حدائق بخشش سوم امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ پر گستاخی کے الزام کا جواب
اعلیٰ حضرت امامِ عشق و محبت امامِ احمد رضا خان بریلوی رحمة الله علیہ پہ وہابی دیوبندی اہل حدیث وغیرہ جاہل نما عالم، اعتراض کرتے ہیں کہ امام احمد رضا نے " اماّں عائشہ صدیقہ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ امام احمد رضا نے حدائق بخشش حصہ سوم میں کچھ اشعار لکھیں ہیں جو گستاخی پہ مبنی ہیں ۔ آیئے پہلے میں وہ اشعار قارئین کے حوالہ پیش کروں پھر اس جاہلانہ اعتراض کا منہ توڑ جواب دوں ۔
حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ نمبر 37 پہ رقمطراز ہیں ۔
تنگ و چست انکا لباس اور وہ جوبن کا ابھار
مسکی جاتی ہے قبا سے کمر تک لیکن
یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن میرے دل کی صورت
کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر
ناظرین کرام.........! اس پہ ایک لطیفہ بھی سن لیں، ایک شخص پہ شاعری کا بھوت سوار تھا
تو اس نے یہ لاجواب شعر کہا....!
چہ خوش گفت سعدی در زلیخا
کہ عشق نمود اول ولے افتاد شکلہا
اسے یہ فکر نھیں تھی کہ دونوں مصرعوں کا وزن بھی صحیح ہوا ہے یا نھیں، اور اسے یہ تو خبر ہی نھیں تھی کہ زلیخا مولانا جامی کی تصنیف ہے اور دوسرا مصرعہ حافظ شیرازی کا ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس نے یہ دونوں چیزیں شیخ سعدی کے کھاتے میں ڈال دیں اور اس پر خوش کہ شاندار شعر بن گیا ۔
بس یہی حاصل معترضین کا ہے انھیں یہ علم ہی نھیں کہ حدائق بخشش حصہ سوم امام احمد رضا کی تصنیف و ترتیب نھیں اور نھیں ان کی زندگی میں شائع ہوا ۔
یہ حصہ (حدائق بخشش سوم) مولانا محبوب علیخان نے ترتیب دیا اور امام احمد رضا کے وصال کے دو سال بعد شائع ہوا،
مولانا محبوب علیخاں نے ابتدائیہ کی صفحہ نمبر 10 پر ۲۹ ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ کی تاریخ درج کی ہے، جب کہ اعلی حضرت امام احمد رضا کی تاریخ وصال ۱۴۴۰ھ ماہ صفر میں ہو چکا تھا،
مولانا محبوب علی خاں سے تیسرے حصہ کی ترتیب و اشاعت میں واضح طور پر چند فردگزاشتیں ہوئیں....
انہوں نے اس حصہ کا نام حدائق بخشش حصہ سوم رکھا، صرف یہی نھیں بلکہ ٹائیٹل پر ۱۳۲۵ھ کا سن بھی درج کر دیا حالانکہ حدائق بخشش صرف پہلے اصل دو حصوں کا تاریخی نام تھا جو ۱۳۲۵ھ میں شائع ہوئے اور تیسرا حصہ ۱۳۴۲ھ میں شائع ہوا یعنی تقریباً ۱۶ یا ۱۷ سال بعد شائع ہوا...
انہوں نے مسودہ نابھ سسٹیم پریس نابھہ کے سپرد کر دیا، پریس والوں نے خود ہی کتابت کروائی اور خود ہی چھاپ دیا، مولانا نے اس کے پروف بھی نھیں پڑھے کاتب نے دانستہ یا نادانستہ چند اشعار جو بلکل تھے , ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی شان میں کہے گئے اشعار کے ساتھ ملا کر لکھ دیے ان غلطیوں کا خمیازہ انھیں یوں بھگتنا پڑا کہ علامہ مشتاق احمد نظامی نے ممبئ کے ایک ہفتہ روزہ میں ایک مراسلہ شائع کروا دیا اور مولانا محبوب علی کو اس غلطی کی طرف متوجہ کیا,,(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مولانا محبوب علی نے اپنی اس غلطی سے توبہ کی جو رسالہ سنی لکھنؤ اور روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا اور باربار زبانی توبہ کی : اعلان توبہ : حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ نمبر ۳۷،۳۸ میں بےترتیبی سے اشعار شائع ہو گئے تھے اس غلطی سے بارہا یہ فقیر توبہ کر چکا ہے ، اللہ و رسول کریم میری توبہ قبول فرمائے آمین ثم آمین، اور سنی مسلمان خدا و رسول کے لئے معاف فرما دیں...حوالہ: فیصلہ شرعیہ قرآنیہ صفحہ ۳۱،۳۲
اس تفصیل سے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امام احمد رضا پہ گستاخی کا الزام درست نھیں ہے بلکہ یہ سراسر بہتان ہے...
امام احمد رضا اور اکابر دیوبند
مولوی اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : مولانا احمد رضا عاشق رسول ہیں وہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور وہ ہمیں کافر نہ کہتے تو خود کافر ہو جاتے ( الافاضات الیومیہ)
مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں : امام احمد رضا ایک عاشق رسول ہیں میں سوچ بھی نھیں سکتا کے ان سے توہین نبوت ہو
حوالہ: تحقیقات صفحہ نمبر ۱۲۵
کل ملاکر یہ ہے کہ اعلی حضرت نے وہ کتاب ہی نھیں لکھی بلکہ الگ الگ اشعار لکھے ہوئے تھے، مولانا محبوب علی نے ان اشعار کو جمع کیا اور پریس میں دے دیا، اور جو اشعار مشرکین عورتوں کی مذمت کے بارے میں لکھے تھے، اسے اماں عائشہ کی شان میں لکھے گئے اشعار کے ساتھ ملا دیا اور یہ غلطی پریس والوں کی تھی نہ کہ امام احمد رضا
نہ تو امام احمد رضا نے وہ کتاب لکھی نہ چھپائی اور نہ ہی دیکھی پھر الزام کیسا.؟
اللہ ہدایت دے ایسے جاہل نما عالم کو جو بہتان لگاتے ہیں اور فضول اعتراض کرتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment