Sunday, 5 August 2018

قربانی کے فضائل و مسائل

قربانی کے فضائل و مسائل

یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تمام اسلامی تعلیمات و احکامات کا سر چشمہء فیض اور انسان کی جسمانی، مالی، روحانی اصلاح و فلاح کا مآخذ جمیع علوم السامیہ و عربیہ کا مرجع و مرکز مسلمانوں کی ترقی و تمدن کا راز سر بستہ عالم کی تاریکی و جہالت کو فنا کر دینے والا آفتاب درخشاں، نوع انسان کو سعادت ابدی اور نجات سرمدی کی منزل مقصود تک پہنچانے والا خدائے پاک کا کلام پاک “ قرآن مجید “ اور اس کے محبوب خاص، نبی مکرم ، شفیع معظم حضور احمد مجتبٰی محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کی ذات والا صفات ہی ہے ۔ لٰہذا قربانی کے فضائل و مسائل قرآنی آیات و احادیث مبارکہ اور مسائل فقہیہ کی روشنی میں ہدیہ ء قارئین ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے واقعہء قربانی کو اپنے کلام پاک میں اس انداز سے بیان فرمایا ہے : رب ھب لی من الصالحین ، فبشر نٰہ بغلٰم حلیم ، فلما بلغ معہ السعی قال یبنی انی ارٰی فی المنام انی اذبحک فانظر ما ذا ترٰی ، قال یٰابت افعل ماتؤمر ستجدنی انشاءاللہ من الصابرین، فلما اسلما وتلہ للجبین ونا دینٰہ ان یا ابراہیم قد صدقت الرؤیا انا کذٰلک نجزی المحسنین ، ان ھذا الھوا لبلوء المبین وفدینٰہ بذبح عظیم، وترکنا علیہ فی الاٰ خرین سلٰم علٰی ابراہیم ۔ ( القرآن پارہ 23، رکوع 8 ، سورہء صفٰت،چشتی)
ترجمہ : الٰہی مجھے لائق اولاد دے۔ تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقلمند لڑکے کی ۔ پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا تو۔ کہا۔ اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا۔ میں تجھے ذبح کرتا ہوں۔ اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے۔ کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے۔ خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔ تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ ۔ اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکیوں کا۔ بے شک یہ روشن جانچ تھی اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے کر اسے بچا لیا۔ اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ سلام ہو ابراہیم پر ۔
مذکورہ بالا آیات مقدسہ کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے صدر الافاضل، فخر الاماثل حضرت علامہ سید نعیم الدین صاحب مراد آبادی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں :حضرت ابراہیم علیہ السلام بحکم الٰہی سرزمین شام میں ارض مقدسہ کے مقام پر پہنچے تو آپ نے اپنے رب سے دعا کی۔ یعنی تیرے لئے ذبح کا انتظام کر رہا ہوں۔ اور انبیاء علیہم السلام کی خواب حق ہوتی ہے ۔ اور ان کے افعال بحکم الٰہی ہوا کرتے ہیں ۔ یہ آپ نے اس لئے کہا کہ فرزند کو ذبح سے وحشت نہ ہو اور اطاعت امر الٰہی کیلئے برغبت تیار ہوں ۔ چنانچہ اس فرزند ارجمند نے رضائے الٰہی پر فدا ہونے کا کمال شوق سے اظہار کیا۔ یہ واقعہ منٰٰی میں واقع ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرزند کے گلے پر چھری چلائی۔ قدرت الٰہی کہ چھری نے کچھ بھی کام نہ کیا۔ اطاعت و فرمانبرداری کمال کو پہنچادی۔ فرزند کو ذبح کے لئے بے دریغ پیش کر دیا۔ بس اب اتنا کافی ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ یہ فرزند حضرت اسمٰعیل ہیں یا حضرت اسحٰق علیہما السلام لیکن دلائل کی قوت یہی بتاتی ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل ہی ہیں۔ ( علیہ السلام ) اور فدیہ میں جنت سے بکری بھیجی گئی تھی ۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ! اس سے ہم کو ثواب ملے گا۔ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے ۔ ( احمد، ابن ماجہ )

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے ایام میں ابن آدم کا کوئی عمل خدائے تعالٰی کے نزدیک خون بہانے ( یعنی قربانی کرنے ) سے زیادہ پیارا نہیں ۔ اور جانور قیامت کے دن اہنے سینگوں ، بالوں ، کھروں کے ساتھ آئے گا۔ اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدائے تعالٰی کے نزدیک مقام مقبول میں پہنچ جاتا ہے۔ ( ترمذی، ابن ماجہ )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ آقائے کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب ہر گز نہ آئے۔ ( ابن ماجہ )

عید الاضحٰی تمام احکام میں عید الفطر کی طرح ہے صرف بعض باتوں میں فرق ہے۔ اس میں مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے۔ اگر چہ قربانی نہ کرے اور کھا لیا تو کراہت نہیں ۔ اور راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہنا چاہئے۔ اور عید الاضحٰی کی نماز عزر کی وجہ سے بارہویں تک بلا کراہت مؤخر کر سکتے ہیں۔ بارہویں کے بعد پھر نہیں ہو سکتی۔ اور بلا عزر دسویں کے بعد مکروہ ہے۔ ( قاضی خان، عالمگیری )

مسئلہ : قربانی کرنی ہو تو مستحب یہ ہے کہ پہلی سے دسویں ذی الحجہ تک نہ حجامت بنوائے نہ ناخن کٹوائے۔ ( ردالمختار و بہار شریعت )

قربانی : یہ ایک مالی عبادت ہے جو غنی ہر واجب ہے خاص جانور کو خاص دن میں اللہ کے لئے ثواب کی نیت سے ذبح کر نا قربانی ہے۔ مسلمان مقیم، مالک نصاب، آزاد پر قربانی واجب ہے ۔ جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے۔ ( درمختار )

مسئلہ : مسافر پر قربانی نہیں لیکن اگر نفل کے طور پر کرے تو کر سکتا ہے۔ ثواب پائے گا ( در مختار ) مالک نصاب ہونے سے مراد اتنا مال ہونا کہ جتنا مال ہونے سے صدقہء فطر واجب ہوتا ہے۔ یعنی حاجت اصلیہ کے علاوہ دوسو درہم ( ساڑھے باون تولہ چاندی ) یا بیس دینار ( ساڑھے سات تولہ سونا ) کا مالک ہو۔ ( درمختار و عالمگیری ) جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت اصلہ کے علاوہ کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دو سو درہم ہو تو وہ غنی ہے اس پر قربانی واجب ہے۔ ( عالمگیری،چشتی)

قربانی کا وقت : دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے۔ یعنی تین دن دو راتیں ، دسویں سب میں افضل ہے۔ پھر گیارہویں پھر بار ہویں ۔

مسئلہ : شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز عید کے بعد ہو اور دیہات میں چونکہ عید کی نماز عید کی نماز نہیں اس لئے صبح صادق سے ہو سکتی ہے ۔ مسئلہ : قربانی کے وقت میں قربانی ہی کرنی لازم ہے۔ اتنی قیمت یا اتنی قیمت کا جانور صدقہ کرنے سے واجب ادا نہ ہو گا۔ ( عالمگیری ) قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہو گئی۔ اب نہیں ہو سکتی۔ لٰہذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خریدار رکھا ہے تو اس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے ۔ ( ردالمختار، عالمگیری )

قربانی میں شرکت کے مسائل

جب قربانی کی شرطیں پائی جائیں تو ایک بکری یا بھیڑ کا ذبح کرنا یا اونٹ، گائے، بھینس کا ساتواں حصہ واجب ہے ۔ اس سے کم نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ اگر کسی شریک کا حصہ ساتویں سے کم ہے تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہو گی ہاں سات سے کم شریک ہوں اور حصے بھی کم و بیش ہوں لیکن کسی کا حصہ ساتویں سے کم نہ ہو تو جائز ہے۔ مسئلہ : قربانی کے سب شریکوں کی نیت تقرب ( یعنی ثواب پانا ) ہو نا چاہئے خالی گوشت حاصل کرنا نہ ہو۔ لٰہذا عقیقہ کرنے والا شریک ہو سکتا ہے ۔ ( کہ عقیقہ بھی ثواب کی ایک صورت ہے ۔ )

قربانی کا طریقہ

قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے چارہ پانی دیدیں پہلے سے چھری تیز کر لیں لیکن جانور کے سامنے نہیں جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کی طرف اس کا منہ ہو اور ذبح کرنے والا اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کرے ۔ اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھ لے۔ انی وجھت وجھی للذی فطر السموٰت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلانی ونسکی ومحیای وممانی للہ رب العٰلمین لا شریک لہ وبذٰلک امرت وانا من المسلمین اللھم لک ومنک بسم اللہ۔ اللہ اکبر ! دعا ختم کرتے ہی چھری چلا دے۔ قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا پڑھے اللھم تقبل منی کما تقبلت من خلیلک ابراہیم علیہ السلام و حبیبک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ذبح میں چاروں رگیں کٹیں یا کم سے کم تین اس سے زیادہ نہ کاٹیں۔ کہ چھری مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ تکلیف ہے۔ ٹھنڈے ہونے پر پاؤں کاٹیں، کھال اتاریں۔ اور اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کیا ہے تو منی کی جگہ من فلاں کہے ( یعنی اس کا نام لے ) اور اگر مشترک جانور ہو جیسے گائے، بھینس، اونٹ تو فلاں کی جگہ سب شریکوں کے نام لے ۔

مسئلہ : اگر دوسرے سے ذبح کرائے تو بہتر ہے کہ خود حاضر رہے ۔

کن جانوروں کی قربانی ہو سکتی ہے

قربانی کا جانور اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ نرومادہ، خصی وغیرہ خصی سب کی قربانی ہو سکتی ہے۔ ( عالمگیری ) وحشی جانور جیسے ہرن ، نیل گائے، بارہ سنگھا وغیرہ کی قربانی نہیں ہو سکتی ( عالمگیری ) دنبہ بھیڑ ہی میں داخل ہے۔ مسئلہ‌: اونٹ پانچ سال، گائے بھینس دو سال، بھیڑ، بکری ایک سال کی ہو یا زیادہ کی اس سے کم کی نا جائز ہے۔ ہاں اگر دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہہ بچہ اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔ ( درمختار)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...