تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ہولو کاسٹ
اے میرے مسلمان بھای ، بہنو اور بیٹے و بیٹیو اس تحریر کو ایک بار ضرور غور سے پڑھنا اور دیگر مسلمانوں تک پہنچانا : کئی سال سے مغربی جرائد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع ہو رہے ہیں۔ ٹیری جونز نے قرآن کریم کو جلایا۔ ایسے اقدامات پر پورے عالم اسلام میں شدید ردعمل کا اظہار ہوا ۔ اس سے توہین اسلام کرنے والوں نے کوئی اثر نہیں لیا ۔ اب انوسنس آف مسلمز کے نام سے ٹیری جونز کے تعاون سے نیکولا باسیلے نیکولا نے ایک انتہائی توہین آمیز فلم بنا ڈالی ۔ اس پر مسلمانوں میں آج پھر شدید ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ عالم اسلام میں مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ کہیں کہیں اشتعال میں آکر مظاہرین تشدد پر بھی اتر آتے ہیں ۔ لیبیا میں تو ہجوم نے امریکی سفیر بھی مار ڈالا‘ جمعہ 21 ستمبر کو پاکستان میں بھی جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ہوئے۔ بجائے اس کے کہ مغرب‘ مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے گستاخانہ فلم کی نمائش پر پابندی لگاتا اور تہذیبوں کو تصادم کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کرنے والوں کو نکیل ڈالتا۔ اس نے مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بننے والے اقدام کو آزادی اظہار کا نام دے دیا۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوئی فلم کے خلاف ابھی احتجاج جاری ہے کہ فرانس کے جریدے چارلی ہیبڈو نے نبی پاک کے خاکے بنانے کی جسارت کی اور ساتھ ہی سپین میں بھی یہی عمل دہرایا گیا۔ ڈنمارک اور سویڈن میں چند سال قبل خاکے بنائے گئے 2004ءمیں ڈینش فلمساز میتھیو وان جوگ نے اپنی فلم میں حضور کا مذاق اڑایا۔ اس ملعون کو اس کے ہم وطن مسلمان نے جہنم واصل کر دیا تھا۔ مولی نورس نے 2010ءمیں ”محمد کے خاکے بناے دن“ منایا۔ ٹیری جونز کی قرآن جلانے کے حوالے سے خباثت بھی سامنے ہے۔ ان واقعات سمیت دیگر توہین آمیز اور گستاخانہ واقعات و اقدامات کے خلاف اہل اسلام نے ممکنہ حد تک شدید احتجاج کیا لیکن مغرب اور اس کے گستاخوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حسب سابق انوسنس آف مسلمز کے خلاف ہمارا احتجاج اور اشتعال وقت گزرنے کے ساتھ ماند پڑتا چلا جائے گا۔ ایسی پھر کوئی جسارت ہوئی تو ہم پھر سڑکوں پر ہوں گے ۔ اس کا کوئی مستقل حل بھی ہے کہ گستاخوں کی زباں بندی کی جا سکے ؟ ہاں بالکل ہے ذرا غور سے پڑھیے گا : عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دعویداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتباع رسول بھی کریں۔ اتباع کے بغیر عشق کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ آج مسلمانوں کو تین محاذوں پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ جس طرح کا احتجاج ہم کرتے ہیں اس کا گستاخوں پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ مغرب کی بنائی ہوئیں 70 فیصد کاسمیٹکس عرب ممالک کی خواتین استعمال کرتی ہیں ہمارے ہاں مغربی مشروبات و ملبوسات اور دیگر اشیاءکا استعمال عام ہے۔ ان کا بائیکاٹ کر دیں تو مغرب کی معیشت ہل کر رہ جائے گی ۔ پھر وہ آزادی اظہار کے دوہرے معیار پر نظرثانی کے لئے بھی مجبور ہو جائیں گے ۔ 57 اسلامی ممالک کے سربراہان عالمی برادری پر مذہب اور مذہبی رہنماؤں کی توہین کو جرم قرار دینے کے لئے دباؤ ڈالیں ۔ اسرائیل نے 13 مغربی ممالک میں ہولو کاسٹ پر تحقیق اور اس پر اظہار کو جرم قرار دلوا لیا حالانکہ پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ نہیں جبکہ مسلمان ڈیڑھ سو کروڑ ہیں ۔ 57 اسلامی ممالک متحد ہو کر انفرادی طور پر ہر ملک پر دباؤ ڈالیں تو ممکن نہیں کہ وہ توہین رسالت کو جرم قرار نہ دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے علماءاور دانشوروں کو دلائل کے ساتھ مغرب کو قائل کرنے کے لئے کمربستہ ہونا چاہئے ۔ علماء و فضلا کے دلائل کا اثر اسلام کے لئے خبث رکھنے والوں پر تو نہیں ہونے والا‘ البتہ ایسے غیر مسلم جن تک اسلام کی تعلیمات نہیں پہنچ پائیں وہ یقیناً ایسی کاوش سے مستفید و مستفیض ہو سکتے ہیں ۔(چشتی)
تحقیقات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے لیکن ہولو کاسٹ پر تحقیقات کرنا بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ آسٹریا بھی ان ممالک میں شامل ہے جس نے 1992ءمیں ہولو کاسٹ پر قانون سازی کی۔ برطانوی مصنف ڈیوڈ ارونگ نے 1989ءمیں ہولو کاسٹ کو افسانہ قرار دیا تھا۔ وہ 2006ءمیں آسٹریا گیا تو اسے تین سال کی سزا سنا دی گئی ۔ بدبخت نیکولا باسلے نیکولا نے ڈیڑھ سو کروڑ مسلمانوں کے دل جلائے اور دکھائے‘ اس پر اس سے کوئی بازپرس نہیں ہوئی اس نے اپنا نام تبدیل کیا لیکن امریکی حکومت کو نہ بتانے پر اسے جیل بھجوا دیا گیا ۔
ہولوکاسٹ (HoloCaust) کی اصطلاح دراصل یونانی لفظ (holókauston) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب “مکمل جلادینا“ یا راہِ خدا میں جان قربان کردینا ہے۔یہودی کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوجیوں نے تقریبا "ایک کروڑ" یہودیوں کو زندہ جلادیا تھا۔اور وہ اس کو ہولوکاسٹ (HoloCaust) کہتے ہیں ۔ یہودیوں نے قانون بنوادیا ہے،جس کی وجہ سے مغرب ميں اگر کوئي شخص ہولو کاسٹ کي ماہيت پر بولنے اور اس پر تحقيق کرنے کي کوشش کرتا ہے تو اس پر عدالتي کاروائي ہوتي ہے اور نتيجے ميں نقد جرمانہ يا پھر قيد کي سزا بھي اس کو بھگتنا پڑتي ہے ۔ اس وقت يورپ کے بہت سے ملکوں ميں ہولو کاسٹ کے انکار يا اس کو مبالغہ آميز قرار ديئےجانے کو ايک جرم سمجھا جاتا ہے ۔
آسٹريا ، بلجيم ، جمہوريہ چک، فرانس ، جرمني ، ليتھوانيا ، پولينڈ ، رومانيہ ، سلواکيہ اور سوئزرلينڈ وہ يورپي ممالک ہيں جن ميں ہولو کاسٹ کے انکار کو جرم سمجھا جاتا ہے ۔اسي لئے اب تک ان ملکوں ميں بہت سي علمي سياسي اور سماجي شخصيات کو ہولوکاسٹ پر تنقيد کرنے کي وجہ سے سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سن دوہزار چھے ميں بھي برطانيہ کے مورخ ڈيوڈ ارونگ کو ہولو کاسٹ پر تنقيد کرنے کے جرم ميں تين سال قيد کي سزا سنائي گئي تھي ۔
اسي طرح فرانسيسي محقق راجر گارودي کو بھي ہولو کاسٹ پر تنيقد کرنے کي بنا پر سزائے قيد کا سامنا کرنا پڑا ۔ جبکہ سوئيس مورخ يورگن گراف بھي اسي جرم ميں قيد کي سزاکے مستحق قرار پائے مگر وہ سوئزرلينڈ سے فرار ہو گئے ۔ ہولو کاسٹ نازی حکومت اور اس کے حلیفوں کی طرف سے تقریبا چھ ملین یہودیوں کاایک منظم ، نوکرشاہی اور ریاست کی طرف سے کیا جانے والا ظلم و ستم اور قتل عام ہے ۔
لفظ "ہولو کاسٹ" ایک یونانی زبان سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب "آگ سے قربانی" ہے۔ جنوری 1933 میں اقتدار میں آنے والی نازی پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ جرمن "نسلی طور پر اعلی" ہیں اور یہ کہ یہودی، جنہیں "کمتر" سمجھا جاتا تھا، جرمن نسلی حلقوں کے لئے خطرہ پیش کرتے تھے۔ جرمن حکام نے "نسلی کمتری" کی وجہ سے دوسرے گروپوں کو بھی اپنا ہدف بنایا: روما (خانہ بدوش), معذور اشخاص اور کچھ دوسرے سلاویک افراد(پولش, روسی اور دوسرے)۔ دوسرے گروپوں کو سیاسی، نظریاتی اور طرز عمل کی بنیادوں پر اذیت دی گئی۔ ان افراد میں کمیونسٹ، شوشلسٹ، یہوا کے گواہ اور ہم جنس پرست شامل تھے ۔ نازی حکومت کے ابتدائی سالوں میں نیشنل سوشلسٹ حکومت نے اصلی اور مفروضہ سیاسی اور نظریاتی مخالفین کو نظربند کرنے کے لئے حراستی کیمپ قائم کیا۔ جون 1941 میں سوویت یونین کے حملے کے بعد آئن سیٹزگروپن (موبائل قاتل یونٹ) جرمن لائنز کے پیچھے یہودی، روما، سوویت اور کمیونسٹ افسران کو وسیع پیمانے پر مارنے کے لئے متحرک رہے۔ جرمن ایس ایس، پولیس اور فوجی یونٹوں نے ایک ملین سے زیادہ یہودی مردوں، عورتوں، بچوں اور دوسرے لاکھوں افراد کو قتل کیا۔ 1941 اور 1944 کے درمیان جرمن نازی حکام نے جرمنی، مقبوضہ علاقہ جات اور اپنے ایکسز کے کئی حامی ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو ملک بدر کر کے یہودی بستیوں اور مراکز قتل میں بھیج دیا جنہیں قلع قمع کے کیمپ بھی کہا جاتا تھا، جہاں انہیں خصوصی طور پر تیار کردہ زہریلی گیس کی سہولتوں میں ہلاک کر دیا گیا۔ 1933 میں یورپ میں یہودی تعداد نوے لاکھ سے زیادہ تھی. 1945 تک جرمنوں اور ان کے اتحادیوں نے یورپ کے یہودیوں کو قتل کرنے کے "حتمی حل" کے لئے ہر تین میں سے دو یورپی یہودیوں کو مار ڈالا تھا ۔(چشتی)
کیا ہمارا مذہب ان کے ہاں اتنا سستا اور بے وقار ہے ؟ تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے اب ہمارے پاس قطع تعلق یعنی بائیکاٹ کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ۔ ان کے بنائے ہوئے لباس‘ کاسمیٹکس‘ بوتلوں اور فاسٹ فوڈ سمیت ہر چیز کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ روایتی پرامن احتجاج بھی جاری رہنا چاہئے ۔ عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہونے کے دعویدار دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ وہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والے ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر تیار ہیں؟ جواب ہاں میں ہے تو یقیناً آپ نے تحفظ ناموس رسالت کے لئے اپنا کردار ادا کر دیا اور سچے عاشق رسول بھی ثابت ہو گئے ۔ لیجئے آج سے اور ابھی سے بسم اللہ کیجئے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment