Sunday 5 August 2018

ایام قربانی تین دن ہیں احادیث مبارکہ اور غیر مقلدین کے گھر سے ثبوت

0 comments
ایام قربانی تین دن ہیں احادیث مبارکہ اور غیر مقلدین کے گھر سے ثبوت

ارشاد باری تعالیٰ ہے : :وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْااسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَارَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔(سورۃ الحج)
ترجمہ : ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کردی تاکہ اللہ نے جو چوپائے انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیا کریں ۔

قربانی تین دن متعین ہونے کی نسبت کنز العمال میں روایت موجود ہے : عن علی انہ کا ن یقول ایام النحرثلاثۃ وافضلھن اولھن۔ ابن ابی الدنیا۔ ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ آپ فرمایاکرتے تھے : قربانی کے دن تین ہیں اور ان میں افضل پہلا دن ہے ۔ (کنزالعمال ،کتاب الحج،باب فی واجبات الحج ومندوباتہ، حدیث نمبر 12676) مذکورہ حدیث پاک کی بنا پر فقہاء احناف نے فرمایا ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں:10، 11،12 ذی الحجہ، قربانی کاوقت 10 ذی الحجہ نماز عیدالاضحی کے بعد سے 12 ذی الحجہ کی غروب آفتاب تک ہے۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : (ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوص۔ ۔ ۔ ) (تنویر الابصار مع الدرالمختار ،ج5، ص219)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں عید کے دو دن بعد قربانی ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی منقول ہے۔(موَطا امام مالک مترجم اردو صفحہ 552 )

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ
(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج6 ص261)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں۔

عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ ۔ (احکام القرآن امام طحاوی ج2ص205)
ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’کہ قربانی تین دن ہے۔

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔ (سنن کبریٰ بیہقی ج9ص297باب من قال الاضحی یوم النحر)

قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین سے ثبوت

حافظ زبیر علی زئی(غیر مقلد) لکھتے ہیں:قول راجح میں قربانی تین ہیں ۔ (مقالات علی زئی ج2 ص219 الحدیث44 ص6تا11،چشتی)
نیز لکھتے ہیں : ’’سیدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ )اور جمہور صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔ (فتاوی علی زئی ج2 ص181)

علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں : تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے۔(قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص 137)

عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں : علامہ عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں : بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟بلکہ ایام قربانی تین دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں ۔ ( قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص141)

وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الأنْعَامِ۔(الحج: 28)
اور الله کا نام لو معلوم دنوں میں چوپایوں پر جو اس نے تم کو دیے ہیں

یوم عرفہ – یوم الحج الاکبر – ٩ ذو الحجہ

یوم نحر – یوم عید الاضحی – ١٠ ذو الحجہ

ایام التشریق منی میں حج کے بعد کے تین دن ہیں امام مالک موطا میں ایام تشریق کی وضاحت کرتے ہیں

أَيَّامِ التَّشْرِيقِ إِنَّهُ لَا يُجَمِّعُ فِي شَيْءٍ مِنْ تِلْكَ الْأَيَّامِ
ایام التشریق کیونکہ ان دنوں میں کوئی چیز جمع نہ کی جائے

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری ج ٤ ص ٢٨٥ میں لکھتے ہیں : وقد اختلف في كونها يومين أو ثلاثة، وسميت أيام التشريق؛ لأن لحوم الأضاحي تشرق فيها أي تنشر عند الشمس ۔
ترجمہ : اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو دن ہیں یا تین ہیں، اور ان کو ایام تشریق کہا جاتا ہے کیونکہ قربانی کا گوشت سورج نکلتے ہی پھیل جاتا (بٹ جاتا) ہے

بعض کہتے ہیں یہ تین دن ہیں : اس میں اختلا ف ہے کہ یہ کون کون سے دن ہیں بعض کے نزدیک یہ ١٠، ١١ اور ١٢ ہیں اور بعض کے نزدیک ایام التشریق میں یوم عید کے بعد کے تین دن ہیں یعنی ١١ ، ١٢ اور ١٣ ذو الحجہ

اس سلسلے میں ترمذی کی حسن حدیث پیش کی جاتی ہے کہ مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ اپنے باپ على بن رباح بن قصير اللخمى سے وہ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام، وهي أيام أكل وشرب ۔ ترجمہ : کھانے پینے کے دن ، اہل اسلام کے لئے ہیں یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق ۔
اس سے دلیل لی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایام تشریق کا یوم نحر سے الگ ذکر کیا ہے لہذا یہ الگ ہیں ۔ اس روایت کو امام احمد بھی مسند میں بیان کرتے ہیں الطحاوی اس روایت کو خاص کرتے ہیں یعنی حاجیوں کے لئے کہتے ہیں : فلما ثبت بهذه الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: النهي عن صيام أيام التشريق وكان نهيه عن ذلك بمنى والحجاج مقيمون بها ۔

إسحاق بن منصور بن بهرام نے امام احمد سے قربانی کے بارے میں سوال کیا کہ کتنے دن ہے ۔کتاب مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه کے مطابق ۔ قلت: كم الأضحى؟ [ثلاثة أيام ، قال: ثلاثة أيام، يوم النحر، ويومان بعده ۔
احمد نے کہا تین دن ، يوم النحر اور اس کے بعد دو دن یعنی ١٠ ، ١١ اور ١٢ ذو الحجہ ہوئے ۔عصر حاضر کے حنابلہ ابن تیمیہ کی تقلید میں ایام تشریق میں ١٣ کو بھی شامل کرتے ہیں ۔

ترمذی کی حسن روایت کو امام احمد مسند میں نقل کرتے ہیں لیکن فتوی اس کے بر خلاف دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک صحیح نہیں ، قربانی کا گوشت تو یوم نحر میں ہی بٹنا شروع ہو جائے گا لہٰذا اس کو ایام تشریق سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔

کتاب شرح مختصر الطحاوي از أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370 هـ) کے مطابق امام طحاوی کہتے ہیں : وأيام النحر ثلاثة أيام، يوم النحر ويومان بعده، وأفضلها أولها ۔
اور ایام النحر تین ہیں یوم نحر اور اس کے بعد دو دن اور افضل شروع میں ہے

اس کے بر خلاف امام الشافعی کا کتاب الام میں قول ہے کہ یہ تین دن سے زیادہ ہے

قَالَ الشَّافِعِيُّ : وَالْأُضْحِيَّةُ جَائِزَةٌ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَيَّامَ مِنًى كُلَّهَا لِأَنَّهَا أَيَّامُ النُّسُكِ

قربانی جائز ہے یوم النحر اور سارے ایام منی میں کیونکہ یہ قربانی کے دن ہیں

امام الشافعی کی رائے میں منی کے تمام ایام میں کی جا سکتی ہے

امام الشافعی کی رائے قیاس پر مبنی ہے لہذا قرآن کی آیت میں ہے

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ
(البقرۃ : 203)
اور معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔

شوافع میں أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ کو أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ سے ملا کر بحث کی جاتی ہے کہ قربانی کے دن تمام ایام منی ہیں – اس کے برعکس احناف ، مالکیہ اور حنابلہ کا موقف ہے کہ قربانی تین دن ہے یہاں سے فقہاء کا اختلاف شروع ہوتا ہے

غیر مقلدین شوافع سے ایک ہاتھ آگے جا کر تشریق کے دنوں کی تعریف بدلنے کے بعد اس میں زبردستی ١٣ ذو الحج کو داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں ١٣ تاریخ میں سورج غروب ہونے سے پہلے قربانی جائز ہے ۔

امام محمّد کتاب الأَصْلُ میں کہتے ہیں​ : باب التكبير في أيام التشريق : قلت: أرأيت التكبير في أيام التشريق متى هو، وكيف هو، ومتى يبدأ ، ومتى يقطع؟ قال: كان عبد الله بن مسعود يبتدئ به من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر ، وكان علي بن أبي طالب يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق ، فأي ذلك ما فعلت فهو حسن ، وأما أبو حنيفة فإنه كان يأخذ بقول ابن مسعود، وكان يكبر من صلاة الغداة يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر، ولا يكبر بعدها، وأما أبو يوسف ومحمد فإنهما يأخذان بقول علي بن أبي طالب.​
تشریق کے ایام میں تکبیر کہنا …. کہا تکبیر، عبد الله ابن مسعود صلاة الغداة (نماز فجر) یوم عرفہ کے دن سے یوم نحر میں عصر کی نماز تک کرتے اور علی بن ابی طالب صلاة الغداة (نماز فجر) میں تکبیر کہتے ایام تشریق نماز عصر کے آخر تک اور اسی طرح حسن کرتے اور جہاں تک ابو حنیفہ کا تعلق ہے تو وہ ابن مسعود کا عمل کرتے اور … اور امام ابو یوسف اور محمد علی بن ابی طالب کا قول لیتے ،

قال الإمام محمد: أخبرنا سلام بن سليم الحنفي عن أبي إسحاق السبيعي عن الأسود بن يزيد قال كان عبد الله بن مسعود – رضي الله عنه – يكبر من صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من يوم النحر: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد. )انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 310؛ ورواه من وجه آخر. انظر: الحجة على أهل المدينة، 1/ 308. وانظر: الآثار لأبي يوسف، 60؛ والمصنف لابن أبي شيبة، 1/ 488؛ ونصب الراية للزيلعي، 2/ 222،چشتی)
یعنی علی رضی الله عنہ ١٣ نمازوں میں تکبیر کہتے اور ابن مسعود ٨ نمازوں میں تکبیر کہتے ۔

کتاب النتف في الفتاوى از أبو الحسن علي بن الحسين بن محمد السُّغْدي، حنفي (المتوفى: 461هـ کے مطابق : قَالَ ابْن مَسْعُود يَنْتَهِي بهَا الى الْعَصْر من يَوْم النَّحْر وَهِي ثَمَانِي صلوَات ، وَبِه أَخذ أَبُو حنيفَة وَحده ، وَقَالَ عَليّ بل يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الْعَصْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ ثَلَاثَة وَعِشْرُونَ صَلَاة وَكَذَلِكَ قَول عمر فِي رِوَايَة وَعَلِيهِ الْعَامَّة وروى عَن عمر ايضا انه يَنْتَهِي بهَا الى صَلَاة الظّهْر من آخر أَيَّام التَّشْرِيق فَهِيَ اثْنَتَانِ وَعِشْرُونَ صَلَاة
وَقَالَ ابْن عمر وَابْن عَبَّاس يَبْتَدِئ بِالتَّكْبِيرِ عَن صَلَاة الظّهْر من يَوْم النَّحْر
وَقَالَ لَا تَجْتَمِع التَّلْبِيَة والتكبيرات مَعًا فاذا انْقَطَعت التَّلْبِيَة اخذ فِي التَّكْبِير
وَقَالَ ابْن عَبَّاس يَنْتَهِي بهَا الى آخر أَيَّام التَّشْرِيق عِنْد صَلَاة الظّهْر فَهِيَ عشرَة صَلَاة
وَقَالَ ابْن عمر يَنْتَهِي بهَا الى غداه آخر ايام التَّشْرِيق فَهِيَ خَمْسَة عشر صَلَاة
تکبیرات کی تعداد بتاتی ہے کہ تشریق کے ایام اکابر صحابہ کے نزدیک ١٠، ١١، اور ١٢ ہی تھے ۔

غیر مقلدین ، امام الشافعی کی تقلید میں تین دن کی بجائے چار دن قربانی کرنے کے قائل ہیں لہذا وہ ١٣ ذو الحجہ کو بھی قربانی کرتے ہیں

ابن قیم نے زاد المعاد میں روایت پیش کی ہے : ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291،چشتی)

لیکن کنز العمال جیسی کتاب میں سند تک تو موجود نہیں ہے اور باوجود تلاش کے اس کی سند دریافت نہ ہوسکی ۔

بیہقی سنن الکبری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ … وَكُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ

اس روایت میں ہے کہ ایام التشریق میں قربانی ہے

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل میں سليمان بن موسى الدمشقي کےلئے ہے
قال البخاري هو مرسل لم يدرك سليمان أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم
بیہقی سنن الکبری میں یہی راوی سليمان بن موسى کہتے ہیں کہ قربانی تین دن ہے
قَالَ: وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَانِئٍ، ثنا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، ثنا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ , فَقَالَ مَكْحُولٌ: صَدَقَ ۔

غیر مقلدین امام الشافعی، امام النووی کے حوالے دیتے ہیں جو سب شافعی فقہ پر تھے لہذا یہ سب چار دن قربانی کی قائل ہیں – ان کے مقابلے میں حنابلہ ، مالکیہ اور احناف تین دن قربانی کے قائل ہیں ۔

قربانی 3 دن ہے چوتھے دن کوئ قربانی نہیں بلکہ خلاف سنّت ہے

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات…فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج6 ص261،چشتی)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:’’ ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں۔‘‘

عَنْ عَلِیٍّ اَلنَّحْرُ ثَلَاثَۃُ اَیَّامٍ (احکام القرآن امام طحاوی ج2ص205)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’کہ قربانی تین دن ہے۔‘‘

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ۔(سنن کبریٰ بیہقی ج9ص297باب من قال الاضحی یوم النحر)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔

قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین کا فیصلہ

حافظ زبیر علی زئی(غیر مقلد) لکھتے ہیں:’’ قول راجح میں قربانی تین ہیں۔
( مقالات علی زئی ج2 ص219 الحدیث44 ص6تا11)
نیز لکھتے ہیں: ’’سیدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ )اور جمہور صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔(فتاوی علی زئی ج2 ص181)

مولوی عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں :’’ تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے ۔ (قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص 137)

عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں : مولوی محمد فاروق ( غیر مقلد) لکھتے ہیں : بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟ بلکہ ایام قربانی تین دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں ۔ ( قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص141)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔