گستاخِ رسول کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا
کتاب اﷲ نے شاتمین رسول اور مخالفین انبیاء کو ذلیل ترین مخلوق قرار دیا۔ ارشاد باری ہے : ان الذین یحادون اﷲ ورسولہ اولٰئک فی الاذلین (المجادلۃ 20/58)
ترجمہ : بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ سب لوگ انتہائی ذلیل لوگوں میں ہیں‘‘
وہ لوگ جو رسول اﷲﷺ کو دکھ اور ایذا دیتے ہیں ان کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا:
ان الذین یؤدون اﷲ ورسولہ لعنہم اﷲ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذاباً مہینا (الاحزاب 58/33)
ترجمہ : بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، اﷲ بھی انہیں دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے دور کردیتا ہے اور اس نے ایسے لوگوںکے لئے رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے‘‘
اس آیت کی تشریح میں جمہور مفسرین نے یہ بات نقل کی ہے:
مدینہ میں کچھ اوباش آوارہ صفت، بدمزاج اور منافقین شاتمین حضورﷺ کے گھر والوں کے لئے تشبیب بکتے، گھرانہ رسول کی توہین کرتے، افواہیں پھیلاتے، دکھ دینے والی باتیں کرتے۔ قرآن حکیم نے انہیں ملعون کہا اور صاف واشگاف اعلان کردیا۔ یہ دھتکارے ہوئے ملعون لوگ جہاں ملیں گرفتار کرلئے جائیں اور انہیں قتل کردیا جائے۔ اس گینگ کا سرغنہ کعب بن اشرف تھا۔ حضورﷺ نے مسجد نبوی میں اعلان فرمایا کہ تم میں سے کوئی ہے جو مجھے کعب بن اشرف کے بارے میں سکون دے (حضرت) محمد بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ نے اجازت چاہی کہ اسے آئینہ میں اتارنے کے لئے مجھے کچھ کمزور باتیں کرنے کی اجازت دی جائے۔ بارگاہ نبوت سے اجازت ملی اب اگلا ماجرا ’’بخاری‘‘ کی روایت کردہ حدیث میں تفصیلات ملاحظہ ہو۔ امام بخاری نے اپنی ‘‘جامع’’ کی دوسری جلد میں صفحہ پانچ سو چھہتر پر یہ حدیث بیان کی۔
رسول محتشمﷺ نے فرمایا ‘‘کعب بن اشرف کا ذمہ کون لیتا ہے؟ اس نے اﷲ اور اس کے رسول کو ایذا دی ہے ’’ محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور عرض کی آپ پسند فرماتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں۔ آپ نے فرمایا ‘‘جی ہاں’’ محمد بن مسلمہ نے کہا پھر آپ مجھے اجازت مرحمت فرمادیں کہ میں اسے کچھ تعریفی کلمات کہہ سکوں۔ رسول اﷲﷺ نے اجازت مرحمت فرمادی، محمد بن مسلمہ، کعب بن اشرف کے پاس گئے اور کہا یہ محمدﷺ ہم سے صدقہ طلب کررہے ہیں، انہوں نے ہمیں تنگ کررکھا ہے، میں تجھ سے مقرر میعاد پر سودا کرنے آیا ہوں۔کعب بن اشرف نے کہا آپ لوگ محمد سے ضرور کبیدہ ہوں گے۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ہم نے ان کی اطاعت کی ہے لیکن اب چاہتے ہیں کہ چھوڑ دیں، دیکھتے ہیں ان کی دعوت کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تو ایک یا دو وسق (20) پر سودا ادھار دے۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ دے دوں گا لیکن اس شرط پر کہ تم اپنی عورتیں میرے پاس رہن (یعنی، گروی) رکھ دو جواباً کہا گیا کہ عورتیں تمہارے پاس کس طرح رہن رکھی جاسکتی ہیں۔ فتنہ کا ڈر ہے، اس لئے کہ تو عربوں میں حسین شخص ہے۔ پھر کعب بن اشرف نے کہا کہ بیٹے رہن رکھ دو کہا گیا کہ تو اگر انہیں گالی دے گا تو یہ چیز باعث عار ہوگی لیکن اگر تم قبول کرو تو تم ہم اسلحہ رہن رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح سودا مکمل کرنے کے لئے محمد بن مسلمہ نے کعب کو رات کے وقت بلالیا۔ جب وہ قلعہ سے اتر کر ان کے پاس آیا تو محمد بن مسلمہ اور کعب کے رضاعی بھائی ابو نائلہ نے اسے ٹھکانے لگادیا۔ کعب بن اشرف کا قتل حضور ﷺ کی گستاخی کی سزا تھی (تلخیص(بخاری، کتاب المغازی، باب قتل کعب بن اشرف، حدیث نمبر 4037،چشتی)
گستاخ رسولﷺ کی سزا پر امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی روایت کردہ ایک دوسری حدیث ملاحظہ ہو۔ اس حدیث کو حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ نے روایت کیا:حضور علیہ السلام نے (کچھ حضرات کو) جو انصار تھے، ابو رافع یہودی کی طرف بھیجا، ان لوگوں کا قائد حضرت عبداﷲ بن عتیک کو بنایا۔ یہ ابو رافع نبی علیہ السلام کو ایذا دیتا تھا اور آپ کے خلاف لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ وہ سرزمین حجاز میں اپنے ایک قلعے میں رہتا تھا، جب وہ گروہ قلعہ کے قریب گیا تو سورج غروب ہوچکا تھا اور لوگ اپنے ٹھکانوں پر واپس آرہے تھے۔ اب عبداﷲ نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم حضرات اپنی جگہ پر بیٹھ جائو میں چلتا ہوں، دربان کو نرم کرنے کی کوشش کروں گا شاید میں اس طرح قلعے میں داخل ہوجائوں، وہ آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ دروازے کے قریب پہنچ گئے پھر انہوں نے چادر لپیٹ لی۔ گویا وہ رفع حاجت کررہے ہیں، لوگ قلعے میں داخل ہوگئے، دربان نے پکارا، اے اﷲ کے بندے! تو اندر داخل ہو کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ اب میں (عبداﷲ بن عتیک) اندر چلا گیا، میں چھپ گیا، جب سب لوگ اندر آگئے تو اس (دربان) نے دروازہ بند کردیا پھر اس نے چابیاں اندر ایک میخ پر لٹکادیں اور وہ اپنے ایک بالاخانے میں تھا۔ جب اس کے پاس سے قصہ گو چلے گئے۔ اب میں اوپر چڑھا میں جو دروازہ بھی کھولتا اندر سے اندر بند کرکے آگے بڑھتا تھا تاکہ اگر لوگوں کو پتہ بھی چل جائے تو مجھ تک نہ پہنچ پائیں تاکہ میں اسے قتل کرسکوں، میں اب اس تک پہنچ گیا۔ وہ ایک تاریک گھر (کمرہ) میں اپنے اہل خانہ کے درمیان سورہا تھا، مجھے پتہ چل رہا تھا کہ وہ کس حصے میں ہے۔ میں نے پکارا اے ابو رافع! اس نے کہا یہ کون ہے؟ میں آواز کی طرف لپکا اور اسے تلوار کی ایک ضرب لگائی مجھ پر دہشت طاری تھی۔ یہ ضرب کافی نہیں تھی۔ وہ چلاّیا میں کمرے سے نکل گیا۔ میں کچھ فاصلے پر رک گیا پھر اندر داخل ہوکر کہا اے ابو رافع! یہ آواز کیا تھی وہ بولا تیری ماں مرے (اس نے اب اسے کوئی اپنا محافظ سمجھا ہوگا) ابھی ایک شخص نے کمرے میں مجھے تلوار ماری ہے۔ فرماتے ہیں پھر میں نے اسے شدید زخم بھری تلوار ماری مگر وہ تاحال مرا نہیں تھا پھر میں نے تلوار کا کنارہ اس کے پیٹ میں اتار دیا۔ تلوار پشت کی طرف سے نکل گئی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ مرگیا ہے۔ میں ایک ایک دروازہ کھول کر باہر نکل کر ایک سیڑھی سے اترا۔ میں نے سمجھا کہ میں زمین پر پہنچ گیاہوں مگر میں تو چاندنی رات میں گرچکا تھا۔ میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے پگڑی سے اسے باندھ دیا۔ پھر چل کر میں گیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور اپنے طور پر کہا کہ میں رات کو باہر نہیں نکلوں گا جب تک مجھے پتہ نہ چل جائے کہ میں نے اسے قتل کردیا ہے۔ جب (سحری) کو مرغ چلاّیا تو موت کی خبر دینے والا قلعہ کی دیوار پر آیا اور کہا میں اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی خبر دے رہا ہوں۔ اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا نجات ہوگئی۔ اﷲ تعالیٰ نے ابو رافع کو مار دیا۔ اب میں سید کُل علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا، سارا واقعہ آپ کو سنایا۔ آپ نے فرمایا ‘‘پائوں پھیلا دے ’’ میں نے اپنا پائوں پھیلادیا۔ آپ نے اس پر (ہاتھ مبارک) پھیرا۔ ایسا معلوم ہوا کہ اسے کبھی کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔(بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4039،چشتی)
عبداﷲ ابن خطل نبی کریمﷺ کی ہجو کرتا تھا یعنی وہ ایسے اشعار کہتا کہ جس میں حضورﷺ کی برائی بیان کرتا تھا، اس کی دو لونڈیاں بھی حضورﷺ کی گستاخی کرتی تھیں۔فتح مکہ کے بعد جب وہ غلاف کعبہ میں چھپا ہوا تھا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا ‘‘اسے قتل کردو کیوں نہ یہ کعبے کے پردے میں پناہ لئے ہو’’ (صحیح بخاری)
ایک شخص بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اﷲﷺ! میرا باپ آپ کی گستاخی کیا کرتا تھا۔ میں نے اسے قتل کردیا۔ یہ بات آپ پر گراں نہ گزری اور اس طرح آپ کا خون ‘‘ھدر’’ رہا۔ یہ روایت ابن قانع کی ہے۔(کتاب الشفائ، قاضی عیاض)
ہارون الرشید نے حضرت امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ سے مسئلہ پوچھا گستاخ رسول کی سزا کیا کوڑے سے مارنا کافی نہیں، اس پر حضرت امام نے فرمایا:
’’اے امیر المومنین! گستاخ رسول گستاخی کے بعد بھی زندہ رہے تو پھر امت کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ رسول اﷲﷺ کے گستاخ کو فی الفور گرفتار کرکے قتل کردیا جائے’’ ۔
ردالمحتار میں امام محمد بن سحنون کی روایت ہے:تمام علماء کا اس پر اجماع ہے حضورﷺ کو گالی دینے والا آپ کی شان میں کمی کرنے والا کافر ہے اور تمام امت کے نزدیک وہ واجب القتل ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادے حضرت محمد رضی اﷲ عنہ کے دور میں ایک امام جس کا نام عبداﷲ بن نواحہ تھا۔ قرآن کی آیات کا مذاق اڑایا اور مفاہیم کے ردوبدل سے یہ الفاظ کہے:’’قسم ہے آٹا پیسنے والی عورتوں کی جو اچھی طرح گوندھتی ہیں پھر روٹی پکاتی ہیں پھر ثرید بناتی ہیں پھر خوب لقمے لیتی ہیں’’ اس پر حضرت نے اسے قتل کا حکم سنایا اور لمحہ بھر بھی تاخیر نہیں فرمائی۔ (مصنف ابن ابی شبہ، کتاب الجہاد،چشتی)
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے تاریخی الفاظ ملاحظہ ہوں۔’’جو شخص حضورﷺ کی بارگاہ میں گستاخی کرے، اس کا خون حلال اور مباح ہے ‘‘(کتاب الشفائ) ، اس جملے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے عدالتی کارروائی ہو تو فبہا ورنہ پورا معاشرہ سستی اور کوتاہی پر مجرم ہوگا۔ ان ہی خیالات کا اظہار بارہا پنجاب ہائی کورٹ کے معزز جج ‘‘میاں نذیر اختر’’ فرماچکے ہیں۔
اب سنئے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں آپ نے ایک موقع پر شاتمین دین و رسول کو قتل کرنے کے بعد جلا دینے کا حکم صادر فرمایا۔ یہ روایت بھی ‘‘بخاری ’’ کی ہے۔
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں میرے والد گرامی کہتے تھے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی نبی کو سب کرے اسے قتل کردو اور جو کسی صحابی کو برا بھلا کہے اسے کوڑے مارو’’ (المعجم الصغیر للطبرانی، باب العین)
’’الاشباہ والنظائر’’ میں ہے۔’’کافر اگر توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے لیکن اس کافر کی توبہ قبول نہیں جو نبی کریمﷺ کے حضور گستاخیاں کرتا ہے۔‘‘
’’نسائی شریف’’ کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو سب کیا۔ آپ کے ایک عقیدت مند نے اجازت چاہی کہ اسے قتل کردیا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ حق صرف حضرت محمدﷺ کا ہے کہ انہیں (بکواس کرنے والے کو) قتل کردیا جائے’’ (سنن نسائی، کتاب تحریم الدم، حدیث 4077،چشتی)
’’ابن ماجہ’’ نے روایت کیا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتد کو قتل کی سزا دی۔ اس پر ’’فتح القدیر’’ کا مولف لکھتا ہے کہ جو شخص حضورﷺ کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرے اس کی گردن اڑا دی جائے۔(فتح القدیر، کتاب السیر)
محدث عبدالرزاق روایت فرماتے ہیں:’’خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے کچھ مرتدوں کو آگ میں جلادیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کی اے ابوبکر! آپ نے خالد کو کھلا چھوڑ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں اﷲ کی تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا‘‘(مصنف عبدالرزاق، کتاب الجہاد، حدیث 9470)
’’سنن ابی دائود’’ کی حدیث ہے: حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں کہ یہ بات ہمیں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہا نے بتائی۔ ایک اندھے کی ام ولد تھی۔ وہ حضورﷺ کو گالیاں بکتی تھی اور اسلام کے خلاف اعتراض کرتی تھی۔ وہ نابینا شخص اس کو روکتا لیکن وہ باز نہ آتی۔ ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود وہ اپنے ہفوات سے باز نہ آئی۔ ایک رات وہ حضورﷺ کو سب و شتم کرنے لگی تو نابینا صحابی اٹھا اور خنجر لیا اور اس کے پیٹ میں اتار دیا اور اس عورت کو قتل کردیا۔ صبح صبح یہ واقعہ رحمت عالمﷺ کو سنایا گیا۔ آپﷺ فرمانے لگے ’’جس آدمی نے ایسا کیا ہے اس پر میرا حق ہے وہ کھڑا ہوجائے‘‘ وہ شخص لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھا اور حضورﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور تسلیم کیا کہ یارسول اﷲﷺ میں اس عورت کا قاتل ہوں۔ یہ آپ کو گالیاں دیا کرتی تھی اور اسلام پر اعتراض کیا کرتی تھی۔ پس میں نے گزشتہ رات خنجر سے اسے قتل کردیا۔ حالانکہ میرے اس سے موتیوں جیسے دو بیٹے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا ‘‘سنو! سنو! تم سب گواہ ہو کہ اس کا خون ‘‘ھدر’’ ہے’’ (ابو دائود، کتاب الحدود، حدیث نمبر 4351،چشتی)
اس حدیث میں غوروفکر کے لئے کافی مواد موجود ہے کہ اس عاشق رسولﷺ نے ماورائے عدالت اس عورت کو قتل کیا لیکن حضورﷺ نے اس کے خون کو ‘‘ھدر’’ قرار دیا۔
حضور انورﷺ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو شہرنور میں ایک بوڑھا جس کی عمر ایک سو بیس سال تھی اور نام اس کا ابو عفک تھا۔ اس نے انتہائی دشمنی کا اظہار کیا۔ لوگوں کووہ حضورﷺ کے خلاف بھڑکاتا، نظمیں لکھتا جن میں اپنی بدباطنی کا اظہار کرتا۔ جب حارث بن سوید کو موت کی سزا سنائی گئی تو اس ملعون نے ایک نظم لکھی جس میں حضورﷺ کو گالیاں بکیں۔ حضورﷺ نے جب اس کی گستاخیاں سنیں تو فرمایا:’’تم میں سے کون ہے جو اس غلیظ اور بدکردار آدمی کو ختم کردے‘‘سالم بن عمیر نے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ ابو عفک کے پاس گئے دراں حالیکہ وہ سورہا تھا۔ سالم نے اس کے جگر میں تلوار زور سے کھبو دی۔ ابو عفک چیخا اور آنجہانی ہوگیا۔(کتاب المغازی، للواقدی، سریۃ قتل ابی عفک، 163/1،چشتی)
حویرث بن نقیذ رسول اﷲﷺ کو گالیاں دیا کرتا۔ ایک بار حضرت عباس مکہ سے مدینہ جارہے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت ام مکتوم رضی اﷲ عنہا مدینہ جانے کے لئے ان کے ساتھ نکلیں۔ ظالم حویرث نے سواری کو اس طرح ایڑھ لگائی کہ دونوں شہزادیاں سواری سے گرگئیں۔ رسول اﷲﷺ نے اسے موت کی سزا سنائی۔ فتح مکہ کے موقع پر حویرث نے خود کو ایک مکان میں بند کردیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسے تلاش کرلیا اور اپنے آقاﷺ کے حکم پر اسے قتل کردیا۔(کتاب المغازی للواقدی،281/2)
’’بخاری شریف’’ کی روایت ہے۔ معاویہ بن مغیرہ نامی ایک گستاخ کو رسول اﷲﷺ نے گرفتار کروالیا اور فرمایا ‘‘ایک سچا مسلمان ایک ہی سانپ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا، اے معاویہ بن مغیرہ! تم اب کسی صورت میں بھی واپس نہیں جاسکتے‘پھر فرمایا ’’اے زبیر! اے عاصم! اس کا سر قلم کردو‘‘
’’فتاویٰ بزازیہ ‘‘میں ہے اور یہ حنفی فقہ کی معروف کتاب ہے۔جب کوئی شخص حضورﷺ یا انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی توہین کرے اس کی شرعی سزا قتل ہے اور اس کی توبہ یقینا قبول نہیں ہوگی۔
’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ میں ہے کہ حضورﷺ کے ساتھ منسوب کسی چیز میں عیب نکالنے والا شخص کافر ہے۔ جبکہ ‘‘الاشباہ’’ کے مصنف نے فرمایا اور وہ واجب القتل ہوگا۔ جیسے کسی شخص نے حضورﷺ کے بال مبارک کے بارے میں (بطور اہانت) تصغیر کا صیغہ استعمال کرکے تنقیص کی۔ (فتاوی قاضی خان، کتاب السیر، 574/3)
علامہ حصاص رازی لکھتے ہیں‘‘ مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا جو شخص حضورﷺ کی ذات پاک کے خلاف بے ادبی کی جسارت کرے وہ مرتد ہے اور قتل کا مستحق ہے۔’’ (احکام القرآن للرازی، سورۂ توبہ، 128/3،چشتی)
’’عالمگیری ’’ میں ہے کہ جو شخص کہے حضورﷺ کی چادر یا بٹن میلا کچیلا ہے اور اس قول سے مقصود عیب لگانا ہو، اس شخص کو قتل کردیا جائے گا۔
علامہ خفاجی ‘‘نسیم الریاض’’ میں فرماتے ہیں۔ اگر کسی شخص نے کسی شخص کے علم کو حضورﷺ کے علم سے زیادہ جانا اس نے توہین کی۔ اس لئے وہ واجب القتل ٹھہرا۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں ‘‘ یمن کے گورنر مہاجر بن امیہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اطلاع دی وہاں ایک عورت مرتد ہوگئی۔ اس نے حضورﷺ کی شان میں گستاخی والا گیت گایا۔ گورنر نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا اور سامنے والے دو دانت توڑ دیئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا۔ اگر تو فیصلہ کرکے عمل نہ کراچکا ہوتا تو میں اس عورت کے قتل کرنے کا حکم صادر کرتا۔ اس لئے کہ نبیوں کے گستاخ قابل معافی نہیں ہوتے‘‘
حضورﷺ کے گستاخ کی سزا یہی ہے کہ وہ واجب القتل ہے۔ اس کی توبہ قبول نہیں، چاروں مسالک یہی ہیں۔
علامہ زین الدین ابن نجیم ‘‘البحر الرائق ’’ میں ارشاد فرماتے ہیں۔ حضورﷺ کو سب و شتم کرنے والے کی سزا قتل ہے۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔
پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، اسی سرزمین پر غازی عبدالقیوم، غازی علم دین اور عامر چیمہ شہید جیسے پاسبان ناموس رسالت کی آرام گاہیں ہیں جنہوں نے تحفظ ناموس رسالت کے لئے اپنی جانیں بارگاہ رسالتﷺ میں پیش کردیں۔
اسی سرزمین پر کچھ عرصہ قبل ایک گستاخ کا حمایتی اٹھ کر کھڑا ہوا جسے ایک غازی نے واصل جہنم کردیا مگر افسوس کہ موجودہ ظالم و جابر حکومت نے اسے شہید قرار دیا۔ میں ان سربراہان مملکت سے سوال کرتا ہوں کہ کیا گستاخ رسول ملعونہ آسیہ کا حمایتی کبھی شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟ قانون ناموس رسالت کو کالا قانون کہنے والا کبھی شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟ قانون ناموس رسالت کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس قانون کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہوں، کیا ایسے شخص کو شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا ایک شرابی گورنر کو شہید قرار دیا جاسکتا ہے؟
جس بلاول بھٹو زرداری کو دین کا معنیٰ نہیں معلوم، ایسا شخص بیان دیتا ہے کہ ‘‘سلمان تاثیر کو گستاخ رسول کہنا بھی حضورﷺ کی شان میں گستاخی ہے’’ لیجئے صاحب! اب بلاول صاحب ہمیں دین سمجھائیں گے۔
الغرض کہ ہمارا مطالبہ صرف ایک ہی ہے کہ جب گستاخ رسول ملعونہ آسیہ کا جرم ثابت ہوچکا ہے، تو پھر حکومت پاکستان اس کی سزا میں پس و پیش سے کام کیوں لے رہی ہے؟ جب اسے عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی ہے تو پھر اس ملعونہ کی پھانسی پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا؟ ہم حکومت کی اس خاموشی کو کیا سمجھیں؟
مغربی آقاؤں کی مداخلت یا ان کا دبائو یا ڈالروں کی بارش؟ کتنے افسوس کی بات ہے جب بے نظیر کی جاء مقتل کی بے حرمتی کی گئی تو پوری پیپلز پارٹی سراپا احتجاج بن گئی، پورے ملک میں ریلیاں اور احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ سندھی ٹوپی کے خلاف بولا گیا تو پوری پیپلز پارٹی سراپا احتجاج بن گئی اور پورے ملک میں طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا مگر جب سید عالمﷺ کی ناموس پر حملہ ہوا تو یہی لوگ اور ان کے لیڈر خاموش تماشائی بن گئے۔ کیا یہ تمہارا طرز عمل ہے؟ کیا آج تمہاری نظروں میں حضور سید عالمﷺ کی ناموس کی کوئی اہمیت نہیں ؟
ہم جانتے ہیں کہ حکومت موقع تلاش کررہی ہے کہ کسی طرح ملعونہ آسیہ کو بیرون ملک اس کے مغربی آقائوں کے حوالے کردیا جائے لیکن حکومت یاد رکھے کہ آج بھی ناموس رسالت کے محافظ اس سرزمین پر زندہ ہیں ۔ خدا کی قسم! اس سرزمین پر غازی علم دین، غازی عبدالقیوم اور عامر چیمہ شہید کے پیروکار بپھرے ہوئے ہیں جو سمندر کی طرح نکلیں گے اور اس گستاخ کا سرتن سے جدا کردیں گی ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment