Tuesday 21 August 2018

دوقومی نظریہ امام احمد رضاخاں اورعلماء وصوفیاء علیہم الرحمہ

0 comments
دوقومی نظریہ امام احمد رضاخاں اورعلماء وصوفیاء علیہم الرحمہ

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اکبر بادشاہ کا دور مسلمانان ہند پہ بہت کڑاوقت تھا-اکبر بادشاہ نے جس نئےدین کی بنیاد ابوالفضل اور فیضی جیسے علماءِ سوء کی مدد سے ڈالی اسکو "دین الہٰی" کانام دیاگیا- پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس دور کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : تیسرے دور میں دین الہی کا آغاز ہوااور وہ کچھ ہوا کہ جو نا گفتنی ہے ۔ ہروہ کام کیا جانے لگا جو اسلام کے سراسر منافی ہے ۔ مثلا کلمہ طیبہ میں محمدرسول اللہ کے بجائے اکبر خلیفۃ اللہ پڑھا جانے لگا ۔ گائے کی قربانی پہ پابندی لگادی گئی ۔ خنزیر اور کتوں کا احترام کیا جانے لگا ۔ داڑھیاں منڈوادی گئیں شراب جواء عورت کی بے پردگی عام ہوگئی بادشاہ کوسجدہ تعظیمی کیا جانے لگا اور شعائراسلام کا برسرعام مزاق اڑایا جانے لگا"-ایسے دور میں کلمہ حق بلند کرنا اتنا مشکل ہوگیا لیکن ایسے دور میں امام ربانی مجدد الف ثانی احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے سرکاردوعالم صلی اللہ تعالی کی رحلت کے ایک ہزار سال بعد تجدید دین کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ چونکہ امام ربانی علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب 29 واسطوں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے تبھی آپ کے علماء مشائخ ،صوفیاءعوام ،بادشاہ کے مقربین کو جو مکتوبات لکھے ان کو پڑھتے وقت ایک ایک جملے سے جلال فاروقی جھلکتا محسوس ہوتاہے ۔

جناب سید شیخ فرید کو بھیجے جانےوالا خط کی تحریر کچھ یوں تھی : اللہ تعالی نے کلام مجیدمیں کافروں کو اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن فرمایاہے - لہذا کفار کےساتھ دوستی اور میل جول بڑاہی گناہ ہوگا-ان کفار کی ہم نشینی اور دوستی کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ احکام شریعت جاری کرنے اور کفرکےنشان مٹانے کی قوت کمزور پڑ جائے گی اور یہ بہت بڑا نقصان ہے ۔

ایک ایمان والا اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت رکھتاہے-خودسوچیئےجس شخص سے ایمان کی حد تک محبت ہو کیااسکے دشمن سے محبت ہوگی ؟ کیا اس کی تعظیم اور عزت کی جاسکتی ہے ؟ حاشا وکلا یہ محبت کی توہین ہوگی غیرت ایمانی کے سراسر منافی ہے یہ ہی دوقومی نظریہ ہے جو قرآن و سنت سے بھی ثابت ہے ۔
اکبری دور کے بعد بیسویں صدی کی ابتداءمیں پھر سےاس فتنے نے سراٹھایا-ہندومسلم بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا-امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے علالت کے باوجود " المحجۃ الموتمنہ" لکھ کر ہندومسلم اتحاد کےتار پود بکھیر دیئے ۔ قرآن حدیث کی روشنی میں دوقومی نظریہ پوری قوت کےساتھ پیش کیا ۔ کس دردمندی کےساتھ فرماتے ہیں : جب ہندوؤں کی غلامی ٹھہری ، پھر کہاں کی غیرت کہا کی خوداری ؟ ۔ ( المحجۃ الموتمنہ،چشتی)

پہلی جنگ عظیم کےبعد جب مسلمانوں کی طرف سےتحریک خلافت کاآغاز ہوا،توحالات نےنیارخ اختیارکیا،اس تحریک میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،حکیم اجمل خاں،ڈاکٹر انصاری،مولانا ظفرعلی،مولانا حسرت موہانی وغیرہم مشاہیرملت شامل تھے.اسی زمانہ میں انڈین نیشنل کانگریس نےمسٹرگاندھی کےایماء پرترک موالات کی تحریک شروع کی_کانگریس کا قیام اگرچہ 1885 میں عمل میں آگیاتھا مگراسکا مقصد صرف یہ تھا کہ حاکم ومحکوم کےتعلقات کواستوارکرےاور بس بعد میں کامل آزادی کامطالبہ کیاگیا،الغرض 1920 میں کانگریس کےقوم پرست ہندو اور مسلمان تحریک خلافت کےداعی اپنے مشترکہ دشمن انگریز کےخلاف متحد ہوگئے،ہرشخص ترک موالات پرتلاہوانظرآتاتھا . مخالفت کی کسی کوجراءت نہ تھی،جوش جنوں میں انگریزوں سےترک مواصلات بلکہ ترک معاملت کرکےکفارومشرکین سےدوستی ومحبت کےلیےہاتھ بڑھایاگیا.ہندومسلم اتحاد کےمؤیداور ہمارے محترم بزرگ مولانا محمد علی،اورمولانا شوکت علی جب فاضل بریلوی کی خدمت میں حاضرہوئےاور اپنی تحریک میں شمولہت کی دعوت دی تو فاضل بریلوی نےصاف صاف فرمادیا : مولانا میری اور آپ کی سیاست میںفرق ہے،آپ ہندومسلم اتحاد کےحامی ہیں میں مخالف ہوں،اس جواب سےعلی برادران ناراض ہوئے تو فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تالیف قلب کےلیے مکررفرمایا : مولانا میں ملکی آزادی کامخالف نہیں ، ہندومسلم اتحاد کا مخالف ہوں ، (اعلی حضرت کی مذہبی وسیاسی خدمات،مطبوعہ عرفات شمارہ اپریل1970،چشتی)

محترم قارئین غورکیجیے جب قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ جیسے مقبول لیڈر کوبھی ترک موالات کےخلاف کچھ کہنے کی جراءت نہ ہوئی ، پوراملک ہندومسلم اتحاد کی طوفانی لہروں میں بہہ رہاتھا.ایسے پرفتن ماحول میں جس مرد مجاہد نے ہندومسلم اتحاد کےخلاف آواز اٹھائی اور دوقومی نظریہ پیش کیاوہ ایک عالم ایک مجدد جناب احمدرضاخاں بریلوی قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی تھی.اس ہی ضمن میں دو استفتاءکےجواب میں ایک رسالہ "المحجہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنہ 1920/ھ1339 " کےتاریخی نام سے مولوی حسنین رضاخاں نےمطبع حسنی بریلی سےچھپواکرشائع کیاتھا.یہ پورارسالہ رئیس احمدجعفری نےاپنی تالیف اوراق گم گشتہ" میں شامل کردیاہے،جوبڑے بڑے سائز کےاسی صفحات پہ پھیلاہواہے ۔

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی انگریزوں سے نفرت

کہاجاتا ہے کہ آپ انگریزوں کے پروردہ تھے انگریز پرست تھے مگر آپ توانگریز اور انکی حکومت سےاس قدر نفرت کرتےتھے کہ لفافے پہ ہمیشہ الٹاٹکٹ لگاتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ میں نے جارج پنجم کاسرنیچا کر دیا ۔ آپ نےکبھی انگریز کی حکمرانی تسلیم ناکی حتی کہ ایک بار ایہ مقدمہ کےسلسلہ میں آپکو عدالت نےطلب کیا فرمانےلگے کہ میں انگریز کی حکمرانی کونہیں مانتاتواسکےنظام عدل کو کیونکرمانوں ؟ حتی کے آپ کو گرفتار کرنے کےلیے معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ بات پولیس سے نکل کر فوج تک جا پہنچی مگران کے ہزاروں جانثاروں نےسر پہ کفن باندھ کر ان کے گھر کا پہرہ دیا آخرعدالت کوحکم واپس لیناپڑا ۔ (ہفت روزہ الفتح، 14،21 مئی 1976 ص17)

اور مدیر" الحبیب" لکھتےہیں : ایک مرتبہ انگریز کمیشنر نے35 مربع زمین کی آپ کوپیش کش کی مگر اس مرد قلندرنےفرمایا انگریز اپنی تمام حکومت بھی مجھے دےدےتوبھی میراایمان نہیں خرید سکتا ۔ ( ماہنامہ الحبیب اکتوبر1970ء) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔