Friday 10 August 2018

قطب الاقطاب دیوبند انگریز کے باغی نہیں تھے انگریز سرکار رحم دل تھی مجاہدین تحریک آزادی باغی تھے دیوبندیوں کے گھر سے ثبوت حاضر ہے

0 comments
قطب الاقطاب دیوبند انگریز کے باغی نہیں تھے انگریز سرکار رحم دل تھی مجاہدین تحریک آزادی باغی تھے دیوبندیوں کے گھر سے ثبوت حاضر ہے


اپنے قطب القطاب رشید گنگوہی پر لکھی "تذکرۃ الرشید" میں بھی دیوبندی علما نے کافی انکشافات کئیے ہیں۔ پہلے رشید گنگوہی پر بغاوت کے الزام کی بابت لکھتے ہیں کہ : شروع 1276ھ، 1858 وہ سال تھا جس میں حضرت امام ربانی پر اپنی سرکار سے باغی ہونے کا الزام لگایا گیا اور مفسدوں میں شریک رہنے کی تہمت باندھی گئی ۔

یہاں "اپنی سرکار" سے کس بات کی غمازی ہوتی ہے یہ قارئین پڑھ ہی رہیں ہونگے۔ مزید آگے لکھتے ہیں کہ : جن کے سروں پر موت کھیل رہی تھی انہوں نے کمپنی کے امن وعافیت کا زمانہ قدر کی نظروں سے نہ دیکھا اور اپنی رحمدل گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا۔(تذکرۃالرشید، ج 1، ص 74،چشتی)

غاصب انگریز کو "رحمدل" اور تحریکِ آزادی کو "بغاوت" کہنے والوں کی اس معاملے میں کیا سوچ تھی یہ خود انہی کی زبانی واضح ہے۔ یہ آپ ہی کے اکابرین ہیں۔ اس کے بعد بھی جہاد جہاد کا شور مچانا اور خود کو تحریکِ پاکستان کے مخلص طبقے کی صورت میں پیش کرنا بدیانتی نہیں تو اور کیا ہے ۔

مجاہدین آزادی مفسد تھےان سے گنگوہی اور نانوتوی نے مقابلہ کیا،یہ نبرد آزما دلیر جتھا اپنی انگریز سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا :

عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی لکھتے ہیں : اتنی بات یقینی ہے کہ اس گھبراہٹ کے زمانہ میں جبکہ عام لوگ بند کواڑوں گھر میں بیٹھے ہوئے کانپتے تھے حضرت امام ربانی (رشید گنگوہی) اور دیگر حضرات اپنے کاروبار نہایت اطمینان کے ساتھ انجام دیتے اور جس شغل میں اس سے قبل مصروف تھے بدستور ان کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ کبھی ذرہ بھر اضطراب نہیں پیدا ہوا اور کسی وقت چہ برابر تشویش لاحق نہیں ہوئی۔ آپکو اور آپ کے مختصر مجمع کو جب کسی ضرورت کے لئے شاملی کرانہ یا مظفرنگر جانیکی ضرورت ہوئی، غایت درجہ سکون ووقار کے ساتھ گئے اور طمانیت قلبی کے ساتھ واپس ہوئے۔ ان ایام میں آپکو ان مفسدوں سے مقابلہ بھی کرنا پڑا جو غول کے غول پھرتے تھے۔ حفاظت جان کے لئے تلوار البتہ پاس رکھتے تھے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بہادر شیر کی طرح نکلے چلے آتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا بھی اتفاق ہوا کہ حضرت امام ربانی اپنے رفیقِ جانی مولانا قاسم العلوم اور طبیب روحانی اعلیٰحضرت حاجی صاحب و نیز حافظ ضامن صاحب کے ہمراہ تھے کہ بندوقچیوں سے مقابلہ ہوگیا۔ یہ نبرد آزما دلیر جتھا اپنی سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا۔ اس لئے اٹل پہاڑ کی طرح پرا جما کر ڈٹ گیا اور سرکار پر جاںثاری کے لئے تیار ہوگیا۔ اللہ رے شجاعت و جوا مردی کے جس ہولناک منظر سے شیر کا پتہ پانی اور بہادر سے بہادر کا زہرہ آب ہو جائے وہاں چند فقیر ہاتھوں میں تلواریں لئے جم غفیر بندوقچیوں کے سامنے ایسے جمے رہے گویا زمین نے پاؤں پکڑ لئے ہیں۔ چناچہ آپ پر فیریں ہوئی اور حضرت ضامن صاحب زیرِ ناف گولی کھا کر شہید بھی ہوئے ۔ (تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 74-75)

یہ ہے دیوبندیوں کا الٹا جہاد جو انہوں نے اپنی "سرکار" کے "باغیوں" یعنی مجاہدینِ تحریک آزادی کے خلاف لڑا۔ خود عاشق الہٰی میرٹھی مصنف تذکرۃ الرشید کو اعتراف ہے کہ جس زمانے میں عوام انگریز کے مظالم کے خوف سے گھروں میں چھپی رہتی تھی اس زمانے میں بھی یہ دیوبندی حضرات بڑے اطمینان سے اپنے معمولات کی تکمیل کرتے تھے ۔

اور کیوں نہ کرتے کہ انگریز جن کی سرکار ہو، جن کے مدارس "معاونِ سرکار" ہوں انہیں کیا خوف ۔ اس کیفیت کا کھل کر اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں : ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتہً بےگناہ تھے مگر دشمنوں کی یاوہ گوئی نے انکو باغی و مفسد اور مجرم وسرکاری خطاوار ٹہرا رکھا تھا اس لئے گرفتاری کی تلاش تھی۔ مگر حق تعالیٰ کی حفاظت برسر تھی اسلئے کوئی آنچ نہ آئی اور جیسا کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیرخواہ تھے، تازیست خیر خواہ ہی ثابت رہے۔(تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 81) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔