Thursday 9 August 2018

دیوبندی انگریز سرکار کے وفادار اور تحریک آزادی کے مخالف تھے

0 comments
دیوبندی انگریز سرکار کے وفادار اور تحریک آزادی کے مخالف تھے

مولوی فضل الرحمٰن سے کرسی کیا چھنی اپنی اصلی اوقات پہ آگیا کہتا ہے ہم یوم آزادی کو نہیں مانتے یہ یوم دشمن آزادی ہے واقعی دیوبندیوں کے نزدیک یہ دن یعنی 14 اگست انگریز اور اس کے آلہ کاروں کےلیے خوشی کا نہیں غم کا دن ہے کیونکہ جن لوگوں نے ساری زندگی انگریز کی وفاداری اور اس کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں گزار دی ہو وہ یومِ آزادی پاکستان سے کیسے خوش ہو سکتے ہیں آیے پڑھتے ہیں مستند حوالہ جات کی روشنی میں تلخ حقایق :

ایک دیوبندی فاضل نے "مولانا محمد احسن نانوتوی" کے نام سے موصوف کی سوانح حیات لکھی جسے مکتبہ عثمانیہ کراچی پاکستان نے شائع کیا ہے اپنی کتاب میں مصنف نے اخبار انجمن پنجاب لاہور مجریہ 19 فروری 1875 کے حوالہ سے لکھا ہے کہ 13 جنوری 1875 بروز ایک شنبہ لیفٹینٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے مدرسہ دیوبند کا معائنہ کیا معائنہ کی جو عبارت موصوف نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے اس کی یہ چند سطریں خاص طور سے پڑھنے کے قابل ہیں ۔

جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کے صرف سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے۔ جو کام پرنسپل ہزاروں روپیہ ماہانہ تنخواہ لے کر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کررہا ہے۔ یہ مدرسہ خلافِ سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد معاونِ سرکار ہے ۔ (مولانا محمد احسن نانوتوی، ص 217)

خود انگریز کی اس شھادت کے بعد کہ یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممدر معاون سرکار ہے، اب افسانے کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ مدرسہ دیوبند انگریزی سامراج کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کا بہت بڑا اڈا تھا ۔ (مدرسہ دیوبند کے کارکنوں میں اکثریت) ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پینشنز تھے جن کے بارے میں گورنمنٹ کو شک و شبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی، ج 2، ص 247،چشتی)

یہ گواہی بھی آپ کے گھر سے ہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حضرات کن کے ٹکڑوں پر پلا کرتے تھے۔ کوئی بعید نہیں کہ اب دیوبندی حضرات یہ تاویل بھی کریں کہ انگریزی حکومت کا خاتمہ ہم نے ان وظیفے اور عطیات لے لے کر انہیں کنگال کر کے کیا ۔

اپنے قطب القطاب رشید گنگوہی پر لکھی "تذکرۃ الرشید" میں بھی دیوبندی علما نے کافی انکشافات کئیے ہیں ۔ پہلے رشید گنگوہی پر بغاوت کے الزام کی بابت لکھتے ہیں کہ : شروع 1276ھ، 1858 وہ سال تھا جس میں حضرت امام ربانی پر اپنی سرکار سے باغی ہونے کا الزام لگایا گیا اور مفسدوں میں شریک رہنے کی تہمت باندھی گئی ۔ یہاں "اپنی سرکار" سے کس بات کی غمازی ہوتی ہے یہ قارئین پڑھ ہی رہیں ہونگے۔ مزید آگے لکھتے ہیں کہ : جن کے سروں پر موت کھیل رہی تھی انہوں نے کمپنی کے امن وعافیت کا زمانہ قدر کی نظروں سے نہ دیکھا اور اپنی رحمدل گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا ۔ (تذکرۃالرشید، ج 1، ص 74)

غاصب انگریز کو "رحمدل" اور تحریکِ آزادی کو "بغاوت" کہنے والوں کی اس معاملے میں کیا سوچ تھی یہ خود انہی کی زبانی واضح ہے۔ یہ آپ ہی کے اکابرین ہیں۔ اس کے بعد بھی جہاد جہاد کا شور مچانا اور خود کو تحریکِ پاکستان کے مخلص طبقے کی صورت میں پیش کرنا بدیانتی نہیں تو اور کیا ہے ۔

اب آئیے آپ کو شاملی کی جنگ کا بھی نقشہ دکھاؤں کے جسے ایک بہت بڑا معرکہ قرار دے کر دیوبندی ایک زمانے سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے آئے ہیں۔ حتیٰ کہ اس فورم پر بھی "کیا 1857 کی جدوجہد پہلی جنگ آزادی تھی؟" کے نام سے بھی ایک ٹاپک موجود ہے جہاں اس شاملی کی جھڑپ کا تذکرہ بلکل ہی مختلف رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ پہلے آپ کی طرف سے عوام کو دئیے جانے والے دھوکے کی تفصیل پیش ہے اس کے بعد اس واقعہ کی اصلیت آپ ہی کتاب سے پیش کروں گا۔ فيصل احمد ندوي بھٹكلي رشيد احمد گنگوهي اور قاسم نانوتوی كو جنگ آزادی كا سورما ثابت كرنے كے ليے کہتے ہیں کہ : مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوي كو سپہ سالار افواج قرار ديا گيا۔ شاملي اس علاقے كا مركزي ميدان تھا وهاں تحصيل بھي تھي اور كچھ انگريز فوجي بھي رهتے تھے۔ قرار پايا كہ شاملي كي طرف كوچ كر كے اس پر حملہ كيا جائے، چناں چہ چڑھائي ہوئي ۔ شاملي كے ميدان ميں جنگ لڑي گئي ، انگريزي فوج سے مجاہدين كا سخت مقابلہ ہوا، انجام كار مجاہدين كو غلبہ ہوا۔ مقامي حكام نے رپورٹوں ميں ان انقلابي مجاہدين كے جوش و خروش سے بھر پور دليرانه حملوں كا حيرت سے تذكره كيا ہے۔ انگريز فوج نے پسپا ہو كر تحصيل ميں پناه لي ، مجاہدين نے تين دن محاصره كے بعد تحصيل كا دروازه توڑ ليا ، اور اندر داخل ہوئے۔ دست بدست جنگ ہونے لگي، اسي اثنا ميں حضرت حافظ ضامن شہيد ہوئے ۔ ﴿ماہ نامہ نيا دور انقلاب1857ء نمبر،ص:92 93،چشتی)

اب آئیے تذکرۃ الرشید سے اس واقعے کی اصلیت پڑھئیے : اتنی بات یقینی ہے کہ اس گھبراہٹ کے زمانہ میں جبکہ عام لوگ بند کواڑوں گھر میں بیٹھے ہوئے کانپتے تھے حضرت امام ربانی (رشید گنگوہی) اور دیگر حضرات اپنے کاروبار نہایت اطمینان کے ساتھ انجام دیتے اور جس شغل میں اس سے قبل مصروف تھے بدستور ان کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ کبھی ذرہ بھر اضطراب نہیں پیدا ہوا اور کسی وقت چہ برابر تشویش لاحق نہیں ہوئی۔ آپکو اور آپ کے مختصر مجمع کو جب کسی ضرورت کے لئے شاملی کرانہ یا مظفرنگر جانیکی ضرورت ہوئی، غایت درجہ سکون ووقار کے ساتھ گئے اور طمانیت قلبی کے ساتھ واپس ہوئے۔ ان ایام میں آپکو ان مفسدوں سے مقابلہ بھی کرنا پڑا جو غول کے غول پھرتے تھے۔ حفاظت جان کے لئے تلوار البتہ پاس رکھتے تھے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بہادر شیر کی طرح نکلے چلے آتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا بھی اتفاق ہوا کہ حضرت امام ربانی اپنے رفیقِ جانی مولانا قاسم العلوم اور طبیب روحانی اعلیٰحضرت حاجی صاحب و نیز حافظ ضامن صاحب کے ہمراہ تھے کہ بندوقچیوں سے مقابلہ ہوگیا۔ یہ نبرد آزما دلیر جتھا اپنی سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا۔ اس لئے اٹل پہاڑ کی طرح پرا جما کر ڈٹ گیا اور سرکار پر جاںثاری کے لئے تیار ہوگیا۔ اللہ رے شجاعت و جوا مردی کے جس ہولناک منظر سے شیر کا پتہ پانی اور بہادر سے بہادر کا زہرہ آب ہو جائے وہاں چند فقیر ہاتھوں میں تلواریں لئے جم غفیر بندوقچیوں کے سامنے ایسے جمے رہے گویا زمین نے پاؤں پکڑ لئے ہیں۔ چناچہ آپ پر فیریں ہوئی اور حضرت ضامن صاحب زیرِ ناف گولی کھا کر شہید بھی ہوئے ۔ (تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 74-75)

یہ ہے دیوبندیوں کا الٹا جہاد جو انہوں نے اپنی "سرکار" کے "باغیوں" یعنی مجاہدینِ تحریک آزادی کے خلاف لڑا۔ خود عاشق الہٰی میرٹھی مصنف تذکرۃالرشید کو اعتراف ہے کہ جس زمانے میں عوام انگریز کے مظالم کے خوف سے گھروں میں چھپی رہتی تھی اس زمانے میں بھی یہ دیوبندی حضرات بڑے اطمینان سے اپنے معمولات کی تکمیل کرتے تھے۔ اور کیوں نہ کرتے کہ انگریز جن کی سرکار ہو، جن کے مدارس "معاونِ سرکار" ہوں انہیں کیا خوف۔ اس کیفیت کا کھل کر اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں : ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتہً بےگناہ تھے مگر دشمنوں کی یاوہ گوئی نے انکو باغی و مفسد اور مجرم وسرکاری خطاوار ٹہرا رکھا تھا اس لئے گرفتاری کی تلاش تھی۔ مگر حق تعالیٰ کی حفاظت برسر تھی اسلئے کوئی آنچ نہ آئی اور جیسا کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیرخواہ تھے، تازیست خیر خواہ ہی ثابت رہے ۔ (تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 81)

اتنے واشگاف الفاظ میں انگریز کو اپنی "مہربان سرکار" ماننے والے آج علما اہلسنت پر انگلیاں اٹھائیں تو ہم سوائے آپ کے بےشرمی پر افسوس کرنے کے اور کیا کرسکتے ہیں ۔ دیوبندی حضرات ریشمی رومال تحریک کا سار سہرا بھی اپنے سر ہی لیتے ہیں ۔ اس کی حقیقت خود آپ ہی کے محمد شاہ امروٹی کے دمِ مرگ کئے گئے انکشافات میں پڑھ لیں۔ میرے خیال میں اس پر کسی تبصرے کی بھی ضرورت نہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔