Sunday, 5 August 2018

فضائل و مسائل قربانی

فضائل و مسائل قربانی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یوم النحر میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں، اور (قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کهروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ لہذا اس (قربانی) کو خوش دلی سے کرو “۔ (جامع الترمذی کتاب الاضاحی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ (قربانی) جہنم کی آگ سے حجاب (روک) ہوجائے گی”۔ ( معجم کبیر رقم الحدیث 2736 جلد 3)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو پیسہ عید (عیدالاضحیٰ) کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی پیسہ پیارا نہیں”۔ (معجم کبیر رقم الحدیث 10894)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے “۔(سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : افضل قربانی وہ ہے جو با اعتبار قیمت اعلی ہو، اور خوب فربہ ہو “۔ (مسند امام احمد، جلد 5،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ مخدومہ کائنات بتول زهرا صلی اللہ تعالیٰ علی ابیہا وعلیہا وبارک وسلم سے ارشاد فرمایا “کهڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو جاؤ کہ اس(قربانی کے جانور) کے خون کے پہلے ہی قطرہ میں جو گناہ ہیں سب کی مغفرت ہوجائے گی”۔ راویِ حدیث حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ (فضیلت) آپ کی آل کےلئے خاص ہے یا آپ کی آل کےلئے بهی ہے اور عامہ مسلمین کےلئے بهی، فرمایا کہ ” میری آل کےلئے خاص بهی ہے، اور تمام مسلمین کےلئے عام بهی ہے”۔( مجمع الزوائد للهیثمی، کتاب الاضاحی، باب فضل الاضحیہ و شهود ذبحها، جلد4 صفحہ 4)

قربانی واجب ہونے کی شرائط :(1)غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں (2) اقامت یعنی مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں (3) تونگری، یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے (4) حریت، یعنی آزاد ہونا، جو آزاد نہیں اس پر قربانی واجب نہیں۔

قربانی واجب ہونے کےلئے مرد ہونا شرط نہیں- عورتوں پر بهی واجب ہوتی ہے جس طرح مردوں پر واجب ہے۔ نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔ اور نہ ہی نابالغ کے باپ پر واجب کہ وہ نابالغ کی طرف سے قربانی کرے۔( درمختار ، کتاب الاضحیہ جلد 9)

قربانی کے مسائل:حنش روایت کرتے ہیں کہ میں نے شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو دیکها کہ وہ دو مینڈهوں کی قربانی کرتے ہیں، میں نے عرض کی یہ کیا؟ فرمایا “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجهے وصیت فرمائی کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے قربانی کروں، لہٰذا میں سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے (یہ دوسری) قربانی کرتا ہوں”۔(جامع الترمذی، کتاب الاضاحی،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قربانی میں گائے سات (7) کی طرف سے اور اونٹ سات (7افراد) کی طرف سے ہے “۔( معجم کبیر رقم الحدیث 10026 جلد10: مجمع الزوائد للهیثمی کتاب الاضاحی باب فی البقرہ والبدنہ جلد 4 صفحہ 9)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کرلے بال اور ناخنوں سے نہ لے، یعنی بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ ترشوائے ۔ ( صحیح مسلم، کتاب الاضاحی)

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پاس اسی سے متعلق ایک سوال آیا کہ اگر کسی قربانی کرنے والے نے ذی الحجہ کا چاند دیکهنے کے بعد بال کٹوائے یا ناخن ترشوائے تو اس کی قربانی ہوجائے گی یا نہیں، اور ایسا کرنا حکم عدولی کہلائے گا؟ اس کے جواب میں فرمایا ” یہ حکم صرف استحبابی ہے، کرے تو بہتر نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں، نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے 31 دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن نہ تراشےہوں نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکهتا ہو اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں (ذی الحجہ) تک رکهے گا (یعنی بال زیر ناف و تحت بغل اور ناخن) تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا، اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کےلئے گناہ نہیں کرسکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 353،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چار قسم کے جانور قربانی کےلئے درست نہیں۔ (1) کانا جس کا کانا پن ظاہر ہے۔ (2) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔ (3) لنگڑا جس کا لنگ ظاہر ہو۔ (4) اور ایسا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو”۔(سنن ابوداؤد کتاب الاضاحی، باب مایکرہ من الضحایا)

شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کان کٹے ہوئے، اور سینگ ٹوٹے ہوئے (جانور) کی کی قربانی سے منع فرمایا ۔ (ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب مایکرہ من الضحایا)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جانوروں کے کان اور آنکهیں غور سے دیکھ لیں اور اس کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا اگلا حصہ کٹا ہو اور نہ اس کی جس کے کان کا پچهلا حصہ کٹا ہو، نہ اس کی جس کا کان پهٹا ہو یا کان میں سوراخ ہو”۔(جامع الترمذی، کتاب الاضاحی، باب مایکرہ من الاضاحی)

ام المؤمنین سیدہ صدیقہ بنت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ” سینگ والا مینڈها لایا جائے جو سیاہی میں چلتا ہو اور سیاہی بیٹهتا ہو اور سیاہی میں نظر کرتا ہو، یعنی اس کے پاؤں پیٹ اور انکهیں سیاہ ہوں”۔ وہ قربانی کےلئے حاضر کیا گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنها چهری لاؤ، پهر فرمایا اسے پتهر پر تیز کرلو پهر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چهری لی اور مینڈهے کو لٹایا اور اسے ذبح کرنے لگے اور فرمایا، بسم اللہ اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
ترجمہ: اے اللہ (عزوجل) تو اس کو محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے اور ان کی آل کی طرف سے اور امت کی طرف سے قبول فرما”۔( صحیح مسلم، کتاب الاضاحی باب استحباب استحساالضحیہ)

ابوداؤد اور ابن ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیث پاک میں یہ کلمات بهی ہیں؛ اللھم منک ولک عن محمد و امتہ بسم اللہ واللہ اکبر ۔
ترجمہ: اے اللہ (عزوجل) یہ تیرے لئے ہی ہے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امت کی طرف سے ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الضحایا، باب مایستحب من الضحایا: سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی، باب اضاحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
نیز حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی سے مروی ایک حدیث پاک میں یہ کلمات ہیں ” بسم اللہ واللہ اکبر هذا عنی وعمن لم یضح عن امتی”۔
ترجمہ : اے اللہ (عزوجل ) یہ میری طرف سے ہےاور میری امت میں سے اس کی طرف سے ہے جو قربانی نہ کرسکے”۔ ( سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فی الشاتہ یضحی بہا عن جماعتہ،چشتی)

خلیفہ اعلی حضرت صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں “یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بے شمار الطاف میں سے ایک خاص کرم ہے کہ اس موقع پر بهی امت کا خیال فرمایا اور جو لوگ قربانی نہ کر سکے ان کی طرف سے خود ہی قربانی ادا فرمائی”۔
یہ شبہ کہ ایک مینڈها ان سب کی طرف سے کیونکر ہوسکتا ہے یا جو لوگ ابهی پیدا ہی نہ ہوئے ان کی قربانی کیونکر ہوئی اس جواب یہ ہے کہ یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خصائص سے ہے- جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھ مہینے کے بکری کے بچہ کی قربانی حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کےلئے جائز فرمادی اوروں کےلئے اس کی ممانعت کردی ۔(صحیح بخاری کتاب العیدین، باب کلام الامام والناس فی الخطبہ: صحیح مسلم کتاب الاضاحی، باب وقتها)اسی طرح اس میں خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصیت ہے ۔ (بہارشریعت حصہ 15)

سوال : صاحب نصاب کسے کہتے ہیں ؟
جواب : جس کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد ساڑهے سات تولے سونا یا ساڑهے باون تولے چاندی یا اتنی چاندی کی قیمت کے برابر روپے پیسے یا مال تجارت ہو وہ صاحب نصاب ہوگا۔ ( بہارشریعت حصہ 15)

سوال : حاجت اصلیہ سے کیا مراد ہے ؟
جواب : حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان اور سواری کا جانور ( موجودہ دور میں کار، موٹر سائیکل وغیرہ) اور خادم اور پہننے کے کپڑے، طالب علم کےلئے کتابیں، پیشہ ور کے آلات ، مشینری، موبائل ، کاروبار یا تعلیم وغیرہ کےلئے کمپیوٹر، کسانوں کے زرعی آلات یہ سب حاجت اصلیہ میں داخل ہیں۔

سوال : اگر کسی کے پاس مکان سکونت یعنی جس میں وہ رہتا ہے اس کے علاوہ دوسرا مکان ہو تو کیا اس پر قربانی واجب ہوگی ؟
جواب : امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ایسے شخص پر قربانی واجب ہے، اگرچہ وہ مکان کرایہ پر دیا ہو یا خالی پڑا ہو یا سادی زمین ہو بلکہ مکان سکونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصہ جاڑے گرمی کی سکونت کے لئیے کافی ہو، اور دوسرا حصہ حاجت سے زائد ہو، اور اس کی قیمت تنہا یا اسی قسم کے مال سے ملکر نصاب تک پہنچے جب بهی قربانی واجب ہے، اسی طرح صدقہ فطر بهی(واجب ہے)۔(فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 361،چشتی)

سوال : اگر صاحب نصاب کے پاس ایام قربانی میں نقد رقم نہ ہو تو کیا وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اسے معاف ہے ؟
جواب : جس پر قربانی واجب ہے اور نقد رقم اس کے پاس نہیں تو وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اپنا کچھ مال جیسے سونا، چاندی، وغیرہ بیچ کر حاصل شدہ رقم سے قربانی کرے، اسے قربانی معاف نہیں ۔ ( تفصیل کےلئے دیکهئے فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 370)

سوال : ایک شخص صاحب نصاب نہیں تها اور قربانی کےلئے جانور خرید لیا بعدمیں معلوم ہوا کہ مجھ پر قربانی واجب نہیں، تو کیا ایسا شخص خریدہ ہوا جانور بیچ کر رقم استعمال کرسکتا ہے، کیونکہ اس پر قربانی واجب نہیں ؟
جواب : جو صاحب نصاب نہ ہو اسے فقہی بولی میں فقیر کہتے ہیں اور صاحب نصاب کو غنی، فقیر پر شرعا قربانی واجب نہ تهی، مگر جب اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس نیت کی وجہ سے اسی جانور کی قربانی اس پر واجب ہوگئی ۔ (بہارشریعت حصہ 15)
اور اب یہ اس جانور کو فروخت کرکے رقم استعمال نہیں کرسکتا ، فروخت کرنا تو کجا اب یہ اس جانور کو دوسرے سے بدل بهی نہیں سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 372،چشتی)

سوال : مسافر اگر قربانی کرے تو کیا اسے ثواب ملے گا ؟
جواب : مسافر پر اگرچہ قربانی واجب نہیں مگر نفل کے طور پر قربانی کرے تو کر سکتا ہے ثواب پائے گا ۔ (بہارشریعت حصہ 15)

سوال : اگر کوئی شخص قربانی کے پہلے دن صاحب نصاب نہیں تها، عیدالاضحیٰ کے دوسرے یا تیسرے دن غنی ہوگیا، اس پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں ؟
جواب : قربانی کے واجب ہونے کو پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں ، بلکہ قربانی کےلئے جو وقت (تین دن) مقرر ہے اس کے کسی حصہ میں شرائط کا پایا جانا قربانی واجب ہونے کےلئے کافی ہے، یہ شخص پہلے دن فقیر تها مگر دوسرے یا تیسرے دن وقت کے اندر مالدار ہوگیا، یا مسافر تها مقیم ہوگیا یا غلام تها اب آزاد ہوگیا حتی کہ کافر تها اب مسلمان ہوگیا ان تمام صورتوں میں قربانی واجب ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ )

سوال : مالک نصاب نے قربانی کےلئے جانور خریدا ، وہ گم ہوگیا، یا چوری ہوگیا اب یہ مالک نصاب نہ رہا تو کیا وہ نیا جانور خریدےگا ؟
جواب : اس صورت میں اس پر دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں کہ وہ صاحب نصاب نہ رہا، بلکہ اگر قربانی کے دنوں میں گمشدہ یا چوری ہوا جانور مل گیا اور یہ اب بهی صاحب نصاب نہیں تو اس پر قربانی واجب نہیں۔( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب اول) ۔

قربانی کے جانور

قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں-اونٹ ، گائے، بکری، ہر قسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں، نر، مادہ، خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے یعنی سب کی قربانی ہوسکتی ہے- بهینس گائے میں شمار ہے اس کی بهی قربانی ہوسکتی ہے-بهیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں انکی بهی قربانی ہو سکتی ہے ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ، کتاب الاضحیہ باب خامس) وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی ۔

قربانی کے جانور کی عمر

اونٹ پانچ سال کا، گائے دو سال کیبکرا ایک سال کا۔ اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں، اگر مقررہ عمر سے زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے، دنبہ یا بهیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا (فربہ صحت مند) ہو کہ دور سے دیکهنے میں سال بهر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 443 : بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ)

قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہئیے، تهوڑا سا عیب ہو( مثلاً کان چرا ہوا ہو یا کان میں سوراخ ہو ) تو قربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی، اگر عیب زیادہ ہو تو قربانی نہیں ہوگی جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اس کی قربانی جائز ہے،سینگ تهے مگر جڑ تک ٹوٹ گیا قربانی ناجائز ہے، اگر اس سے کم ٹوٹا تو قربانی جائز ہے،جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو، اسکی قربانی ناجائز ہے، جس جانور میں جنوں (پاگل) اس حد کا ہو کہ چرتا نہ ہو، اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا، اندها، یا ایسا کانا کہ اس کا کانا پن ظاہر ہے، ایسا بیمار جسکی بیماری ظاہر ہو، اتنا لنگڑا کہ خود اپنے پاؤں سے ذبح کرنے کی جگہ تک نہ جاسکے، ایسا جانور کہ جس کے کان، دم، یا دم چکی ( دنبے کی گول چپٹی دم) ایک تہائی( 1/3) سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، جانور کی ناک کٹی ہو، دانت نہ ہوں، تهن کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوگئے ہوں، ( گائے یا بهینس میں دو تهن بکری میں ایک تهن کا خشک ہونا ناجائز ہونے کےلئے کافی ہے)جس جانور کا دودھ علاج کے ذریعے خشک کردیا گیا ہو، خنثی جانور یعنی جس میں نر اور مادہ دونوں علامتیں پائی جاتی ہوں، ( اس کا گوشت کسی طرح پکائے نہیں پکتا فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 255) اور جلالہ جو صرف غلیظ کهاتا ہو(حدیث پاک میں جلالہ کا گوشت کهانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا گیا، جامع الترمذی، کتاب الاطعمہ) یا جس جانور کا ایک پاؤں کاٹ دیا گیا ہو ان سب کی (جو ابهی بیان ہوئے) قربانی ناجائز ہے ۔ (تفصیل کےلئے دیکهئے،الہدایہ کتاب الاضحیہ ، درمختار کتاب الاضحیہ: فتاوی ہندیہ (اسے فتاوی عالمگیری بهی کہتے ہیں، کتاب الاضحیہ، فتاویٰ رضویہ جلد20 بہار شریعت حصہ 15،چشتی)

سوال : کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے ؟ کیونکہ اس میں رگیں کوٹ دی جاتی ہیں، یہ عیب کے زمرے میں نہیں آتا ؟
جواب : خصی جانور کی قربانی جائز اور سنت سے ثابت ہے ، حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنهم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ذبح کے دن دو مینڈهے سینگ والے، چت کبرے، خصی کیے ہوئے ذبح کیے ۔ (مسندِ امام احمد، مسند انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ، جلد 4 صفحہ 5: سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب مایستحب من الضحایا: سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی باب اضاحی رسول اللہ : مشکوتہ باب فی الاضحیہ فصل ثانی)
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اسی طرز کے سوال کہ خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟ کے جواب میں فرماتے ہیں، جائز ہے کہ اس کی کمی سے اس جانور میں عیب نہیں آتا بلکہ وصف بڑھ جاتا ہے کہ خصی جانور کا گوشت بہ نسبت فحل کے زیادہ اچها ہوتا ہے ۔ ہندیہ (فتاوی عالمگیری) میں خلاصہ سے منقول ہے کہ ذکر کٹا (جانور) جو جفتی کے قابل نہ رہا وہ قربانی میں جائز ہے ۔ ( فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 458)

سوال : کیا بهینس بهی قربانی کا جانور ہے ؟ اگر ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے ؟
جواب : لغت عرب میں بهینس کو “جاموس” کہتے ہیں (المنجد) اس کا شمار گائے کی نوع یعنی قسم میں ہوتا ہے، الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز کتاب ” هادی الاضحیہ بالشاتہ الهندیہ” میں بهینس کی قربانی کے جواز میں کثیر کتب فقہ سے استدلال فرمایا۔ ان میں ہدایہ، خانیہ، رمز الحقائق، تکملہ طوری ، مسخلص الحقائق، شرح ملا مسکین، طحاوی علی الدر، شرح نقایہ برجندی، جامع الرموز، جامع المضمرات،مجمع الانہر عن المحیط، فتح اللہ المعین عن التبیین، بحرالرائق، ولوالجیہ، هندیہ عن البدائع؛ ردالمحتار شامل ہیں ان کتب کے نام گنوا کے فرماتے ہیں، ضرورت پر ساری کتابیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ الحمدللہ ساری کتابیں میری ذاتی ہیں۔ ( فقیر بارگاہ رضا راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے مذکورہ کتب میں سے اکثر اس حقیر کے پاس بهی ہیں)
ان میں سے چند عبارات پیش خدمت ہیں ۔ علامہ طوری لکهتے ہیں”الجاموس لانہ نوع من البقر”۔ یعنی بهینس گائے کی نوع سے ہے۔( تکملہ من البحرا لرائق، کتاب الاضحیہ جلد 8 صفحہ 177)
امام برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” ویدخل فی البقر الجاموس۔(ہدایہ کتاب الاضحیہ جلد 4 صفحہ 449،چشتی)
فتاوی ہندیہ میں ہے، والجاموس نوع من البقر۔
( فتاویٰ ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس جلد5 صفحہ 297)
ان تمام عبارات کا خلاصہ یہی ہے کہ جاموس یعنی بهینس گائے کی قسم سے ہے اور قربانی کا جانور ہے، اسکی عمر بهی قربانی کے دو سال ہے ۔

سوال : گابهن (حاملہ) بکری یا گائے کی قربانی جائز ہے اور اگر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلے اس کےلئے شریعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اما احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” دودھ کے جانور یا گابهن کی قربانی اگرچہ صحیح ہے مگر ناپسند ہے، حدیث میں اس سے ممانعت فرمائی۔ (یہ حدیث سنن ابن ماجہ ابواب الذبآئح میں ہے)۔ فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 370)
اس لئیے گابهن جانور کی قربانی سے اجتناب کرنا بہتر ہے، اور اگر پیٹ سے زندہ بچہ نکل آئے تو اسے ذبح کیا جاسکتا ہے اور اس کا گوشت کهانا بهی جائز ہے، اگر مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پهینک دے مردار ہے ۔ ( بہارشریعت حصہ 15)

اجتماعی قربانی

گائے (بهینس) اور اونٹ میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں، تمام شرکاء صحیح العقیدہ ہوں، اور سب کی نیت “تقرب” یعنی اللہ تعالی کا حق ادا کرنا مقصود ہو، گائے کے شرکاء میں اگر ایک شخص کی نیت فقط گوشت حاصل کرنا ہو تو کسی کی بهی قربانی نہیں ہوگی ۔ ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار و رد المحتار کتاب الاضحیہ)

اگر کوئی شخص سات حصوں میں سے کچھ حصے عقیقے کےلئے مقرر کرلے تو جائز ہے کہ عقیقہ بهی تقرب کی ایک صورت ہے۔(ردالمحتار، کتاب الاضحیہ جلد 9 فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 595؛ بہارشریعت حصہ 15،چشتی)

عام طور پر دیکهنے میں آتا ہے کہ تمام گهر والوں کی طرف سے ایک بکرا قربان کردیا جاتا ہے، جبکہ صاحب نصاب ہونے کے سبب اس گهر کے کئی افراد پر قربانی واجب ہوتی ہے اس صورت میں ایک بکرا بهیڑ وغیرہ سب کو کفایت نہیں کریگا، جو جو صاحب نصاب ہیں خواہ مرد ہو یا عورت سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کیجائے ۔ (تفصیل کےلئے دیکهئے فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 369)

میت کی طرف سے ایصال ثواب کی نیت سےقربانی کرنا جائز ہے، اس میں چند باتیں ملحوظ خاطر رہیں۔ (1) اگر میت کی طرف سے قربانی کرنے والا خود صاحب نصاب ہے اور ایک ہی جانور کی استطاعت رکهتا ہے، تو اسے قربانی اپنی طرف سے کرنی چاہئے، کہ اس پر واجب ہے میت پر واجب نہیں، اور واجب کا ترک گناہ ہے۔ (2) میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے رشتہ داروں کو اور غربا میں تقسیم کرسکتا ہے (3) اگر مرنے والے کی وصیت و حکم پر قربانی کی تو اس صورت میں تمام گوشت صدقہ کردے خود نہیں کها سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 456 ؛ بہارشریعت حصہ 15)

اجتماعی قربانی میں تمام شرکا کے درمیان گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں،اور ایک دوسرے کو کم یا زیادہ معاف کردینا بهی کافی نہیں، ہاں ایک ہی فیملی کے افراد کہ ایک ہی گهر میں رہتے اور مل جل کر کهاتے ہیں تو وزن کرنے کی حاجت نہیں ۔ (تفصیل کےلئے دیکهئے بہارشریعت حصہ 15)

بے احتیاطی سے بچنے کےلئے اس طرح حیلہ کیا جاسکتا ہے کہ شرکائے قربانی سارا گوشت ایسے بالغ مسلمان کو جو اس قربانی میں شریک نہ ہو ہبہ کردیں، یہ شخص سب میں اندازے سے گوشت تقسیم کرسکتا ہے ۔ (تفصیل، بہارشریعت حصہ 15 و ردالمحتار کتاب الاضحیہ جلد 9)

قربانی کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے، اور غنی و فقیر کو بهی کهلا سکتا ہے۔ گوشت کے تین حصے کرلینا مستحب ہے، ایک حصہ غرباء کےلئے ایک رشتہ دار وں اور دوست احباب کےلئے، اور ایک حصہ اپنے گهر والوں کےلئے، کل صدقہ کرنا بهی جائز اور کل (گوشت) گهر ہی رکھ لے یہ بهی جائز ہے، اگر کنبہ بڑا ہو اور صاحب وسعت نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں ہی کےلئے رکھ چهوڑے ۔ (بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس،چشتی)

حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں، ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے، رگوں کا خون، پِتّا، پهکنا، علامات نر و مادہ، بیضے، غدود، حرام مغز، گردن کے دو پٹهے کہ شانوں تک کهنچے ہوتے ہیں، جگر کا خون، تلی کا خون، گوشت کا خون کہ ذبح کے گوشت میں سے نکلتا ہے، دل کا خون، پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتا ہے، ناک کی رطوبت کہ بهیڑ میں اکثر ہوتی ہے، پاخانہ کا مقام، اوجهڑی، آنتیں، نطفہ، وہ نطفہ کہ خون ہوگیا، وہ کہ گوشت کا لوتهڑا ہوگیا، وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا، یا بے ذبح مرگیا ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 240)

بہتر یہ ہے کہ قربانی (ذبح) اپنے ہاتھ سے کرے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتا ہو، اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے ذبح کرائے، اور وقت قربانی وہاں موجود ہو، دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بهی چهری پر رکھ دیا، کہ دونوں (قصاب اور مالک قربانی) نے ملکر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اللہ کہنا واجب ہے، ایک نے بهی جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام ترک کیا یا یہ خیال کرکے چهوڑ دیا کہ دوسرے نے کہہ لیا ہے مجهے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا ۔ (بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ،چشتی)

عورت، سمجھ دار نابالغ، گونگا، ان سب کا ذبیحہ حلال ہے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتے ہوں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 242)

جانور کو بهوکا پیاسا ذبح نہ کریں، اور ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کیا جائے، چهری پہلے سے تیز کرلی جائے ایسا نہ ہو کہ اسے زمین پر گرا کر اس کے سامنے تیز کی جائے، گائے وغیرہ کو گرانے سے پہلے ہی قبلہ رخ کا تعین کرلیا جائے، جس جگہ جانور کو لٹانا یا گرانا ہے اسے صاف کرلیا جائے کہ وہاں کنکر روڑے وغیرہ نہ ہوں، الغرض جانور کو ہر طرح کی اذیت و تکلیف سے بچایا جائے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے کسی شخص کو چاہئیے کہ وہ چهری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔ (صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح)

اور مسند امام احمد میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجهے بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے ، فرمایا اگر اس پر رحم کرو گے اللہ تعالیٰ بهی تم پر رحم فرمائے گا، ذبح کرنے میں چار رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں، اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چهری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے، جب تک جانور مکمل طور پر ٹهنڈا نہ ہوجائے نہ اس کے پاؤں کاٹیں نہ کهال اتاریں ۔

بعض قصاب اور گهروں میں جانے آرڈر بهگتانے اور مال کمانے کی غرض سے عجلت میں ہوتے ہیں، اور گائے کو ذبح کرتے ہی گردن سے چهری گهونپ کر دل کی رگیں کاٹتے ہیں، یا بکرے کی گردن بعد ذبح چٹخا دیتے ہیں؛ اس ظلم سے انہیں روکا جائے ۔ (مذکورہ مسائل کی تفصیل جاننے کےلئے فتاویٰ رضویہ جلد20 اور بہار شریعت حصہ 15 کا مطالعہ فرمائیں،چشتی)

قربانی کی کهال ہر اس کام میں صرف کرسکتے ہیں جو قربت و کار خیر و باعث ثواب ہو؛مساجد و مدارس اہل سنت کو دے سکتے ہیں، کهال بیچ کر اس رقم سے کتب دینیہ خرید کر مدارس وغیرہ کے طلبہ کو دے سکتے ہیں اگرچہ وہ طلبہ غنی ہوں کہ کتاب باقی رہ کر کام آتی ہے، حاجت مند بیواؤں، یتیموں، مسکینوں کو کهال یا اس سے حاصل شدہ رقم دے سکتے ہیں، قربانی کرنے والا کهال کو باقی رکهتے ہوئے اپنے کام میں لا سکتا ہے مثلاً اسکی جا نماز، چهلنی (آٹا چهاننے کا آلہ) تهیلی، مشکیزہ، دسترخوان، ڈول، یا کتابوں کی جلد بندی میں لگا سکتا ہے۔ اگر کسی نے کهال اپنے خرچ میں لانے کےلئے بیچی تو حاصل شدہ دام خبیث ہیں لہذا یہ رقم مسجد یا مسجد کے کسی کام میں نہ لگائی جائے بلکہ فقیر مسلمان پر صدقہ کردی جائے ۔ ( مذکورہ مسائل فتاویٰ رضویہ کی جلد 20 سے اخذ کئے گئے ہیں)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ سے سوال پوچها گیا کہ زید پردیس میں ہے اس کی جانب سے اس کا کوئی عزیز قربانی کردے تو فرض زید پر سے اتر جائے گا ؟
آپ نے جواب عطا فرمایا کہ ” قربانی و صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلا اجازت ناممکن ہے ” ہاں اجازت کےلئے صراحتاً ہونا ضروری نہیں دلالت کافی ہے، مثلاً زید اس کے عیال میں ہے، اس کا کهانا پہننا سب اس کےپاس ہوتا یا یہ (زید کیطرف سے قربانی کرنے والا) اس کا وکیل مطلق ہے، اس کا کار و بار یہ کیا کرتا ہے، ان صورتوں میں ادا ہوجائے گی ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 453) ۔

بیرون ملک رہنے والے لوگ اپنے کسی عزیز یا دوست کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دیں یعنی انہیں اپنا وکیل کر لیں تو انکی طرف سے قربانی ہوجائے گی ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...