریلویوں) کو کافر و مشرک قرار دینا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز یا مکروہ کہنا قطعاً غلط باطل محض اور بلا دلیل ہے۔ صرف بغض و عناد اور تعصب کی وجہ سے انہیں کافر و مشرک کہا جاتا ہے۔ ورنہ درحقیقت اہل سنت (بریلوی) حضرات کے عقائد و اعمال میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جس کی بنا پر انہیں کافر و مشرک قرار دیا جا سکے یا ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ کہا جا سکے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے مگر بولتا نہیں دیوبندی عقیدے کا جواب

0 comments
اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے مگر بولتا نہیں دیوبندی عقیدے کا جواب

دیوبندی حضرات اللہ تعالیٰ کےلیئے امکان کذب یعنی جھوٹ بولنا تحت قدرت باری تعالیٰ ہونا کہ اللہ جھوٹ بول سکتا ہے اس پر قادر ہے مگر بولتا نہیں ثابت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین :

ہم یہاں ازالہء اوہامِ حضراتِ مخالفین کو اکثر عبارات ایسی نقل کررہے ہیں کہ امتناع کذبِ الہٰی پر تمام اشعریہ و ماتریدیہ کا اجماع ثابت کریں، جس کے باعث اس وہم عاطل کا علاجِ قاتل ہوکہ معاذ اللہ یہ مسئلہ قدیم سے مختلف فیہ ہے، حاش للہ! بلکہ بطلانِ امکان پر اجماع اہل حق ہے جس میں اہلسنت کے ساتھ ساتھ معتزلہ وغیرہ فرقِ باطلہ بھی متفق ، ہیں ۔
موجودہ دور میں گزشتہ ادوار میں خوارج کے بیش بہا عقائد پائے جاتے ہیں جس میں سے ایک یہ مسئلہ امکانِ کذب ہے۔ اسکا آسان مفہوم یہ ہے کہ کچھ (گمراہ فرقے) یہ کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بھی اللہ کی ایک صفت ہے لیکن اس نے کبھی جھوٹ بولا نہیں۔ (معاذ اللہ)۔ اور دلیل وہ یہ لاتے ہیں کہ اگر جھوٹ کو اللہ کی قدرت و اختیار نہ مانا جائے گا تو یہ توہینِ ربوبیت ہے۔
اس جاہلانہ عقیدے کے رد میں ہم یہاں پر علمائے اہلسنت وجماعت کا مشترکہ عقیدہ مستند کتابوں سے حوالوں وترجموں کے ساتھ بتا دیتے ہیں کہ اس کے بارے میں ہمارا کیا مؤقف ہے۔ اور 72 جہنمی گروہ کیا کہتے ہیں ۔ پہلے آپ گمراہ عقیدے ملاحظہ کریں ۔ پھر اس پر ہمارا رد ۔

اکثر عبارتیں علمائے اشعریہ کی ہوں گی تاکہ معلوم ہوکہ مسئلہ خلافی نہیں اور وہ عبارات جن میں بنائے کلا حسن و قبح عقلی کے انکار پر ہو کہ یہ اصول ِ اشاعرہ سے ہے۔ تو لاجرم مسئلہ اشاعرہ وماتریدیہ کا اجماعی ہوا اگرچہ عند التحقیق صرف حسن وقبح بمعنی استحقاق مدح وثواب وذم وعقاب کی شرعیت وعقلیت میں تجاذب آرا ہے، نہ بمعنی صفت کمال وصفت نقصان کہ بایں معنی باجماع عقلاً عقلی ہیں ۔
ہم اس کی فقہی بحث کی سخت زبان کو علماء پر چھوڑ کر یہاں عام لوگوں کو سمجھانے کی خاطر فی ڈائریکٹ عکس اور انکی تفاصیل پیش کررہے ہیں۔ سب سے پہلے عقیدہ اہلسنت وجماعت پیش کر رہے ہیں ۔
ہم اہلسنت وجماعت (بشمول، اشعریہ، ماتریدیہ) اور ہمارے علاوہ (معتزلہ ) کا مشترکہ اجماع امت اس بات پر ہے کہ جھوٹ ایک نقص ایک عیب ہے ، جبکہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ ہر قسم کے عیوب سے پاک و منزہ ہے۔ لہٰذا جو لوگ یہ گمان رکھتے ہیں (جواوپر بیان ہوا) وہ غلطی پر ہیں اور ان کو تجدیدِ ایمان کرنی واجب ہے ۔
نص اول؛شرح مقاصد کے مبحث کلام میں ہے : الکذب محال باجماع العلماء لان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اللہ تعالیٰ محال، ملخصاً
ترجمہ؛ جھوٹ باجماع علماء محال ہے کہ وہ باتفاقِ عقلاء عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال۔
اسی شرح المقاصد کی بحث حسن و قبیح میں ہے ۔ قدبینا فی بحث الکلام امتناع الکذب علی الشارع تعالیٰ۔
ترجمہ؛ ہم بحث کلام میں ثابت کرآئے کہ اللہ عزوجل پر کذب محال ہے۔

اسی کی بحث تکلیف بالمحال میں ہے : محال ھو جہلہ او کذبہ تعالیٰ عن ذٰلک
ترجمہ؛ اللہ تبارک و تعالیٰ کا جہل یا کذب دونوں محال ہیں برتری ہے اُسے ان سے۔

اسی میں یہ بھی تحریر ہے : الکذب فی اخبار اللہ تعالیٰ فیہ مفاسد لاتحصیٰ ومطاعن فی الاسلام لاتخفی منہا مقال الفلاسفۃ فی المعاد ومجال الملاحدۃ فی العناد وھٰھنا بطلان ما علیہ الاجماع من القطع بخلود الکفار فی النار، فمع صریح اخبار اللہ تعالیٰ بہ فجواز الخلف وعدم وقوع مضمون ھٰذا الخبر متحمل، ولما کان ھٰذا باطلا قطعا علم ان القول بجواز الکذب فی اخباراللہ تعالیٰ باطل قطعاً۔ ملتقطاً۔
ترجمہ؛ یعنی خبر الٰہی میں کذب پر بے شمار خرابیاں اور اسلام میں آشکارا طعن لازم آئے گے، فلاسفہ حشر میں گفتگو لائیں گے، ملحدین اپنے مکابروں کی جگہ پائیں گے، کفار کا ہمیشہ آگ میں رہنا کہ بالاجماع یقینی ہے، اس پر سے یقین اٹھ جائیں گے کہ اگرچہ خدا نے صریح خبریں دیں مگر ممکن ہے کہ واقع نہ ہوں، اور جب یہ امور یقیناً باطل ہیں تو ثابت ہوا کہ خبر الٰہی میں کذب کو ممکن کہنا باطل ہے ۔

نوٹ : اور یہی اسماعیل دہلوی کی وہابی ازم اور دیوبندی ازم کیوجہ سے آج ہورہاہے، ہم سے مباحث میں بڑی بار اس بیوقوفانہ بات کو عیسائی اور یہودی مباحثین نے اٹھایا یہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے، کہ اس ایک گمراہ جہنمی عقیدے کی وجہ سے کتنی زبانیں کھل گئیں واقعی اسلاف نے سچ لکھا ہے ۔

شرح عقائد نسفي ، جو کہ سنیوں کے عقائد کی ایک جامع مفصل کتاب ہے اور جس سے دینی علم سیکھنے والا بچہ بچہ واقف ہے اس میں علامہ سعد الدین تفتازانی الحنفی رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے : کذب محال علی اللہ سبحانہ وتعالیٰ۔ یعنی جھوٹ اللہ پر محال ہے ۔ ( شرح عقائد النسفی ، طباعت، المدینۃ العلمیۃ دعوۃ الاسلامیۃ، کراچی پاکستان ص ۱۶۲،چشتی)

طوالع الانوار کی فرع متعلق بمبحث کلام میں ہے : الکذب نقص والنقص علی اللہ تعالیٰ محال۔ یعنی ۔ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال۔ ( طوالع الانوار للبيضاوي، ص ۱۸۲ طبع قديم، دارالکتبه، ابي الثنا شمس الدين ابن محمد بن عبدالرحمن الاصفهاني، و حاشيه السيد الشريف علي بن محمد الجرجاني )

مواقف کی بحث کلام میں ہے : انہ تعالیٰ یمتنع علیہ الکذب اتفاقا اما عند المعتزلۃ فلان الکذب قبیح وھو سبحانہ لایفعل القبیح واما عندنافلانہ نقص والنقص علی اللہ محال اجماعا۔(ملخصاً)۔
یعنی اہلسنت وجماعت ومعتزلہ سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کذب محال ہے ، معتزلہ تو اسلیئے محال کہتے ہیں کہ کذب برا ہے اور اللہ تعالیٰ برا فعل نہیں کرتا اور ہم اہلسنت کے نزدیک اس دلیل سے ناممکن ہے کہ کذب عیب ہے اور ہرعیب اللہ تعالیٰ پر بالاجماع محال ہے۔

مواقف وشرح مواقف کی بحث میں لکھا ہے : مدرک امتناع الکذب منہ تعالیٰ عندنا لیس ھو قبحہ العقلی حتی یلزم من انتفاء قبحہ ان لا یعلم امتناعہ منہ اذلہ مدرک اٰخرو قدتقدم۔
ترجمہ : یعنی ہم اشاعرہ کے نزدیک کذب الٰہی محال ہونے کی دلیل قبح عقلی نہیں ہے کہ اس کے عدم سے لازم آئے کہ کذبِ الٰہی محال نہ جاناجائے بلکہ اس کے لیئے دوسری دلیل ہے کہ اوپر گزری، یعنی وہی کہ جھوٹ عیب ہے اور اللہ تعالیٰ میں عیب محال۔

انہیں کی بحث معجزات میں ہے : قدم فی مسئلۃ الکلام من موقف الالٰھیات امتناع الکذب علیہ سبحانہ وتعالیٰ۔
یعنی ہم موقف الٰہیات سے مسئلہ کلام میں بیان کرآئے کہ اللہ تعالیٰ کا کذب زنہار ممکن نہیں ۔ وہ حوالہ جات جن میں یہی مسلہ سبھی آئمہ محدثین و مفسرین علیہم الرّحمہ نے لکھا ہے ۔ ( الامام مسعود بن عمر بن عبدالله الشهير بسعد الدين التفتازاني، ۷۱۴، ۷۹۳ هجري، الجز الخامس، شرح المقاصد، ص ۲۳۱و ۱۵۴ و ۱۵۵، طباعت عالم الکتب بيروت ) ۔ ( مطالع الانظار علي متن طوالع الانوار ، تاليف شمس الدين بن محمود بن عبدالرحمن الاصفهاني ويليه حاشيه السيد الشريف علي بن محمد الجرجاني ص ۱۸۳ بدارالکتب)(شرح العقائد النسفيه مع حاشيه جمع الفوائد، المدينۀ العلميه الدعوۀ الاسلاميۀ،کراچي پاکستان، ص ۱۶۲،چشتی)
( شرح المواقف ، قاضي عضدالدين عبدالرحمن الايجي المتوفي ۷۵۶هجري، تاليف سيد شريف علي بن محمد الجرجاني ومعه حاشيته السياکوټي والحلبي ص ۱۱۵، جز ۸، مرصد الرابع، المقصد السابع، في انه تعالي متکلم و ص ۲۱۴ مقصد الخامس في الحسن والقبح، صفحه ۲۶۳ المرصد الاول مقصد الثالث ، دارالکتب العلميه بيروت )( شرح المقاصد، المبحث السادس، دارالمعارف النعمانيه لاهور ۲/۱۰۴ و قال وتمسکوا بوجوه ۲/۱۵۲ ، و المبحث الخامس، ۲/۱۵۵، و المبحث الثاني عشر ۲/۲۳۸)(شرح العقائد النسفيه ، دارالاشاعت العربيه قندهار افغانستان ص ۷۱)(مواقف مع شرح المواقف، المقصد السابع، منثورات الشريف الرضي قم ايران، ۱۰۱ و ۱۰۰ .مجلد ۸ ، و، المرصد السادس المقصد الخامس، ۱۹۳، الموقف السادس في السمعيات ۲۴۰ )

امام المحقق علی الاطلاق کمال الدین محمد ، مسایرہ میں لکھتےہیں : یستحیل علیہ تعالیٰ سمات النقص کالجہل والکذب۔ یعنی۔ جتنی نشانیاں عیب کی ہیں، جیسے جہل و کذب سب اللہ تعالیٰ پر محال ہیں۔
اسی طرح ایک اور جگہ اسکی شرح مسامرہ میں لکھتے ہیں : لا خلاف بین الاشعریۃ وغیرھم فی ان کل ما کان وصف نقص فالباری تعالیٰ منزہ عنہ وھو محال علیہ تعالیٰ والکذب وصف نقص۔
ترجمہ : یعنی اشاعرہ وغیرہ کسی کو اس میں اختلاف نہیں کہ جو کچھ صفتِ عیب ہے باری تعالیٰ اس سے پاک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ پر ممکن نہیں اور کذب صفت عیب ہے۔ ( کتاب المسامرۃ فی شرح المسایرۃ، للکمال بن ابی شریف بن الھمام الحنفی (رض)۔ الجزالاول والثانی، ص ۲۳۹ المکتبه الازهريۀ للتراث بجامعته الازهرشريف، مصر، و المسايره متن المسامرته ، ختم المصنف کتابه ببيان عقيده اهلسنت اجمالاً ، المکتبته التجاريته الکبري مصر ص ۳۹۳ و اتفقو علي ان ذلک غير واقع ، ص ۳۹۳ )
امام فخرالدین الرازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں : قولہ تعالیٰ فلن ،،،،،، الیٰ منہ محال۔ (ملخصاً)۔ عربی کے لیئے اصل تفسیر دیکھیں دیکھیں۔
ترجمہ : اللہ عزوجل کا فرمانا کہ اللہ ہرگز اپنا عہد جھوٹا نہ کریگا دلالت کرتا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ سبحانہ اپنے ہروعدہ و، وعید میں جھوٹ سے منزہ ہے ، ہمارے اصحاب ِ اہلسنت وجماعت اس دلیل سے کذبِ الٰہی کو ناممکن جانتے ہیں کہ وہ صفتِ نقص ہے اور اللہ عزوجل پر نقص محال، اور معتزلہ اس دلیل سے ممتنع مانتے ہیں کہ کذب قبیح لذاتہ ہے تو باری عزوجل سے صادر ہونا محال، غرض ثابت ہوا کہ کذبِ الٰہی اصلاً امکان نہیں رکھتا۔ (التفسیر الکبیر، امام رازی، الجز الثالث (۳) ص (۱۴۳). زير تفسير آيت ۸۰ سوره البقره، طبع قديم المکتبته البهيه مصر )
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلمٰتہ وھو السمیع العلیم۔ ( آیت ۱۱۵ سوره الانعام )
ترجمہ؛ پوری ہے بات تیرے رب کی سچ اور انصاف میں کوئی بدلنے والا نہیں، اس کی باتوں کا، اور وہی ہے سنتا جانتا ہے۔
اعلم ان ھذہ الاٰیۃ علی ان کلمۃ اللہ موصوفۃ بصفات کثیرۃ (الی ان قال) الصفۃ الثانیۃ من صفات کلمۃ اللہ کونھا صدقا والدلیل علیہ ان الکذب نقص والنقص علی اللہ تعالیٰ محال۔
ترجمہ : یہ آیت ارشاد فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بہت صفتوں سے موصوف ہے ، ازانجملہ اس کا سچا ہونا ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال۔ ( مفاتیح الغیب، یعنی تفسیر امام رازی ، تحت آیت سورہ الانعام ۱۱۵ المطبعته البهيته المصريه ج ۱۳ ص ۱۶۰ تا ۱۶۱ طبع اول )
یعنی حاصل ِ کلام یہ ہے کہ اہلسنت و جماعت کا اجماع ہے کہ یہ چیز یعنی جھوٹ (امکانِ کذب) بلکہ اسکا امکان بھی محال اور ناممکن ہے پھر ایسا عقیدہ اسلام میں رائج کرنا بدعتِ سیئہ اور کھلی گمراہی وجہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ دیوبند چونکہ خود کو سنی بھی کہتی ہے لہٰذا اس پر زیادہ فرض بنتا ہے کہ اب اسکو مانے بھی کیونکہ ہم نے اشعریہ اور ماتریدیہ دونوں کے عظیم اماموں اور اسلاف کے اقوال لکھ دیئے ہیں اور اسکی روشنی میں بخوبی آپ لوگ فیصلہ خود کرسکتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ ۔

وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیۡثًا : ترجمہ : ۔ اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّسے زیادہ کس کی بات سچی یعنی اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں اس لیے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاجھوٹ بولنا ناممکن و محال ہے کیونکہ جھوٹ عیب ہے اور ہر عیب اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے محال ہے، وہ جملہ عیوب سے پاک ہے

اِمکانِ کِذب کا رد: مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کلام میں جھوٹ کا ممکن ہونا ذاتی طور پر محال ہے اوراللہ تعالیٰ کی تمام صفات مکمل طور پر صفاتِ کمال ہیں اور جس طرح کسی صفتِ کمال کی اس سے نفی ناممکن ہے اسی طرح کسی نقص و عیب کی صفت کا ثبوت بھی اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیۡثًا ۔ ترجمہ : اوراللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
ا س عقیدے کی بہت بڑی دلیل ہے ،چنانچہ اس آیت کے تحت علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں اِستِفہامِ انکاری ہے یعنی خبر، وعدہ اور وعید کسی بات میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا نہیں کہ اس کا جھوٹ تو بِالذَّات محال ہے کیونکہ جھوٹ خود اپنے معنی ہی کی رو سے قبیح ہے کہ جھوٹ واقع کے خلاف خبر دینے کا نام ہے۔(مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۲۴۳)

علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس آیت میں اس سے انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہتعالیٰ سے زیادہ سچا ہو کیونکہ اس کی خبر تک تو کسی جھوٹ کو کسی طرح راہ ہی نہیں کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۸۷، ۲/۲۲۹)

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : فَلَنۡ یُّخْلِفَ اللہُ عَہۡدَہٗۤ(بقرہ:۸۰) ترجمہ : تو اللہہرگز وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔
اس آیت کے تحت امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر وعدہ اور وعید میں جھوٹ سے پاک ہے ،ہمارے اصحاب اہلِ سنت و جماعت ا س دلیل سے کذبِ الٰہی کو ناممکن جانتے ہیں کیونکہ جھوٹ صفتِ نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے اور مُعتَزِلہ اس دلیل سے اللہ تعالیٰ کے جھوٹ کو مُمْتَنِع مانتے ہیں کیونکہ جھوٹ فِی نَفْسِہٖ قبیح ہے تو اللہ تعالیٰ سے ا س کا صادر ہونا محال ہے۔ الغرض ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا جھوٹ بولنا اصلاً ممکن ہی نہیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۱/۵۶۷،چشتی)
شاہ عبدُ العزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ا س آیت کے تحت فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کی خبر اَزلی ہے ، کلام میں جھوٹ ہونا عظیم نقص ہے لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہر گز راہ نہیں پا سکتا کہ اللہ تعالیٰ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، اس کے حق میں خبر کے خلاف ہونا سراپا نقص ہے۔ (تفسیر عزیزی(مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ:۸۰، ۲/۵۴۷)

اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الْعَلِیۡمُ ﴿۱۱۵﴾ (انعام:۱۱۵)
ترجمہ : اور سچ اور انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات مکمل ہیں۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں :یہ آیت ا س چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بہت سی صفتوں کے ساتھ موصوف ہے، ان میں سے ایک صفت اس کاسچا ہو نا ہے اور ا س پر دلیل یہ ہے کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے دلائل کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کذب کو محال مانا جائے ۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۵/۱۲۵)
نیز جھوٹ فِی نَفسِہٖ دو باتوں سے خالی نہیں ، یا تو وہ نقص ہو گا یا نہیں ہو گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جھوٹ ضرور نقص ہے اور جب یہ نقص ہے تو بالاتفاق اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہو گیا کیونکہ وہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے۔ دوسری صورت میں اگر جھوٹ کو نقص و عیب نہ بھی مانا جائے تو بھی یہ اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے کیونکہ اگر جھوٹ نقص نہیں تو کمال بھی نہیں اوراللہ تعالیٰ نہ صرف نقص و عیب سے پاک ہے بلکہ وہ ہر اس شئے سے بھی پاک ہے جو کمال سے خالی ہو اگرچہ وہ نقص وعیب میں سے نہ بھی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت صفتِ کمال ہے اور جس میں کوئی کمال ہی نہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کس طرح ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کے جھوٹ بولنے پر قادر ہونے اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ ناممکن و محال ہونے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ لوگوں کی قدرت مَعَاذَاللہ ،اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ گئی یعنی یہ کہنا کہ بندہ جھوٹ بول سکے اور اللہ تعالیٰ جھوٹ نہ بول سکے ، اس سے لازم آتا ہے کہ انسان کی قدرت مَعَاذَاللہ ، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بڑھ جائے گئی، یہ بات سراسر غلط ہے نیز اگر یہ بات سچی ہو کہ آدمی جو کچھ کر سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ بھی کر سکتا ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح نکاح کرنا اور بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ انسان کی قدرت میں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مَعَاذَاللہ یہ کر سکتا ہے، یونہی اگر وہ بات سچی ہوتو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جس طرح آدمی کھانا کھانے، پانی پینے، اپنے آپ کو دریا میں ڈبو دینے، آگ سے جلانے، خاک اور کانٹوں پر لٹانے کی قدرت رکھتا ہے تو پھر یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ بھی اپنے لئے کر سکتا ہو گا۔ ان صورتوں میں انسان ہر طرح خدائی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سب باتیں اپنے لئے کر سکتا ہو تووہ ناقص و محتاج ہوا اور ناقص و محتاج خدا نہیں ہو سکتا اور اگر نہ کر سکا تو عاجز ٹھہرے گا اور کمالِ قدرت میں آدمی سے کم ہو جائے گا اور عاجز خدا نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ہمارا سچا خدا سب عیبوں سے اور محال پر قدرت کی تہمت سے پاک اور مُنَزَّہ ہے،نہ کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر ہے نہ کسی کی قدرت ا س کی قدرت کے ہمسر، نہ اپنے لئے کسی عیب و نقص پر قادر ہونا اس کی قُدُّوسی شان کے لائق ہے۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)







Thursday 30 August 2018

دیوبندی کا ننگے ہوکر نماز پڑھنا اور ماں سے صحبت کرنا دیوبندیوں کےلیے ولی بننے کا زبردست نسخہ

0 comments
دیوبندی کا ننگے ہوکر نماز پڑھنا اور ماں سے صحبت کرنا دیوبندیوں کےلیے ولی بننے کا زبردست نسخہ :

دیوبندی پیر فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی کو دیوبندی مرید خواب بتاتا ہے کہ ننگے ہوکر نماز پڑھتا ہوں اور اپنی ماں سے صحب کرتا ہوں اور دوسرا بھی یہی کہتا ہے کہ ماں سے صحب کرتا ہوں پیر جواب دیتا ہے اس خواب کا دیکھنے والا ولی ہوگا ۔ (رشاد رحمانی و فضل یزدانی صفحہ ۵۷ فضل الرحمن گنج مراد آبادی دیوبندی)

دیوبندیوں اورقادیانیوں کی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہاکی شان میں گستاخی

1 comments
دیوبندیوں اورقادیانیوں کی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہاکی شان میں گستاخی

نوٹ : جو صاحب بھی جواب دینا چاہیں اِدھر اُدھر کی باتوں کی بجاے پوسٹ میں دیے گے اصل حوالہ جات کو پڑھں تصدیق کریں پھر اپنے ضمیر اور ایمان اگر زندہ و باقی ہیں تو پوسٹ کا جواب دیں کہ کیا یہ بد ترین گستاخی نہیں ہے ؟ اگر مرزا غلام احمد قادیانی یہی بات کرے تو گستاخی اور دیوبندی اس سے دو قدم آگے بڑھ کر گستاخی کریں تو دفاع کیا جاے کیوں آخر کیوں ؟

جس طرح کی گستاخیاں قادیانی کرتا رہا اسی طرح کی گساخیاں دیوبندی کرتے رہے اصل کتابوں کے اسکن بھی ساتھ حاضر ہیں اصل حوالہ جات کے ساتھ پڑھیں اور سوچیں :

حکیم الامتِ دیوبند اپنے ایک دیوبندی پیر کا بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں : حضرت نے فرمایا ہم بیمار ہوگے حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ عنہا) نے خواب میں ہمیں گلے سے لگایا ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد۸صفحہ۶۵)

فضل الرحمن گنج مرادآبادی دیوبندی پیر کی حکایت حکیم الامت دیوبند کی زبانی : گویا کہ انہیں یہ بات دنیا میں ہی پتہ چل گئی کہ یہ مرنے کے بعد جنت میں جائیں گے اور حوریں ان کے پاس آئیں گیں اور یہ انہیں کہیں گے کہ "بی قرآن سناؤ ورنہ اپنا کام کرو" دیوبندیوں کا پیر فضل الرحمٰن گنج مرآد بادی کہتا ہے :میں اندر گیا حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا تشرف رکھتی تھیں آپ نے سینہ مبارک بالکل کھول کر مجھے سینے سے لگایا اور بہت پیار کیاؕ ۔ ( (ارشاد رحمانی و فضل یزدانی صفحہ نمبر ۵۸ فضل الرحمن گنج مراد آبادی دیوبندی )

حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : لیکن قبل روانگی جی چاہا کہ یہیں سے حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کی زیارت کر آئیں ورنہ پھر نہ جانے اس طرف کبھی آنا ہو یا نہ ہو ۔ (اشرف السوانح ، جلد اول / دوم ، صفحہ ٧٧ ، ادارہ تالیفات اشرفیہ ، فوارہ چوک ، ملتان)

مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت شفقت و محبت سے اس عاجز کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ نمبر ۲۱۳) ۔ (براھین احمدیہ جلد چہارم صفحہ نمبر ۵۹۹)

سوچو اے مسلمانو سوچو : اتنی بڑی گستاخی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شانِ اقدس میں کہ کوئی بھی اپنی ماں اور بہن کے بارے میں سننا پسند نہ کرے لیکن یہ تو ہیں ہی ظالم لوگ ، جب ان کے اندر حیاء نام کی کوئی چیز نہیں تو پھر ایمان کیسے ہو سکتا ہے ؟

اور بات کرتے ہیں کہ جب ہم جنت میں چلے جائیں گے کیا ان کے وہ عقائد و اعمال تھے جو انہیں جنت میں لے جا سکیں ؟ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ان فتنوں سے بچاے اور بجاے ملاؤں کے بچانے کے ہمیں ایمان بچانے کی توفیق عطاء فرماے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



Wednesday 29 August 2018

دیوبندی علماء و اکابرین کی نبوت کی طرف پیش قدمی

0 comments
دیوبندی علماء و اکابرین کی نبوت کی طرف پیش قدمی

محترم قارئین : اس سلسلہ میں چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ کس طرح اکابرین دیوبند بتدریج منصبِ نبوت کی طرف گامزن رہے ۔

(1) سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،اس (منہ مبارک) سے کوئی چیز نہیں نکلتی سوائے حق کے ۔ (سنن ابو دائود ۳۶۴۶)،(سنن دارمی ۱؍۱۲۵)
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان ہے کہ آپ کی ہر بات حق ہے اور اس کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی ہر بات حق ہو ۔ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عظیم الشان صحابی بھی فرماتے : یہ عمر کی رائے ہے اگر درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر یہ خطا ہے تو (خود) عمر کی طرف سے ہے ۔ (سنن بیہقی(۱۰؍۱۱۶)،چشتی)

مگر اس کے مقابلے میں دیکھئے دیوبندیوں کے امام ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کیا فرما رہے ہیں : سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر ۔ (تذکرۃ الرشید: ج۲ص۱۷)

دیکھا آپ نے کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرح رشید احمد گنگوہی صاحب اپنی زبان سے جو نکلے اسے حق بتا رہے ہیں ۔ پھر دوسرا دعویٰ یہ کہ اس زمانہ میں ہدایت و نجات صرف اسی پر موقوف ہے کہ گنگوہی صاحب کی اتباع کی جائے ، سبحان اللہ ۔ حالانکہ یہ بات باعث ہدایت و نجات نہیں بلکہ کفر و گمراہی ہے ۔

چنانچہ دیوبندی حضرات کے الامام الکبیر قاسم نانوتوی نے فرمایا : کوئی شخص اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو چھوڑ کر اوروں کا اتباع کرے تو بیشک اس کا یہ اصرار اور یہ انکار از قسم بغاوت خداوندی ہو گا،جس کا حاصل کفر و الحاد ہے ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ دوم :ص۴۳۷،چشتی)

اس حقیقت سے معلوم ہوا کہ گنگوہی صاحب اپنی اتباع کی طرف دعوت دے کر لوگوں کو بغاوتِ خداوندی اور کفر و الحاد کی طرف بلاتے رہے۔ اسی طرح قاسم نانوتوی صاحب نے یہ بھی فرمایا : آج کل نجات کا سامان بجز اتباع نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور کچھ نہیں ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ دوم :ص۴۳۷)

جب آپ نے یہ جان لیا ہے کہ نجات کا سامان صرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اتباع کے ساتھ خاص ہے تو رشید احمد گنگوہی صاحب کا ہدایت و نجات کو اپنی اتباع پر موقوف کرنا،اس بات کو بڑا واضح کر دیتا ہے کہ وہ خود کو کس مقام پر باور کروانا چاہتے تھے ۔ عقلمند کے لیئے اشارہ کافی ہے ۔

(2) مناظر احسن گیلانی دیوبندی اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے حوالے سے قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی کے متعلق لکھتے ہیں : مولانا محمد قاسم صاحب میا ں شان ولایت کا رنگ غالب تھا اور مولٰنا گنگوہی میں شان نبوت کا ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ اول:ص۴۷۷،چشتی)

لیجئے یہاں پر تو بات ہی صاف کر دی گئی کہ رشید احمد گنگوہی صاحب میں شان نبوت کا رنگ صرف موجود ہی نہیں بلکہ غالب بھی تھا ۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ نبوت کا رنگ صرف رشید احمد گنگوہی صاحب میں ہی غالب تھا اور قاسم نانوتوی صاحب کی اس مقام تک رسائی نہ تھی بلکہ نبوت کا فیضان تو قاسم نانوتوی صاحب کے قلب پر بھی ہوتا تھا۔ چنانچہ اس کے لیئے نیچے پیش کی جانے والی دیوبندی روایت ملاحظہ کریں اور خود دیکھئے کہ دیوبندی علماء و اکابرین کی پرواز غلو اور خود پسندی میں کہاں کہاں جا پہنچی ہے ۔

(3) اشرف علی تھانوی صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قاسم نانوتوی صاحب نے اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ سے عرض کی : حضرت حالات و ثمرات تو بڑے لوگوں کو ہوتے ہیں ۔ مجھ سے جتنا کام حضرت نے فرمایا ہے وہ بھی نہیں ہوتا ۔ جہاں تسبیح لے کر بیٹھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے سو سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیئے ہوں ۔ زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں ہی بد قسمت ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے زبان کو جکڑ دیا ہو ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اس بات کو سن کر اپنے ہونہار مرید نانوتوی صاحب سے فرمایا : مبارک ہو یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل (وزن) ہے جو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کووحی کے وقت محسوس ہوتا تھا ۔ (قصص الاکابر:ص ۱۱۴۔۱۱۵، سوانح قاسمی،حصہ اول:ص ۳۰۱،چشتی)

لیجئے جناب دیوبندیوں کے الامام الکبیر قاسم نانوتوی صاحب پر نبوت کا فیضان بھی ہوتا تھا اور وہ بوجھ بھی ویسا ہی محسوس کرتے تھے جیسا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بوقتِ وحی محسوس کرتے تھے (معاذ اللہ) ۔ خصوصیاتِ نبوت میں سے باقی کیا رہ گیا ہے جس سے اکابرین ِدیوبند سرفراز قرارنہ دیئے گئے ہوں ؟

(4) اشرف علی تھانوی صاحب کو ان کے ایک مرید و عقید ت مندنے خط لکھا جس میں اپنی حالت کے بارے میں فرماتے ہیں : خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں لیکن محمد رسول اللہ کی جگہ حضور(تھانوی صاحب) کا نام لیتا ہوں اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ مجھسے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں اسکو صحیح پڑھنا چاہئے اس خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں دل پر تو یہ ہے کہ صحیح پڑھا جاوے لیکن زبان سے بیساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نام کے اشرف علی نکل جاتا ہے حالانکہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ اس طرح درست نہیں لیکن بے اختیاری زبان سے یہی نکلتا ہے ۔۔۔۔۔ اتنے میں بندہ خواب سے بیدار ہو گیا۔۔۔۔۔حالت بیداری میں کلمہ شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہوا کہ اس خیال کو دل سے دور کیا جاوے اس واسطے کہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ ہو جاوے ۔۔۔۔۔ کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود شریف پڑھتا ہوں لیکن پھر بھی کہتا ہوں اللھم صل علیٰ سیدنا و نبینا و مولانا اشرف علی حالاں کہ اب بیدار ہوں خواب نہیں لیکن بے اختیار ہوں مجبور ہوں زبان اپنے قابو میں نہیں اس روز ایسا ہی کچھ خیال رہا تو دوسرے روز بیداری میں رقت رہی خوب رویا اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جو حضور کے ساتھ باعث محبت ہیں کہاں تک عرض کروں ۔
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں : اس واقعہ میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے ۔ (رسالہ الامداد،بابت ماہ صفر ۱۳۳۶ہجری ،جلد۳عدد۸:ص۳۵)

گویا تھانوی صاحب کے ہاں مرید کا خواب میں لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ کی جگہ اشرف علی رسول اللہ پڑھنے اور پھر بیداری کی حالت میں نبینا و مولانا اشرف علی (یعنی ہمارے نبی ، مولانا اشرف علی) کہنے میں تسلی کی بات ہے ۔ جو بات چھپی چھپی سی تھی اس واقعہ میں کیسے کھل کر سامنے آ گئی کہ صاف اقرار کر لیا گیا کہ تھانوی صاحب کو اپنا نبی کہنے میں بھی کچھ حرج نہیں ، انا للہ و انا الیہ راجعون ۔

یونہی تھانوی صاحب آل ِ دیوبند کے حکیم الامت اور مجدد الملت قرار نہیں پائے اس کے پیچھے انہیں مجددانہ اور حکیمانہ کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے ۔

مولانا رفیع الدین صاحب مجددی سابق مہتمم دارالعلوم کا مکاشفہ ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کی قبر عین کسی نبی کی قبر میں ہے ـ ( مبشرات دارالعلوم صفحہ نمبر 70 مطبوعہ محکمہ نشر و اشاعت دارالعلوم دیوبند انڈیا )

ایک دن مولانا نانوتوی نے اپنے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے شکایت کی کہ : جہاں تسبیح لےکر بیثھا بس ایک مصیبت ہوتی ہے اس قدر گرانی کہ جیسے 100 سو 100 سو من کے پتھر کسی نے رکھ دیئے ہوں زبان و قلب سب بستہ ہو جاتے ہیں ـ (سوانح قاسمی ج 1 ص 258 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

اس شکایت کا جواب حاجی صاحب کی زبانی کہ یہ نبوت کا آپ کے قلب پر فیضان ہوتا ہے اور یہ وہ ثقل ( گرانی ) ہے جو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو وحی کے وقت محسوس ہوتا تھا تم سے حق تعالی کو وہ کام لینا ہے جو نبیوں سے لیا جاتا ہے ـ (سوانح قاسمی ج 1 ص 259 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)

عین کسی نبی کی قبر میں ہے ، نبوت کا فیضان وحی کی گرانی اور کار انبیاء کی سپردگی ان سارے لوازمات کے بعد نہ بھی صریح لفظوں میں ادعائے نبوت کیا جائے جب بھی اصل مدعا اپنی جگہ پر ہے ـ

نانوتوی صاحب فرشتہ تھے : مولوی نظام الدین صاحب مغربی حیدرآبادی مرحوم جو مولانا رفیع الدین صاحب سے بیعت تھے اور صالحین میں سے تھے احقر سے فرمایا جبکہ احقر حیدرآباد گیا ہوا تھا کہ مولانا رفیع الدین فرماتے تھے کہ میں پچیس برس مولانا نانوتوی کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور کبھی بلا وضوء نہیں گیا میں نے انسانیت سے بالا درجہ ان کا دیکھا ہے وہ شخص ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیا گیا ـ ۔(ارواح ثلاثہ صفحہ 192حکایت 241) . دیوبندیوں سے یہ کوئی پوچھے کہ اپنے مولوی کی تعریف کرتے وقت نور و بشر کی بحث بھول گئے ـ یہ تو نانوتوی کو بشر ہی نہیں مانتے فرشتہ مانتے ہیں ـ بھول گئے تقویۃ الایمان کے مصنف اپنے غبی امام کی کفر کی فیکٹری ؟ ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)