Friday 24 August 2018

اکابرین ِدیوبند کے حیا سوز واقعات و ملفوظات

1 comments

اکابرین ِدیوبند کے حیا سوز واقعات و ملفوظات

(1) دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی اپنے ایک حیدرآبادی ماموں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حفاظت شریعت کا ایک واقعہ ان ہی ماموں صاحب کا اور یاد آیا۔۔۔۔ماموں صاحب بولے کہ میں بالکل ننگا ہو کر بازار میں ہو کر نکلوں اس طرح کہ ایک شخص تو آگے سے میرے عضو تناسل کو پکڑ کر کھینچے اور دوسرا پیچھے سے انگلی کرے ساتھ میں لڑکوں کی فوج ہو اور وہ یہ شور مچاتے جائیں بھڑوا ہے رے بھڑوا بھڑوا ہے رے بھڑوا ۔ (ملفوظاتِ حکیم الامت:جلد نمبر ۹ صفحہ نمبر ۲۱۲)

(2) تھانوی صاحب نے ایک حافظ جی کا قصہ سناتے ہوئے فرمایا:شاگردوں نے کہا حافظ جی نکاح میں بڑا مزہ ہے۔ حافظ جی نے کوشش کر کے ایک عورت سے نکاح کر لیا شب کو حافظ جی پہنچے اور روٹی لگا لگا کر کھاتے رہے بھلا کیا خاک مزا آتا صبح کو خفا ہوتے ہوئے آئے کہ سُسرے کہتے تھے کہ نکاح میں بڑا مزا ہے ہمیں تو کچھ بھی مزا نہ آیا ۔ لڑکے بڑے شریر ہوتے ہیں کہنے لگے اجی حافظ جی یوں مزا نہیں آیا کرتا مارا کرتے ہیں تب مزا آتا ہے ۔۔۔۔ مارنے کے یہ معنی ہیں اس کے موافق عمل کیا تب حافظ جی کو معلوم ہوا کہ واقعی مزہ ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد ۱ صفحہ نمبر۲۸۶،چشتی)

(3) عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی اپنے امامِ ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کی نادر تعلیم و تربیت کا نمونہ ر وایت کرتے ہیں : ایکبار بھرے مجمع میں حضرت (رشید احمد گنگوہی) کی کسی تقریر پر ایک نو عمر دیہاتی بے تکلف پوچھ بیٹھا کہ حضرت جی عورت کی شرمگاہ کیسی ہوتی ہے؟ اﷲ ری تعلیم سب حاضرین نے گردنیں نیچے جھکا لیں مگر آپ مطلق چیں بہ جبیں نہ ہوئے بلکہ بیساختہ فرمایا جیسے گیہوں(گندم) کا دانہ ۔ (تزکرۃ الرشید:جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۱۰۰)

(4) خواجہ عزیز الحسن صاحب نے ایک دفعہ نہایت شرماتے ہوئے اپنے پیر و مرشد اشرف علی تھانوی صاحب سے فرمایا:میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں ۔ اس اظہارِ محبت پر حضرت والا(تھانوی صاحب) غایت درجہ مسرور ہو کر بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے (کہ) ’’یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا ۔ ثواب ملے گا ۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ ۔ (اشرف السوانح :ج۲ ص۶۴)

(5) یہی دیوبندی حکیم الامت ایک اور جگہ اپنے حضرت مولانا محمد یعقوب کے حوالے سے گوبر فشانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:عوام کے عقیدہ کی بالکل ایسی حالت ہے کہ جیسے گدہے کا عضو مخصوص بڑھے تو بڑھتا ہی چلا جائے اور جب غائب ہو تو بالکل پتا ہی نہیں ۔ (ملفوظاتِ حکیم الامت:ج۳ص۲۹۲،چشتی)

(6) قطب العالم دیوبند گنگوہی دلہا اور داڑھی والی دلہن نانوتوی بانی دیوبند

علامہ عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی لکھتے ہیں : حضرت گنگوہی کا حضرت نانوتوی سے خواب میں نکاح ہوا دونوں نے ایک دوسرے کو وہی فائدہ پہنچایا جو میاں بیوی ایک دوسرے کو پہنچاتے ہیں ۔ (تذکرۃُ الرّشید جلد دوم صفحہ 363 مطبوعہ دارالکتاب دیوبند)

قطب العالم دیوبند گنگوہی صاحب کہتے ہیں خواب میں بانی دیوبند قاسم نانوتوی سے میرا نکاح ہوا وہ دلہن کی صورت میں تھے میاں بیوی والا لطف اٹھایا جس طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے انھوں نے اور میں نے ان کو پہنچایا ۔ ( تذکرۃُالرشید جلد 2 صفحہ 289 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور،چشتی)

قطب العالم دیوبند گنگوہی صاحب کہتے ہیں خواب میں بانی دیوبند قاسم نانوتوی سے میرا نکاح ہوا وہ دلہن کی صورت میں تھے میاں بیوی والا لطف اٹھایا جس طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے انھوں نے اور میں نے ان کو پہنچایا ۔ ( ارشادات گنگوہی صفحہ 123 مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان )

آخر یہ سرخی قائم کر کے کہ حضرت گنگوہی کا حضرت نانوتوی سے خواب میں نکاح اور یہ لکھنا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو وہی (سمجھ گئے نا وہی) فائدہ پہنچایا جو میاں بیوی ایک دوسرے کو پہنچاتے لکھنے کی کیا ضرورت تھی یہ کون سے شرم و حیاء اور کون سے دین کی تعلیم پھیلائی جا رہی ہے اور کتابیں مسلسل چھاپی جا رہی ہیں مجھے تو ایک بات سمجھ اس طرح کی باتیں لکھ کر سادہ لوح نوجوان نسل کو گمراہی نے حیائی کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے ۔

ہو سکتا ہے کوئی یہ اعتراض کر ے کہ یہ تو خواب کا واقعہ ہے ۔ حالانکہ گنگوہی صاحب کا اس خواب کواستدلالی صورت میں بر سرِ عام بیان کرنا ہمیں بھی اتنی اجازت تو دیتا ہے کہ ہم بھی اس نیک خواب کو دوسروں کے سامنے پیش کر سکیں۔نیزضروری ہے کہ ہم اس خواب کی کچھ عملی تعبیراور نمونہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیںتاکہ آلِ دیوبند کے لیئے سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے ۔

(7) دیوبندیوں کی مرتب شدہ کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ ‘‘میں لکھا ہے : ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا ۔ حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی کے مرید و شاگرد سب جمع تھے ۔ اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے ۔ کہ حضرت گنگوہی نے حضرت نانوتوی سے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا کہ یہاں ذرا لیٹ جاؤ ۔ حضرت نانوتوی کچھ شرما گئے۔ مگر حضرت (گنگوہی) نے پھر فرمایا تو مولانا (نانوتوی) بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے ۔ حضرت (گنگوہی) بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا (نانوتوی) کی طرف کروٹ لے کر اپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیاجیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کی تسکین کرتا ہے۔ مولانا (نانوتوی) ہر چند فرماتے کہ میاں کیا کر رہے ہو یہ لوگ کیا کہیں گے۔ حضرت (گنگوہی) نے فرمایا کہ لوگ کہیں گے کہنے دو ۔ (ارواحِ ثلاثہ: ص ۲۳۳۔ ۲۳۲)

عشق معشوقی کا یہ کھیل بھرے مجمع کے سامنے کھیلا گیا تھا ، جس پر نانوتوی صاحب بار بار شرما جاتے تھے اور لوگوں کی موجودگی کا احساس بھی گنگوہی صاحب کو دلاتے تھے ۔ مگر عشق تو اندھا ہوتا ہے اور گنگوہی صاحب نے اس مقولے کو صحیح ثابت کرنے کی ٹھان لی تھی ۔ یہ سب چونکہ لوگوں کے سامنے کی کاروائی ہے اس لیئے ہم نے بھی بیان کر دی ہے ۔ اب خلوت و تنہائی میں کیا کیا ہوتا تھا ؟ اس کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔

لہٰذا ہم نے صرف اسی بات کو بیان کیا ہے جو سب کے سامنے ہوئی اور جس کے بیان کی اجازت خود گنگوہی صاحب نے دے رکھی ہے کہ لوگ کہیں گے تو کہنے دو ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)








1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔