فضائل و کمالات امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ
خلیفۂ سوم ، صاحب جود و احسان ، جامع قرآن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے خصوصی عظمت وفضیلت سے نوازا ، متعدد خصائص وامتیازات سے بہرہ مند فرمایااور آپ کو خصائل حمیدہ وصفات عالیہ سے متصف فرماکر مقامات عالیہ ودرجات سنیہ پر فائز فرمایا ۔
18 ذی الحجہ کو چونکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمیٰ ہوئی ہے، اسی مناسبت سے آج کتاب وسنت کی روشنی میں آپ کے فضائل وکمالات بیان کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ان پاکباز بندوں کی مدح فرمائی جنہوں نے اپنی راتوں کو شب بیداری سے مزین کیا،جن کی جبینیں بارگاہ خداوندی میں خم رہتی ہیں،جن کے دل خوف الہی سے معمور رہتے ہیں ،وہ اپنے پروردگار کی رحمت کے امیدوار بنے رہتے ہیں،ارشاد الہی ہے:اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَاء اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا یَحْذَرُ الآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوا الْألْبَابِ۔
ترجمہ : بھلا وہ شخص جو رات کی گھڑیاں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے عبادت میں بسر کرتا ہے،آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے وہ اور مشرک برابر ہوسکتاہے ؟ ہرگز نہیں۔ آپ فرمادیجئے!کیا کبھی علم والے اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں؟اس کے سوا نہیں کہ صرف عقلمند ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔(سورۃ الزمر،9)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے لکھا کہ مذکورہ آیت کریمہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے، جیساکہ تفسیر در منثور میں روایت ہے:أخرج ابن المنذر وابن أبی حاتم وابن مردویہ وأبو نعیم فی الحلیۃ وابن عساکر عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ، أنہ تلا ہذہ الآیۃ ( أمن ہو قانت آناء اللیل ساجداً وقائماً یحذر الآخرۃ ویرجو رحمۃ ربہ . . ) قال : ذاک عثمان بن عفان . وفی لفظ نزلت فی عثمان بن عفان.
امام ابن منذر ،امام ابن ابو حاتم ،امام ابن مردویہ ،امام ابو نعیم اور امام ابن عساکر رحمہم اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے یہ آیت کریمہ" أَمْ مَنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا۔۔۔۔"تلاوت فرمائی اور کہا کہ وہ ہستی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہیں،اور ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا:یہ آیت کریمہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔ (الدر المنثور فی التأویل بالمأثور)
نزہۃ المجالس میں روایت ہے:کان عثمان بن عفان یصوم الدہر ویقوم اللیل إلا ہجعۃ من أولہ قالت إمرأۃ کان یحیی اللیل کلہ فی رکعۃ یجمع فیہا القرآن۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ دن میں روزہ رکھتے اور رات میں قیام فرماتے، رات کے ابتدائی حصہ میں تھوڑی دیر آرام فرماتے،آپ کی زوجۂ محترمہ نے فرمایا:آپ رات تمام قیام فرماتے اور ایک رکعت میں مکمل قرآن کریم تلاوت فرماتے۔(نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس)
اہل سنت وجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کی جس طرح ترتیب ہے ان کے درجات وکمالات بھی اسی ترتیب سے ہیں۔
حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت منقول ہے:قال علی رضی اللہ عنہ علی المنبر ألا أخبرکم بخیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا قالوا بلی قال أبو بکر الصدیق ثم قال ألا أخبرکم بالثانی قالوا بلی قال عمر ثم قال ألا أخبرکم بالثالث قالوا بلی فنزل علی وہو یقول عثمان۔
ترجمہ : سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے منبر پر تشریف فرماہوکر ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہتر شخص کے بارے میں نہ بتلاؤں؟لوگوں نے عرض کیا:کیوں نہیں؛ضرور بیان فرمائیں!آپ نے فرمایا:وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ،پھر فرمایا:کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ آپ کے بعد کس کا درجہ ہے؟انہوں نے عرض کیا:ہاں؛ضرور بیان فرمائیں!آپ نے فرمایا:وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں،پھر فرمایا:کیا میں تمہیں تیسری ہستی کون ہیں نہ بتاؤں؟انہوں نے کہا:ہاں!ضرور بیان فرمائیں،تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ یہ فرماتے ہوئے منبر سے اتر گئے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔(نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس)
نسب مبارک : آپ کا نام مبارک "عثمان" اور کنیت شریفہ "ابو عبد اللہ" ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کا نسب مبارک حضرت عبد مناف کے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نسب پاک سے جاملتا ہے ۔
ولادت شریفہ : عام الفیل کے چھٹے سال سیدنا عثمان غنی ذو النورین رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت شریفہ ہوئی،جیساکہ تاریخ الخلفاء میں ہے : ولد فی السنۃ السادسۃ من الفیل۔ (تاریخ الخلفاء ،ج1،ص60،چشتی)
آپ کی والدہ ٔمحترمہ کا نام "اروی"ہے جو حضرت عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ کی نواسی ہیں،جیساکہ معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم میں ہے : عثمان بن عفان .. یکنی أبا عبد اللہ ... أمہ أروی بنت کریز بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف۔(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم،ج14،ص62)
ایمان میں سبقت : آپ سابقین اولین اور سابقین مہاجرین سے ہیں ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی دعوت وترغیب پر آپ نے اسلام قبول کیا،سب سے پہلے ایمان لانے والے خوش نصیبوں میں آپ چوتھے فرد ہیں،جیساکہ اسد الغابہ میں روایت ہے:اسلم فی أول الإسلام، دعاہ أبو بکر إلی الإسلام فأسلم، وکان یقول: إنی لرابع أربعۃ فی الإسلام.
ابتداء اسلام میں آپ مشرف باسلام ہوئے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو آپ نے اسلام قبول کیا،اور آپ فرمایا کرتے:بیشک اسلام قبول کرنے والوں میں ،میں چوتھا شخص ہوں۔(اسد الغابۃ لابن الاثیر،باب العین،عثمان بن عفان)
نور الابصار میں ہے کہ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔
قال ابن اسحاق:ھو اول الناس اسلاما بعد ابی بکر وعلی وزید بن حارثۃ۔
علامہ ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اسلام قبول کیا۔(نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختارصلی اللہ علیہ والہ وسلم،ص79)
اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کا خصوصی اعزاز : آپ کو یہ بھی شرف حاصل ہیکہ آپ نے دو ہجرتیں فرمائیں:(1)ایک ملک حبشہ کی جانب اور (2) مدینہ منورہ کی جانب۔معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے:عَنْ أَنَسِ بن مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ ،قَالَ :.. فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ عُثْمَانَ أَوَّلُ مَنْ ہَاجَرَ إِلَی اللَّہِ بِأَہْلِہِ بَعْدَ لُو۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یقینا لوط علیہ السلام کے بعد عثمان رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخص ہیںجنہوں نے اپنی زوجہ کے ساتھ اللہ تعالی کی خاطر ہجرت کی ہے ۔(المعجم الکبیر للطبرانی،ج1،ص61،حدیث نمبر 141)
عقد نکاح : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ امتیازی شرف حاصل ہے کہ آپ کا عقد یکے بعد دیگرے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دوشہزادیوں سے ہوا،اسی لئے آپ کو ذوالنورین یعنی دو نور والے کہا جاتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے وصال کے بعد سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے فرمایا،اور آپ نے ارشاد فرمایا:والذی نفسی بیدہ لو أن عندی مائۃ بنت تموت واحدۃ بعد واحدۃ زوجتک أخری حتی لا یبقی من المائۃ شیء ہذا جبریل أخبرنی أن اللہ أمرنی أن أزوجک أختہا۔
ترجمہ : قسم خدا کی!اگر میری سو لڑکیاں ہوتیں اور یکے بعددیگر ے سب کا انتقال ہوتاجاتا تو میں ایک کے بعد ایک تمہارے نکاح میں دیتا جاتا،یہاں تک کہ سو(100) مکمل ہوجاتیں،ابھی جبریل امین علیہ السلام میرے پاس آئے تھے،انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے یہ حکم فرمایا ہے کہ میں ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کو تمہارے نکاح میں دوں۔(جامع الأحادیث،حدیث نمبر 16107۔الجامع الکبیر للسیوطی،حرف الام۔کنز العمال،کتاب الفضائل، حدیث نمبر 36206۔ نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ)
لقب "ذو النورین" کی وجہ تسمیہ : امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے تاریخ الخلفاء میں آپ کے لقب مبارک "ذوالنورین " سے متعلق روایت نقل فرمائی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دوصاحبزادیاں آپ کے عقد میں تھیں اسی لئے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے،اور حضرت آدم علیہ السلام سے قیامت تک کسی کو یہ شرف حاصل نہیں ہواکہ کسی نبی کی دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں ہوں؛یہ عظیم سعادت آپ کے حصہ میں آئی ۔وأخرج البیہقی فی سننہ عن عبد اللہ بن عمر بن أبان الجعفی قال: قال لی خالی حسین الجعفی: تدری لم سمی عثمان ذا النورین قلت لا قال: لم یجمع بین بنتی نبی منذ خلق اللہ آدم إلی أن تقوم الساعۃ غیر عثمان فلذلک سمی ذا النورین.(تاریخ الخلفاء ،ج1،ص60)
ملاء اعلی میں آپ کا تذکرہ : حضرات!جس بابرکت ہستی کا تذکرہ ہم زمین پر کررہے ہیں وہ ایسی مقدس ہستی ہے کہ ان کا تذکرہ ملاء اعلی میں بھی ہورہا ہے،آسمانی مخلوق بھی آپ کو ذو النورین کے مبارک لقب سے یاد کرتی ہے،جیساکہ کنز العمال میں روایت ہے:عن النزال بن سبرۃ قال: سألنا علیا عن عثمان قال: ذاک امرؤ یدعی فی الملأ الأعلی ذا النورین۔
حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ہم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شان وعظمت سے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:یہ وہ ہستی ہے جنہیں ملاء اعلی میں "ذو النورین"کے مبارک لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔(کنز العمال،کتاب الفضائل،حدیث نمبر 36181۔نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس)
کمال درجہ صفت حیاء سے متصف : حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کمال درجہ کی صفت حیاء سے متصف تھے،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کے مزاج وطبیعت کا خصوصی لحاظ فرمایا کرتے،صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے:عَنْ عَطَاء وَسُلَیْمَانَ ابْنَیْ یَسَارٍ وَأَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم مُضْطَجِعًا فِی بَیْتِی کَاشِفًا عَنْ فَخِذَیْہِ أَوْ سَاقَیْہِ فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَکْرٍ فَأَذِنَ لَہُ وَہُوَ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَہُ وَہُوَ کَذَلِکَ فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَان فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَسَوَّی ثِیَابَہُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَلاَ أَقُولُ ذَلِکَ فِی یَوْمٍ وَاحِدٍ ۔ُ فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَۃُ دَخَلَ أَبُو بَکْرٍ فَلَمْ تَہْتَشَّ لَہُ وَلَمْ تُبَالِہِ ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَہْتَشَّ لَہُ وَلَمْ تُبَالِہِ ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَسَوَّیْتَ ثِیَابَکَ فَقَالَ : أَلاَ أَسْتَحِی مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِی مِنْہُ الْمَلاَئِکَۃُ.
حضرت عطا بن یسار،حضرت سلیمان بن یساراور حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہم سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے کاشانۂ اقدس میں استراحت فرماتھے،اورآپ کے زانوے اقدس یا اپنی پنڈلی مبارک سے زائد کپڑا ہٹا ہوا تھا ،حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت طلب کی،آپ نے انہیں ا سی حالت میں اجازت عطافرمائی،انہوں نے ہمکلامی کا شرف حاصل کیا ،پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت طلب کی،آپ نے انہیں ا سی حالت میں اجازت عطافرمائی، انہوں نے ہمکلامی کا شرف حاصل کیا ،پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت طلب کی توحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور اپنے کپڑے درست فرمالئے،حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی خدمت میں معروضہ کیا، جب وہ چلے گئے تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا :حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے، آپ نے ان کے لے نہ توحرکت کی اور نہ ان کے لئے اہتمام کیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے، آپ نے ان کے لئے نہ توحرکت کی اورنہ ان کے لئے اہتمام کیا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے تو آپ تشریف فرما ہوئے اور اپنے کپڑے درست کئے؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اس شخص سے حیاء کیوں نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر،6362،چشتی)
صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے :إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَیِیٌ وَإِنِّی خَشِیتُ إِنْ أَذِنْتُ لَہُ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ أَنْ لاَ یَبْلُغَ إِلَیَّ فِی حَاجَتِہِ.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ)حیادار ہیں، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے اُنہیں اسی حالت میں اجازت دے دی تو وہ حیا کے باعث میرے پاس اپنی ضرورت کو پیش نہ کرسکیں گے۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر،6363)
آپ کی صفت حیاء کے پیش نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے حق میں خصوصی دعاء فرمائی،جیساکہ کنز العمال میں حدیث پاک ہے:سالت ربی عز وجل ألا یوقفہ الحساب فشفعنی فیہ. "أبو الحسن الجوہری فی أمالیہ وابن عساکر۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں نے اللہ سے معروضہ کیاکہ قیامت کے دن عثمان رضی اللہ عنہ کوحساب کے لئے کھڑا نہ کرے ،تو اللہ تعالی نے ان کے حق میں میری سفارش قبول فرمالی ۔ (کنز العمال،حدیث نمبر :33095)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس مقبول دعا کا بارگاہ الہی میں اس قدر لحاظ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں بارگاہ خداوندی سے خصوصی اعلان ہوگا کہ آپ بڑی عز وشان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃً ۔ فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ۔ وَادْخُلِی جَنَّتِی ۔
ترجمہ : اے مطمئن جان!اپنے پروردگار کی جانب لوٹ آ؛اس حال میں کہ تو رب سے راضی اور رب تجھ سے راضی ہے ،اور میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔(سورۃ الفجر،27/30)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر نے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے،جیساکہ تفسیر ابن کثیر میں ہے:فروی الضحاک، عن ابن عباس: نزلت فی عثمان بن عفان۔
امام ضحاک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔(تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ الفجر ،27)
آپ کی شان سخاوت : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں،جن سے آپ کی رفعت شان آشکار ہوتی ہے، آپ کی عظمت وفضیلت اور شانِسخاوت سے متعلق یہاں بطور نمونہ چند احادیث شریفہ ذکر کی جارہی ہیں جنہیں سیدی شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایۂ ناز کتاب "مقاصد الاسلام"حصۂ ششم میں درج فرمایا ہے۔
کنز العمال میں روایت ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:ان المیرۃ انقطعت عن المدینۃ حتی جاع الناس فخرجت إلی بقیع الغرقد فوجدت خمسۃ عشر راحلۃ علیہا طعام فاشتریتہا وحبست منہا ثلاثۃ وأتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم باثنتی عشرۃ راحلۃ، فدعا لی النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ : ایک مرتبہ کئی روز مدینہ منورہ میں باہر سے غلہ نہیں آیا اور یہاں تک کہ لوگوں کوبھوک لاحق ہوئی،تو میں بقیع غرقد کی جانب نکلا تو دیکھا کہ پندرہ اونٹ غلہ سے لدے ہوئے ہیں تو میں نے انہیں خرید ا اور تین اونٹ روکے رکھااور ان میں سے بارہ اونٹ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میرے حق میں برکت کی دعا فرمائی۔(کنز العمال،کتاب الفضائل،حدیث نمبر 36335)
امام ابن عساکر اور امام علی متقی ہندی رحمۃ اللہ علیہما نے روایت نقل کی ہے:عن ابی مسعود قال۔۔۔۔۔ فرأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد رفع یدیہ حتی رئی بیاض إبطیہ یدعو لعثمان دعاء ما سمعتہ دعا لأحد قبلہ ولا بعدہ اللہم! أعط عثمان، اللہم! افعل بعثمان.
ترجمہ : حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا:میں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نہایت خوشی سے دونوں ہاتھ اس قدر اونچے فرمائے کہ آپ کے مبارک بغلوں سے نور ظاہر ہونے لگا ، آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے جو دعائیں فرمائیں میں نے حضرت عثمان سے پہلے اور آپ کے بعد کسی کے لئے حضورکو اس قدر دعاکرتے ہوئے نہیں سنا۔ آپ دعا فرماتے:اے اللہ! عثمان کو یہ یہ عطا فرما!اے اللہ؛عثمان کو ان ان چیزوں سے مالامال فرما ۔ (کنز العمال،کتاب الفضائل،حدیث نمبر 36196،چشتی)
نیز ابن عساکر اور کنز العمال میں حدیث پاک ہے:عن کثیر بن مرۃ قال: سئل علی عن عثمان قال: نعم یسمی فی السماء الرابعۃ ذا النورین، وزوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واحدۃ بعد أخری، ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من یشتری بیتا یزیدہ فی المسجد غفر اللہ لہ، فاشتراہ عثمان فزادہ فی المسجد، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من یبتاع مربد بنی فلان فیجعلہ صدقۃ للمسلمین غفر اللہ لہ! فاشتراہ عثمان فجعلہ صدقۃ علی المسلمین، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من یجہز ہذا الجیش ۔ یعنی جیش العسرۃ ۔ غفر اللہ لہ! فجہزہم عثمان حتی لم یفقدوا عقالا. "کر".۔
حضرت کثیر بن مرہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:وہ کیا خوب شان والے ہیں!انہیں چوتھے آسمان پر "ذو النورین "کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے،اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یکے بعد دیگر اپنی دو شہزادیوں کا ان سے نکاح کروایا،پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص (مسجد سے متصل )گھر خرید کرمسجد نبوی میں شامل کرے اس کو خدائے تعالیٰ بخش دے گا،تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ گھر خرید کر مسجد میں شریک کردیا ، پھر ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص فلاں قبیلہ کا مربد یعنی کھجوریں اور غلہ سکھانے کی جگہ خرید کر مسلمانوں پر صدقہ کردے اس کو خدائے تعالیٰ بخش دے گا ،تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کو خرید کرمسلمانوں پر صدقہ کردیا ، پھر ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جیش عسرت کا سامان مہیّاکردے خدائے تعالیٰ اس کو بخش دے گا ، عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام لشکر کا مکمل سامان فراہم کردیا یہاں تک کہ اس میں ایک عقال بھی کم نہ تھی۔(کنز العمال،کتاب الفضائل،حدیث نمبر 36249)
امام طبرانی ،امام ابن عساکر اور امام علی متقی ہندی رحمہم اللہ نے روایت نقل کی ہے:عَنْ اَبِی سَلَمَۃَ بِشْرِ بن بَشِیرٍ الأَسْلَمِیِّ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ :لَمَّا قَدِمَ الْمُہَاجِرُونَ الْمَدِینَۃَاسْتَنْکَرُوا الْمَاءَ ، وَکَانَتْ لِرَجُلٍ مِنْ بنی غِفَارٍ عَیْنٌ یُقَالُ لَہَا : رُومَۃٌ ، وَکَانَ یَبِیعُ مِنْہَا الْقِرْبَۃَ بِمُدٍّ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بِعْنِیہا بِعَیْنٍ فِی الْجَنَّۃِ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ لَیْسَ لِی ، وَلا لِعِیَالی غَیْرُہَا ، لا أَسْتَطِیعُ ذَلِکَ ، فَبَلَغَ ذَلِکَ عُثْمَانَ رَضِی اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ فَاشْتَرَاہَا بِخَمْسَۃٍ وَثَلاثِینَ أَلْفَ دِرْہَمٍ ، ثُمَّ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَتَجْعَلُ لِی مِثْلَ الَّذِی جَعَلْتَہُ لَہُ عَیْنًا فِی الْجَنَّۃِ إِنِ اشْتَرَیْتُہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : قَدِ اشْتَرَیْتُہَا ، وَجَعَلْتُہَا لِلْمُسْلِمِینَ.
حضرت ابو سلمہ بشر بن بشیر اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے فرمایا :جب مہاجرین مدینہ منورہ آئے تو پانی کو ناموافق پایا،اور قبیلہ بنو غفار کے ایک شخص کے پاس ایک کنواں تھا جسے "رومہ"کہا جاتا تھا،وہ شخص اس کنویں سے ایک مشک پانی ایک مُد کے بدلہ فروخت کرتا تھا،تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا :تم اس کنویں کو مجھے جنت کے ایک چشمہ کے عوض بیچ دو!تو اس نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !میرے اور میرے گھر والوں کے لئے اس کے سوا (کمائی کا)کوئی اور ذریعہ نہیں ہے لہذا میں اسے بیچنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔جب یہ بات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے اسے پینتیس ہزار درہم کے عوض خریدلیا ، پھر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !اگر میں اس کنویں کو خرید لوں تو کیا آپ جنت کا چشمہ میرے لئے مقرر کردیں گے جس طرح آپ نے اس شخص کے لئے جنت کا چشمہ مقرر کیا تھا،آپ نے ارشاد فرمایا:ہاں!انہوں نے عرض کیا:یقینا میں نے اس کو خرید لیا اور مسلمانوں کے لئے وقف کردیا ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر1212۔کنز العمال،کتاب الفضائل، حدیث نمبر 36183،چشتی)
اللہ تعالی نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سخاوت وفیاضی کی صفت سے متصف فرمایا،جود وسخا کی صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی،جب بھی اعلاء کلمۃ الحق کے لئے مال کی ضرورت پیش آتی تو آپ بے دریغ اپنا مال خرچ کرتے،کنز العمال میں حدیث شریف ہے:عن عمران بن حصین أنہ شہد عثمان بن عفان أیام غزوۃ تبوک فی جیش العسرۃ فأمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالصدقۃ والقوۃ والتأسی وکانت نصاری العرب کتبوا إلی ہرقل: إن ہذا الرجل الذی خرج ینتحل النبوۃ قد ہلک وأصابتہم سنون فہلکت أموالہم فإن کنت ترید أن تلحق دینک فالآن، فبعث رجلا من عظمائہم یقال لہ الصنار وجہز معہ أربعین ألفا فلما بلغ ذلک نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتب فی العرب وکان یجلس کل یوم علی المنبر فیدعو اللہ ویقول: اللہم إنک إن تہلک ہذہ العصابۃ فلن تعبد فی الأرض فلم یکن للناس قوۃ، وکان عثمان بن عفان قد جہز عیرہ إلی الشام یرید أن یمتار علیہا فقال: یا رسول اللہ! ہذہ مائتا بعیر بأقتابہا وأحلاسہا ومائتا أوقیۃ فحمد اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکبر وکبر الناس، ثم قام مقاما آخر فأمر بالصدقۃ، فقام عثمان فقال: یا نبی اللہ! وہاتان مائتان ومائتا أوقیۃ فکبر وکبر الناس۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،آپ نے دیکھا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جیش عسرت میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ موجود تھے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صدقہ کرنے ،طاقتور بننے اور پیروی کرنے کا حکم فرمایا، عرب کے نصاری نے ہرقل کو لکھا کہ یہ صاحب جو نبوت کا دعوی کرتے ہیں اُن کی قوم اِن دنوں تباہی میں ہے وہ قحط سالی سے دوچار ہیں؛کیونکہ ان کے مال ہلاک ہوگئے ،اگر تم کو اپنے دین کی پاسداری ہے اور مدد کرنا چاہتے ہوتو یہی موقع ہے،اس نے ایک گورنر کو روانہ کیاجسے "صنار"کہاجاتا تھا،اور اس کے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تیار کرکے مقابلہ کے لئے بھیجا،جب یہ خبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اطراف واکناف عرب کے علاقہ میں مبارک خطوط روانہ فرمائے، ہر روز آپ منبر پر تشریف فرماہوتے اور دعا میں کہتے کہ الہی!اگر یہ چند مسلمان ہلاک ہوجائیں تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا،ان مسلمانوں کی مالی حالت ابتر تھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ملک شام سے غلہ لانے کے لئے تجارتی قافلہ تیار کیا تھا،اسلامی ضرورت کو دیکھ کر عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!میں دو سو (200)اونٹ مع پالان دیگر سامان اور دو سو (200)اوقئے پیش کرتا ہوں،تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے "الحمد للہ "کہہ کر تکبیر کہی اور سب مسلمان اتنے خوش ہوئے کہ ہر طرف سے تکبیر کے نعرے بلند ہوئے،پھر دوسرے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو صدقہ کرنے کی رغبت دی،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! دو سو (200)اونٹ اور دو سو(200)اوقئے پیش کرتا ہوں،اس پر آپ نے تکبیر کہی،اورہر طرف سے تکبیر کے نعرے بلند ہوئے ۔(کنز العمال ،کتاب الفضائل،حدیث نمبر 36188)
اسی طرح متفرق مجلسوں میں نو سوپچاس(950)اونٹنیاں اور بعض روایتوں میں نو سو ستر(970)اونٹنیاں اور تیس گھوڑے اور سات سو (700)اوقئے سونا اور دس ہزار (10,000)دینار نقد پیش کئے۔حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب دس ہزار(10,000) دینارحضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روبرو پیش کئے گئے تو آپ ان دینار کو نہایت خوشی سے نیچے اوپر کرتے اور یہ فرماتے جاتے:اے عثمان!اللہ تعالی نے تمہارے ہر قسم کے گناہ خواہ چھپے ہوں یا ظاہر ،آئندہ قیامت تک ہونے والے سب کی مغفرت کردی،پھر ارشاد فرمایا:اس کے بعد عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جو چاہیں کریں؛کچھ پرواہ نہیں،کوئی امر ان کو ضرر نہ دے گا۔(کنز العمال ،کتاب الفضائل،حدیث نمبر 36189)
فبعث إلیہ عثمان بعشرۃ آلاف دینار فصبت بین یدیہ فجعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقلبہا بین یدیہ ظہرا لبطن ویدعو لہ یقول: غفر اللہ لک یا عثمان! ما أسررت وما أعلنت وما أخفیت وما ہو کائن إلی أن تقوم الساعۃ ما یبالی عثمان ما عمل بعد ہذا. "عد، قط" وأبو نعیم فی فضائل الصحابۃ، "کر".
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دفاع ،صحابہ کی سنت
اللہ تعالی نے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے ایمان کو امت کے لئے ہدایت کا معیار قرار دیا،جب بھی حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی شان کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو ایمانی تقاضہ یہ ہیکہ ان کا دفاع کرکے اپنی محبت ووابستگی کا ثبوت دیں،صحیح بخاری شریف میں حدیث شریف ہے:عُثْمَانُ ۔ ہُوَ ابْنُ مَوْہَبٍ ۔ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مَنْ أَہْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَیْتَ فَرَأَی قَوْمًا جُلُوسًا ، فَقَالَ مَنْ ہَؤُلاَءِ الْقَوْمُ قَالَ ہَؤُلاَءِ قُرَیْشٌ۔ قَالَ فَمَنِ الشَّیْخُ فِیہِمْ قَالُوا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ۔قَالَ یَا ابْنَ عُمَرَ إِنِّی سَائِلُکَ عَنْ شَیْءٍ فَحَدِّثْنِی ہَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ یَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ . قَالَ تَعْلَمُ أَنَّہُ تَغَیَّبَ عَنْ بَدْرٍ وَلَمْ یَشْہَدْ قَالَ نَعَمْ . قَالَ تَعْلَمُ أَنَّہُ تَغَیَّبَ عَنْ بَیْعَۃِ الرُّضْوَانِ فَلَمْ یَشْہَدْہَا قَالَ نَعَمْ . قَالَ اللَّہُ أَکْبَرُ . قَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ أُبَیِّنْ لَکَ أَمَّا فِرَارُہُ یَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْہَدُ أَنَّ اللَّہَ عَفَا عَنْہُ وَغَفَرَ لَہُ ، وَأَمَّا تَغَیُّبُہُ عَنْ بَدْرٍ ، فَإِنَّہُ کَانَتْ تَحْتَہُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَکَانَتْ مَرِیضَۃً ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا وَسَہْمَہُ . وَأَمَّا تَغَیُّبُہُ عَنْ بَیْعَۃِ الرُّضْوَانِ فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَہُ مَکَانَہُ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم عُثْمَانَ وَکَانَتْ بَیْعَۃُ الرُّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَہَبَ عُثْمَانُ إِلَی مَکَّۃَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِیَدِہِ الْیُمْنَی ہَذِہِ یَدُ عُثْمَانَ. فَضَرَبَ بِہَا عَلَی یَدِہِ ، فَقَالَ ہَذِہِ لِعُثْمَانَ. فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرَ اذْہَبْ بِہَا الآنَ مَعَکَ .
حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا:ایک مصری شخص حج بیت اللہ کے ارادہ سے آیا،تو اس مصری شخص نے چند بیٹھے ہوئے افراد کو دیکھا اور پوچھا کہ یہ کس قبیلہ کے ہیں؟لوگوں نے کہا:یہ اکابر قریش ہیں،پھر اس شخص نے پوچھا:ان کے سردار کون ہیں؟لوگوں نے کہا:عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما،اس نے کہا:اے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما!میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں،آپ مجھے بیان کریں!کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ غزوۂ احد کے دن موجود نہیں تھے؟آپ نے فرمایا:ہاں،اس نے سوال کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں موجود نہیں تھے اور اس میں شرکت نہیں کی؟آپ نے فرمایا:ہاں،پھر اس نے پوچھا :کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے موقع پر موجود نہیں تھے اور اس میں شرکت نہیں کی؟آپ نے فرمایا:ہاں،اس نے کہا:اللہ اکبر!حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: آؤ،میں تمہیں حقیقت بیان کرتاہوں:اب رہا آپ کا غزوۂ احد کے دن موجود نہ ہونا تو میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالی نے انہیں درگزر فرمادیا اوران کی مغفرت فرمادی۔اب رہا آپ کاغزوۂ بدرمیں موجود نہ رہنا تواس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے عقد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شہزادی تھیں،اور وہ بیمار تھیں،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو حکم فرمایا کہ بیشک تمہیں وہی ثواب اور حصہ ہے جو بد ر میں شریک ہونے والے آدمی کے لئے ہے۔اب رہا آپ کا بیعت رضوان کے وقت موجود نہ رہنا ،تو اگر کوئی وادیٔ مکہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے زیادہ عزت وغلبہ والا ہوتا تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسی کو (اسلام کا سفیر بنا کر)روانہ فرماتے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہی کو روانہ فرمایا تھا،اور بیعت رضوان تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکہ مکرمہ روانہ ہونے کے بعد ہوئی،اس موقع پرحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے داہنے دست مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:یہ عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ)کا ہاتھ ہے،اور اسے اپنے بائیں دست مبارک پر رکھ کر فرمایا :یہ(بیعت) عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ)کی جانب سے ہے۔پھر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے اس سوال کرنے والے شخص سے فرمایا: اب ان حقائق کو اپنے ساتھ (بحفاظت)لے جاؤ!۔(صحیح البخاری ،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب عثمان بن عفان أبی عمرو القرشی رضی اللہ عنہ . حدیث نمبر،3698،چشتی)
صلح حدیبیہ کے وقت جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بطور سفیر ‘مکہ مکرمہ روانہ فرمایا،اہل مکہ نے آپ سے کہا کہ آپ طواف کرلیں اور عمرہ ادا کرلیں ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر ہرگز کعبۃ اللہ کا طواف نہیں کروں گا ، تب انہوں نے آپ کو روک لیا اور مسلمانوں میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ کفار نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے جاں نثاری کی بیعت لی پھراپنے داہنے دست مبارک کو بائیں دست مبارک پر رکھ کر فرمایا اے اللہ !یہ ہاتھ عثمان کی جانب سے ہے اور یہ ان کی طرف سے بیعت ہے کیونکہ وہ تیرے اور تیرے رسول کی فرمانبرداری میں ہیں ۔
یہاں یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ اگر حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہوتاتو آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی جھوٹی خبر پہنچنے کے بعد صحابہ کرام سے بیعت نہ لیتے ۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہ ہوتا تو آپ حضرت عثمان کی جانب سے بیعت نہ لیتے کیونکہ جن کی شہادت ہوچکی اُن سے بیعت نہیں لی جاتی ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے بیعت لی، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بابت حقیقی صورت حال سے بخوبی واقف و باخبر ہیں ۔
حضرت عثمان کی دیانت پر حضور کو کامل اعتماد
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی صداقت ودیانت اور بارگاہ نبوی میں آپ کی قدر ومنزلت کا اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو اسلام کا سفیر مقرر کرکے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا،آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اسلامی سفیر منتخب کرکے گویا یہ پیام دیا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی صداقت پر آپ کو مکمل اعتماد ہے اور آپ کی دیانت پر کامل وثوق ہے ، آپ کی صداقت و دیانت ہر شبہ سے بالا تر ہے ۔
حدیبیہ میں آپ کو اسلامی سفیر مقرر کرنے کی حکمت
حدیبیہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو اپنے نمائندہ کی حیثیت سے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ اہل مکہ میں بھی معزز ومکرم تھے،وہ لوگ آپ کی عزت وتکریم کیا کرتے تھے،اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نگاہ نبوت دیکھ رہی تھی کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ شخصیت پر انگلیاں اٹھائی جائیں گی،آپ کے بے داغ کردار پرچہ میگوئیاں کی جائیں گی،آپ کی صداقت ودیانت پر مختلف اعتراضات کئے جائیں گے،اسی لئے آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا نمائندہ مقرر فرمایا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا آپ کو اپنا نمائندہ بنانا یہ آپ کی کمال دیانت پر دلالت کرتا ہے اور دست اقدس کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دینا یہ آپ کی کمال قربت پر دلالت کرتا ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے بغض کا نتیجہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت بابرکت میں رہنے والے خوش نصیب حضرات سے قلبی محبت اور گہری وابستگی رکھنا ایمان کا تقاضا ہے،اور ان سے بغض رکھنا اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناراضگی کا موجب ہے،جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے:عَنْ جَابِرٍ قَالَ أُتِیَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَۃِ رَجُلٍ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ فَقِیلَ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا رَأَیْنَاکَ تَرَکْتَ الصَّلَاۃَ عَلَی أَحَدٍ قَبْلَ ہَذَا قَالَ إِنَّہُ کَانَ یُبْغِضُ عُثْمَانَ فَأَبْغَضَہُ اللَّہ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک شخص کاجنازہ لایا گیا کہ آپ اس کی نمازجنازہ پڑھائیں توآپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی ، صحابہ کرام نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے آپ کو اس سے پہلے کسی کی نماز جنازہ ترک فرما تے ہوئے نہیں دیکھا ،تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ شخص عثمان(رضی اللہ عنہ) سے بغض رکھتا تھا تو اللہ تعالی نے اس کو سخت نا پسند فرمایاہے۔(جامع الترمذی،ابواب المناقب،حدیث نمبر:3709)
آپ کی تواضع اور سادگی : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مراتب عالیہ پر فائز ہونے کے باوجود مکمل تواضع اور سادگی کے ساتھ زندگی بسر کیا کرتے،نزہۃ المجالس میں ہے:وکان یطعم الناس طعام الإمارۃ ویأکل الخل والزیت۔
آپ لوگوں کو بادشاہوں کی طرح کھلایا کرتے اور خود سرکہ اور زیتون استعمال کرتے۔(نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو شہادت کی بشارت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعطاء الہی قیامت تک رونما ہونے والے واقعات اور امتیوں کے احوال سے باخبر ہیں،یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو پہلے ہی بشارت دی کہ وہ شہید کئے جانے والے ہیں،جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے:عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ صَعِدَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَی أُحُدٍ وَمَعَہُ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِہِمْ ، فَضَرَبَہُ بِرِجْلِہِ ، قَالَ : اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَیْکَ إِلاَّ نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَہِیدَانِ ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ احد پہاڑ پر تشریف فرما ہوئے تو وہ اپنے مقدر پر ناز کرتے ہوئے فرط مسرت سے جھومنے لگا، حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم مبارک مار کر اس سے فرمایا اے احد!تھم جا تجھ پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک صدیق اور دوشہید ہیں ۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر: 3686،چشتی)
نیز امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے ابن عساکر کے حوالہ سے روایت نقل فرمائی :واخرج ابن عساکر عن زید بن ثابت قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:مر بی عثمان وعندی ملک من الملائکۃ فقال: شہید یقتلہ قومہ إنا نستحی منہ ۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:عثمان میرے پاس سے گزرے اس وقت میرے پاس ایک فرشتہ حاضر تھا،اس نے عرض کیا:حضرت عثمان شہید ہیں،آپ کو آپ کی قوم شہید کرے گی ،ہم سارے فرشتے حضرت عثمان سے حیاء کرتے ہیں۔(تاریخ الخلفاء ، ج 1، ص62)
خلافت اور جنت کی بشارت : یوں تو اللہ تعالی نے عمومی طور پر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ،جیساکہ ارشاد ہے:وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ۔ اور اللہ تعالی نے تمام (صحابۂ کرام) سے جنت کا وعدہ فرمالیاہے۔(سورۃ الحدید۔10)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ جنت کی اس عمومی بشارت کے باوصف خصوصی بشارت سے بھی سرفراز فرمائے گئے،جیساکہ کنز العمال میں حدیث پاک ہے : عن انس قال: جاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فدخل إلی بستان فأتی آت فدق الباب، فقال: یا أنس! قم فافتح لہ الباب وبشرہ بالجنۃ والخلافۃ من بعدی، قلت: یا رسول اللہ! أعلمہ؟ فقال: أعلمہ، فخرجت فإذا أبو بکر، قلت لہ: أبشر بالجنۃ وأبشر بالخلافۃ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ثم جاء آت فدق الباب، فقال: یا أنس! قم فافتح لہ الباب وبشرہ بالجنۃ وبالخلافۃ من بعد أبی بکر قلت: یا رسول اللہ! أعلمہ؟ فقال: أعلمہ، فخرجت فإذا عمر، فقلت: أبشر بالجنۃ وأبشر بالخلافۃ من بعد أبی بکر، ثم جاء آت فدق الباب، فقال: یا أنس! قم فافتح لہ الباب وبشرہ بالجنۃ وبالخلافۃ من بعد عمر وأنہ مقتول، فخرجت فإذا عثمان، قلت: أبشر بالجنۃ وبالخلافۃ من بعد عمر وأنک مقتول، فدخل علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللہ! واللہ ما تغنیت ولا تمنیت ولامسست ذکری بیمینی منذ بایعتک بہا، قال: ہو ذاک یا عثمان."کر" ، ورواہ "ع، کر" من طریق عبد اللہ بن إدریس عن المختار بن فلفل عن أنس.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جلوہ گر ہوئے اور ایک باغ میں تشریف لے گئے،ایک صاحب حاضر ہوئے اور دروازہ پر دستک دی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے انس!اٹھو،اور ان کے لئے دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی اور میرے بعد خلافت کی بشارت سنادو!میں نے عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!کیا میں انہیں یہ بات بتادوں؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہاں انہیں بتلادو!جب میں باہر نکلا تو کیا دیکھتاہوں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہیں،میں نے ان سے کہا:آپ کے لئے جنت کی خوشخبری ہے،اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خلافت کی خوشخبری ہے۔پھرایک صاحب حاضر ہوئے اور دروازہ پر دستک دی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ائے انس!اٹھو،اور ان کے لئے دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی اور ابو بکر کے بعد خلافت کی بشارت سنادو! میں نے عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!کیا میں انہیں یہ بات بتادوں؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہاں انہیں بتلادو!جب میں باہر نکلا تو کیا دیکھتاہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہیں،میں نے کہا:آپ کے لئے جنت کی خوشخبری ہے،اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت کی خوشخبری ہے۔پھرایک صاحب حاضر ہوئے اور دروازہ پر دستک دی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ائے انس!اٹھو،اور ان کے لئے دروازہ کھول دواور انہیں جنت کی اور عمر بعد خلافت کی بشارت سنادو!اور یہ بھی بشارت سنادو کہ وہ شہید ہونے والے ہیں،جب میں باہر نکلا تو کیا دیکھتاہوں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہیں،میں نے کہا:آپ کے لئے جنت کی خوشخبری ہے،اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت کی خوشخبری ہے،اوریہ بشارت بھی ہے کہ آپ شہید کئے جائيں گے ۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!اللہ کی قسم!میں نے کبھی گانا نہیں گایااور نہ کبھی بے حیائی کا کام کیااور جس وقت سے میں نے اپنے سیدھے ہاتھ سے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی ہے کبھی اس سے اپنی شرمگاہ کو نہیں چھوا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ائے عثمان! یہی وجہ ہے کہ تمہیں یہ درجات ملے ہیں۔(کنز العمال، فضائل ذو النورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، حدیث نمبر:36267،چشتی)
آپ نے دو مرتبہ حضور سے جنت خرید لی
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ عشرۂ مبشرہ سے ہیں،ونیز آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنت خریدی ہے،جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین میں روایت ہے:عن ابی ہریرۃ قال : اشتری عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ الجنۃ من النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرتین : بیع الحق حیث حفر بئر معونۃ ، وحیث جہز جیش العسرۃ۔ صحیح الإسناد۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دو مرتبہ قطعی طور پر جنت خریدلی۔جس وقت بئر معونہ کو کھودا اور جبکہ جیش عسرت (غزوۂ تبوک ) کا سامان فراہم کیا۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔(مستدرک علی الصحیحین،حدیث نمبر:4564)
جنت میں حضور کی رفاقت
اللہ تعالی نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خصوصی شرف عطا فرمایا کہ آپ کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی اور جنت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خصوصی رفیق ہونے کا اعزاز بھی عطا کیا گیا،جیساکہ جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے:عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ قَالَ : قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم: لِکُلِّ نَبِیٍّ رَفِیقٌ وَرَفِیقِی ۔ یَعْنِی فِی الْجَنَّۃِ عُثْمَانُ۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرے رفیق عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔(جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب فی مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر:4063)
اولاد امجاد : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ایک فرزند حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے تولد ہوئے جن کا نام عبداللہ رضی اللہ عنہ ہے ۔
دور خلافت : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی تدفین مبارک کے تیسرے دن مسند خلافت پر جلوہ گر ہوئے۔(تاریخ الخلفاء )آپ کا دور خلافت کچھ کم بارہ سال رہا۔
شہادت عظمی
18 ذی الحجہ 35ھ بروز جمعہ بعد نماز عصر آپ نے جام شہادت نوش فرمایاآپ کا مزار مبارک جنت البقیع شریف میںہے،اسد الغابہ میں ہے:عن ابی معشر قال: وقتل عثمان یوم الجمعۃ، لثمان عشرۃ مضت من ذی الحجۃ، سنۃ خمس وثلاثین، وکانت خلافتہ اثنتی عشرۃ سنۃ إلا اثنی عشر یوماً۔
حضرت ابو معشر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ جمعہ کے دن،اٹھارہ(18)ذی الحجہ،سنہ35ہجری میں شہید کئے گئے،اور آپ کا دور خلافت بارہ دن کم ، بارہ( 12)سال رہا۔(اسد الغابہ لابن الاثیر،چشتی)
بلوائیوں نے انچاس(49) دن تک آپ کا محاصرہ کیا،شہادت سے قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا:اگر چاہو تو ہمارے پاس افطار کرلو اور چاہو تو تمہاری مدد کی جائے گی توآپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ افطار کرنے کو اختیار کیا ،جیساکہ نور الابصار میں روایت ہے:فقال اللیلۃ رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وقد مثل لی فی ہذہ الخوخۃ واشار عثمان بیدہ الی خوخۃ فی اعلی دارہ۔فقال:یاعثمان! حصروک؟قلت:نعم،قال :عطشوک؟ قلت :نعم،قال:فدلی دلوا شربت منہ،فہا انا اجد برودۃ ذلک الدلو بین ثدیی وبین کتفی ،فقال :ان شئت افطرت عندنا وان شئت نصرت علیہم،فاخترت الفطر۔نقلہ الاسحاقی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:آج رات میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا،یقینا آپ اس کھڑکی میں جلوہ گر ہوئے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے مکان کے اوپر کی جانب جو کھڑکی ہے اشارہ کیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے عثمان!انہوں نے تمہارا محاصرہ کیاہے؟میں نے عرض کیا:ہاں۔آپ نے فرمایا؛انہوں نے تمہیں پیاسا رکھا؟میں نے عرض کیا:ہاں۔حضرت عثمان نے کہا:پھر آپ نے ایک ڈول عنایت فرمایا‘ میں نے اسے نوش کیا،میں ابتک اپنے سینہ اور شانوں کے درمیان اس ڈول کی ٹھنڈک کو پارہا ہوں۔پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر تم چاہو تو ہمارے پاس افطار کرو اور اگر چاہو تو ان لوگوں پر تمہاری مدد کی جائے گی‘ تو میں نے آپ کے ساتھ افطار کی سعادت کو چن لیا۔علامہ اسحاقی نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔(نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم،ص85)
بروز حشر 'شان عثمان کا ظہور
بروز حشر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی وہ اعزاز واکرام سے نوازے گا کہ مشرق ومغرب کے تمام لوگ رشک کریں گے،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین میں ہے:عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال :کنت قاعدا عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذ أقبل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، فلما دنا منہ ، قال : یا عثمان ، تقتل وأنت تقرأ سورۃ البقرۃ ، فتقع من دمک علی:(فسیکفیکہم اللہ وہو السمیع العلیم)، وتبعث یوم القیامۃ أمیرا علی کل مخذول ، یغبطک أہل المشرق والمغرب ، وتشفع فی عدد ربیعۃ ومضر۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر تھا،اچانک حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے،جب آپ قریب آئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے عثمان!تمہیں اس حال میں شہید کیا جائے گا کہ تم سورۂ بقرہ کی تلاوت کررہے ہوں گے اور تمہارا خون آیت کریمہ " فسیکفیکہم اللہ وہو السمیع العلیم "پر گرے گا،قیامت کے دن تمہیں اس شان سے اٹھایا جائے گا کہ تم ہر آزمائش میں مبتلا شخص کے سردار ہوں گے،تمہارے مقام کو دیکھ کر مشرق ومغرب کے تمام لوگ رشک کریں گے اور تم قبیلۂ ربیعہ اور مضرکے افراد کی تعداد میں لوگوں کی شفاعت کروگے۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنھم،ذکر مقتل أمیر المؤمنین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ،حدیث نمبر:4531)
نماز جنازہ میں فرشتوں کی شرکت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بشارت دی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ میں آسمانی فرشتے شریک ہوں گے،جیساکہ الریاض النضرۃمیں حدیث شریف ہے:عن عمر بن الخطاب قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: یوم یموت عثمان تصلی علیہ ملائکۃ السماء قلت یا رسول اللہ عثمان خاصۃ أم الناس عامۃ قال: عثمان خاصۃ.
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا:جس دن عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) شہید ہوں گے آسمانی فرشتے ان کی نماز ادا کریں گے،میں نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !کیا یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے خاص ہے یا عام لوگوں کے لئے بھی یہ اعزاز ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا:یہ عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ )کے لئے خاص ہے۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ۔ نزھۃ المجالس ومنتخب النفائس۔مختصر تاریخ دمشق،چشتی)
ارشادات وفرمودات
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو اخیر خطبہ ارشاد فرمایا اسے علامہ مؤمن بن حسن شبلنجی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نور الابصار میں نقل کیا ہے:عن یزید بن عثمان ،قال آخر خطبۃ خطبہا عثمان:ایھا الناس!ان اللہ انما اعطاکم الدنیا لتطلبوا بھا الآخرۃ فلم یعطکموھا لترکنوا الیھا ،ان الدنیا تفنی والآخرۃ تبقی لاتبطرنکم الفانیۃ ولا تشغلنکم عن الباقیۃ آثروا ما یبقی علی ما یفنی فان الدنیا مقطعۃ وان المصیر الی اللہ،اتقوا اللہ فان تقواہ جنۃ من باسہ ووسیلۃ عندہ،واحذروامن اللہ الغیرۃ،الزموا جماعتکم لاتصیروا اخدانا، وَاذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا ۔
حضرت یزید بن عثمان سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے اخیر خطبہ میں ارشاد فرمایا:اے لوگو!بیشک اللہ تعالی نے تمہیں دنیا اس لئے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ آخرت طلب کرو!دنیا تمہیں اس لئے نہیں دی گئی کہ تم اس کی جانب مائل ہوجاؤ۔یاد رکھو!دنیا فنا ہونے والی ہے،اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔فنا ہونے والی چیز ہر گز تمہیں ناشکرگزار نہ بنائے اور باقی رہنے والی چیز سے غافل نہ کردے،فنا ہونے والی(دنیا)پر باقی رہنے والی (آخرت)کو ترجیح دیا کرو؛کیونکہ دنیا سفر کی جگہ ہے اور حقیقت میں سب کو اللہ تعالی کی طرف لوٹنا ہے۔اللہ تعالی سے ڈرتے رہو؛کیونکہ اللہ کا خوف اس کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ اور اس کے تقرب کا وسیلہ ہے۔اور اللہ تعالی کی صفت غیرت سے بچو! اور اپنی جماعت پر مضبوطی سے قائم رہو!(بزرگوںکے ساتھ) دوست نہ ہوجاؤاور تم اللہ تعالی کی نعمت کو یاد کرو؛جو(محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں)اس نے تم پر فرمائی ہے !جبکہ تم دشمن تھے،تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی اور تم اس کی اس نعمت کی برکت سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم لوگ دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے، تو اس نے تمہیں وہاں سے نکالا ۔ (نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،ص80)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات طیبہ کا ہر گوشہ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت مبارکہ ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ارشادات وفرمودات انسانی زندگی میں ایک حسین انقلاب کا موجب ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات گرامی سے بے پناہ محبت کرنے اور آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment