انگریز کے خلاف جہاد حرام ہے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر الزام کا جواب
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ پر دیابنہ اور وہابیہ کا ایک نہایت بھونڈہ الزام اور اس کا مدلل منہ توڑ جواب : یہ اعتراض خوارج کی ایک کتاب (انصاف صفحہ 12) پر کیا گیا اور اسی کو دیوبندی وہابی فرقے اپنی فطرت کے مطابق بار بار ان لوگوں کے سامنے دہراتے ہیں کہ جن کا علم کم ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ : بریلوی اعلیٰ حضرت کی طرف سے انگریز کی حمایت (یہ عنوان دیا ہے انہوں نے پھر لکھتے ہیں) ۔ چونکہ مولانا احمد رضا بریلوی نے ہندوستان کو دارالاسلام کہا ہے اس لیئے وہ انگریزوں کے حمایتی تھے ۔
جواب : فقط مولانااحمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہی نے ہندوستان کو دارالاسلام قرار نہیں دیا تھا بلکہ اس دور کے دیگر علمائے اہلسنت کے علاوہ دیوبندی اور غیرمقلد مولویوں نے بھی آپ کی موافقت کی۔ اب اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو اور اسکا پس منظر بیان کرتے ہیں : مولانا احمد رضا صاحب کے عہد شباب میں جبکہ آپکی عمر 24 سال کی ہوگی۔ 1298ھ بمطابق 1880 میں بدایوں کے ایک مستفتی مرزا علی بیگ نے استفتاء پیش کیا جس میں تین سوال تھے۔ (یعنی فتویٰ پوچھا جس مین 3 سوال تھے)۔
(1) پہلا سوال ہندوستان کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونکے متعلق تھا ۔
(2) دوسرا سوال یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہ وہ کتابی ہیں یا مشرک ۔
(3) تیسرا سوال روافض اور مبتدعین کے بارے میں تھا کہ وہ مرتد ہیں یا نہیں؟
پہلے سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ ہندوستان دارالاسلام ہے۔ یہ فتویٰ خالصۃً فقہی ہے سیاسی نہیں۔ کیونکہ اس کے جواب میں کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جس سے یہ ادنیٰ سا گمان ہوسکے کہ یہ انگریزوں کو خوش کرنے کے لیئے لکھا ہے۔
( اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام (مطبوعہ بریلی ۱۹۲۷) صفحات ۹ تا ۱۵ و ایضاً ۱۵ تا ۲۳،چشتی)
حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں بعض علما و امرا ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر یہ چاہتے تھے کہ سود کے جواز کی صورت نکل آئے کیونکہ دارالحرب میں حربی سے سود لینا جائز ہے۔ جواب میں امام احمد رضا نے ایسے لوگوں کا تعاقب کیا اور لکھا کہ دارالحرب قرار دے کر سود لینے کو تو تیار ہیں مگر ہجرت کو تیار نہیں جو بصورتِ دارالحرب واجب ہے۔ گویا جواب کا اصل محرک سود کے عدم جواز کے لیئے شرعی بنیاد فراہم کرنا تھا نہ کہ کسی کو خوش کرنا ۔ مولوی اشرف علی تھانوی بھی اس مسئلہ میں مولانا احمد رضا بریلوی کے ہم نوا تھے۔ اور دارالاسلام ہونے کو ترجیح دیتے تھے۔ (بحوالہ تخذیر الاخوان عن الربا فی ہندوستان۔ از اشرف علی تھانوی مطبوعہ تھانہ بھون ۱۹۰۵)۔
مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی فرنگی محلی نے ایک فتویٰ میں ارشاد فرمایا کہ بلادِ ہند دارالحرب نہیں بلادِ ہند جو نصاریٰ کے قبضے میں ہیں دارالاسلام ہیں اور احکام ِ دارالاسلام کے دارالحرب ہونے کی شرائط ان میں موجود نہیں ہیں اگرچہ ان میں احکام کفر جاری ہیں مگر بااینہما اصول و ارکانِ اسلام بھی جاری ہیں بلکہ کفار بعض امور میں علماٗ کی رائے پر فیصلہ کرتے ہیں۔ الخ (مجموعہ فتاویٰ صفحہ ۲۲۷ جلد ۱ مطبوعہ لکھنئو بار دہم ، ۱۹۳۵)۔
مولوی محمود الحسن بھی ہندوستان کو ایک حیثیت سے دارالحرب قرار دیتے تھے مگر دوسری حیثیت سے دارالاسلام (حوالہ۔ سفرنامہ شیخ الہند از حسین احمد، مطبوعہ لاھور صفحہ ۱۶۶،چشتی)
مولوی کرامت علی جونپوری (متوفی ۱۸۷۳) خلیفہ سید احمد بریلوی (وہابی) ، عبداللطیف سیکرٹری مجلس، شیخ احمد آفندی انصاری مدنی، سید ابراہیم بغدادی نے اپنی تقاریر مین مولانا کرامت علی جونپوری کی تائید کی ہے۔
اس کے علاوہ اس رسالہ میں حضرت شیخ جمال الدین بن عبداللہ حنفی مفتی مکہ معظمہ ، علامہ سید احمد زینی دحلان مکی الشافعی مکہ المکرمہ، شیخ حسین بن ابراہیم مفتی مالکیہ مکہ معظمہ، علامہ عبدالحق خیرآبادی اور مفتی سعد اللہ کے فتاویٰ موجود ہیں کہ ہندوستان دارالاسلام ہے ۔( اسلامی مجلس مذاکرہ علمیہ از مولانا کرامت علی جونپوری صفحہ ۳ مطبوعہ نولکشور لکھنئو)۔
اگر مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ آپ کے اصول کے مطابق کہ انہوں نے ہندوستان کو دارالاسلام کہا ہے انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو مولوی اشرف علی تھانوی ، مولانا عبدالحیئ لکھنوی، مولوی محمود الحسن دیوبندی، مولوی شاہ اسماعیل دہلوی سر اول انگریزوں کے انجنٹس میں آتے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ تمہارے اپنے پیرومرشد شاہ اسماعیل دہلوی کا کیا کہنا ہے۔ انہوں نے تو واضح مجمع میں ایک شخص کے دائریکٹ پوچھنے پر کہ جس نے کا کہ مولانا کیا انگریز کے خلاف آپ جہاد کیوں نہیں کرتے وجہ؟ جواب میں تمہارے مولوی اسماعیل نے کہا تھا۔ ایسی بے رویا اور بے متعصب سرکار کے خلاف جہاد کسی طور جائز نہیں۔
ابے گھونچو کے بچو ! تم کس منہ سے اعلیٰحضرت کے ایک فقہی اور سود کے تناطر میں پوچھے گئے سوال کو لے کر بک بک اور کذب و افترا کا بیج کاشت کرتے ہو؟ تمہاری اپنی اوقات ہے کیا؟ پہلے اپنے گھر مین تو دیکھو۔ تمہارے اسماعیل اور سید احمد بریلوی وہابی نے مسلمانوں کا بالاکوٹ میں قتال کیا تھا تم نے ان بدبختوں کو شہید بالاکوٹ قرار دے دیا۔ ابے بالاکوٹ مین کب سکھ آباد رہے ہیں؟
مرزا حیرت دہلوی لکھتے ہیں : بارہ سو اکتیس 1231 ھجری تک سید صاحب (سیّد احمد رائے بریلی) امیر خاں کی ملازمت میں رہے ۔ مگر ایک نامور کام آپ نے یہ کیا کہ انگریزوں اور امیرخاں میں صلح کروادی ۔ لارڈ ہسٹنگ سید احمد (سیّد احمد رائے بریلی) کی بے نظیر کارگزاری سے بہت خوش تھا ۔ دونوں لشکروں کے بیچ ایک خیمہ کھڑا کیا گیا اور اس میں تین آدمیوں کا باہم معاہدہ ہوا جس مین امیرخان ، لارڈ ہسٹنگ اور سید احمد شامل تھے ۔ سید احمد خاں صاحب نےامیر خان کو بڑی مشکل سے شیشہ میں اتارا ۔ (حیاتِ طیبہ ، از میرزا حیرت دہلوی، صفحہ نمبر 420 مرزا حیرت دہلوی دیوبندی وہابی )
اب بتاؤ خارجیو تمہارے ملا سرعام انگریز کو سرکار اور مائی باپ کہتے رہے اور انگریز سرکار ان سے خوش تھی ، انگریز سے لڑنا زہر قاتل قرار دیتے تھے اب بتاؤ انگریز کا حامی کون تھا ؟ اور انگریز کن سے خوش تھا ؟ سید احمد رائے بریلی نے امیر خان کی انگریز سے کیسے اور کیوں صلح کروائی ؟ خیمے میں یہ تینوں کون سا معادہ کر رہے تھے اور کن کے خلاف پلاننگ تھی ؟
اب بتاؤ خوارج تمہارے ملا سرعام انگریز کو سرکار اور مائی باپ کہتے رہے تب وہ انگریز کے وفادار نہیں تھے ؟
مدرسہ دیوبند انگریز کے پیسہ سے 600 روپیہ ماہوار پر تعمیر ہوا تب وہ انگریز کے وفادار نہ تھے ؟
بالاکوٹ میں سنی حنفی مسلمانوں کو پختونوں کو شہید کرکہ ابن عبدالوہاب اور ٹی ٹی پی جیسی امارات قائم کرنے کی کوشش کی گئی اسوقت وہ انگریز کے وفادار نہ تھے کیا؟
بالاکوٹ کے فساد پر ہم نے 100 سے زیادہ تمہاری کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا کہ وہ ایک فتنہ تھا اورانگریز کی حمایت میں تھا اسکا تو جواب 5 سال سے تمہاری طرف سے نہیں آتا کیوں ؟
تمہارے دہشتگرد ہندوستانی انگریز سے امیرخان کی صلح کرواتے ہیں ویسے ہی جیسے آج بنوری ٹاؤن کے ملا دو پارٹیوں میں پیسہ لے کر تصفیہ کرواتے ہیں تب انگریز کی وفاداری کا الزام یاد نہں تھا ؟
جب تمہارے اسماعیل دہلوی نے پوچھنے پر کہا کہ سکھوں پر جہاد کرنا ضروری ہے انگریز پر نہیں تب کہاں تھا یہ خطبہ ء الزام ؟
تمہاری بالاکوٹی فساد کو بدھ رام ، فنڈ کررہا تھا جیسے آج بھی ڈیول کررہا ہے۔ تمہاری اس سوکالڈ جہادی فوج بلکہ فسادی فورس کے توپچی کا نام تولہ رام تھا۔ انگریز تمہارے سید احمد بریلوی کو کھانا سپلائی کرتا تھا کیا انہوں نے اپنی پھوپھی ویاہی تھی انگریز اور ہندو سے ؟
اور سب سے آخری جواب جو سونے پر سہاگہ ہوگا وہ یہ ہے کہ جیسا کہ بیان ہوچکا کہ کن وجوہاب پر وہ فتویٰ دیا گیا تھا تو پھر بھی اگر تم لوگوں کے نزدیک دارالحرب تھا ہندوستان تو پھر آج تک وہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ مودی سرکار اور کشمیر پر پاکستان کے مخالف کیوں ؟ پاکستان کے قیام کی مخالفت کیوں کی وہابیوں دیوبندیوں نے ؟ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment