Thursday, 2 August 2018

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی نمازیں

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی نمازیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کونماز سے بڑی محبت تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایاکہ : میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز اشراق ، نماز چاشت ، تحیۃ الوضو ، تحیۃ المسجد،صلوۃ الاوابین ، نماز حاجت اورصلاۃ التسبیح وغیرہ سنن ونوافل بھی ادا فر مایا کرتے تھے ۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے ، تمام عمر نماز تہجد کے پابند رہے۔راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں ۔
بعض روایتوں میں یہ آیا کہ آپ نماز عشاء پڑھ کر کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑ ھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑ ھتے غرض یہ کہ صبح تک یہی کیفیت رہتی ۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح تک نماز میں مشغول رہتے ۔ کبھی آدھی رات گزر جانے کے بعد بستر سے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پہ پیٹھ نہ لگاتے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے ،کبھی رکوع وسجدہ طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا ، کبھی چھ رکعات کبھی آٹھ رکعات کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہوکر ، کچھ بیٹھ کر ادا فر ماتے ۔ نماز وتر نماز تہجد کے بعد پڑھتے ۔ رمضان شریف خصوصا آخری دس دنوں میں آپ کی عبادتیں بہت زیادہ بڑھ جاتیں ۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواج مطہرات سے بے تعلق ہو جاتے اور رات کو گھر والوں کو نماز کے لئے جگایا کرتے اور عموما اعتکاف فر ماتے ۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہوکر ، کبھی بیٹھ کراور کبھی سجدے میں سر رکھ کر نہایت آہ وزاری اور گر یہ وبکا کے ساتھ گڑگڑا ، گڑ گڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے ۔ رمضان شریف میں حضرت جبر ئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن عظیم کا دور بھی فر ماتے ۔ اور تلاوت قرآن مجید کے ساتھ مختلف قسم کی دعائوں کا ورد بھی فر ماتے ۔ اور کبھی ساری ساری رات نمازوں اور دعائوں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پائے اقدس میں ورم آجاتا ۔ (صحاح ستہ وغیرہ کتب احادیث،چشتی)

آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی نماز کا طریقہ : آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نماز کس طرح سے ادا فر ماتے تھے اس بارے میں جو اختلاف سب سے زیادہ شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم رفع یدین کرتے تھے یا نہیں ؟ اور آج رفع یدین کرنا درست ہے یا نہیں ؟ ۔ اگر ہم پوری امانت ودیانت کے ساتھ بغیر کسی غیر جانبداری کے نیک نیتی کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے طریقہ نماز سے متعلق روایتوں پر غور وفکر کرلیں تو یہ اختلاف ختم ہو سکتا ہے۔اس لئے ہم ذیل میں بغیر کسی جانبداری کے اس سے متعلق حقائق پیش ہیں ۔ آپ پڑھیں اور خود فیصلہ کریں ۔
رفع یدین : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نماز میں رفع یدین کرتے تھے یا نہیں ۔ اس بارے میں دونوں طرح کی روایتیں مو جود ہیں ۔اور دونوں طرف اکابر صحابہ کرام ہیں ۔ اب رہی بات کہ جب دونوں طرح کی روایتیں ہیں تو امت کس پر عمل کرے ؟ اور کس کو چھوڑے ۔ ایسے مقامات پر آکر امت کا اجماع ہے کہ یہ دیکھا جائے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل کس پر ہے کیونکہ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ایک کام کیا پھر وہ کام حکم الہی کے تحت چھوڑ دیا جیسے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے مسجد اقصی کی طرف منھ کر کے نماز ادا فر مایا پھر حکم الہی کے تحت اس پر عمل چھوڑ کر خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا فر مایا یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا دنیا سے تشریف لے جانے کے وقت بھی اسی پر عمل رہا ۔ تو جو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل رہا اسی پر ہمیں بھی عمل کرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کسی ایک کام کو کیا لیکن بعد میں اس سے منع فر مادیا تو اب امت پر ضروری ہے کہ وہ اس کام کو نہ کرے ۔ جیسے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں باتیں کرلیتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم منع نہ فرماتے لیکن جب آیت کریمہ ۔ قوموا للہ قانتین ۔ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے منع فر مادیا۔تو اب ضروری ہے کہ نماز میں کوئی بات نہ کرے ۔
اب یہ کیسے معلوم ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل کسی چیز کے بارے میں کیا تھا؟یا حضور نے اس چیز سے منع فرمایا ہے۔تو اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اس کے بہت سارے طریقے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے وصال کے بعد اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل کس پر تھا یہ دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ حضور کا آخری عمل کیا تھا کیو نکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آخری عمل کے اعتبار سے ہی فتوی دیا کرتے تھے اور خود بھی اسی پر عمل کرتے تھے ۔ اسی طرح کوئی صحیح روایت مل جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فلاں کام کرنے سے منع فر مایا ہے تو اس روایت سے معلوم ہو جائے گا کہ اب اس پر عمل کرنا درست نہیں ۔
ان تمام باتوں کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم رفع یدین کے مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بے شک حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل رفع یدین نہ کرنا تھا کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے وصال کے بعد کا یہ واقعہ ہے کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو نماز میں پہلی صف میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے بالکل قریب کھڑے ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے اتنے قریبی تھے کہ باہر سے آنے والے لوگ آپ کو خاندان نبوت سے سمجھتے تھے انہوں نے ایک دفعہ لوگوں سے کہا کہ:کیا میں تم لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے نماز پڑ ھنے کی طرح نماز پڑھ کر نہ دکھا دوں ؟ یعنی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کیسے نماز پڑھا کرتے تھے وہ نہ دکھا دوں ؟ لوگوں کے ہاں میں جواب دینے پر آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے نماز پڑھنے کی طرح نماز پڑھ کر دکھلایا اور اس نماز کے اندر آپ نے صرف ایک بار نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا پھر دوبارہ رکوع میں جاتے وقت یا رکوع سے اٹھنے کے بعد ہاتھ نہ اٹھا یا ۔ اور اس حدیث کے صحیح ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ (ترمذی،باب ماجاء ان النبی ﷺ لم یرفع یدیہ الا مرۃ ،حدیث:۲۵۷؍ص:۷۸،چشتی)
اب آپ غور کریں کہ یہ نماز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے وصال کے بعد خاص اسی چیز کو دکھانے کے لئے پڑھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟ اور اس میں رفع یدین نہ کیا تو ہمیں یقینی طور سے معلوم ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل یہی تھا اگر چہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنی زندگی میں رفع یدین بھی فر مایا ہو۔کیو نکہ صحابہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آخری عمل کے اعتبار ہی سے فتوی دیتے تھے اور عمل کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم،حدیث: ۱۱۱۳)
اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے وصال کے بعد سیدنا عمر فاروق سیدنا مولی علی رضی اللہ عنہمااور ان کے علاوہ کثیر صحابہ کرام بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جلیل القدر تابعی حضرت اسود کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ نے صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا اور پھر دوبارہ نہ اٹھا یا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:۲۴۶۹)
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں عاصم بن کلیب سے روایت ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے تمام اصحاب صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھا تے تھے پھر دوبارہ نہیں ۔ امام تر مذی لکھتے ہیں کہ یہی مسلک ہے بہت سارے صحابہ کرام کا ۔ (ترمذی،باب ماجاء ان النبی ﷺلم یرفع یدیہ الا مرۃ ،حدیث :۲۵۷؍ ص:۷۸،چشتی)
ان سب کے علاوہ کتب احادیث میں یہ صحیح روایت بھی موجود ہے کہ : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کرنے سے منع کیا ۔ چنانچہ امام مسلم اپنی صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہ سے روایت کرتے ہیں کہ:حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم باہر تشریف لائے تو ارشاد فر مایا کہ:کیا بات ہے کہ میں تم لوگو ں کو سر کش گھوڑوں کی دموں کی طرح اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ اسکنوا فی الصلوۃ۔نماز میں سکون واطمینان سے رہا کرو ۔ (مسلم،حدیث:۴۳۰)
اس روایت سے یہ سمجھنا کہ صحابہ کرام نماز سے فارغ ہونے کے بعد جو ہاتھ اٹھاتے تھے اس سے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے منع فر مایا نہ کہ رفع یدین کرنے سے کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو کہا ’ نماز میں سکون سے رہا کرو ‘ نماز میں‘ کے لفظ پر غور کریں تو حقیقت خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے یہاں یقینا نماز میں رفع یدین کرنے سے منع فر مایا۔ لہذا کوئی ایسی تاویل جو حدیث کے ظاہر لفظ کے بالکل خلاف ہو نہیں سنی جا سکتی ۔نہیں تو پھر زمین بول کر آسمان مراد لینا بھی درست ہو جائے گا جو کسی بھی عقلمند کے نزدیک درست نہیں ۔ بہر حال جب صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل رفع یدین نہ کرنا تھا اور یہ بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کرنے سے خود بھی منع فر مادیا تو اب بھی کوئی نہ مانے تو ہم انہیں کیا کہہ سکتے ہیں ۔فیصلہ آپ خود کر لیں ۔
ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ : جس صحابی رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا وہ خود رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا مگر خود حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رفع یدین نہیں کرتے تھے چنانچہ حضرت مجا ہد کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز کے شروع کے علاوہ کبھی ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۶۷)
اب آپ خود سوچ سکتے ہیں جس صحابی رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا وہ خود رفع یدین کیوں نہیں کرتے تھے ۔ کیا اس لئے کہ وہ جان بوجھ کر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی مخالفت کرتے تھے (معاذاللہ) ہم کسی صحابی کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تو لازما یہی بات ہوگی کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّمکا یہی آخری عمل تھا، یا کبھی رفع یدین حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کیا لیکن زیادہ تر نہیں کیا جس کی وجہ سے انہوں نے اس پر عمل کیا جس پر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو زیادہ عمل کرتے ہوئے دیکھا ۔
ان سب حقائق کے با وجود سارے مسلک کے علماء کا یہ ماننا ہے کہ نماز میں رفع یدین کرنا ضروری نہیں ، یعنی اگر کسی نے نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی کمی نہ ہوگی بلکہ نماز ہو جائے گی ۔ یعنی یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے نماز ہی نہ ہو۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ:پھر اس مسئلے کو لے کر جو کہ ایک غیر ضروری مسئلہ ہے ایک ایسے امام کو جنہیں امت کے اکابر اولیاء وعلماء نے اپنا پیشوا تسلیم کیا اور جن کے ماننے والے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ۔ گالی دینا ،برا بھلا کہنا ۔ اور جگہ جگہ لوگوں میں فتنہ بر پا کرنا ،امت میں اختلاف اور انتشار پھیلانا ۔ یہ کون سا دین ہے اور کون سا اسلام ہے ؟
کیا یہ لوگ امت کے بد خواہ نہیں ؟
کیا ان لوگوں کو اسلام سے کوئی تعلق ہے ؟
کیا واقعی یہ لوگ اہل حدیث ہیں ؟
کیا ان لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے کوئی تعلق ہے ؟
ہر ایک سوال کا جواب ہزاروںبار نفی میں ہوگا ۔ اور ان لوگوں کو بھلا اسلام سے کیا تعلق ہو سکتا جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے جس گروہ کے بارے میں فر مایا کہ:تم ان کی نمازو تلاوت کے سامنے اپنی نماز وتلاوت کو کمتر سمجھوگے وہ قرآن ایسے پڑ ھیں گے جیسے گٹ گٹ دودھ پی رہے ہو۔ یعنی کسی بات پر پھٹاپھٹ قرآن کی آیتیں پیش کریں گے۔مگران کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے ۔
اور مختلف مواقع پر ان کی نشانیاں بیان فر مائی وہ تمام نشانیاں اس جماعت کے اندر موجود ہیں ۔اس ویب سائٹ کے حدیث سیکشن میں جا کر ’گستاخ رسول کی نشانیاں‘ پر کلک کریں وہ تمام احادیث آپ کو نظر آئیں گی آپ انہیں خود پڑ ھیں اور اپنی ماتھے کی نگاہوں سے دیکھیں کہ وہ ساری نشا نیا ں اس جماعت کے لوگوں میں موجود ہے یا نہیں ؟ اگر ہیں اور ضرور ہیں ۔تو پھرہمیں ان کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دینا چا ہئے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی رفع یدین کے قائل ہیں ۔ تو یاد رکھئے کہ ان کے پاس بھی دلائل یقینا ہیں مگر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے جیسی نہیں ۔ پھر بھی ان اہل حدیثوں کا ان سے کوئی مطلب نہیں کیو نکہ اہل حدیث کا عقیدہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔ نیز امام شافعی مجتہد ہونے کی وجہ سے مختلف احادیث کے پیش نظر فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور بالفرض اگر ان سے خطا یا لغزش بھی ہو جائے تو انہیں گناہ نہیں بلکہ اجتہاد کا ثواب ملے گا جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا ہے کہ : جب مجتہد اجتہاد کرے تو اگر صحیح فیصلہ کیا تو انہیں دو ثواب دیا جائے گا اور غلطی ہوئی تو ایک ثواب دیا جائے گا ۔اسی لئے ہم ان کا احترام دل وجان سے کرتے ہیں اورانہیں حق مانتے ہیں ۔ مگر اہل حدیث (غیر مقلدین ) جو حقیقت میں نو عمر ، کمزور عقل اور جاہل لوگوں کی ایک ٹولی ہے جن کا شعار صحابہ ، اولیاء ، بزرگان امت کی گستاخی کرنا ہے ۔ ہم ان کی مذمت بسیار کرتے ہیں ۔ اور احادیث طیبہ کی روشنی میں انہیں اسلام سے خارج اورمسلمانوں کا قاتل ، سمجھتے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...