Sunday 26 August 2018

چھ (6) ستمبر یوم دفاع پاکستان

0 comments

چھ (6) ستمبر یوم دفاع پاکستان

6 ستمبر 1965ء کا دن عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابلِ فخردن ہے جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی تعداد میں کئی گنا زیادہ لشکر اور دفاعی وسائل کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں فوجی حملہ کردیا۔ اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے جنگی حملہ کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ جارحیت کرنے والا وہ بڑا ملک ہندوستان اور غیور و متحد چھوٹا ملک پاکستان ہے ۔

زندہ قومیں تاریخ کے اوراق پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں کہ لوگ ان پر چل کر اپنی منزلیں با آسانی بناسکتے ہیں اور ماضی کی روشنی میں حال کی راہوں کو متعین کرتے ہیں۔وطن عزیز پاکستان زبان، نسل اور علاقے کی بجائے محض اخوت اسلامی اور بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہوا ۔تحریک پاکستان میں ان لوگوں کا نمایاں کردار رہاہے کہ جنہیں اس شجرِسایہ دار کے سائے سے بھی محروم رکھا گیا ۔

6ستمبر پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دن مسلمانوں کے باہم اتحاد اور یگانگت کا عملی مظہر ہے جس نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا اور جذبہ ایمانی کے ذریعے بھارت کے شب خون کا منہ توڑ جواب دیا ۔ یوم دفاع تجدید کا دن ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان نفرتوں، عداوتوں کی خلیج کو پاٹ کر اپنی گم کردہ راہ کو پا لیں اور متحد ہو کر بیرونی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ باور کرادیں کہ ابھی ایمان کی حرارت دِلوں میں زندہ ہے ۔

6 ستمبر وہ دن ہے کی جب جرات و بہادری کی وہ تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی۔اس دن کو ہم یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا مگر پاک فوج اور ہمارے لوگوں نے دشمن کو ایسا دندان شکن جواب دیا جسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔قدرت کا ایک اصول ہے کہ ہر تاریکی کا انجام اجالا ہے بلکہ ہر رات کی تاریکی صبح کے اجالے کا شدت سے انتظار کرتی ہے، چنانچہ رات جس قدر تاریک اور طویل ہوتی ہے اس کی صبح اسی قدر اجلی اور رنگین ہوتی ہے ۔غرضیکہ سیاہی کا وجود ہی سفیدی کی اہمیت اور پہچان بنتا ہے اور ہر تعمیر، تخریب کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اورہر تخریب کا انجام تعمیر ہوتا ہے اسی طرح فطرت ہزاروں ستاروں کا خون کرتی ہے تب سحر پیدا ہوتی ہے۔قوم کے یہ نوجوان وہی ستارے ہیں کہ جنکا خون کر کے اجلی، سفید اور روشن سحر پیدا ہوئی ہے۔قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں انہی نوجوانوں کے کردار کی مرہون منت ہیں ۔

بھارتی افواج نے سترہ دن میں تیرہ حملے کئے لیکن وہ لاہور کے اندر داخل نہ ہو سکی ۔اس وقت بھی امریکہ نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری افواج کی امداد بند کر دی اور بھارت کا ساتھ دیا۔یہی وہ نوجوان ہیں جنکی سخت کوشی اور عرق ریزی نے صحراوں میں پھول کھلائے۔آسمانوں کو اپنی منزل بنانے والوں ان نوجوانوں کے عزم و حوصلے اور بلند عزائم کے سامنے آسمانوں کی بلندیوں پر جمنے والی ستاروں کی محفل بھی ہیج ہوتی ہے۔ سلام ہے ان ماوں کو جنہوں نے چٹان جیسے حوصلے کے حامل نوجوانوں کو جنم دیا۔مگر افسوس ہم نے اپنے ماضی سے سبق حاصل نہ کیا اور آج بھی ہمارے حکمران امریکہ کی جھولی میں بیٹھنے کے مشتاق ہیں اور ہمیں اس بری طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم دشمن کی اس چال کو سمجھ کر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔

پینسٹھ (65ء)کے بعد ہماری قوم زلزلے پر اکٹھی ہوئی پھر ہم لوگ سیلاب پر اکٹھے ہوئے لیکن ہمارے حکمرانوں نے باہمی سیا ست سے ہمیں ایک دوسرے کے ایسا بیگانہ کر دیا ہے کہ اب اگر کوئی سڑک پر حادثہ پیش آتا ہے تو ہم لوگ کھڑے خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں اور کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔آج ہمارا ملک گوں نہ گوں مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔

آج معاشرہ دوحصوں میں بری طرح توڑ دیا گیا ہے ایک طرف شاہراؤں پر چمکتی دمکتی گاڑیاں ہیں اور دوسری طرف غریب روٹی کے ایک ٹکرے کے لئے سسک سسک کر مر رہے ہیں۔ انسانیت کا معیار صرف دولت اور مادیت پرستی ہے۔حتی کہ زمانے کے معاشرتی اور اخلاقی اقدار میں تبدیلی آچکی ہے۔یوں لگتا ہے یہ دور صرف سر مایہ داری کادور ہے، یہاں پرجس انسان کے پاس جتنی زیادہ دولت ہو گی اسی قدر اسے معاشرے میں قابل احترام سمجھا جاتا ہے گویا کہ شرفِ انسانی کی کوئی قدروقیمت ہی نہ ہو۔ اور یہ سب اس نئے زمانے کی دین ہے جس نے ہماری اخلاقی اور سماجی قدریں پامال کر دی ہیں ۔

انسان کے اندر سے انسانیت کا جوہر ختم ہوجاتا ہے۔ دنیا کی ہوس اور لالچ نے لوگوں کے اندر انسانیت کے چھپے ہوئے عنصر کو ختم کردیا ہے اس قدر نفسا نفسی کا عالم ہے کہ لوگوں کے اس ہجوم میں انسان تلاش کرنا مشکل ہوگیاہے۔ درحقیقت آجکل زمیں پر جنگ کا بازار گرم ہے اور انسانی لہو پانی سے بھی زیادہ سستا ہو کر رہ گیا ہے یوں لگتا ہے کہ انسان کل بھی جنگلوں کا مکین تھا اور آج بھی اسکا مسکن جنگل ہی ہیں آج انسان کے طاہر و باطن میں تضاد ہے اور یہ تضاد انسانیت کو موت کی جانب دھکیل رہا ہے۔

غلطی کچھ ہماری بھی ہے ہم نے ہر بات کو حکومت پر بھی ڈالا ہوا ہے اور اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔اگر ہم خود قطرہ قطرہ کر کے اس ملک کہ سنوارنے میں اور اس وطن عزیز کے موجودہ حالات کو ٹھیک کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تو وہ دن دور نہیں کے اس ملک کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہو سکتا ہے۔

1965ء کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیت سکتی ہیں۔ پاکستانی قوم نے اپنے ملک سے محبت اور مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اورجانثاری کے جرأت مندانہ جذبے نے ملکر نا ممکن کو ممکن بنا کر دکھایااورلوگ کہہ اٹھے :

آج ہندیاں جنگ دی گلچھیڑی اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
مہاراج اے کھیڈ تلوار دی اے جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی

پاکستان پر1965ء میں ہندوستان کی طرف سے جنگ کا تھوپا جانا پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین دوقومی نظریہ،قومی اتحاد اور حب الوطنی کو بہت بڑا چیلنج تھا۔ جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کاثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اُسے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکریت طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکت دینے کے سوا کوئی اورمقصد تھا۔ تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار ، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار ،مزدور،کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ’’ اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا‘‘ستمبر 1965ء کی جنگ کا ہمہ پہلو جائز لینے سے ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان نے وہ کون سا عنصر اورجذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی نا قابل عبور دیوار میں بدل دیا تھا۔ مثلاً ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد’’رن آف کچھ‘‘ پر طے شدہ قضیہ کو ہندوستان نے بلا جواز زندہ کیا فوجی تصادم کے نتیجہ میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کردیا کہ آئندہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ جنگ کے لئے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا اس کے باوجود پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کئے تھے۔ صرف اپنی مسلح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کررکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف گئے۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان فروز اور جذبۂ مرد حجاہد سے لبریزقوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے’’پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اوردشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا‘‘ان کے اس خطاب نے قوم کے اندر گویا بجلیاں بھردی تھیں۔ پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اورپیشہ وارانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں، انہیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کردیا تھا۔ ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے۔ ہماری مسلح افواج نے جواب میں کمانڈر انچیف کے منہ پر وہ طمانچے جڑے کہ وہ مرتے دم تک منہ چھپاتا پھرا۔ لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے سپوتوں نے سنبھالا، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔

چونڈہ کے سیکٹر پر(ہندوستان کا پسندیدہ اور اہم محاذ تھا)کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستان فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنادیا۔ ہندوستان کی اس سطح پر نقصان اور تباہی کو دیکھ کر بیرون ممالک سے آئے ہوئے صحافی بھی حیران اور پریشان ہوئے پاکستانی مسلح افواج کو دلیری اور شجاعت کی داد دی اور کہہ اٹھے :

ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے توں لبھدی پھریں بازار کڑے اس کے علاوہ جسٹر سیکٹر قصور،کھیم کرن اور مونا باؤ سیکٹرز کے بھی دشمن کوعبرت ناک شکست اس انداز میں ہوئی کہ اسے پکاہوا کھانا، فوجی ساز و سامان،جیپیں اور جوانوں کی وردیاں چھوڑ کر میدان سے بھاگنا پڑا۔

پاکستان نیوی:۔ستمبر1965ء میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں۔ اعلان جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کرائی گئی۔ (راقم ان ٹیموں کا حصہ رہا) پاکستان کے بحری،تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاکستان بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لئے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لئے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دورن پاکستان کا سامان تجارت لانے لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔ پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہے۔ ہندوستان کے تجارتی جہاز’’سرسوتی‘‘اوردیگر تو کتنے عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست وحفاظت کراچی کی بندرگاہ میں رہے۔ 7ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوزپی این ایس غازی بھی شامل تھی۔ ہندوستان کے ساحلی مستقر’’دوارکا‘‘پرحملہ کے لئے روانہ ہوئی۔اس قلعہ پر نصب ریڈار ہمارے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھی۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20منٹ تک اس دوار کا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت نہ کرسکا۔ ہندوستانی جہاز’’تلوار‘‘کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لئے بھیجا گیا مگر وہ بھی’’غازی‘‘ کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔

پاک فضائیہ:۔ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور خان جیسے قابل فخرسپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف’’ہوا باز گھوڑوں کو تیار کر رکھا تھا‘‘جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیاررہنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے ہوا باز7ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لئے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایا۔ تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کردیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں ۔ پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے ہندوستان کے جنگی ہوائی اڈوں کو اس طرح نقصان پہنچایا کہ ’’ہلواڑا‘‘بنادیا ۔پاک فضائیہ نے میدان جنگ میں اپنی کارکردگی سے ثابت کردیا کہ وہ فرمان قائد اعظم کے مطابقSecond to None ہے۔ پاکستانی شہری:۔1965ء کی جنگ کا غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اورخونخوار شکار کوپاکستان میں چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کرلیا۔ سب کچھ قائد اعظم کے بتائے اصول( ایمان، اتحاد،نظم) پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔کسی بھی زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کامرکز اور محور تھے۔ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی ،نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا کر اختلاف بھلا کرمتحد ہو کر دشمن کوناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ تھا ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔